درسِ قرآن
مومنین کے لیے تسلی
ارشادِ باری ہے:
﴿كِتٰبٌ اُنْزِلَ
اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ﴾
’’یہ ایک عظیم کتاب
ہے جو آپ کی طرف نازل کی گئی ، اس کی تبلیغ سے آپ کے سینے میں کسی قسم کی تنگی نہیں
ہونی چاہیے، تاکہ اس سے آپ ڈراتے رہیں۔‘‘ (الاعراف)
قرآن مجید کو اللہ تعالی نے ہر انسان کے لیے اور تمام اوقات
کے لیے منبع رشد و ہدایت بنایا ہے ، اس کی آیات کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بے شمار
فوائد اور ہدایت کی بیسیوں راہیں موجود ہوتی ہیں۔ مذکورہ آیت کریمہ میں ہر اس داعی
اور مومن کے لیے تسلی اور رہنمائی کا سامان ہے جو شعائر اسلام پر عمل کی بنا پر اپنے
ہی رشتہ داروں میں طرح طرح کے القابات سے پکارا
جاتا ہے۔ ’’قدامت پسند‘‘ اور ’’پرانے خیالات‘‘ کا کہہ کر اس سے اعراض کیا جانے لگتا
ہے۔ رشتوں ناتوں اور خاندانی تقریبات میں اس ٍسے منہ موڑا جاتا ہے۔
اللہ کے رسول e نے
جب تبلیغ اسلام کی ابتداء کی تو آپ e کے دشمنوں کا بھی یہی ر د عمل تھا ، تکذیب کی گئی، عجیب
الزام تراشیوں اور القابات سے استقبال کیا جاتا ، راستے میں کڑوی کسیلی باتیں کرکے
آپe کو
ذہنی اذیت دی جاتی۔ قرآن کریم نے آپ e کی اس حالت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :
﴿وَ لَقَدْ نَعْلَمُ
اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَۙ۰۰۹۷﴾
’’اور یقیناً ہم
جانتے ہیں کہ جو کچھ (یہ کفار )کہتے ہیں اس سے آپ کا سینہ (دل) تنگ ہوتا ہے۔‘‘
آپeکو اللہ نے اپنی جناب سے تسلی دی ہے اور یہی تسلی آج کے مومن
اور اسلام پر عمل پیرا شخص کے لیے کافی ہے ، جس کو سن کر ایک داعی ، ایک باعمل مسلمان،
سنن رسولe سےمحبت
کرنے والا اور ان پر عمل کرنے والا انسان اپنے لیے راحت اور سینے کی کشادگی کا سامان کرسکتا
ہے:
﴿وَ اصْبِرْ وَ مَا
صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَ لَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا
يَمْكُرُوْنَ۰۰۱۲۷﴾
’’اے نبی! آپ صبر
کریں اور آپ کا صبر کرنا بھی اللہ کی ہی توفیق سے ہے ، اور ان (کفار کے رویوں) پر
غم نہ کھائیں، اورنہ آپ اس پر تنگی میں مبتلا ہوں، جو وہ مکر(سازشیں )کرتے ہیں۔‘‘
آج اکثر جگہوں پر مسلمان پر ڈھائے جانے والے مظالم اور مسلم
ممالک میں شعائر اسلام کی بے حرمتی کی وجہ سے بندہ مومن کادل کڑھتا ہے ، ایسے حالات
میں قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی ہدایت سے ہی دلوں کو تسلی ملتی ہے ، ان حالات میں
اللہ نے ہماری کیا رہنمائی کی ہے ؟ اور رسول اللہe نے ان حالات کا کس طرح سے مقابلہ کیا ؟ اس پر غور وفکر
کی ضرورت ہے۔
درسِ حدیث
اعزاز نبوی ﷺ
فرمان نبویﷺ ہے:
[عن جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: "أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ
أَحَدٌ مِنَ الأَنْبِيَاءِ قَبْلِي؛ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ
لِي الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، وَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ
الصَّلاَةُ فَلْيُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِي الغَنَائِمُ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ
إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ."]
(بخاری ومسلم)
سیدنا جابرt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا: ’’مجھے پانچ ایسی فضیلتیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی پیغمبر
کو عطا نہیں کی گئیں۔ مجھے اس رعب کے ساتھ نصرت عطا کی گئی جو ایک ماہ کی مسافت کی
دوری سے (دشمن پر) اثر انداز ہوتا ہے، میرے لیے ساری زمین سجدہ گاہ اور پاک کر دینے
والی بنا دی گئی اور میرے لیے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے کسی
نبی کے لیے حلال نہیں تھا۔ مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے اور مجھ سے پہلے ہر نبی کو خاص
طور پر صرف اپنی ہی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا جبکہ میں تمام لوگوں کی طرف رسول
بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘ (بخاری ومسلم)
اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی رہنمائی کے لیے آسمان سے وحی
نازل کی اور انبیاء مبعوث فرمائے اور انہیں معجزات بھی عطا کیے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت
محمدe کو
دیگر معجزات کے ساتھ ساتھ کچھ انعامات بھی دیئے گئے جن کا فائدہ قیامت تک آنے والے۔
لوگوں کو بھی پہنچتا رہے گا۔ آپe نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک ماہ کی مسافت
سے اپنے مخالف پر رعب عطا کر دیا ہے۔ میرے لیے پوری زمین سجدہ گاہ اور پاک بنا دی گئی
ہے۔ یعنی پانی میسر نہ ہو یا پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر
لیں اور جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے اور مسجد موجود نہ ہو تو پاک زمین پر نماز پڑھ
لیں۔ گذشتہ اقوام کو یہ سہولت میسر نہ تھی آپe کی برکت سے پوری روئے زمین کو سجدہ گاہ بنا دیا۔ تیسری
بات آپe نے
یہ فرمائی کہ میرے لیے مال غنیمت حلال کر دیا گیا۔ مالِ غنیمت اس مال کو کہا جاتا ہے
جو کافروں کے ساتھ لڑائی میں فتح کی صورت میں مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ پہلی امتوں
کے لیے یہ مال حلال نہیں تھا لہٰذا جو مال غنیمت میں ہاتھ آئے وہ آنحضرتe اور
آپ کے ساتھیوں کے لیے حلال قرار دیا گیا۔ آپe نے فرمایا کہ ’’مجھے قیامت کے دن شفاعت کرنے کی اجازت
دی جائے گی۔ کوئی نبی اللہ کے دربار میں لوگوں کی بخشش کی دعا نہیں کریں گے یہ اعزاز
بھی ہمارے پیارے نبیe کے
حصے میں آیا کہ آپ پوری انسانیت کے لیے شفاعت فرمائیں گے اور آپe کی
شفاعت کے نتیجے میں بہت سے لوگ عذاب قیامت سے بچ جائیں گے اور جنت میں داخل ہوں گے۔
نبی کریمe سے
قبل جتنے بھی نبی آئے وہ اپنی قوم اور اپنے علاقے کے لیے آئے مگر آپe پوری
انسانیت کے لیے قیامت تک نبی مبعوث ہوئے۔ آپe کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
No comments:
Post a Comment