امت مسلمہ کی پسماندگی
تحریر: جناب مولانا
سعید احمد
امت اسلامیہ آج جس نازک دور سے گذر رہی ہے۔ وہ اس امت کی تاریخ
میں بہت اہم اور تشویشناک مرحلہ ہے۔ مسلمان جہاں بھی پائے جاتے ہیں خواہ وہ عالم اسلام
ہو یا غیر اسلامی ممالک‘ ہر جگہ وہ من حیث القوم کمزور‘ پسماندہ‘ مظلوم خوردہ ہیں۔
ان کی حالت اس شکست خوردہ کی سی ہے جو میدان جنگ سے پسپا ہو کر لوٹے اور ہمیشہ کے لیے
اس پر ذلت وکمتری کا احساس مسلط ہو جائے۔ جس ملک کو آپ چاہیں دیکھ لیں اور جس علاقہ
پر چاہیں نظر دوڑا لیں سب سے زیادہ کمزور اور مغلوب صرف مسلمانوں کا طبقہ ملے گا۔ شمال
سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک جہاں چاہئیں مسلمانوں کی مغلوبیت‘ ان کی مظلومیت‘ ان کے
احساس کمتری کی داستان تازہ سن اور پڑھ لیجیے۔
اگرچہ بعض مسلم ممالک ایسے بھی ہیں جہاں مسلمان بظاہر خوشحال‘
غالب اور طاقتور ہیں‘ لیکن اندرونی طور پر وہ بھی ذہنی غلامی اور احساس کمتری میں مبتلا
ہیں۔ وہ باطنی حیثیت سے بالکل شکست خوردہ اور مرعوب ہیں۔ ان پر دوسری ترقی یافتہ قوموں
کے افکار ونظریات کا ایسا غلبہ ہے کہ وہ زبان حال سے اسلام کو ایک بوسیدہ مذہب‘ ایک
رجعت پسندانہ نظریہ‘ اور ایک کرم خوردہ نظام تصور کرتے ہیں۔
یہ وہ صورتحال ہے جو مسلمانوں کے لیے نہ صرف تشویشناک بلکہ ملت
کے شیرازہ کو بالکل منتشر اور امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔ اس
صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے اگرچہ بہت سے غمگسارانِ ملت اور ہمدردانِ امت اپنی اپنی
حیثیت کے مطابق کام کر رہے ہیں اور تمام اسلامی اور دینی جماعتیں ان ناخوشگوار حالات
کو محسوس کر رہی ہیں اور ان کو بدلنے کے لیے جد وجہد میں مصروف ہیں۔ لیکن حقیقت یہ
ہے کہ اس امت کی تاریخ کا وہ نازک ترین مرحلہ ہے جس سے گذرنے کے لیے ہماری یہ تمام
کوششیں اس وقت بار آور ہو سکتی ہیں جب ہم کمتری‘ مغلوبیت اور مظلومیت کا احساس ختم
کر کے اپنے آپ کو اس منصب امامت وقیادت کا اہل بنا لیں جو ہمارے اور صرف ہمارے لیے
مخصوص ہے‘ جب ہم صحیح معنوں میں جانشین خاتم الانبیاء بن کر خلافت ارضی کی ذمہ داری
سنبھال لیں جو صرف ہمارا حصہ ہے۔
لیکن آج اس ترقی یافتہ دنیا میں ہم نے اپنا مقام سب سے زیادہ
پیچھے رکھا ہے‘ ہم مادہ پرست قوموں کے غلام بن کر زندگی گذارنے میں فخر محسوس کرنے
لگے ہیں۔ ہم اس خالص مادہ پرست تہذیب کی تقلید اور خوشہ چینی کو ترقی اور تمدن کی علامت
سمجھنے لگے ہیں۔ ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے ان قوموں کی
اتباع وتقلید وقت کا ایک اہم ترین فریضہ اور مصلحت کا تقاضا ہے۔
تعلیم یافتہ مسلمانوں کا ایک طبقہ وہ بھی ہے جو اپنے مذہب کی
غیرت اور اس کا احترام اپنے دل میں رکھتے ہوئے موجودہ دور میں اسلامی نظام حیات کو
ناکافی اور اس کی تمام تعلیمات کو ناقابل عمل تصور کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اسلامی
نظام کو برپا کرنے کے لیے ہمیں بہت پیچھے لوٹنا چاہیے اور اس معاشرہ کو بروئے کار لانا
چاہیے جو اس نظام کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور جو واقعی اور عملی زندگی میں
اس سے مستفید ہونے کے جذبات سے معمور ہو۔
ان کے نزدیک موجودہ تہذیب اور عصر حاضر کی ثقافت وعلوم کا سیلاب
