اسلام کی بیٹیاں
تحریر: جناب مولانا
احسان اللہ
خواتین… جو ماں‘ بہن‘ بیٹی‘ بیوی اور بہو کے روپ میں دنیائے
انسانیت کے لیے سب سے عظیم تحفہ ہیں۔ جن کے وجود سے تصویر کائنات میں رنگ ہے۔ جو دریائے
شفقت ومحبت ہیں اور جن کے ذکر سے عالم موجودات کی آدھی کتاب مملو ہے۔ … اگر یہ چاہیں
تو انسانی معاشرے کے ہر شعبے کو خوشگوار ترقیاتی تبدیلیوں سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔
علم وہنر کی نئی جوت جگائی جا سکتی ہے۔ معاملات میں کشادہ ذہنی اور اعلیٰ ظرفی کے عناصر
پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ تہذیب وثقافت کو متوازن رخ پہ ڈالا جا سکتا ہے۔ اخلاقیات کے
خوبصورت نمونے پیش کیے جا سکتے ہیں۔ آداب وسلوک
کو مہذب سانچوں میں ڈھالا جا سکتا ہے اور سنجیدہ وامن پسند نوجوانوں کی ایسی کھیپ تیار
کی جا سکتی ہے جو معاشرے کو ہوس اور تشدد کی نفسیات سے بچاتے ہوئے اسے پاکیزہ اخلاق
اور امن وامان کا گہوارہ بنا سکیں۔ الغرض اگر خواتین کمربستہ ہو جائیں تو معاشرے کو
تمام تر مسائل ومشکلات سے بچاتے ہوئے اسے آئیڈیل اور مثالی بنایا جا سکتا ہے۔ بالخصوص
ایسے دور میں جبکہ علم وہنر کی جاہلانہ غایتیں متعین کی جا رہی ہیں۔ تہذیب وثقافت کے
نام پر عریانیت وبدتہذیبی کو عام کیا جا رہا ہے۔ ہوسناکی اور بربریت کے واقعات بڑھ
رہے ہیں۔ مصنوعی اخلاق کے پرکشش لفافوں میں بد خلقی‘ کم ظرفی اور احسان فراموشی کے
نئے نئے انداز مشتہر کیے جا رہے ہیں اور جملہ معاملات میں خیانت وحق تلفی کے رجحان
کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ ایسے میں ضروری ہو گیا ہے کہ خواتین بیدار ہوں اور اپنے حصے
کا کردار ادا کریں۔ خواتین کی معاشرتی ذمے داری یہ ہے کہ وہ تربیت واصلاح کے ذریعے
اپنے اڑوس پڑوس میں جی رہی نسلوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ آگے چل کر معاشرے کی علمی‘
اخلاقی‘ معاشی اور تہذیبی ومعاشرتی ترقی میں معاون ثابت ہو سکیں۔ خواتین کی اس معاشرتی
حرکت یا کارکردگی کے لیے سطور ذیل میں چند نقوش پیش کیے جا رہے ہیں۔ دراصل یہ علامتی
مثالیں ہیں جو معاشرے کی تشکیل نو اور تعمیر وترقی سے متعلق تمام باتوں کو محیط ہیں:
طہارت وپاکیزگی:
طہارت وپاکیزگی میں ظاہر وباطن اور جسم واحساس ہر ایک چیز کی
صفائی ستھرائی شامل ہے۔ پاکیزگی صحت بدن اور صحت قلب دونوں کی ضامن ہے۔ جس طرح ثمر
آور پودوںکی نشوونما کے لیے انہیں کیڑے مکوڑوں اور طفیلی بیلوں سے بچانا ضروری ہے‘
اسی طرح انسان کی جسمانی وقلبی نشو ونما کے لیے ظاہر وباطن کی پاکیزگی لازمی شے ہے۔
خواتین چونکہ محض ایک فرد یا ذات نہیں ہوتیں بلکہ وہ مکمل ایک معاشرہ ہوتی ہیں‘ اسی
لیے دیکھا جاتا ہے کہ جس علاقے کی خواتین راسخ العقیدہ اور نفاست پسند ہوتی ہیں وہاں
کی نسلیں بھی عام طور سے صحت مند عقیدے کی حامل‘ بلند فکر‘ شائستہ اور خوش حال ہوتی
ہیں۔ ظاہر وباطن کی بڑھتی ہوئی آلودگی کے پیش نظر یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہر علاقے کی
