احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
رضاعی خالہ سے نکاح
O میری
بہن کا نام زینب اور اس کی بیٹی کا نام ام کلثوم ہے۔ مجھے اور ام کلثوم کو ایک اجنبی
عورت نے دودھ پلایا ہے۔ میں اپنے بیٹے ابوبکر کا رشتہ اپنی بھانجی ام کلثوم سے کرنا
چاہتی ہوں‘ کیا شرعا اس کی اجازت ہے؟
P سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ صورت مسئولہ میں دو طرح کے
رشتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
\ نسبی رشتہ: … اس اعتبار سے
ام کلثوم سائلہ کی بھانجی ہے اسے شرعی طور پر اپنے بیٹے ابوبکر کا رشتہ اپنی بھانجی
سے کرنا جائز ہے۔
\ رضاعی رشتہ: … ایک اجنبی عورت
نے سائلہ اور اس کی بھانجی ام کلثوم دونوں کو دودھ پلایا ہے اس اعتبار سے یہ دونوں
رضاعی بہنیں ہیں۔ سائلہ کے بیٹے ابوبکر کی ام کلثوم رضاعی خالہ ہے لہٰذا یہ رشتہ ناجائز
ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے: ’’جیسے خونی رشتے حرام ہیں ویسے ہی دودھ پینے سے حرمت قائم
ہو جاتی ہے۔‘‘ (بخاری‘ النکاح: ۵۰۹۹)
جہاں حلت اور حرمت کا احتمال ہو وہاں حرمت کو ترجیح ہوتی ہے۔
اس صورت میں اگرچہ نسب کے اعتبار سے خالہ زاد بہن سے نکاح ہو سکتا ہے لیکن دودھ کے
اعتبار سے وہ خالہ ہے اور خالہ سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ اس بناء پر سائلہ کے بیٹے ابوبکر
کا ام کلثوم سے نکاح ناجائز ہے۔ امام ابن قدامہa لکھتے ہیں: ’’جو عورت بھی نسب کی وجہ سے حرام ہے رضاعت
کی وجہ سے اسی طرح کی عورت حرام ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہیں: مائیں‘ بیٹیاں‘ پھوپھیاں‘
خالائیں‘ بھتیجیاں اور بھانجیاں وغیرہ۔ اس لیے کہ رسول اللہe کا
فرمان ہے: ’’رضاعت کی وجہ سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے
ہیں۔‘‘ (مغنی لابن قدامہ: ج۷‘ ص ۸۷)
یہاں اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ رضاعت کی وجہ سے
حرمت دو چیزوں پر موقوف ہے جو حسب ذیل ہیں:
\ کم از کم پانچ
مرتبہ بچے کو دودھ پلایا گیا ہو۔
\ بچے کی عمر
دو سال مکمل ہونے سے پہلے پلایا گیا ہو۔
دودھ کا مسئلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ خواتین کو اس کا خیال رکھنا
چاہیے۔ واللہ اعلم
مِلک بنک کا حکم
O غیر
مسلم ممالک میں ’’مِلک بنک‘‘ کے نام سے عورتوں کا دودھ حاصل کیا جاتا ہے۔ پھر اسے حفظان
صحت کے اصولوں کے مطابق اس کا ذخیرہ کر کے ضرورت مند خواتین کو دیا جاتا ہے۔ کیا اس
طرح دودھ جمع کرنا اور ضرورت مند خواتین کو دینا جائز ہے؟!
P اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں کے ددھ میں جو فوائد وثمرات
ہیں وہ کسی دوسرے دودھ میں نہیں ہوتے خواہ وہ خواتین کا دودھ کیوں نہ ہو۔ چنانچہ ماں
کا دودھ غذائیت سے بھر پور ہوتا ہے جس میں کسی قسم کے بیرونی جراثیم نہیں ہوتے جو بچے
کی صحت پر اثر انداز ہوں۔ نیز ماں کے دودھ میں پروٹین اور شوگر کا تناسب بچے کی ضرورت
کے مطابق پایا جاتا ہے جو دوسرے میں نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ماں کا دودھ ایک خاص اور
معقول درجہ حرارت رکھتا ہے۔ جس بچے کی ماں کا دودھ ضرورت پوری نہیں کرتا تو اس کا حل
یہ ہے کہ کسی صحت مند خاتون کی خدمات حاصل کر لی جائیں جو بچے کو دودھ پلائے۔ قرآن
کریم نے اس کی طرف واضح اشارہ فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تم (کسی دوسری
عورت سے) اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو بھی حرج کی کوئی بات نہیں جبکہ تم اسے
دستور کے مطابق اس کا معاوضہ دے دو جو تم نے طے کیا ہے۔‘‘ (البقرہ: ۲۳۳)
عرب میں قدیم زمانہ سے یہ دستور چلا آ رہا ہے کہ وہ اپنے بچوں
کو کھلے ماحول میں رہنے والی صحت مند خواتین سے دودھ پلانے کا اہتمام کرتے تھے۔ خود
رسول اللہe نے
حلیمہ سعدیہ سے دودھ پیا۔ لیکن اگر کسی دوسری خاتون سے دودھ پلانا ہو تو بچے پر رضاعت
کے احکام لاگو ہوں گے۔ اس کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ابھی تک ہمارا مسلم معاشرہ
اس قسم کی صورت حال سے دو چار نہیں ہوا جس کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے۔ بنیادی طور
پر اگر یہ اہتمام کیا جائے کہ جس عورت کا دودھ ذخیرہ کیا گیا ہے اس کا نام‘ پتہ اور
خاندانی پس منظر معلوم ہو اور اس میں کسی دوسری عورت کا دودھ نہ ملایا جائے پھر جس
بچے نے یہ دودھ پیا ہے اس کا بھی پورا پورا ریکارڈ محفوظ ہو تا کہ آئندہ شادی وغیرہ
کے موقع پر کوئی الجھن نہ ہو تو اس میں چنداں حرج والی بات نہیں۔ اگرچہ غیر مسلم معاشرہ
میں اس قسم کا اہتمام اور احتیاط نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے رضاعی ماؤں کی پہچان نہیں
رہتی اور ان میں اختلاط کا اندیشہ بدستور باقی رہتا ہے۔ پھر کئی ایک عورتوں کے دودھ
سے ملنے سے یہ پتہ نہیں چلے گا کہ ماں کونسی ہے جبکہ ہماری شریعت میں دودھ پینے سے
بھی اسی طرح حرمت ثابت ہوتی ہے جس طرح نسب سے ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم اس طرح کے ’’مِلک بنک‘‘
قائم کرنے کے حق میں نہیں۔
ہاں اگر دودھ عورتوں کا نہ ہو بلکہ حیوانات‘ بکری‘ گائے وغیرہ
کا ہے جو حفظان صحت کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ذخیرہ کیا جائے تو اس قسم کے کارخیر
میں کوئی حرج نہیں۔ موقع کی مناسبت سے ہم اس بات کی وضاحت کر دینا بھی ضروری خیال کرتے
ہیں کہ زمانہ قدیم میں کچھ درختوں کا چھلکا اور جڑیں ایسی ہوتی تھیں جن کو چبانے سے
عورتوں کو دودھ آتا تھا۔ چنانچہ اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ایسی ادویات تیار
کر لی گئی ہیں جن کے استعمال سے لا ولد خواتین کو دودھ اتر آتا ہے‘ وہ اتنی مقدار میں
ہوتا ہے کہ گود لیا ہوا بچہ سیر ہو جاتا ہے۔ اگر اس طرح کا غیر فطرتی دودھ کوئی بچہ
پانچ مرتبہ پی لے تو اس سے بھی رضاعت ثابت ہو جاتی ہے بشرطیکہ گود لیا ہوا بچہ دو سال
کی عمر کے اندر اندر دودھ پیئے۔ لیکن اس قسم کا غیر فطرتی دودھ پینے سے عورت کا خاوند‘
اس کا رضاعی باپ نہیں بنے گا کیونکہ اس غیر فطرتی دودھ میں اس کے خاوند کا کوئی حصہ
نہیں۔ اس طرح کا غیر فطرتی دودھ پینے سے بچے کا رضاعی رشتہ صرف دودھ پلانے والی سے
قائم ہو گا کہ وہ اس کی رضاعی ماں بن جائے گی۔
بہرحال سوال میں جس ’’مِلک بنک‘‘ کا ذکر ہے اس کے متعلق ہمیں
قطعاً شرح صدر نہیں کیونکہ اس میں اختلاط کا اندیشہ بدستور قائم رہتا ہے۔ بہتر ہے کہ
اگر ماں بیمار ہے یا اس کا دودھ بچے کے لیے فائدہ مند نہیں تو کسی صحت مند خاتون کی
خدمات حاصل کر لی جائیں جو اس بچے کو دودھ پلائے۔ پھر اس پر رضاعت کے احکام لاگو ہوں
گے۔ واللہ اعلم!
