تمائم اور تعویذ کے احکام
تحریر: جناب مولانا
امام اللہ عاصم
عربی زبان کا ایک لفظ ”تمیمہ“ ہے جس کی جمع ”تمائم“ اور ”تمیم“
ہے۔ اس سے مراد وہ دانے اور مالے ہیں جو کسی بلاء اور مصیبت کو دفع کرنے اور اس کے
بد اثرات سے بچنے کے لیے گلے میں لٹکائے جاتے ہیں۔ حافظ ابن حجرa فرماتے
ہیں: ”اہل عرب زمانہ جاہلیت میں عقیدہ رکھتے تھے کہ یہ تمام آفات کو دفع کرتے ہیں۔“
(فتح الباری: ۰۱/۶۹۱)
اس عقیدے سے گلے میں لٹکائی جانے والی اشیاء میں ایک قسم تانت
(دھاگہ) بھی ہے۔ حافظ ابن الاثیرa فرماتے
ہیں: ”عرب عقیدہ رکھتے تھے کہ تانت کی مالا نظر بد کو دور کر دیتی اور مکر وفریب کو
بھی دفع کرتی ہے تو انہیں اس سے منع کر دیا گیا۔ اسی معنی کی وہ حدیث ہے جس میں گھوڑوں
کی گردنوں سے تانتوں کو کاٹنے کا حکم ہے۔ جسے اہل عرب نظر بد سے بچاؤ کے لیے ان کے
گلوں میں باندھتے تھے۔ (النہایہ فی غریب الحدیث والآثار: ۵/۹۱۳)
اسی طرح نظر بد سے حفاظت کی غرض سے عرب لوگ خرگوش کے ٹخنے کی
ہڈی بھی لٹکایا کرتے تھے۔ (دیکھیے: المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام)
گویا عرب کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ چیزیں نظر بد اور آفات سے بچاتی
اور بیماریوں سے شفا دیتی ہیں۔ چونکہ یہ عقیدہ سراسر عقیدہئ توحید کے منافی تھا‘ اس
میں شرک کا ایک سنگین پہلو پوشیدہ تھا جس کی وجہ سے اسلام نے اس عقیدے کی نہ صرف نفی
کی بلکہ لوگوں کو سختی سے اس بدعقیدگی سے باز رہنے کا حکم دیا۔
نبی اکرمe نے
فرمایا:
[من تعلق تمیمۃ فقد
اشرک] (مسند احمد)
”جس نے کوئی تمیمہ
لٹکایا اس نے شرک کیا۔“
ایک اور روایت میں اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
[من علق تمیمۃ فلا
اتم لہ ومن علق ودعۃ فلا ودع اللہ لہ] (المستدرک للحاکم)
امام حاکم فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ علامہ ذہبی
نے کہا: صحیح ہے۔
”جو تمیمہ لٹکائے
اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے اور جو (طلب سکون کے لیے) سفید دھاگہ (باندھے یا)لٹکائے
اللہ اسے کبھی سکون میسر نہ کرے۔“
لہٰذا کسی بیماری سے صحت یابی‘ تکلیف اور پریشانی سے نجات‘ نظر
بد سے بچاؤ اور راحت وسکون حاصل کرنے یا کسی کو اپنا گرویدہ اور محبوب بنانے جیسے ارادوں
کی تکمیل کے لیے تانت (دھاگہ)‘ گھونگھے‘ سپیاں یا کوئی بھی چیز گلے میں لٹکانا یا بازوؤں
پر باندھنا یا کوئی کڑا یا چھلا پہننا غلط اور شرک ہے۔ سیدنا عمران بن حصینt فرماتے
ہیں: میں نبی اکرمe کی
خدمت میں حاضر ہوا اور میرے بازو میں تانبے کا حلقہ تھا۔ نبی اکرمe نے
فرمایا: یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: واھنہ (ہاتھوں میں لگی ہوئی ریاح کی بیماری) کی وجہ
سے پہنا ہے۔ تو آپe نے
فرمایا: ”اسے اتار دے۔“ (المستدرک للحاکم۔ حاکم نے کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے‘
علامہ ذہبیؒ نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔)
ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن مسعودt اپنے گھر تشریف لائے تو آپ نے اپنی بیوی کے گلے میں
ایک دھاگا دیکھا اور پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ دھاگہ ہے جس پر میرے لیے
(حمرہ یعنی بدن پر سرخ دانے بننے اور بخار ہونے کی بیماری کی وجہ سے) دم کیا گیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعودt نے
وہ دھاگا کاٹ دیا اور فرمایا: عبداللہ کا خاندان شرک سے بے نیا ہے‘ میں نے نبی اکرمe سے
سنا آپe فرما
رہے تھے:
[ان الرقی والتمائم
والتولۃ شرک]
”جھاڑ پھونک‘ تعویذ
اور محبت کا منتر شرک ہے۔“
اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن مسعودt نے اپنی بیوی کو مندرجہ ذیل کلمات سکھائے:
[اذہب الباس رب الناس
اشف انت الشافی لا شفاء الا شفاؤک شفاء لا یغادر سقما.] (ابن ماجہ)
اس حدیث میں ”جھاڑ پھونک“ یعنی ایسے کلمات کے ساتھ دم کرنے سے منع کیا ہے جو شرکیہ ہوں۔ ”تولۃ“
سے مراد وہ منتر ہے جو مرد اور عورت کے درمیان محبت پیدا کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
ان سب کو نبی اکرمe نے
شرک کہا ہے۔ اس حدیث سے ایک بات یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ کسی بھی قسم کی چیز دم کر کے
پہننا بھی غلط اور شرک ہے۔
نبی اکرمe کے
پاس دس آدمیوں پر مشتمل ایک جماعت بیعت کے لیے آئی۔ آپe نے
ان میں سے نو آدمیوں سے بیعت فرما لی لیکن ایک سے ہاتھ روک لیا۔ پوچھا گیا: آقا! اس
سے ہاتھ کیوں روک لیا؟ آپe نے
فرمایا: ”کیونکہ اس کے جسم پر تمیمہ ہے۔“ تب اس آدمی نے کاٹ پھینکا اور پھر نبی اکرمe نے
اس سے بیعت لے لی اور فرمایا: ”جس نے تمیمہ لٹکایا اس نے شرک کیا۔“ (مسند احمد)
ان تمام احادیث میں لفظ ”تمیمہ“ استعمال ہوا ہے جس سے مراد عرف
عام میں جسے ”تعویذ“ کہا جاتا ہے‘ لینا درست نہیں۔ بلکہ تمیمہ سے مراد نظر بد اور آفات
سے بچاؤ کے لیے گلے میں لٹکائے جانے والے‘ پاؤں یا بازوؤں پر باندھے جانے والے‘ موتی‘
دانے‘ گھونگھے‘ سپیاں‘ دھاگے‘ کڑے اور چھلے وغیرہ ہیں۔ (دیکھیے القاموس المحیط)
آفات اور جنات کے اثر سے حفاظت کے لیے چار پائیوں پر رکھا جانے
والا لوہا وغیرہ بھی اسی تمیمہ کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ اشیاء نہ تو نفع دے سکتی ہیں
اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
نبی اکرمe نے
ایسی اشیاء لٹکانے اور باندھنے کی متبادل نظر بد یا کسی مرض سے خلاصی اور نجات کے لیے
وظائف اور اذکار کی تعلیم دی اور اس میں بھی اس بات کا مکمل خیال رکھا گیا کہ کہیں
ذرہ برابر بھی شرک کی آمیزش ان وظائف میں نہ ہونے پائے۔ اس لیے نبی اکرمe نے
فرمایا:
[اعرضوا علی رقیاکم
لا باس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک] (مسلم)
”مجھے اپنے دم کرنے
کے کلمات سناؤ‘ اگر ان میں شرک نہ ہوا تو کوئی حرج نہیں۔“
اسی لیے علماء کرام / ائمہ دین نے دم کرنے کے کلمات کے تعین
میں شرائط لگا ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجرa فرماتے ہیں:
[قد اجمع العلماء
علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثۃ شروط ان یکون بکلام اللہ تعالیٰ او باسماۂ وصفات وباللسان
العربی او بما یعرف معناہ من غیر وان یعتقد ان الرقیۃ لا توثر بذاتہا بل بذات اللہ
تعالیٰ۔] (فتح الباری)
”تمام علماء کرام
کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تین شرطوں کے ساتھ دم کرنا جائز ہے۔ پہلی یہ کہ جو کچھ پڑھا
جائے وہ اللہ کا کلام یا اس کے نام وصفات ہوں اور زبان عربی ہو‘ دوسری یہ کہ دم کے
کلمات کے معانی معلوم ہوں (یعنی غیر معلوم اور مبہم معانی والی عبارات نہ ہوں) تیسری
یہ کہ یہ عقیدہ ہو کہ یہ دم بذات خود فائدہ نہیں دے سکتا جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم
نہیں ہو گا۔“
قابل غور بات یہ ہے کہ تمیمہ تو ممنوع اور شرک ہے۔ تو کیا قرآن
مجید کی کوئی آیت یا مسنون ادعیہ میں سے کوئی دعا کاغذ پر لکھ کر گلے میں لٹکائی یا
باندھی جا سکتی ہے؟ ایک موقف اس کے جواز کا جبکہ دوسرا اس کے کلیۃً انکار اور غیر جواز
کا ہے۔ ذیل میں ہم جائز قرار دینے والوں کے دلائل اور ممنوع (ناجائز) قرار دینے والوں
کا ان دلائل کے بارے میں موقف ذکر کریں گے۔
قرآن مجید کی آیات اور مسنون دعا کاغذ وغیرہ پر لکھ کر گلے میں
لٹکانے کو جائز قرار دینے والوں کی دلیل قرآن کریم کی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے
ہیں:
(وَنُنَزِّلُ مِنَ
الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَۃٌ)
”اور ہم نے قرآن
میں وہ کچھ نازل کیا ہے جو شفاء اور رحمت ہے۔“ (الاسراء)
دوسری دلیل سیدنا عبداللہ بن عمروw کا عمل ہے کہ وہ مندرجہ ذیل کلمات اپنے بالغ بچوں کو
یاد کراتے اور نا بالغ بچوں کے گلے میں لکھ کر لٹکا دیتے تھے:
[بسم اللہ اعوذ بکلمات
اللہ التامات من غضبہ وعقابہ وشر عبادہ ومن ہمزات الشیاطین وان یحضرون] (ابوداؤد)
جن کا موقف ممانعت اور انکار کا ہے اور ان دلائل کے بارے میں
کہتے ہیں: جو آیت مبارکہ بیان کی گئی ہے اس میں اس بات کا ذکر نہیں کہ قرآن کو گلے
میں لٹکایا جائے یا بازوؤں سے باندھا جائے تو شفاء ہے۔ بلکہ یہاں شفاء سے مراد عقائد
کی درستی‘ دلوں سے ایسے اوصاف جو انسانیت کے منافی ہوں ان کا صاف ہونا۔ جیسا کہ دوسری
آیت مبارکہ میں اس کی وضاحت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ
قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَہُدًی
وَّرَحْمَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ) (یونس)
”لوگو! تمہارے پاس
تمہارے رب کی طرف سے ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت‘ جو کچھ سینوں میں ہے اس کے لیے شفاء‘
ہدایت اور مومنوں کے لیے رحمت ہے۔“
یہاں قرآن کو سینوں میں جو کچھ ہے اس کے لیے شفاء کہا گیا ہے
اور ہدایت کا لفظ الگ سے استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی اگر قرآن پڑھنے کے بعد ہدایت یافتہ
تو ہو گئے لیکن دلوں سے جاہلیت والی نفرتیں کدورتیں‘ بغض اور تعصب کی گندگی کو صاف
نہ کیا تو سمجھو صحیح معنوں میں قرآن کی تعلیمات پر عمل ہی نہیں کیا۔
اگر یہاں قرآن شفاء ہونے سے مراد وہی لی جائے جو تعویذ کرنے
کے قائل حضرات نے لی ہے تو ہم یہ عرض کریں گے کہ قرآن واقعی شفاء ہے۔ لیکن اس سے شفاء
کی نیت اور ارادے سے استفادہ اسی طریقے سے کیا جائے گا جو طریقہ ہمیں نبی اکرمe کی
احادیث مبارکہ سے ملتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات سے دم کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا
ابوسعیدخدریt کا
معروف واقعہ ہے کہ انہوں نے سورہئ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو قبیلے کا سردار تندرست ہو
گیا۔ اس کے عوض ان سے کچھ بکریاں بھی لیں۔ جب یہ خبر نبی اکرمe کو
سنائی گئی تو آپe نے
فرمایا: ان بکریوں میں میرا حصہ بھول نہ جانا۔ (صحیح مسلم)
تو قرآن کے شفاء ہونے کا یہی درست اور واضح مفہوم ہے جو نبی
اکرمe کی
تعلیمات سے ہمیں ملتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس نبی اکرمe اور آپ کے اصحاب] کسی بھی قسم کا تعویذ لٹکانا برا اور
غلط بلکہ شرک سمجھتے تھے۔ جیسا کہ سابقہ سطور میں نبی اکرمe کا
فرمان ذکر کیا گیا ہے:
[من تعلق تمیمۃ فقد
اشرک] (مسند احمد)
”جس نے کوئی تعویذ
لٹکایا اس نے شرک کیا۔“
دوسری دلیل سیدنا عبداللہ بن عمروw کی روایت ہے جو کہ مدلس راوی محمد بن اسحاق کے عنعنہ
کی وجہ سے صحیح نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت اس مفہوم پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ
سیدنا عبداللہ بن عمروw بڑے
بچوں کو دعا یاد کراتے اور چھوٹے بچوں کے گلے میں ایک تختی پر لکھ کر لٹکاتے تھے تا
کہ وہ بھی یاد کر لیں۔ جبکہ تعویذ تو کاغذوں پر لکھے جاتے ہیں تختیوں پر لکھ کر تو
نہیں لٹکائے جاتے۔ تیسری علت یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمروt کا
یہ عمل ذکر کرنا کہ وہ اپنے بچوں کے گلے میں لکھ لکھ کر لٹکاتے تھے‘ اس کی علامہ البانیa نے
تحسین نہیں کی۔ اس کے علاوہ باقی متن کو حسن قرار دیا ہے۔ یہ الفاظ مدرج ہیں۔
معزز قارئین! تمیمہ کا استعمال ایسا عمل ہے جس کی بناء پر نبی
اکرمe کی
بیعت سے محرومی اور شرک کے ارتکاب جیسا نتیجہ نکلتا ہے۔ اس عمل سے بچنا بلکہ بہت ہی
شدت اور احتیاط کے ساتھ اس سے پرہیز کرنا اور دور رہنا بہتر ہے۔ لیکن قرآنی آیات اور
مسنون دعا کاغذ پر لکھ کر لٹکانا یا باندھنا ایسا عمل ہے جو نبی اکرمe کے
زمانہ میں نہ تھا۔ یہ عمل دور نبوی کے بعد شروع ہوا۔ اس لیے اس میں علماء کے درمیان
اختلاف پایا جاتا ہے‘ یہ بات تو واضح ہے کہ اگر تعویذ میں اللہ کے علاوہ کسی اور سے
مدد مانگی گئی ہو یا غیر کا نام اور ہندسے لکھے گئے ہوں تو یہ شرک ہے۔ لیکن اگر کوئی
آدمی اللہ کا نام یا قرآن کی آیت یا مسنون دعا لکھ کر گلے میں لٹکائے کیونکہ اس میں
وہ غیر سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگ رہا ہے۔ اس کا نظریہ ہرگز یہ نہیں
کہ اسے شفاء اس کاغذ نے دینی ہے بلکہ اس کا اعتقاد ہے کہ شفاء دینے کا اختیار صرف اللہ
تعالیٰ ہی کو ہے۔ تو اس عمل کی ممانعت بہرصورت موجود نہیں۔ البتہ احتیاط اور تقویٰ
کا تقاضا یہ ہے کہ ان مشکوک اور مختلف فیہ معاملات کو چھوڑ کر ہمیں مسنون دم پر ہی
اکتفا کرنا چاہیے۔
آخر میں ہم اس صدی کے معروف مذہبی سکالر‘ عالم اسلام کے نامور
مفتی الشیخ عبدالعزیز بن بازa کا
فتویٰ پیش کرتے ہیں:
”اگر ان میں شیطانوں
کے نام ہوں یا ہڈیوں‘ ریٹھوں اور کیلوں کے تعویذ ہوں یا طلسمات یعنی حروف مقطعات (ا‘
ب‘ ج وغیرہ) ہوں یا ان سے مشابہ کوئی اور چیز ہو تو یہ شرک اصغر ہے۔ اگر تعویذ استعمال
کرنے والا یہ عقیدہ رکھے کہ تعویذ اس کی حفاظت کرے گا‘ اس کی بیماری دور کرے گا یا
آنے والی مصیبت کو ٹال دے گا تو یہ شرک اکبر ہے۔“ (مجموعہ فتاویٰ ابن باز: ۲/۴۸۳)
خلاصہ بحث یہ ہوا کہ غیر قرآنی اور شرکیہ تعویذ کرنا اور کرانا‘
کوئی چیز دم کی ہوئی یا بغیر دم کے دفع مصائب اور نظر بد وغیرہ کے اثرات سے بچاؤ کے
لیے پہننا یا لٹکانا ممنوع اور شرک ہے۔ البتہ دفع مصائب‘ نظر بد سے بچاؤ اور دیگر پریشانیوں
کے حل یا حصول سکون کے لیے قرآنی آیات یا ادعیہ ماثورہ صحیحہ ایسے کلمات جن میں شرک
کا ابہام نہ ہو ان سے دم کرنا جائز عمل ہے۔ بلکہ ان سب سے بہتر یہ ہے کہ جن وظائف کی
نبی اکرمe نے
مختلف اوقات اور مختلف مواقع کے مطابق تعلیم دی ہے انہیں اپنا معمول بنانا چاہیے۔ اللہ
تعالیٰ جملہ آفات سے محفوظ فرمائیں گے۔ یہ وظائف اور دعائیں‘ اذکار اور وظائف اور دعاؤں
کی کتب میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مثلاً الورد المصفیٰ المختار دعائیں التجائیں (دارالابلاغ
لاہور) اسلامی وظائف اور پیارے رسولe کی پیاری دعائیں۔ (مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی)
وغیرہ کتب اس معاملہ میں مفید ہیں۔
تعویذات کا کاروبار کرنے والے حضرات دکانیں سجا کر لوگوں کے
ایمان لوٹنے کے لیے ہر شہر اور قصبہ میں سربازار نظر آتے ہیں جو دوسروں کے حالات اور
کایا پلٹنے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ اگر ان کی حقیقت ہی کو جان لیا جائے تو تعویذ
کرنے کرانے جیسے قبیح عمل سے بچا جا سکتا ہے۔ وہ لوگ دعوے تو کرتے ہیں کہ ایک ہی دن
میں کایا پلٹ دیں گے‘ ایک ہی منتر میں مراد پوری ہو جائے گی‘ ایک ہی تعویذ سے کاروبار
ترقی پکڑ لے گا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ آپ لوگوں کے کاروبار چمکاتے ہو اور خود لوگوں
سے پچاس‘ سو‘ دو سو روپے بٹور کر اپنا گزر بسر کر رہے ہو۔ تم کیوں نہیں کاروبار شروع
کرتے اور اس کاروبار کے لیے خود کوئی تعویذ تیار کرتے کہ آپ کا کاروبار خوب چمکے تا
کہ آپ کو پیسے بٹورنے کے لیے طرح طرح کے ڈھکوسلے نہ کرنا پڑیں۔
لیکن معزز قارئین! جب بنیاد ہی غلط ہے تو ان کے پاس خاطر خواہ
جواب کیا ہو سکتا ہے؟ اس لیے اپنے ایمانوں کو بچائیے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل
اور مکمل بھروسہ کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین!
No comments:
Post a Comment