خواتین مذکورہ صفات کی حامل ہوں اور معاشرے کو عقیدہ وماحول کی خطرناک گندگی سے نجات
دلانے میں اپنے حصے کا کردار ادا کریں تا کہ اردگرد میں پلنے والی نسلیں مضبوط عقیدے
والی اور صحتمند ہوں۔ اللہ کے رسولe کی
حدیث ہے: طہارت آدھا ایمان ہے۔ (مسلم: ح ۲۱۶)
ہمسایوں کے حقوق
کی حفاظت:
قرب وجوار کے لوگوں سے بناؤ اور بگاڑ کے معاملے میں جتنا اہم
کردار خواتین ادا کر سکتی ہیں اتنا کام میں مصروف مرد حضرات بالکل نہیں کر سکتے۔ اسی
لیے خواتین کو چاہیے کہ وہ اڑوس پڑوس کے لوگوں سے گھل مل کر رہیں‘ ان سے اخوت وبھائی
چارے کا رشتہ استوار کریں‘ مشکل حالات میں ان کی مدد کریں‘ تہواروں اور تقریبات کی
مناسبت سے انہیں مدعو کریں‘ کبھی خود ان کے گھر جا کر خیر خیریت دریافت کر آئیں اور
کبھی انہیں اپنے چائے ناشتے پر بلائیں۔ الغرض ان کے سامنے سلوک وبرتاؤ کا ایسا معیار
پیش کریں کہ وہ خود بھی آپ کے ساتھ محبت‘ احترام‘ خلوص اور ہمدردی کا رشتہ قائم کرنے
پر مجبور ہو جائیں۔ بعض علاقوں میں لوگ پڑوسیوں کے ساتھ اس طرح نباہ کرتے ہیں کہ فرق
محسوس نہیں ہوتا‘ یہ پڑوسی ہیں یا رشتے دار! دراصل یہی وہ لوگ ہیں جن سے انسانی لگاوٹ
اور امن وسکون کی روایت زنجہ ہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ’’والدین‘ اقرباء اور
پڑوسیوِں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ (النساء: ۳۶)
حسن معاشرت:
حسن معاشرت کا مطلب ہے ایسا طرز زندگی جس میں سب اپنے ہوںاور
کوئی پرایا نہ ہو۔ زندگی کو اس معیار تک پہنچانے کے لیے انسان کا مہذب‘ با ضمیر‘ اعلیٰ
ظرف‘ حساس اور سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ بعض خواتین اس طرح زندگی گذارتی ہیں کہ ان کے
رہن سہن‘ وضع قطع‘ سلوک وبرتاؤ‘ گفتگو کے خوبصورت انداز‘ علمی برتری‘ ذائقہ دار پکوان‘
عمدہ سلائی کڑھائی اور دیگر صلاحیتوں سے خاندان ومعاشرے کے بہت سے لوگ فیضیاب ہوتے
ہیں۔ یہی وہ خواتین ہیں جو اپنی اعلیٰ سوچ وفکر‘ معیاری تہذیب وثقافت اور علم وہنر
کے مختلف زاویوں سے پورے سماج کو ایک ترقی یافتہ جہت دینے میں میل کا پتھر ثابت ہوتی
ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نسلوں کی فکری وعملی تربیت کے ذریعے معاشرے
کی تشکیل نو اور تعمیر وترقی میں اس طرح کی خواتین کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ دنیا والوں
کے لیے رسول اکرمe کی
معاشرتی زندگی سب سے زیادہ قابل تقلید اور آئیڈیل ہے۔ اللہ کے رسول e کی
حدیث ہے: ’’حسن معاشرت کا شاہکار محمدe کی طرز زندگی ہے۔‘‘ (بخاری: ح ۶۰۹۸)
جذبۂ عفو ودرگذر:
خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر معاف کر دینے کا جذبہ
پیدا کریں۔ عفو ودرگذر کا نظریہ خاندان ومعاشرے کے بہت سے معاملوں میں اکسیر کا کام
کرتا ہے۔ غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ ہمارے یہاں بدگمانیاں‘ ناچاقیاں‘ تنازعات اور
قطع تعلقات محض اس وجہ سے وجود پذیر ہوتے ہیں کہ ہم نظر انداز کر دینے‘ بھول جانے یا
معاف کر دینے کے اصول کو اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے۔ حالانکہ سب کچھ بگڑنے یا معاملہ
کے بہت زیادہ سنگین ہو جانے کے بعد ہمیں یہ ندامت ہوتی ہے کہ ’’کاش! جانے دیا ہوتا۔‘‘
معاف کرنا ایک تعمیری قدم ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ اگر غلطی یا اتلاف پر کسی کو سزا
دینے کی بجائے معاف کر دیا جائے تو وہ خود ہی خلوص دل سے تلافی اور اصلاح پر آمادہ
ہو جاتا ہے۔ عفو درگذر کا تعلق بزدلی یا کمزوری سے نہیں بلکہ اس کا تعلق بڑے پن یا
مصلحت پسندی سے ہے۔ یہ اللہ کے اوصاف جلیلہ میں سے ایک ہے‘ جس سے متصف ہونے کے بعد
کوئی بھی شخص الٰہی صفت سے قریب تر ہو جاتا ہے۔ لیکن بعض خواتین اپنے مزاج کے خلاف
ہونے والی ہر بات پر بھڑک اٹھتی ہیں اور غصے میں آکر گالم گلوچ اور جھگڑا لڑائی سب
کر جاتی ہیں۔ مگر دماغ ٹھنڈا ہونے پر جب نظریں اُٹھا کر دیکھتی ہیں تو انہیں کیا نظر
آتا ہے …؟ بکھرے ہوئے رشتے‘ ٹوٹے ہوئے دل اور بے شمار ملامتیں! اسی حکمت کے پیش نظر
شریعت اسلامیہ میں غصہ کو پی جانے اور عفو ودرگذر کو عملاً اپنانے کی بار بار تلقین
کی گئی ہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ’’مومن لوگ جب کسی سے ناراض ہوتے ہیں تو
معاف بھی کر دیتے ہیں۔‘‘ (شوریٰ: ۴۲)
تواضع وانکساری:
کسی کو جھک کر‘ ہنس کر اور خوش مزاجی کے ساتھ ملنا یا معاملہ
کرنا تواضع وانکساری ہے۔ واضح رہے کہ تواضع خوشامد نہیں بلکہ اعلیٰ ظرفی ہے‘ جو لوگ
بڑی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں بالعموم منکسر المزاج ہوتے ہیں۔ تکبر‘ اوچھے اور گرے
پڑے لوگوں کی پہچان ہے۔ بزرگوں کے درمیان یہ محاورہ بہت مشہور ہے کہ ’’پھل دار درخت
نیچے کی طرف جھکا ہوتا ہے۔‘‘ تجربہ بھی اس فلسفے کی تائید کرتا ہے کہ تواضع وانکساری
کی صفت انہی لوگوں میں پائی جاتی ہے جو اہل ظرف اور عظیم ہوتے ہیں:
جو اہل ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانے
تمسخر سے اجتناب:
کسی کی ذات برادری‘ سماجی ومعاشی حیثیت اور فطری کج روی پر اںگلی
اٹھانا نہایت قبیح اور غیر انسانی عمل ہے۔ لیکن افسوس کہ اس برائی میں زیادہ تر خواتین
مبتلا ہیں۔ یہ معمولی بحث وتکرار میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے لگتی ہیں … تم ایسے
ہو تو تمہارے فلاں ویسے ہیں! یہ قدرت کا نظام ہے کہ اگر آج آپ کسی کے عیب کو اچھال
رہے ہیں تو کل آپ کا بھی عیب اچھالا جائے گا۔ ایسی بہت سی مثالیں اس دنیا میں موجود
ہیں کہ جو لوگ دوسروں کو بد ذات‘ بے حیثیت‘ عیب دار‘ بانجھ یا اولاد کے بدقماش وآوارہ
ہونے کا طعنہ دیا کرتے تھے کچھ دن بعد وہی لوگ ان نقائص کے عین مستحق ٹھہرے۔ اسی لیے
شریعت اسلامیہ میں تمسخر سے بچنے کی تلقین ہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
کوئی قوم کسی قوم کا تمسخر نہ اڑائے‘ نہ ہی برے القاب سے ملقب