بالآخر اپنے گرداب سے نکلنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھتا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس گریز پا
ترقی کے دور میں صرف اتنا کر لینا کافی ہے کہ نظریاتی طور پر آپ مذہب کو مانیں اور
اس کی قابل عمل تعلیمات پر عمل کر لیں۔ ان کے نزدیک ایسے زمانہ میں نماز وروزہ اور
دیگر فرائض کا پورا کر لینا ہی بہت بڑا دینی کام ہے‘ بلکہ عصر حاضر کا سب سے بڑا جہاد
ہے۔
یہی وہ شکست خوردہ ذہنیت ہے جو مغرب کی تہذیب‘ اس کی ترقیوں
اور اس کی مادی پیش قدمیوں سے مرعوب ہے جو کسی حال میں اس کے بالمقابل آنے کی روادار
نہیں‘ وہ مغرب کو ترقی کے اس نقطۂ عروج پر تصور کرتی ہے جس کے بعد کوئی منزل نہیں
اور جو صرف قیادت کی منزل ہو سکتی ہے جس کے سامنے ساری مذہبی‘ اخلاقی اور انسانی قدریں
بازیچہ اطفال بن کر رہ جاتی ہیں۔
دوسرا طبقہ جو تمام اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں میں جہاں بھی
مسلمان موجود ہیں وہ ہے جس نے حالات کے سامنے سپر ڈال دی ہے اور اس کا خیال ہے کہ موجودہ
دور میں مادیت‘ الحاد اور تمام شیطانی طاقتیں اس قدر طاقتور ہو چکی ہیں کہ ان کے سامنے
مذہب ایک کمزور‘ ضعیف اور مغلوب الحال نظریہ بن کر رہ گیا ہے۔ جس کے لیے مسجد کے گوشوں‘
یا اذان کے مناروں یا خطبہ جمعہ کے منبروں یا بعض مذہبی رسمی تقریبات سے آگے نکلنے
کی اجازت نہیں۔ وہ مذہب کو زندگی کے لیے لازم اس کی تعلیمات کو انسانیت کا نجات دہندہ
اور اس کی برتری وافضلیت کا اسلام کے محدود رکھنے کو بہت کافی سمجھتا ہے۔
لیکن اس بگڑی ہوئی دنیا اور ترقی کے آخری نقطہ تک پہنچی ہوئی
اس تہذیب کے دھاروں میں ایک طبقہ وہ بھی موجود ہے جو ہر حال میں اسلامی نظام کو قابل
عمل اور اسی کو انسانیت کے سارے دکھ درد کا علاج تصور کرتا ہے۔ وہ حالات سے نبرد آزما
ہونے کے لیے ان تمام تدبیروں اور وسائل کو بروئے کار لاتا ہے جن کی اسلام اجازت دیتا
ہے اور اس کے لیے ہمت افزائی کرتا ہے۔
یہ ان داعیوں اور داعیانہ جذبہ رکھنے والے ان افراد کا طبقہ
ہے جو اسلام کا صحیح فہم اور اس کے صحیح منشا ومراد سے واقف ہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ
دنیا کا سارا بگاڑ‘ ساری خرابیاں اور ہرطرح کی برائیوں اور فسادات کا سرچشمہ مذہب سے
بے تعلقی ہے اور اس خدا بیزار تہذیب کا نتیجہ ہے جو آج ساری دنیا پر مسلط ہے۔
یہی وہ طبقہ ہے جو مادہ پرست حکومتوں اور ان کے پیچھے چلنے والی
تمام حکومتوں کی نظر میں انتہائی مبغوض اور قابل گردن زدنی ہے‘ یہ پرجوش اور ایمان
وعمل کے جذبے سے لبریز وہ افراد ہیں جو اسلام کی حقانیت‘ اس کی ابدیت‘ اس کی ہمہ گیریت
اور اس کے بلند تصورات پر پختہ ایمان رکھتے ہیں۔ جو منکر کو دیکھ کر خوش نہیں رہ سکتے‘
جو گناہوں کو فروغ پاتے ہوئے دیکھ کر تغافل نہیں برت سکتے۔ جن کی آخری تمنا اسلام کی
سربلندی ہے۔ جو ایمان کی زندگی اور خدا ورسول کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والے حلقہ
کو وسیع کر کے زندگی میں اللہ کے قانون کو نافذ ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ ہر مرض
کا علاج اسلام اور صرف اسلام کو سمجھتے ہیں۔
اس طبقہ کا وجود آج کی ہر حکومت اور ہر اقتدار کی راہ میں سب
سے بڑی رکاوٹ ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اس کو کچلنے اور آوازہ حق کو خاموش کر دینے کے لیے
تمام حکومتیں متحد ہیں‘ خواہ وہ مسلم ممالک کی حکومتیں ہوں یا غیر اسلامی ملکوں کی
حکومتیں‘ حد تو یہ ہے کہ اس طبقہ کو پسپا کرنے کے لیے ان حکومتوں نے صرف آتش وآہن کی
مدد پر اکتفا نہیں کیا‘ بلکہ اپنے رعایا کے تمام مسلمان افراد کو ان کی مخالفت کرنے
اور ان کا خاتمہ کرنے پر آمادہ کیا ہے۔
گویا اسلام کو مسلمانوں ہی کے ہاتھوں کمزور کرنے اور اس کے تناور
درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے انہی کے افراد کو استعمال کیا گیا اور دین کی مخالفت‘
نام نہاد دین سے‘ اسلام کی مخالفت مصنوعی اسلام سے اور اسلامی قدروں کی مخالفت مصنوعی
مذہبی قدروں سے کی جانے لگی۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو‘ ایک جماعت دوسری جماعت
کو‘ ایک شخص دوسرے بزرگ کو نقصان پہنچانے کے لیے اس طرح آمادہ ہو گیا ہے کہ گویا وہ
کوئی بہت مقدس اور کوئی بہت عظیم اسلامی مہم انجام دے رہا ہے جس سے غفلت برتنے پر آخرت
میں اس کو جواب دہ ہونا ہو گا۔
یہ ہے وہ تلخ حقیقت جو آج مسلمانوں کے معاشرہ میں ہر جگہ موجود
اور محسوس ہے۔ کہیں بڑے پیمانے پر‘ کہیں حکومتوں کی سرپرستی اور کہیں جماعتوں کی سرپرستی
میں۔ کہیں ذاتی بغض وعناد کے جذبات کام کر رہے ہیں تو کہیں جاہ ومنصب کی حرص وہوس اپنی
کمندیں پھیلا رہی ہے۔ اس افسوسناک حقیقت سے بھی انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ اسلام
دشمن طاقتوں اور اس کے مخالفین کو اس طرز عمل سے بہت شہ ملی‘ انہوں نے خواہ اس موقع
کو غنیمت سمجھا ہو‘ یا کوشش کر کے یہ موقع پیدا کیا ہو‘ جو صورتحال بھی ہو‘ بہرحال
وہ مسلمانوں کو کمزور اور مغلوب‘ ذلیل وخوار‘ کمزور وناتواں اور شکست خوردہ بنانے کے
لیے بہت کافی تھی۔ چنانچہ اس کا رد عمل یہ ہو اور برابر ہوتا جا رہا ہے کہ مسلمانوں
کی یہ عظیم اور غالب امت صرف کمزور اور مغلوب ہی نہیں بلکہ احساس ذلت ورسوائی کے ایسے
بوجھ کے نیچے دبی ہوئی ہے جس نے اس کو ہر بلندی اور پیش قدمی سے محروم کر رکھا ہے اور
جس سے بظاہر (جب تک یہ صورتحال اور طرز عمل
قائم رہے) نجات کی کوئی توقع بھی نہیں۔
اس گھر کو آگ
لگ گئی گھر کے چراغ سے:
میں نہیں سمجھتا کہ امت اسلامیہ کی موجودہ مغلوبیت ومظلومیت
کسی اور طرز عمل کا نتیجہ ہے‘ اسی طرز عمل نے اس کو اس انجام تک پہنچا دیا کہ دس کروڑ
مسلمانوں کی ۲۲ بڑی بڑی حکومتوں
نے مل کر بھی تنہا ایک معمولی تعداد رکھنے والی ذلیل قوم یہود کو جو ان کے ملک میں
دخیل اور جارح قوم تھی جو ہر چہار جانب سے انہی حکومتوں سے گھری ہوئی تھی‘ صرف اس کو
بھی یہ ساری حکومتیں ایک آواز اور ایک جسم ہو کر زیر نہ کر سکیں بلکہ شکست کھا کر اور
جان ومال اور رقبہ حتی کہ مسجد اقصیٰ جیسی مقدس یادگاروں تک کا عظیم تر خسارہ برداشت
کر کے واپس آگئیں۔
اسی طرز عمل کا انجام ہے کہ مسلمان اپنی مذہبی تعلیمات وشعائر
اور اس کی روح سے بالکل کٹ چکا ہے۔ اس نے وہ کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے جو وقت
کی سب سے ذلیل وکمزور اور پست ہمت قوم ادا کرتی ہے۔ جو قوم قیادت وامامت کا خدا داد
منصب لے کر آئی تھی وہی آج اپنے زمانہ کی پیرو اور مقلد ہے۔ علامہ اقبالa نے
پہلے ہی کہا تھا ؎
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
No comments:
Post a Comment