Sunday, December 08, 2019

احکام ومسائل 46-2019


احکام ومسائل

جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت:  مرکز الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان  ای میل:  markaz.dirasat@gmail.com

دھوپ اور سایہ میں نماز پڑھنا
O ہماری مسجد کا صحن بہت چھوٹا اور ترچھا سا ہے‘ سردی کے موسم میں جب صحن میں نماز پڑھی جاتی ہے تو کچھ لوگ سایہ میں ہوتے ہیں اور کچھ دھوپ میں کھڑے ہوتے ہیں۔ کیا اس طرح نماز پڑھنا صحیح ہے؟
P انسان کا کچھ حصہ سایے میں ہو اور کچھ دھوپ میں‘ اس طرح کی صورت حال صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اطباء حضرات بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ انسان سارے کا سارا دھوپ میں ہو یا سارا ہی سایہ میں‘ آدھا دھوپ میں اور آدھا سایہ میں ہونا طبی طور پر یہ نقصان دہ ہے۔ خاص طور پر شدید گرمی والے علاقوں میں تو یہ حالت انتہائی نقصان دہ اور ضرر رساں ہے۔ شریعت میں بھی اس کی ممانعت ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہt بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص سائے میں بیٹھا ہو اور پھر سایہ اس سے ٹل جائے اور وہ کچھ دھوپ میں آجائے اور کچھ سائے میں ہو تو وہاں سے اٹھ جائے۔‘‘ (ابوداؤد‘ الادب: ۴۸۲۱)
ایک دوسری حدیث‘ جس کے راوی سیدنا بریدہt ہیں‘ اس کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہe نے کچھ سائے اور کچھ دھوپ میں بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ‘ الادب: ۳۷۲۲)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص دھوپ میں بیٹھا یا لیٹا ہے پھر اس سے دھوپ ہٹ جائے اور اس کا کچھ حصہ سائے میں اور کچھ دھوپ میں ہو جائے تو اسے چاہیے کہ جگہ تبدیل کر لے تا کہ سارا جسم دھوپ میں یا سارا جسم سائے میں ہو جائے۔ طب وصحت کے حوالے سےجاننے کے لیے پڑھیں    
اس حدیث کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی حالت میں بھی یہ ممانعت برقرار ہے۔ نمازی اگر آدھا دھوپ میں ہے اور آدھا سایہ میں‘ تو اسے اس حالت میں نماز ادا نہیں کرنا چاہیے۔ صورت مسئولہ میں ایسا نہیں ہے کیونکہ صحن میں نماز پڑھتے ہوئے کچھ نمازی دھوپ میں ہیں اور کچھ سایہ میں۔ اس طرح نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی نمازی آدھا دھوپ میں اور آدھا سایہ میں۔ حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔ اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ واللہ اعلم!
ایک بھائی کو ساری جائیداد دینا
O ہم چار بھائی ہیں‘ سب سے چھوٹا بھائی غیر شادی شدہ ہے اور وہ بڑے بھائی کے ساتھ رہتا ہے۔ اس نے اپنی زرعی زمین بڑے بھائی کے نام کرا دی ہے۔ کیا یہ جائز ہے کہ کوئی آدمی اپنی تمام جائیداد اپنے بھائی کو دے کر دوسروں کو محروم کر دے؟!
P اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں خود مختار بنا کر بھیجا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اللہ کی نعمتوں کو جس طرح چاہے استعمال کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا دیا مال بھی اس کی ایک نعمت ہے۔ انسان کو اپنے مال میں بھی تصرف کرنے کا پورا حق ہے۔ جیسا کہ رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہر مالک اپنے مال میں تصرف کرنے کا پورا حق رکھتا ہے‘ وہ اسے جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے۔‘‘ (بیہقی: ج۶‘ ص ۱۷۸)
اس تصرف کا شرعی ضابطہ حسب ذیل ہے‘ اسی ضابطہ کو مد نظر رکھنا ہو گا:
\          یہ تصرف کسی ناجائز اور حرام کام کے لیے نہ ہو۔ مثلاً شراب نوشی اور زنا کاری میں اسے استعمال نہ کرے۔
\          یہ تصرف کرتے وقت کسی شرعی وارث کو محروم کرنا مقصود نہ ہو جیسا کہ کچھ لوگ اپنی جائیداد کے متعلق وصیت کر جاتے ہیں کہ اس کا مالک میرا بڑا بیٹا ہو گا۔
\          یہ تصرف اپنی تمام جائیداد کسی د وسرے کو دینے کی صورت میں نہ ہو‘ کیونکہ اپنی تمام جائیداد تو اللہ کی راہ میں دینے کی بھی شرعی اجازت نہیں۔ جیسا کہ سیدنا لبابہ بن منذر‘ سیدنا کعب بن مالک اور سیدنا سعد بن ابی وقاص] کو رسول اللہe نے اپنی تمام جائیداد اللہ کی راہ میں دینے سے روک دیا تھا جیسا کہ کتب احادیث میں اس کی صراحت ہے۔
صورت مسئولہ میں ایک بھائی نے اپنی تمام جائیداد جو زرعی زمین کی صورت میں تھی وہ بڑے بھائی کے نام کر دی ہے جبکہ اس کے دوسرے بھائی بھی موجود ہیں۔ ایسا کرنا شرعا جائز نہیں۔ ہاں جس بھائی کے پاس وہ رہائش رکھے ہوئے ہے حق الخدمت کے طور پر معروف طریقہ کے مطابق اسے تھوڑی بہت زمین دے سکتا ہے جس کا تعین حالات وواقعات اور دوسرے بھائیوں کے گذر اوقات کے پیش نظر کیا جا سکتا ہے لیکن پوری جائیداد کے متعلق اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے گا۔ بہرحال دوسرے بھائیوں کو زندگی میں محروم کر کے ایک بھائی کو تمام جائیداد دینا شرعی طور پر جائز نہیں۔ واللہ اعلم!
ملازم کا دوسروں سے کمیشن لینا
O میں ایک فیکٹری میں کام کرتا ہوں اور فیکٹری کے سامان کی خرید وفروخت میرے ذمے ہے۔ جب میں کسی دکان سے سامان خریدتا ہوں تو دکان مالک مجھے کمیشن دیتا ہے- تعصب ایک بری بیماری ہےتعصب کو ختم کرنے کےطریقے۔ اس شرط پر کہ میں فیکٹری کا تمام سامان اس سے خریدوں گا‘ کیا اس طرح کمیشن لینا جائز ہے؟
P انسان‘ جس فیکٹری یا کارخانے میں ملازم ہو‘ وہاں دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں۔ کسی بھی قسم کی خیانت اس کے معاوضے کو حرام کر سکتی ہے۔ صورت مسئولہ میں سائل ایک فیکٹری میں ملازمت کرتا ہے اور مالک فیکٹری نے اشیاء کی خرید وفروخت کا اسے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اس ڈیوٹی کے عوض اسے تنخواہ دی جاتی ہے لہٰذا اس کا کسی بھی دکان دار سے کمیشن لینا دیانت داری کے منافی ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ جہاں کمیشن دیا جاتا ہے وہ اشیاء مہنگی فروخت ہوتی ہیں۔ ان اشیاء کی قیمت تو فیکٹری کے مالک نے ادا کرنا ہے اس کمیشن کا بوجھ بھی فیکٹری کے مالک پر ہی پڑے گا۔ اس وجہ سے بھی سائل کا دکان دار سے کمیشن لینا جائز نہیں۔ ہاں اگر وہ فیکٹری سے الگ ہو کر یہ کام کرے تو اس کی کچھ گنجائش نکل سکتی ہے  لیکن ملازم رہتے ہوئے یہ حرکت کرنا اس کی امانت ودیانت کے منافی ہے۔ اگر فیکٹری کا مالک اسے اجازت دے دے اور کمیشن والا معاملہ اس کے علم میں ہو تو ایسا کرنا جائز ہے بصورت دیگر ایک ملازم کو اس طرح کا کمیشن لینے کی اجازت نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاؤ‘ ہاں اگر آپس کی رضا مندی سے تجارت کا لین دین ہو (تو مالی فائدہ جائز ہے۔)‘‘
اس آیت کے پیش نظر سائل کو چاہیے کہ وہ کمیشن لینے کا معاملہ ترک کر دے۔ اس کے جائز ہونے کی یہی صورت ہے کہ وہ یہ معاملہ فیکٹری کے مالک کو بتائے اور اس کے نوٹس میں لائے۔ واللہ اعلم!
مسواک کی بجائے دانتوں پر انگلی پھیرنا
O میں نے ایک حدیث پڑھی ہے کہ اگر مسواک نہ ہو اور اس کی بجائے دانتوں پر انگلی پھیر لی جائے تو مسواک کا وہی ثواب ملتاہے۔ کیا یہ بات حدیث سے ثابت ہے؟ وضاحت سے بتائیں۔
P شریعت میں مسواک کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں۔ اسے امور فطرت سے شمار کیا گیا ہے جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ (مسلم‘ الطہارہ: ۶۰۴)
بلکہ رسول اللہe نے تمام انبیاءo کی سنت قرار دیا ہے جیسا کہ سیدنا ابوایوب انصاریt سے مروی ایک حدیث میں ہے۔ (ترمذی‘ النکاح: ۱۰۸۰)
سیدہ عائشہr بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہe رات یا دن کے کسی بھی حصہ میں سوتے اور جب بیدار ہوتے تو وضو کرنے سے پہلے مسواک کیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد‘ الطہارہ: ۵۷)
کسی شخص نے سیدہ عائشہr سے پوچھا کہ رسول اللہe جب گھر تشریف لاتے تو آپ سب سے پہلے کیا کام کرتے تھے؟ آپr نے فرمایا: ’’مسواک کرتے تھے۔‘‘ (بخاری‘ الوضوء: ۲۴۵)
اس کی فضیلت کے متعلق سیدہ عائشہr کا بیان ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’مسواک منہ کو صاف کرتی ہے اور رب کی رضا مندی کا باعث ہے۔‘‘ (نسائی‘ الطہارہ: ۵)
رسول اللہe کا ارشاد گرامی ہے کہ جب بھی سیدنا جبریلu میرے پاس تشریف لاتے تو آپ مجھے مسواک کا حکم دیتے‘ مجھے تو اندیشہ ہوا کہ اس پر عمل کرتے ہوئے میں کہیں منہ کا اگلا حصہ نہ چھیل لوں۔ (مسند امام احمد: ج۵‘ ص ۲۶۳)
مسواک کے اس قدر فضائل کے ہوتے ہوئے کسی دوسری چیز کو اس کے قائم مقام قرار دینا انتہائی محل نظر ہے۔ سوال میں جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ سیدنا انسt بیان کرتے ہیں‘ رسول اللہe نے فرمایا: ’’انگلیاں بھی مسواک کا کام دے دیتی ہیں۔‘‘ (بیہقی: ج۱‘ ص ۱۳۴)
اس حدیث سے کچھ اہل علم نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ وضوء کرتے ہوئے اگر مسواک کی بجائے دانتوں پر انگلیاں پھیر لی جائیں تو وہ مسواک کے برابر ہیں لیکن ایسا کرنا صحیح نہیں۔ کیونکہ اس حدیث کو امام بیہقیa نے اپنی سنن میں دو سندوں سے بیان کیا ہے‘ ان میں ایک راوی عبدالحکم القسملی ہے جو سخت مجروح ہے اور دوسری سند بھی سخت ضعیف ہے لہٰذا یہ قابل حجت نہیں۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)