کرے جس نے ان باتوں سے توبہ نہ کی وہ ظلم کرنے والوں میں سے ہے۔ (حجرات: ۱۱)
ایثار نفسی:
ایثار کا مطلب ہے کہ اپنی ضرورت اور پسند پر کسی دوسرے کو ترجیح
دینا‘ ایثار ایک ایسا عمل ہے جس سے بے شمار دلوں کو جیتا جا سکتا ہے۔ آپ اپنی ضرورت
یا پسند کی چیزوں پر ماں‘ بہن‘ بھابھی‘ نند‘ ساس‘ جیٹھانی یا دیورانی کسی کو بھی ترجیح
دیجیے اور پھر دیکھیے کہ آپ دونوں کے باہمی تعلقات میں کتنی خوش گوار تبدیلی رونما
ہوتی ہے۔ ایثار ایک مشکل ترین عمل ہے جس کے لیے شرط ہے کہ آپ ’’دل والے‘‘ ہوں۔ کسی
بھوکے کو اپنے حصے کا کھانا کھلا دینا ایثار ہے۔ ٹھنڈ میں کپکپاتے ہوئے کسی مفلوک الحال
کو اپنے بدن کا گرم کپڑا پہنا دینا ایثار ہے۔ کسی معذور یا ضعیف کو اپنی سیٹ پر احترام
کے ساتھ بٹھانا بھی ایثار ہے۔ سراپا ایثار وعمل کا پیکر بننے کے لیے شکر وشکایت کے
بے شمار مرحلوں سے گذر کر آگے آنا ہوتا ہے:
سر تا بقدم پیکر ایثار وعمل بن
ہر مرحلۂ شکر وشکایت سے گذر جا
سادگی:
سادگی سے مراد رہن سہن‘ وضع قطع‘ عادات واطوار اور افکار ونظریات
سب کی سادگی ہے۔ سادگی حسن کا سب سے عظیم معیار ہے۔ یہ احساس لطیف کا مظہر اور اس بات
کی ضمانت ہے کہ متعلقہ فرد بہت سنجیدہ ہے۔ زرق برق‘ طمطراق اور فخر ومباہات ریاکاری
کی نشانیاں ہیں۔ وہ خواتین جو اپنی زندگی کی ہر تقریب‘ رسم اور تہوار میں اعتدال وسادگی
کا اصول اپناتی ہیں‘ ہمیشہ خوش اور پر اعتماد رہتی ہیں۔ ورنہ فیشن‘ تکبر اور دکھاوے
کے زعم میں ایسے بہت سے گھرانے ہیں جنہیں تاریخ کی آنکھوں نے مقروض یا برباد ہوتے ہوئے
بار بار دیکھا ہے۔ اسی لیے اسلام نے ہر معاملے میں سادگی کو فوقیت دی ہے۔ اللہ رب العالمین
کا ارشاد ہے: ’’مومنوں کا معاملہ درمیانہ یعنی سادہ ہوتا ہے۔‘‘ (فرقان: ۶۷)
صلۂ رحمی:
صلہ رحمی کا مطلب ہے دوستوں‘ ملنے جلنے والوں اور بالخصوص رشتے
داروں کے حقوق وواجبات کی مکمل ادائیگی۔ غور کریں تو ایسے بہت سے احباب اور رشتے دار
مل جائیں گے جو ہماری عدم توجہ یا بے رخی کا شکار ہو کر ہم سے کہیں الگ تھلگ اور بے
زار قسم کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ صلہ رحمی کا حقیقی مفہوم دراصل ایسے ہی لوگوں
کی بازیافت اور ان کے حقوق وآداب کی بحالی ہے۔ آج کے اس مصروف ترین زمانے میں جبکہ
ہر شخص تنہائی (Sepration) کی آزمائشوں سے
اُلجھ رہا ہے‘ ایسے میں صلہ رحمی کی قدر وقیمت مزید دگنی ہو جاتی ہے۔ اللہ کے رسول
e کی
حدیث ہے: ’’جسے پسند ہو کہ اس کی روزی میں فراخی اور عمر میں درازی ہو تو وہ صلہ رحمی
کرے۔‘‘ (بخاری: ۵۹۸۵)
حیا وپاکدامنی:
شرم وحیا خواتین کے لیے لازم وملزوم ہے۔ یہ خواتین کا زیور اور
ان کے لیے مترادف استعارہ ہے‘ جس کے بغیر خواتین کی نسوانیت یعنی ’عورت پن‘ کا تصور
ناممکن ہے۔ واضح رہے کہ اعتماد وبے تکلفی ایک شے ہے اور شرم وحیا بالکل دوسری شے۔ پر
اعتماد وبے تکلف ہونے کا مطلب بے شرمی وبے حیائی ہرگز نہیں ہے۔ شرم وحیا ہی تو خواتین