بیوی کا اپنے شوہر سے ظہار
O اگر
کوئی عورت اپنے خاوند سے کہے کہ تو مجھ پر اسی طرح حرام ہے جس طرح میرا باپ مجھ پر
حرام ہے تو شرعی طور پر اس کا کیا حکم ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
P شریعت میں اگر خاوند اپنی بیوی سے کہے کہ تو مجھ پر
میری ماں کی طرح حرام ہے تو اس کو ظہار کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اسے بری بات اور
جھوٹ قرار دیا ہے۔ اگر خاوند اپنی اس بات سے رجوع کر لے تو بیوی کے پاس جانے سے پہلے
اسے کفارہ ادا کرنا ہو گا جو حسب ذیل ہے: ایک غلام آزاد کرے‘ اگر اس کی طاقت نہیں تو
دو ماہ کے لگا تار روزے رکھے اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو ساٹھ مساکین کو کھانا
کھلائے۔ اس کی تفصیل قرآن کریم میں موجود ہے۔ (المجادلہ: ۳‘ ۴)
صورت مسئولہ میں عورت کا اپنے شوہر کو حرام کرنا یا اسے اپنے
کسی محرم رشتہ دار کے ساتھ تشبیہ دینا ظہار نہیں بلکہ قسم کے حکم میں ہے کیونکہ ظہار
صرف شوہر کی طرف سے ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے۔ اگر کوئی عورت خود
پر اپنے خاوند کو حرام کرتی ہے تو اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہو گا جو حسب ذیل آیت
کریمہ میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں لغو قسم کی قسم اٹھانے پر مؤاخذہ نہیں کرے گأ۔
البتہ ایسی قسموں پر مؤاخذہ فرمائے گا جو تم نے دل کی گہرائی سے اٹھائی ہیں۔ اس کا
کفارہ دس مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔ کھانا بھی اوسط درجے کا ہو جو تم اپنے گھر والوں
کو کھلاتے ہو یا انہیں لباس دینا ہے یا ایک غلام آزاد کرنا ہے جس کے پاس طاقت نہ ہو
تو تین دن کے روزے ہیں۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے۔‘‘ (المائدہ: ۸۹)
کسی حلال کردہ چیز کو حرام کر لینا قسم کے حکم میں ہے۔ اس کی
دلیل رسول اللہe کا
وہ واقعہ ہے جب آپ نے خود پر شہد کو حرام کر لیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اللہ
تعالیٰ نے تمہارے لیے قسموں کا کھول ڈالنا مقرر کیا ہے۔‘‘ (التحریم: ۲)
اس بناء پر عورت کو چاہیے کہ وہ آئندہ اس قسم کی حرکت سے باز
رہے اور جو حرکت اس سے سرزد ہوئی ہے وہ قسم کے حکم میں ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ دس مساکین
کو صبح یا شام کے وقت کھانا کھلا دے‘ اگر اس کی حیثیت نہیں تو تین دن کے روزے رکھ لے۔
واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment