سرکاری خزانے سے مندروں کی تعمیر
تحریر: جناب پروفیسر
عاصم حفیظ
حکومت ۴۰۰ مندر تعمیر کرے گی۔ اس منصوبے کا تخمینہ ۱۱۰۰ ارب روپے تک لگایا
گیا ہے کیونکہ پرانے مندروں کو اصلی حالت میں لانے کیلئے بھاری اخراجات درکار ہوں گے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کا باقاعدہ اعلان کرتارپور کی تقریب میں کیا ہے۔
کرتارپور ۸۴۲ ایکٹر پر دنیا کا سب سے بڑا گوردوارہ ہے کیونکہ مزید ۸۰۰ ایکٹر سے زائد زمین
خرید کر گوردوارے میں شامل کی گئی ہے۔ یہاں فی ایکڑ قیمت چالیس سے پچاس لاکھ ہے۔ کوریڈور
کی تعمیر پر اربوں کے اخراجات اور ان آٹھ سو ایکڑوں کی خریداری کا تخمینہ آپ خود
لگا لیں۔ اب ۱۱۰۰ ارب کے منصوبے سے
چار سو مندر تعمیر ہوں گے۔
اقلیتوں کے لیے عبادت کے حق سے کوئی بھی انکاری نہیں‘ یہ حق
انہیں ملنا چاہیے۔ مسلمان فراخدلی سے یہ حق تسلیم کرتے ہیں۔ ہمیں کسی اقلیت سے کوئی
مسئلہ نہیں۔ ان کے حقوق کا خیال رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ ہم تنگ دل نہیں۔
لیکن اس جذباتی ماحول میں صرف اتنی گزارش ہے کہ کیا اس ملک کے
کروڑوں باسیوں کا کیا کوئی بھی حق نہیں؟؟ سیالکوٹ میں اربوں کے اخراجات سے جو مندر
بحال کیا گیا اس میں عبادت کے لئے ایک بھی ہندو موجود نہیں۔
مہنگائی اور بے روزگاری کو خود حکومت تسلیم کرتی ہے لیکن اس
کے لئے چند اربوں کا بھی کوئی منصوبہ نہیں؟؟
لیکن سوال صرف یہ ہے کہ کیا ملکی معاشی حالت زار اتنے بھاری
اخراجات کی اجازت دیتی ہے؟
ہسپتالوں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ وزیر صحت کہتے ہیں کہ غریبوں
کا مفت علاج نہیں کر سکتے۔ لہٰذا تمام تر مفت سہولیات کو چھیننے کے بعد سرکاری ہسپتالوں
میں آپریشنز کی بھاری فیسیں لگا دی گئیں ہیں۔
کینسر اور کئی بیماریوں کی مفت ادویات کے پروگرامز ختم ہو چکے
ہیں کیونکہ بجٹ نہیں ہے۔
یونیورسٹیوں کے فنڈز ختم کر دئیے گئے۔ طلبہ وطالبات کے لیے ہائیر
ایجوکیشن کی سکالرشپس ختم ہو چکی ہیں۔
نابینا اور معذور افراد تنخواہیں نہ ملنے پر‘ خواتین ٹیچرز بھی
کئی ماہ سے تنخواہیں بند ہونے پر سراپا احتجاج ہیں۔ حکومت کا سادہ سا موقف ہے کہ فنڈز
نہیں ہیں۔
وزیراعظم نے نوجوانوں کے لیے جو قرضہ سکیم شروع کی ہے یعنی ایسے
پیسے جو واپس کیے جائیں گے اس پر بھی بھاری شرح سود عائد کی گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے
کہ یہ قرضہ دیا کس فنڈ سے جائے گا؟
بجلی و پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہر ماہ بڑھائی جا رہی ہیں‘
بہانہ یہ ہے کہ ملکی خزانہ خالی ہے۔
سوال اس لبرل و سیکولر طبقے اور فؤاد چوہدری جیسوں سے بھی ہے
کہ انہیں رؤیت ہلال کمیٹی کے سالانہ ۴۰ لاکھ اخراجات بہت دکھ پہنچاتے تھے۔ اس بارے کیا خیال ہے؟؟
حج و عمرے کے اخراجات ڈبل کرتے ہوئے دلیل دی گئی کہ حکومت عبادت
کے لئے سرکاری سبسڈی نہیں دے سکتی لیکن یہاں تو سینکڑوں ارب خرچ کئے جا رہے ہیں وہ
بھی عبادات میں سہولت کے نام پر ہی۔
اگر سکھوں ہندوؤں کی مذہبی عقیدت کی خاطر اربوں روپے خرچ ہو
سکتے ہیں تو کیا کوئی مسلمان مکہ مدینہ جانے کی سہولت بھی مانگ سکتا ہے یا اس کی اجازت
نہیں؟؟ یا مذہبی سہولیات کے حصول کے لیے اس پر مذہب تبدیل کرنا لازمی شرط ہے؟
کیا عبادت کا حق اور اپنے مقدس مذہبی مقامات کو دیکھنے کی تمنا
صرف ہندو وسکھوں کے دلوں میں ہی ہے کوئی مسلمان یہ خواہش نہیں رکھ سکتا؟ حکومت ان کیلئے
کوئی ایک بھی سہولت کیوں متعارف نہیں کراتی بلکہ پہلے سے دستیاب سہولیات چھین کر حج
عمرے اور زیارات کے اخراجات مسلسل بڑھائے جا رہے ہیں۔
کمال تو یہ بھی ہے کہ اربوں کے اخراجات کرکے جو مندر بحال کئے
جا رہے ہیں وہاں عبادت کرنے کے لیے کوئی ہندو دستیاب ہی نہیں۔ اب کیا حکومت عبادت کے