کو مریم ؑکا تقدس عطا کرتی ہے۔ انہیں بیوی‘ بہو اور ساس ہونے کا شرف بخشتی ہے اور یہ
موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ خاندان ومعاشرے کے درمیان ماں‘ بیٹی اور بہن کی حیثیت سے
عزت واحترام کا عظیم رتبہ حاصل کر سکیں۔ آج کے اس اباحیت پسند زمانے میں شرم وحیا کی
قدر وقیمت اس لیے مزید بڑھ جاتی ہے کہ آج طلاق اور زن شو کے درمیان پڑنے والی دراڑ
کے ۸۰ فیصد واقعات بے
تکلفی کے نام پر بڑھنے والی بے شرمی وبے حیائی کی وجہ سے ہی رونما ہوتے ہیں۔ اللہ کے
رسولe کی
حدیث ہے: ’’حیا وپاکدامنی سے ہمیشہ بھلائی حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (بخاری: ۶۱۱۷)
صبر وتحمل:
با حوصلہ خواتین صدمے یا آفت ومصیبت کے وقت اپنا توازن نہیں
کھوتیں بلکہ بے پناہ صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ قدرت کے اٹل اصول ’ہر مشکل کے
بعد آسانی ہے‘ پر کامل یقین رکھتی ہیں‘ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ اگر ابھی
آفت کی چلچلاتی دھوپ ہے تو تھوڑی ہی دیر بعد آسانی کی چھاؤں ضرور ہو گی۔ وہ آج کے
اندھیرے سے ڈرنے کی بجائے کل کے اجالے کا انتظار کرتی ہیں اور اپنے کردار وعمل سے یہ
ثابت کر دیتی ہیں:
کچھ اور بڑھ گئے جو اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم
شکر گذاری:
شکر گذاری ایک عظیم صفت ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ کے اندر
کہیں نہ کہیں مروت وممنونیت کا جذبہ ہے۔ شکر گذاری احسان مندی کے دباؤ کو بھی کم کرتی
ہے۔ غور کرنے پر ہمیں ایسی بہت سی ہستیاں مل جائیں گی جنہوں نے کسی نہ کسی طرح ہم پر
کوئی بڑا احسان کیا ہے۔ سب سے بڑا احسان تو اس ذات باری کا ہے جس نے ہمیں پیدا کیا‘
پھر ہمارے والدین اور اس کے بعد دیگر مخلصین۔ ہمیں فراخی وتنگی ہرحال میں اپنے محسنین
کو یاد رکھنا چاہیے اور ان کا موقع کی مناسبت سے شکریہ بھی ادا کرتے رہنا چاہیے۔ شکر
گذاری انسان کو اس کی اصلی حیثیت یاد دلاتی ہے اور انسان کو اس کی اصلی حیثیت یاد دلاتی
ہے اور انسان کے اندر تواضع وقناعت کا جذبہ بھی پیدا کرتی ہے۔ اللہ رب العالمین کا
ارشاد ہے: ’’اللہ کی عبادت کرو اور شکر کرنے والے بن جاؤ۔‘‘ (زمر: ۳۹۰)
سماجی برائیوں
سے گریز:
غیبت‘ شکوہ شکایت‘ چغل خوری اور حسد جلن خطرناک قسم کی سماجی
برائیاں ہیں جن سے خاندان ومعاشرے میں طرح طرح کے بگاڑ‘ انتشار‘ فتنے اور تفرقے پیدا
ہوتے ہیں۔ مہذب اور باشعور خواتین اپنے آپ کو ان برائیوں سے بہرصورت دور رکھتی ہیں۔
اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچو … ایک دوسرے
کی جاسوسی اور غیبت نہ کرو۔‘‘ (حجرات: ۱۲)
یہ وہ اصول ہیں جنہیں خواتین اپنی روز مرہ کی زندگی میں نافذ
کر کے خاندان ومعاشرے کو اتحاد وہم آہنگی‘ امن واحسان‘ ایثار ووفا اور شرافت وسنجیدگی
کی بے شمار نعمتوں سے سرفراز کر سکتی ہیں جس کے لیے خلوص وہمت بنیادی شرط ہے۔
No comments:
Post a Comment