عالمی
طاقتیں تنازعہ کشمیر پر خاموش کیوں؟!
قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے بالکل درست فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ
ہے۔ اسے دشمن کے قبضے میں نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ کم وبیش پون صدی
سے ہمارے دشمن ملک بھارت نے اپنی درندہ صفت فوج کے ذریعے اس پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا
ہے۔ بھارت کی ظالم وسفاک فوج نے ہزاروں مسلمانوں کو شہید‘ لا تعداد بچوں کو یتیم اور
بے شمار خواتین کو بیوہ کرنے کے ساتھ ہزاروں بچیوں کو بے آبرو کر دیا ہے۔ اب ستم بالائے
ستم یہ ہے کہ ہندو کی ظالم فوج نے تین ماہ سے زیادہ دنوں سے مقبوضہ کشمیر کا محاصرہ
کر رکھا ہے اور مظلوم ونہتے کشمیری عوام کو مسلسل ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہی
ہے۔ اسّی لاکھ کشمیری مسلمانوں پر مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کر کے اور وادی سے ذرائع
مواصلات کا خاتمہ کر کے کشمیریوں کو قید تنہائی کا شکار کر رکھا ہے۔ پھر ان پر ضروریات
زندگی کی فراہمی اور ہسپتالوں میں ضروری طبی سہولتوں کو بند کر کے ان کی زندگی اجیرن
بنا رکھی ہے۔ اس کے باوجود کشمیری حریت پسندوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ جرأت وایثار
اور قربانی کی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں حریت کانفرنس کے چیئرمین سید
علی گیلانی نے اپنے ایک مکتوب میں پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’پاکستان بھارت کے
ساتھ معاہدوں سے دست بردار ہو جائے۔‘‘
اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور
خطے کو براہ راست بھارتی عملداری میں لانے کے مودی سرکار کے فیصلے کے بعد بھارت میں
ریاستی ٹوٹ پھوٹ بڑھتی جا رہی ہے مگر ہنومان کی قوم کو اس کا احساس نہیں کہ وہاں چھ
صد اضلاع میں سے دو صد اضلاع میں علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ اس کے ساتھ
ہی نسلی تنازعات اور ذات پات کے جھگڑے بڑھ چکے ہیں۔ اس کی وجہ بھارت کا جبری نظام ہے
جس سے بھارت کے کئی ٹکڑے ہو جائیں گے۔
یوں تو بھارت کے ہمنوا اسے ایک بڑا جمہوری ملک کہتے ہیں لیکن جس قدر جمہوری قدریں
اور انسانی حقوق وہاں پامال ہو رہے ہیں اور اقلیتیں غیر محفوظ ہیں اس کی جس قدر مذمت
کی جائے کم ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے دشمن رویے اور منفی کردار کو نظر انداز کیا
ہے اور بھارت سمیت د نیا کو امن کا پیغام دیا ہے۔ اس کے برعکس بھارت نے مسلمانوں کو
منفی پیغام دیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی بابری مسجد مقدمہ میں نہایت تعصب‘
ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجد کی جگہ ہندوؤں کے حوالے کرنے اور حکومت کو مندر
تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ کشمیر‘ تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ فیصلے کے مطابق جہاں مسلمانوں
کی تعداد زیادہ ہو وہ علاقہ پاکستان میں شامل ہو گا۔ اس طرح کشمیر آبادی اور تاریخی
اعتبار سے پاکستان کا حصہ ہے۔ مگر انگریز‘ ہندو اور مہاراجہ کشمیر کی ملی بھگت سے اس
پر بھارت نے قبضہ کر لیا۔ مجاہدین نے آزاد کشمیر کا علاقہ جنگ کے ذریعے حاصل کیا تھا‘
جب مجاہدین سرینگر کے قریب پہنچنے والے تھے تو اس وقت بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو نے
یو این او پہنچ کر جنگ بند کروا دی اور اقوام متحدہ نے اپنے ذمہ داروں کے ذریعے طے
کیا کہ کشمیر کا مسئلہ استصواب رائے کے ذریعے حل کیا جائے گا جسے بھارت نے بھی تسلیم
کیا۔ مگر وہ اب تک استصواب رائے کے اس حل کے لیے تیار نہیں ہوا بلکہ کشمیر کو بھارت
کا اٹوٹ انگ ہی کہہ رہا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی قرار دادوں پر
عمل درآمد کروائے مگر وہ بھی خاموش ہے۔ جب تک کشمیر کے مسلمانوں کو اقوام متحدہ کی
قرار دادوں کے مطابق حق خود ارادیت نہیں دیا جاتا خطے میں امن خطرے میں رہے گا۔ فوری
طور پر ضرورت اس بات کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھایا جائے تا کہ مسلمان قید
تنہائی سے رہائی پا سکیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ عالمی طاقتوں کو کشمیر کے مرغزاروں
سے دھوئیں کا احساس نہیں اور نہ ہی کشمیری مسلمانوں کی صدائے درد کو سننے کے لیے تیار
ہے۔ ملک کے حکمران بھی بتائیں کہ یو این او کی تقریر کے بعد انہوں نے کشمیر کے لیے
کیا کیا ہے؟!
No comments:
Post a Comment