احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
یوٹیوب سے رقم کمانا
O سوشل
میڈیا کے کئی ایک فوائد ہیں‘ جن میں سے ایک یہ ہے کہ اکثر لوگ اس کے ذریعے پیسے کماتے
ہیں جبکہ اس پر گندے اور مخرب اخلاق اشتہارات بھی آتے ہیں۔ ایسے حالات میں کیا اسے
ذریعہ معاش بنایا جا سکتا ہے؟
P دور حاضر میں سوشل میڈیا کی حیثیت دو دھاری تلوار کی
طرح ہے۔ اس میں بے شمار فوائد ہیں لیکن اس کے نقصانات‘ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ جملہ
فوائد ونقصانات اس کے استعمال سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس بناء پر ہمیں آنکھیں کھول کر اسے
استعمال کرنا چاہیے۔ سوال سوشل میڈیا کی ایک قسم یوٹیوب کے ذریعے پیسے کمانے کے متعلق
پوچھا گیا ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ صارف محنت کر کے کچھ مواد اکٹھا کرتا ہے‘ وہ مواد
کئی طرح کا ہوتا ہے۔ پھر اسے ویڈیو کی شکل میں یوٹیوب کو دیتا ہے‘ اسے جو لوگ استعمال
کرتے ہیں وہ اس مواد کو دیکھتے ہیں اور اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس مواد کو جتنے زیادہ
لوگ دیکھتے ہیں یو ٹیوب کو اس سے مالی فائدہ ہوتا ہے‘ اس مالی فوائد سے کچھ حصہ اس
صارف کو بھی دیا جاتا ہے جو محنت سے تیار کردہ مواد یوٹیوب کو مہیا کرتا ہے۔ شرعی طور
پر اس سے مالی فوائد حاصل کرنے کے لیے چند ایک شرائط ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
\ اس ویڈیو میں
کسی جاندار بالخصوص عورتوں کی تصاویر نہ ہوں۔
\ اس مواد میں
کسی غیر شرعی اور ناجائز کام کی ترویج وشہرت نہ ہو۔
\ ویڈیو میں موسیقی‘
گانا بجانا اور ڈھول وغیرہ کی سر تال نہ ہو۔
\ اس ویڈیو کے
دوران غیر شرعی اشتہارات نہ چلائے جائیں جو مخرب اخلاق ہوں۔
\ رقم کی وصولی
کسی بھی سودی یا غیر شرعی معاملہ پر مشتمل نہ ہو۔
اگر ان شرائط کی پابندی کی جائے تو یو ٹیوب کو ذریعہ معاش بنایا
جا سکتا ہے۔ لیکن ہماری معلومات کے مطابق ایسا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کیونکہ
یہ بات ہمارے مشاہدہ میں ہے کہ یو ٹیوب پر کسی بھی مفید ویڈیو میں اچانک کوئی اشتہار
آ جاتا ہے جو غیر شرعی ہونے کے ساتھ ساتھ مخرب اخلاق بھی ہوتا ہے۔ ایسے اشتہارات سے
ہی یوٹیوب کو بھاری مالی فائدہ ہوتا ہے۔ اس میں اگرچہ صارف کا کچھ بھی اختیار نہیں
ہوتا لیکن ایسے اشتہارات اس کے پیش کردہ مواد کے دوران چلائے جاتے ہیں۔ اسے چاہیے کہ
یو ٹیوب انتظامیہ سے یہ معاہدہ کرے کہ ہماری پیش کردہ ویڈیو کو چلاتے وقت درمیان میں
کسی قسم کے اشتہارات نہ دیئے جائیں۔ اگر اس کی پابندی نہ ہو تو یوٹیوب کے ذریعے مالی
مفاد حاصل کرنا انتہائی محل نظر ہے۔ واللہ اعلم!
لگڑ بگڑ کیا ہے؟!
O احادیث
میں ’’ضبع‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ اس کا عام طور پر معنی بجو کیا جاتا ہے‘ کچھ اہل علم اس
کا معنی ’’لگڑ بگڑ‘‘ کرتے ہیں۔ اس کی وضاحت کریں نیز بتائیں کہ کیا یہ جانور حلال ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی تفصیل بیان کریں۔
P اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے برصغیر میں کچھ مخصوص
حالات کے پیش نظر چند الفاظ کے ایسے معانی مشہور ہو چکے ہیں جو بالکل غلط ہیں۔ مثلاً
ہمارے ہاں ’’ضب‘‘ کا معنی گوہ کر دیا جاتا ہے حالانکہ اس کا معنی گوہ نہیں بلکہ ’’سانڈہ‘‘
ہے۔ اسی طرح ہم ’’ضبع‘‘ کا معنی بجو ہی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں بلکہ
اس کا معنی ’’لگڑ بگڑ‘‘ ہے جو بجو سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ذیل میں ہم ان دونوں جانوروں
کی تفصیل پیش کر رہے ہیں:
\ بجو: … اسے عربی میں ’’غریر‘‘ کہتے ہیں۔ یہ پست قد اور بدصورت جانور ہے‘ اس کے پنجے
بہت تیز اور مضبوط ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے زمین کھود کر بڑی تیزی سے زیر زمین چلا جاتا
ہے۔ قبر کے نیچے پہنچ کر مردہ کو اپنی خوراک بناتا ہے۔ اگر اسے محسوس ہو کہ کوئی آدمی
اس کا پیچھا کرتا ہے تو بڑی بھیانک اور خوفناک آواز نکالتا ہے جسے سن کر آدمی بھاگ
جاتا ہے کہ شاید یہ مردے کی آواز ہے۔ ایشیا میں اس کی پشت پر بال ہوتے ہیں جبکہ آسٹریلیا
اور افریقہ میں پائے جانے والے بجو کی پشت کچھوے کی طرح سخت ہوتی ہے۔ وہاں اس کا نام
فروۃ الغریر ہے‘ بدصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ ہمارے ہاں بھی بد صورتی کا طعنہ دینے
کے لیے ’’بجو والا چہرہ‘‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ سیدنا ابراہیمu کے
باپ کو بھی بجو کی شکل میں بدل دیا جائے گا جو گندگی سے لتھڑا ہو گا‘ اس کا ذکر حدیث
میں بھی ہے وہاں اس کا نام ’’ذیخ‘‘ ہے۔ (بخاری‘ احادیث الانبیاء: ۳۳۵۰)
مولانا
محمد داؤد رازa نے
اس لفظ کو ’’ذبح‘‘ خیال کر کے ’’ایک ذبح کیا ہوا جانور‘‘ ترجمہ کیا ہے۔ (بخاری مترجم:
ج۴‘ ص ۵۱۶) … بہرحال یہ جانور
انتہائی بدصورت اور کریہہ المنظر ہے۔
\ لگڑ بگڑ: … اسے عربی میں
’’ضبع‘‘ کہتے ہیں۔ یہ درمیانے بکرے جتنا قد رکھتا ہے۔ یہ ایک گوشت خور جانور ہے۔ افریقہ
کے جنگلات میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ وہاں سے جزیرہ عرب میں اس کی آمد ہوتی تھی۔ مصر
میں نہر سویس بننے کے بعد اس کا جزیرۂ عرب میں آنے کا راستہ بند ہو چکا ہے۔ اب یہاں
صحراؤں میں نایاب ہے۔ اس کا شکار بھی کیا جاتا ہے۔ خود بھی شکار کرتا ہے لیکن جماعت
کی صورت میں۔ عام آبادی سے دور جنگلات میں رہتا ہے۔ اس کی حلت وحرمت کے متعلق اختلاف
ہے۔ ذیل میں ہم اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں:
\ یہ حرام ہے … احناف کا موقف بھی یہی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ کچلی والا ہے اور کچلی والا
ہر جانور حرام ہے‘ جیسا کہ رسول اللہe کا
ارشاد گرامی ہے: ’’ہر کچلی والا جانور حرام ہے اور اس کا گوشت کھانے کی ممانعت ہے۔‘‘
(مسلم‘ الصید: ۱۹۳۲) … لگڑ بگڑ بھی کچلی والا ہے لہٰذا یہ حرام ہے۔ … رسول اللہe نے
اس سے کراہت کا اظہار کیا ہے۔ لہٰذا یہ حرام ہے۔
\ یہ حلال جانور ہے اور اس کا کھانا
جائز ہے … صحابہ کرام] میں
سے سیدنا علی‘ سیدنا عبداللہ بن عمر‘ سیدنا عبداللہ بن عباس‘ سیدنا جابر بن عبداللہ‘
سیدنا ابوہریرہ‘ سیدنا سعد بن ابی وقاص اور سیدنا ابوسعید خدری] ہیں۔
احناف میں سے ابویوسف اور امام محمد بن اس کے قائل ہیں۔ شوافع اور حنابلہ کا بھی یہی
موقف ہے۔ ان کے دلائل یہ ہیں: ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر بن عبداللہt سے
’’ضبع‘‘ لگڑ بگڑ کے متعلق سوال کیا کہ آیا یہ شکار ہے؟ انہوں نے جواب دیا ’’ہاں‘‘ یہ
شکار ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آیا میں اسے کھا سکتا ہوں؟ فرمایا: ہاں کھا سکتے ہو۔ پھر
عرض کیا: آیا رسول اللہe نے
ایسا ہی فرمایا ہے؟ سیدنا جابرt نے
جواب دیا: ہاں رسول اللہe کا
فرمودہ ہے۔ (ترمذی‘ الاطعمہ: ۱۷۹۱)
علامہ
البانیa نے
اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (ارواء الغلیل‘ حدیث نمبر: ۲۴۹۴)
ان حضرات نے تحریم کے دلائل کا یہ جواب دیا ہے کہ تحریم کی دلیل
کے عموم سے سیدنا جابرt سے
مروی حدیث کے ذریعہ اسے خاص کیا گیا ہے۔
نیز یہ بھی کہا ہے کہ حدیث تحریم ان جانوروں کے متعلق ہے جن
کی کچلیاں ہوں اور وہ عادت اور فطرت کے طور پر حملہ آور اور درندہ صفات کے حامل ہوں
جبکہ لگڑ بگڑ کچلی والا جانور تو ہے لیکن عادی درندہ نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ سائل
نے سیدنا جابر بن عبداللہt سے
سوال کیا: آیا یہ حلال ہے؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہe نے
ایسا ہی فرمایا ہے۔ (مسند امام احمد‘ حدیث نمبر: ۱۴۱۶۵)
بہرحال ان روایات سے لگڑ بگڑ کا شکار ہونا اور مأکول اللحم
ہونا دونوں ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے حلال ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ محرم آدمی اگر
اس کا شکار کرے تو ایک بکری بطور فدیہ دینا پڑتی ہے‘ جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت
ہے۔ (ابوداؤد‘ الاطعمہ: ۳۸۰۱)
مانعین کی طرف سے جو ترمذی کی روایت پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہe نے
اس کے متعلق کراہت کا اظہار کیا تھا‘ وہ سند کے اعتبار سے ثابت ہی نہیں۔ جیسا کہ امام
ترمذیa نے
خود روایت کو بیان کرنے کے بعد اس کی صراحت کر دی ہے۔ نیز محدث العصر جناب علامہ البانی
مرحوم نے بھی اس کی خوب وضاحت کی ہے۔
ملاحظہ: ترمذی کی روایت مذکور پر حافظ ابن قیمa نے
اس کے متعلق بہت عمدہ بحث کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں: ’’لگڑ بگڑ بھی اگرچہ درندہ ہی ہے لیکن
ہر درندے میں حرمت کی دو وجہیں ہیں: ایک کچلیوں کا ہونا اور دوسرا عادی درندہ ہونا
اور درندگی کا وصف کچلیاں ہونے کے مقابلہ میں زیادہ اہم اور خاص ہے۔ اس لیے کہ ایسے
جانور کا گوشت کھانے والے میں درندگی والی قوت آجاتی ہے جیسے شیر اور بھیڑیا وغیرہ
ہیں۔ لگڑ بگڑ کچلیوں والا تو ہے لیکن اس میں درندگی والی وہ قوت نہیں جو مذکورہ جانوروں
میں پائی جاتی ہے‘ اس بناء پر اسے حلال قرار دیا گیا ہے۔ (اعلام الموقعین: ج۲‘ ص ۱۳۶)
اگرچہ اصلی قانون یہی ہے کہ کچلی والے درندے حرام ہیں لیکن شارع
u نے
اس عام قانون سے لگڑ بگڑ کو مستثنیٰ قرار دیا ہے‘ جیسا کہ چھپکلی کی ہر قسم حرام ہے
لیکن سانڈہ حلال ہے۔ شریعت کے اصول وضوابط میں کچھ مستثنیٰ بھی ہوتے ہیں‘ جیسا کہ حشرات
الارض تمام حرام ہیں لیکن جراد حلال ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ حکیم ہے اس کے ہر کام میں
حکمت ضرور ہوتی ہے۔ لگڑ بگڑ کے حلال ہونے میں یہ حکمت ہے کہ اس کے گوشت کے استعمال
سے جسم میں ہارمون کی کمی بیشی اعتدال پر آ جاتی ہے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment