Sunday, December 08, 2019

خطبۂ حرم ... اللہ تعالیٰ کا نام ’السلام‘ اور اس کے تقاضے 46-2019


خطبۂ حرم ... اللہ تعالیٰ کا نام ’السلام‘ اور اس کے تقاضے

امام الحرم المدنی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالمحسن قاسم d
ترجمہ: جناب عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے یوں ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے! کھلے اور پوشیدہ کاموں میں اس سے ڈرتے رہو۔
اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کے تمام نام انتہائی حسین اور اس کی تمام صفات انتہائی اعلیٰ ہیں۔ اس کے شرعی احکام اور کائناتی دلائل اسی کی گواہی دیتے ہیں۔ اللہ کے تمام ناموں اور صفات کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی دلالت ثابت ہو۔ چاہے وہ دلالت عبودیت کی ہو، تخلیق کی ہو یا تکوین کی ہو۔ ہر نام اور صفت کا ایک تقاضا ہوتا ہے، جسے جاننا اور جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے۔‘‘ (الاعراف: ۱۸۰)
السلام، اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے جس میں اس کے تمام نام سمو جاتے ہیں۔ اس میں یہ معنیٰ پایا جاتا ہے کہ پروردگار ہر قسم کے عیب اور کمی سے بلند اور بالا ہے۔ ہر ایسی چیز سے پاک ہے جو اس کی جلالت، کمال اور عظمت کے منافی ہے۔ وہ ہر آفت سے سلامت ہے۔ ہر نقص سے پاک ہے۔
وہ تمام کمیوں سے سلامت ہے، کیونکہ وہ اپنی ذات، اپنے ناموں اور اپنی صفات اور افعال میں انتہائی کامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ بادشاہ ہے‘ نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، سب پر غالب، اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا اور بڑا ہی ہو کر رہنے والا‘ پاک ہے اللہ اُس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں۔‘‘ (الحشر: ۲۳)
سب ناموں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ اس نام کا حقدار ہے۔ یہی نام ہے جو ایسے تمام کاموں سے اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کرتا ہے جو اس کے لائق نہیں۔ نبی اکرمe نے بھی ایسی چیزوں سے اللہ کی پاکیزگی بیان فرمائی ہے۔
وہ بیوی اور اولاد سے بے نیاز ہے۔ وہ ہم پلہ، مثیل، ہم نام اور مشابہ سے بالا تر ہے۔ وہ شریک سے بالا تر ہے۔ اس کی زندگی موت، اونگھ اور نیند سے سلامت ہے۔ وہ اپنی مخلوقات کو سنبھالنے والا ہے۔ وہ تھکاوٹ، بے بسی اور اکتاہٹ سے سلامت ہے۔ اس کا علم جہالت، بھول اور بے توجہی سے سلامت ہے۔ اس کے الفاظ عدل اور سچائی پر مبنی ہیں، جھوٹ اور ظلم سے سلامت ہیں۔
اللہ کی تمام صفات اپنی ضد اور ہر کمی سے سلامت ہیں۔ جس طرح وہ اپنی ذات میں، اپنے ناموں اور صفات میں سلامت ہے، اسی طرح اسی سے ہر طرح کی سلامتی اور امن حاصل ہوتا ہے۔ اسی سے سلامتی کا سوال کیا جاتا ہے۔ جو کسی اور کے پاس سلامتی تلاش کرے گا اسے کبھی سلامتی نہیں مل پائے گی۔
رسول اللہ e اس نام کے تقاضے پر عمل کرتے تھے اور اسی طرح دیگر ناموں کے تقاضوں کو بھی خوب جانتے اور ان کے مطابق عمل کرتے تھے۔ جب وہ فرض نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار کرنے کے بعد  کہتے:
’’اے اللہ! تو ہی سلامتی ہے! تو ہی سلامتی دینے والا ہے۔ اے رب ذو الجلال! تو ہی سب سے بلند وبرتر ہے۔‘‘ (مسلم)
اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو اپنی سزاؤں سے سلامت رکھتا ہے۔ وہ اپنی مخلوق کو ظلم سے سلامت رکھتا ہے جس سے وہ خود بہت پاکیزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔‘‘ (النساء: ۴۰)
چونکہ اللہ تعالیٰ خود ہی سراسر سلامتی ہے، اور اسی سے سلامتی ملتی ہے اور حاصل ہوتی ہے۔ تو یہ کبھی نہیں کہا جاتا کہ: اللہ کو سلام ہو۔ ’’کیونکہ اللہ تعالیٰ خود سلامتی ہے۔‘‘ (بخاری)
وہ اپنے نبیوں اور رسولوں پر سلامتی نازل فرماتا ہے کیونکہ ان کی باتیں نقص اور عیب سے پاکیزہ ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں اور سلام ہے مرسلین پر۔‘‘ (الصافات: ۱۸۰-۱۸۱)
اس نے اپنے نیک بندوں کے لیے سلامتی لکھ دی ہے۔ فرمایا:
’’(اے نبیؐ) کہو! حمد اللہ کے لیے اور سلام اس کے اُن بندوں پر جنہیں اس نے برگزیدہ کیا۔‘‘ (النمل: ۵۹)
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جسے چاہتا ہے، سلامتی سے نواز دیتا ہے۔ جیسا کہ نوح ۔ ان کے بارے میں فرمایا:
’’سلام ہے نوحؑ پر تمام دنیا والوں میں۔‘‘ (الصافات: ۷۹)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ابراہیم، موسیٰ، ہارون اور الیاسo پر بھی سلامتی نازل فرمائی۔
اپنے نبی یحییٰu پر تین مرتبہ سلامتی نازل فرمانے کا احسان کیا۔ وہ بھی ایسے مواقع پر جب وہ سلامتی کے سب سے زیادہ محتاج تھے۔ فرمایا:
’’سلام اُس پر جس روز کہ وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ مرے اور جس روز وہ زندہ کر کے اٹھایا جائے۔‘‘ (مریم: ۱۵)
اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی یہ حکم دیا ہے کہ ہم آپ e پر درود وسلام بھیجیں۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔‘‘ (الاحزاب: ۵۶)
اللہ تعالیٰ اور جبریلu نے سیدہ خدیجہ کو سلام کیا۔ کیونکہ سیدہ نے آپ e کی خوب خدمت کی تھی۔ ان کی بہت مدد کی تھی۔ ایک روز جبریلu نبی اکرم e کے پاس آئے اور کہنے لگے:
’’اے اللہ کے رسول! خدیجہ آ رہی ہے، اس کے پاس ایک برتن ہے جس میں آپ کے لیے کچھ کھانے پینے کی چیز ہے۔ جب وہ آئے تو اسے اللہ کا اور میرا سلام کہہ دیجیے‘‘ (بخاری ومسلم)
اسی طرح جبریلu نے سیدہ عائشہr کو سلام کیا، کیونکہ وہ با علم اور کامل عقل والی تھیں۔
رسول اللہ e کا فرمان ہے: ’’اے عائش! جبریل آیا ہے اور وہ آپ کو سلام کہہ رہا ہے‘‘ (اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔
اسی طرح ہر نمازی تشہد میں نبی اکرم e پر اور نیک لوگوں پر درود وسلام بھیجتا ہے۔
’’اے نبی! آپ پر سلام ہو، اللہ کی رحمت اور برکت ہو۔ ہم پر سلامتی ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو۔‘‘ (بخاری ومسلم)
جب کوئی کسی گھر میں داخل ہو تو اسے چاہیے کہ گھر والوں کو سلام کرے۔ یہ خوش آمدید کہنے کا ایک بہترین اور بابرکت طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو۔‘‘
کا معنیٰ یہ ہے کہ یعنی ایک دوسرے کو سلام کیا کرو۔
’’دعائے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فر مائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ۔‘‘ (النور: ۶۱)
علامہ قرطبیa فرماتے ہیں:
’’اسے بابرکت کہا گیا، کیونکہ اس میں دعا ہے اور مسلمان بھائی کے ساتھ ہمدردی کا پہلو ہے۔ اسے پاکیزہ کہا گیا، کیونکہ اسے سننے والا اس سے خوش ہوتا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایسا دین سکھایا ہے جس میں ہدایت اور سلامتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔‘‘ (آل عمران: ۱۹)
اسلام کے تمام احکام اور عقائد زیادتی اور کوتاہی سے سلامت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔‘‘ (المائدہ: ۳)
اسی دین کی پیروی میں دنیا وآخرت کی سلامتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’سلامتی ہے اُس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے۔‘‘ (طٰہٰ: ۴۷)
دیندار لوگوں کا آخری ٹھکانا جنت ہے جو کہ سلامتی کی جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اللہ تمہیں دار السلام کی طرف دعوت دے رہا ہے (ہدایت اُس کے اختیار میں ہے) جس کو وہ چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔‘‘ (یونس: ۲۵)
جو اپنے نفس، اپنے گھر بار اور اپنے معاشرے میں امن وسلامتی چاہتا ہے، اسے دین اسلام اپنا لینا چاہیے۔ اس کے تمام تر عقائداور اس کے تمام تر احکام امن اور سعادت کے ضامن ہیں۔ ان میں انسان کے لیے امن اور اطمینان کا سامان پایا جاتا ہے۔ جس معاشرے میں اسلام کے احکام پر زیادہ عمل کیا جائے گا، اس میں امن وسلامتی بھی زیادہ پائی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔‘‘ (الانعام: ۸۲)
اس دین کی سلامتی ساری مخلوق کے لیے عام ہے۔ اسے ماننے والوں کی عزت آبرو، مال اور جانیں اس کے ذریعے محفوظ رہتی ہیں۔ رسول اللہ e کا فرمان ہے:
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد کروں، یہاں تک کہ وہ یہ گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں! اور یہ کہ محمد e اللہ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کریں ااور زکوٰۃ ادا کریں۔ جب وہ ایسا کر لیں گے تو ان کی جانیں اور ان کے مال مجھ سے محفوظ ہو جائیں گے۔ الا یہ کہ اسلام کی کوئی حد اس پر نافذ کرنا ہو۔ باقی حساب کتاب تو اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ (بخاری)
اسلام امن کا دین ہے۔ وہ غیر مسلم لوگ جن کا مسلمانوں کے ساتھ کوئی معاہدہ ہے، یا جو کسی معاہدے کی بنیاد پر مسلمان ممالک میں رہتے ہیں یا وہ جنہیں مسلمان حکومتوں نے امن میں رکھا ہے، ان سب کی جانیں اور مال بھی محفوظ ہیں۔ رسول اللہ e کا فرمان ہے:
’’جو کسی ایسے غیر مسلم کو قتل کر دیتا ہے جس کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہو، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔‘‘ (بخاری)
جو کسی معزز انسان کو ڈرائے، چاہے یہ ڈرانا کسی اشارے کے ذریعے ہی ہو، تو اللہ تعالیٰ نے اسے سخت وعید سنائی ہے۔ رسول اللہ e کا فرمان ہے:
’’جو اپنے بھائی کی طرف کسی لوہے کی چیز سے اشارہ کرتا ہے تو جب تک وہ اس لوہے کو نیچے نہیں کرتا فرشتے اس پر لعنتیں بھیجتے رہتے ہیں۔ چاہے وہ شخص اس کا سگا یا سوتیلا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ (مسلم)
بلکہ اسلام نے تو چوپایوں اور جانوروں کے امن وسلامتی کی بھی ضمانت دی ہے۔ ’’ایک عورت ایک بلی کی وجہ سے آگ میں چلی گئی‘‘ (بخاری ومسلم)
’’ایک بدکار عورت نے کتے کو پانی پلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما دیا۔‘‘ (بخاری ومسلم)
مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے قول وعمل سے لوگوں میں سلامتی عام کرنے کی کوشش میں رہے۔ رسول اللہe کا فرمان ہے:
’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ (بخاری)
سلامتی عام کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف بلایا جائے اور لوگوں کو اپنے پروردگار، اپنے نبی اور اپنے دین سے متعارف کرایا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘ (فصلت: ۳۳)
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جو جاہلوں کے ساتھ بھی اچھے طریقے سے مخاطب ہوتے ہیں اور زیادتی کرنے والوں کے ساتھ بھی احسان والا رویہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اور جاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔‘‘ (الفرقان: ۶۳)
اس دین کی ایک خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے نام (السلام) کا ذکر کر کے سلام کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے سلامتی کا سوال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک وعدہ کیا جاتا ہے سلام کرنے والے کی طرف سے دوسرے شخص کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا۔
سلام محبت ومودت کی کنجی ہے۔ اسے عام کرنے سے مسلمانوں کا باہمی تعلق مضبوط تر ہو جاتا ہے۔ یہی ان کا شعار ہے جس سے وہ دوسروں سے الگ ہوتے ہیں۔ اس سے ان کے دلوں میں اور سکون آ جاتا ہے۔ یہ تواضع اور مضبوط تعلق کی دلیل ہے۔
رسول اللہ e کا فرمان ہے:
’’یہودی تم پر کسی اور چیز سے اتنا حسد نہیں کرتے جتنا حسد وہ سلام اور آمین کہنے پر کرتے ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ)
یہ ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کا وہ طریقہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کے لیے پسند فرمایا ہے۔ رسول اللہ e آدمu کی تخلیق کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’پھر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں پید کر دیا تو فرمایا: جاؤ اور وہاں جو فرشتے بیٹھے ہیں، انہیں سلام کرو۔ دیکھو وہ تمہارا استقبال کن الفاظ میں کرتے ہیں؟ یہی الفاظ تمہارا اور تمہاری اولاد کا طریقہ سلام ہے۔ آدمu نے کہا: السلام علیکم! فرشتوں نے جواب دیا: السلام علیک ورحمۃ اللہ۔ اس طرح انہوں نے ورحمۃ اللہ کا اضافہ کر دیا۔‘‘ (بخاری)
اسلام نے ملتے ہی سب سے پہلے سلام کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ رسول اللہ e کا فرمان ہے:
’’اللہ کے یہاں سب سے قریبی لوگ وہ ہیں جو لوگوں کو ملتے وقت سلام میں پہل کرتے ہیں۔‘‘ (ابو داؤد)
لوگوں کو سلام عام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سیدنا براء بن عازبt بیان کرتے ہیں: رسول اللہ e نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا: ان میں ایک چیز تھی: ’’سلام کو عام کرنا۔‘‘ (بخاری)
سلام اسلام کی اشاعت کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ عبداللہ بن سلامt بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہe مدینہ تشریف لائے تو میں بھی اور لوگوں کی طرح انہیں دیکھنے کے لیے آیا۔ جب مجھے آپ e کا چہرہ نظر آیا تو  مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے انسان کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔ اس روز آپ e نے سب سے پہلے لوگوں کو یہ حکم دیا:
’’اے لوگو! سلام کو عا م کرو! کھانا کھلاؤ۔ جب لوگ سو جائیں تو نمازیں پڑھا کرو۔ اس طرح اپنے پروردگار کی جنت میں سلامتی سے داخل ہو جاؤ گے۔‘‘ (ترمذی)
امام نوویa فرماتے ہیں:
’’سلام کو عام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کیا اور ہر مسلمان کو سلام کہا جائے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے یہ بھی حکم دیا کہ سلام کا جواب ویسے الفاظ میں دیا جائے یا اس سے بہتر الفاظ میں دیا جائے۔ فرمایا:
’’اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اُسی طرح۔‘‘ (النساء: ۸۶)
ابن کثیر aفرماتے ہیں: ’’بہتر جواب دینا مستحب ہے اور ویسا جواب دینا فرض ہے‘‘۔
سلام دین اسلام کے بہترین اور افضل ترین احکام میں سے ایک ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ e سے دریافت کیا: اسلام کا کون سا عمل بہتر ہے۔ آپ e نے فرمایا: ’’کہ تم کھانا کھلاؤ، اور سلام کرو، ہر جاننے والے اور نہ جاننے والے کو۔‘‘ (بخاری ومسلم)
ابن رجبa فرماتے ہیں: ’’سلام عام کرنے کی یہ بہترین شکل ہے‘‘۔
