Sunday, November 24, 2019

کرتار پور راہداری اور مسجد بابری 44-2019


کرتار پور راہداری اور مسجد بابری

۹ نومبر بروز ہفتہ ایک طرف پاکستان بابا گرونانک کے ۵۵۰ویں یوم پیدائش پر سکھوں کے لیے کرتارپور راہداری کھول کر مذہبی رواداری کا ثبوت دے رہا تھا تو دوسری طرف بھارت مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی یادگار بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا فیصلہ دے کر بدترین قسم کی مذہبی منافرت کو ہوا دے رہا تھا۔ کرتار پور سکھوں کے لیے نہایت مقدس مقام کا درجہ رکھتا ہے۔ کیونکہ یہاں ان کی عبادت گاہ گورو دوارہ دربار صاحب واقع ہے۔ سکھ برادری اس سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ پاکستانی حکومت نے ۱۰ ماہ کی قلیل مدت میں اس راہداری کو مکمل کر لیا۔ وزیر اعظم خان صاحب نے ۹ نومبر کو اس کا افتتاح کر کے سکھوں کے لیے مقدس مقام کی زیارت کے لیے سہولت فراہم کر دی ہے۔
اس موقع پر ایک بہت بڑی تقریب کا انعقاد ہوا۔ دونوں اطراف سے حکومت کی اعلیٰ اور سول شخصیات نے بھاری تعداد میں شرکت کی۔ خان صاحب نے اپنی تقریر میں نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’دووں ملکوں کے درمیان تنازع کا اصل سبب مسئلہ کشمیر ہے جسے مل بیٹھ کر حل کر لینا چاہیے۔ اس مسئلے کے تصفیے سے خطے میں امن اور خوشحالی آئے گی۔‘‘  لیکن بڑے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ اس دوران خان صاحب نے ۹ نومبر کے حوالے سے مصور پاکستان اور بابری مسجد فیصلے سے متعلق ایک لفظ تک نہ بولا‘ صرف سکھوں کی خوشامد میں مگن رہے۔
پاکستان نے بھارت کے معاندانہ‘ متعصبانہ اور جارحانہ رویوں کے باوجود ہمیشہ امن کا پیغام دیا اور خیر سگالی کے اقدامات اٹھائے‘ ان میں تازہ ترین کرتار پور راہداری کا کھولنا ہے۔ پاکستان کے اس اقدام کو پوری دنیا میں سراہا جا رہا ہے لیکن بھارت نے پاکستان کے ان اقدامات کے جواب میں ہمیشہ مذہبی رواداری اور خیر سگالی کے خلاف ہی کوئی نہ کوئی قدم اٹھایا۔ اس کی زندہ مثال کرتار پور راہداری کے افتتاح کے عین موقع پر بھارتی سپریم کورٹ نے انتہا پسند ہندوؤں اور حکمران پارٹی کے زیر اثر تاریخی بابری مسجد کے ۲۷ سال سے زیر سماعت مقدمے کا متعصبانہ فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا حکم دیتے ہوئے جہاں انصاف کا خون کیا وہاں مذہبی رواداری کی بھی دھجیاں اڑا دیں۔ عدالت نے سینکڑوں ایکڑ اراضی پر مشتمل تاریخی مسجد کے بدلے نئی مسجد کی تعمیر کے لیے اسی علاقے میں ۵ ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا جسے مسلم تنظیموں نے ’’خیرات‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا اور فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
عدالت نے اس دعوے کے خلاف مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پیش کردہ تمام مبنی بر حقیقت شواہد کو یکسر نظر انداز کر دیا مگر یہ ثبوت فراہم نہیں کیا کہ سن ۱۵۲۸ء میں تعمیر کی جانے والی یہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔ اس فیصلے سے جہاں گاندھی اور نہرو کے سیکولر بھارت کا جنازہ نکل گیا ہے وہاں پورے ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اگرچہ سکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ کر کے حساس مقامات پر تعینات کر دیا گیا ہے لیکن جنونی‘ دہشت گرد ہندو کہاں اس کی پروا کرتے ہیں؟ ایک بار پھر خونِ مسلم سے ہولی کھیلے جانے کا امکان ہے۔
مبصرین نے بھارتی عدالت کے اس فیصلے کو ’’ہندواتوا‘‘ کی فتح قرار دیا ہے جس کے تحت بھارت میں صرف ہندوؤں کو رہنے کا حق ہے۔ اس سے اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کی جان ومال کے لیے سنگین خطرات پیدا ہو گئے ہیں جن کا عالمی برادری کو فوری نوٹس لینا ہو گا۔
دوسری طرف وادئ کشمیر میں بھارتی سرکار کی طرف سے ظالمانہ کرفیو کو ۱۰۰ دن ہو گئے ہیں۔ کشمیری مسلمان بدترین عذاب سے دو چار ہیں۔ کشمیریوں اور پاکستان نے موذی سرکار کے کشمیر اور وہاں کے معصوم نہتے عوام پر شب خون کے خلاف دنیا کے سامنے آواز اٹھائی‘ ہر پلیٹ فارم کے دروازے پر دستک دی۔ دنیا کے طاقتور ممالک‘ بڑے اداروں اور با اثر شخصیات سمیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی پاکستان کا موقف پیش کیا۔ کشمیریوں پر بھارتی ظلم وبربریت کی مذمت اور تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ان کو ہر ممکن مدد کا یقین بھی دلایا گیا۔ مگر بھارت پر ایسی باتوں کا کبھی کوئی اثر ہوا نہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ۸۰ لاکھ انسانوں کو بھارت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے وہ جو چاہے ان کے ساتھ سلوک روا رکھے‘ کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ پاکستان بھی زبانی کلامی تشویش‘ مذمت اور قرار دادوں وتقاضوں سے آگے نہیں بڑھ پا رہا۔ کیا دنیا آخری کشمیری کے بھارتی مظالم کے بھینٹ چڑھنے کی منتظر ہے؟ کرفیو مزید کتنا عرصہ جاری رہے گا؟ سردست کرفیو کے خاتمے کی ضرورت ہے تا کہ کشمیری عوام اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کر سکیں۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)