لئے پنڈت اور جوگی سادھو بھی سرکاری خرچ پر لائے گی؟؟ اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ اقلیتوں
کو ہی صحت تعلیم اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے لیے یہ اربوں خرچ ہوں اور اگر حکومت
کو ترس آ جائے تو کچھ رقم مسلمانوں پر بھی خرچ کر دے جو کہ غربت و مہنگائی کی چکی
میں پس رہے ہیں۔
سیکولر ولبرل طبقہ جو کہ حج و قربانی‘ رمضان المبارک اور مساجد
جو کہ لوگ مکمل طور پر اپنے ذاتی پیسوں سے سرانجام دیتے ہیں اس پر بڑی جذباتی کہانیاں
گھڑتا ہے۔ غریب بچوں کی تصاویر ساتھ لگائی جاتی ہیں لیکن اس سینکڑوں ارب کے سرکاری
خرچے پر چپ سادھے بیٹھا ہے۔ کیونکہ یہ خرچہ اسلامی عبادت گاہوں پر یامسلمانوں کے لیے
نہیں ہو رہا اور یہی ان کے چپ ہونے کی وجہ ہے۔
یقین مانیں اقلیتوں کیلئے مذہبی آزادی‘ عبادت کی سہولیات اور
ان کے حقوق کا خیال رکھنے پر نہ تو کسی کو اعتراض ہے اور نہ ہی کوئی مخالف۔ کیونکہ
بہت سے ممالک میں خود مسلمان بھی تو اقلیت ہیں۔ لیکن جب ایک طرف خالی خزانے کا ڈھنڈورا
پیٹا جا رہا ہو۔ مہنگائی بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہو۔ عوامی سہولیات چھینی
جا رہی ہوں کہ فنڈز نہیں ہیں۔ وہیں سینکڑوں ارب کے ایسے منصوبے بنائے اور مکمل بھی
ہو رہے ہوں تو پھر سوال تو اٹھیں گے؟ جہاں زندگی کی بنیادی ضروریات ختم ہو رہی ہوں
وہاں پر ایسے شاہانہ منصوبے شروع کر دئیے جائیں۔
دوسری جانب جب حکومت ’’مسلمان عبادت گاہ‘‘ کو ایک مکمل پرائیوٹ
مسئلہ قرار دیتی ہے‘ کبھی سرکار نے کسی مسجد مدرسے کی تعمیر میں حصہ نہیں ڈالا بلکہ
بادشاہی مسجد اور مزارات سے سالانہ اربوں روپے کی آمدن ہوتی ہے‘ اسی طرح اوقاف کی
زمینیں وجائیدادیں حکومت کی بڑی آمدن کا ذریعہ ہیں۔
ہمارے ہاں تو شاید لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ انڈونیشیا ملائیشیا
جیسے کئی ممالک میں ہر شہری کو شادی سے پہلے حج عمرہ کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
اقلیتی عبادت کو کسی حد تک سپورٹ کرنا تو سمجھ آتا ہے لیکن
سینکڑوں ارب کے اخراجات کی دلیل کیا ہو گی؟
مانا کے ملک میں اس وقت کرتار پور کوریڈور کے حوالے سے ایک مخصوص
جذباتی فضا بنائی گئی ہے لیکن سوال تو بنتا ہے کہ جب مسلمان عبادت گاہ پر عوامی ضرورت
و مسائل کے لیے کوئی چھوٹا سا خرچہ بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ خزانہ خالی ہے تو اقلیتی
عبادت گاہوں کے لیے سینکڑوں ارب خرچ کرنے کی آخر کیا وجہ ہے؟
کچھ لوگ اسے عالمی تعلقات اور ملکی تأثر کے ساتھ جوڑ رہے ہیں
لیکن عرض صرف یہ ہے کہ اگر دنیا مذہبی رواداری کی بنیاد پر اچھے تأثر پر چل رہی ہوتی
تو آج عرب ممالک مسئلہ کشمیر پر بھارت کیساتھ نہ کھڑے ہوتے؟ یہ سب خوابوں کی باتیں
ہیں جن کو حقیقت بننے کے لیے ایک عمر چاہیے۔ یہ ہو گا پھر یہ ہوگا پھر ایسے ہو جائے
گا۔ یہ سب زبانی کلامی جمع خرچ ہیں صرف اتنا یاد رکھیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی
نے کرتارپور کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ کرتارپور کی بات اس جذباتی ماحول میں
نہیں ہو سکتی کیونکہ ابھی سب ایک دھن پر سوار ہیں۔ ایسا ماحول بنایا جاتا ہے اگر کسی
کو سمجھنا ہو تو ڈیم فنڈز‘ پانی کے خاتمے اور اس دوران چلنے والی میڈیا مہم‘ اشتہارات‘
سیمینارز اور بیانات کو یاد کر لے‘ اب یہ مسئلہ البتہ حل ہو چکا۔
حقیقت یہی ہے کہ دنیا مضبوط معیشت اور معاشی تعلقات کی بنیاد
پر چلتی ہے۔ ہمیں بھی اسی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ترلے منتوں سے ترس تو کھا سکتے
ہیں لیکن تعلقات نہیں بنتے۔
No comments:
Post a Comment