امام نوویa فرماتے ہیں:
’’سلام کو عام کرنے کی ضرورت کھانے اور پینے کی ضرورت سے بھی زیادہ اہم ہے، کیونکہ اس معاملیمیں لوگ سستی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس میں تساہل کرنے لگتے ہیں‘‘۔
جو سلام کرتا ہے اسے دس نیکیاں یا تیس نیکیاں مل جاتی ہیں۔ ایک شخص رسول اللہ e کے پاس آیا اور اس نے کہا: آپ e نے فرمایا: السلام علیکم! آپ e جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا۔ پھر آپ e نے فرمایا: ’’دس‘‘، پھر ایک اور آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ آپe جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا۔ پھر آپ e نے فرمایا: ’’بیس‘‘، پھر ایک اور آیا اور اس نے کہا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ e جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا۔ پھر آپ e نے فرمایا: ’’تیس۔‘‘ (ابو داؤد)
سلام کرنا اور اس کا جواب دینا مسلمانوں کے حقوق میں سے ہے۔ رسول اللہ e کا فرمان ہے: مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں ان میں ایک چیز تھی: ’’جب تم اسے ملو تو اسے سلام کرو۔‘‘ (مسلم)
بخاری کی روایت میں ہے: ’’سلام کا جواب دینا۔‘‘
سلام جھگڑنے والوں کی دوا ہے۔ بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ رسول اللہ e کا فرمان ہے: ’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ وقت کے لیے ایسا ناراض ہو، کہ جب وہ آمنے سامنے آئیں تو یہ اِدھر کو منہ کر لے، اور وہ اُدھر کو منہ کر لے۔ دونوں میں بہتر شخص وہ ہے جو سلام میں پہل کرتا ہے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
اس وقت تک ایمان مکمل نہیں ہوتا، حالات درست نہیں ہوتے جب تک لوگوں میں محبت پیدا نہ ہو جائے۔ رسول اللہ e کا فرمان ہے:
’’اس ہستی کی قسم جس کیہاتھ میں میری جان ہے! تم اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤ گے جب تک ایمان نہ لے آؤ۔ جب تک ایک دوسرے سے محبت نہیں کرو گے، اس وقت تک تمہارا ایمان درست نہیں ہو گا۔ کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں، جس پر اگر تم عمل کر لو، تو تم میں محبت پیدا ہو جائے۔ سلام کو عام کرو۔‘‘ (مسلم)
صحابہ کرام] سلام کو ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔
سیدنا عمار بن یاسرw بیان کرتے ہیں: ’’تین چیزیں ایسی جنہیں اگر کوئی شخص جمع کرلے  تو گویا کہ اس نے ایمان کی ساری خصلتیں پوری کر لیں۔ اپنے ساتھ انصاف کرنا، سب کو سلام کرنا اور فقر کے دور میں بھی صدقہ کرنا۔‘‘
سلام کے ذریعے خیر اور برکت نصیب ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’دعا ئے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فر مائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ۔‘‘ (النور: ۶۱)
سلام کا جواب دینا راستے کے حقوق میں سے ہے۔ اس شخص پر فرض ہے جو راستے میں بیٹھا ہو۔ رسول اللہ e کا فرمان ہے: ’’راستوں میں بیٹھنے سے گریز کرو‘‘لوگوں نے کہا: ہم انہیں کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ وہاں تو ہماری مجلسیں لگتی ہیں۔ وہیں بیٹھ کر ہم بات چیت کرتے ہیں۔ آپ e نے فرمایا: ’’اگر تم اسی پر بضد ہو تو راستے کو اس کا حق ضرور دو‘‘، لوگوں نے کہا: راستے کا حق کیا ہے؟ آپ e نے فرمایا: ’’نگاہ نیچی رکھنا، اذیت دینے سے گریز کرنا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔‘‘ (بخاری ومسلم)
سلام کے آداب یہ ہیں کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے، سواری پر آنے والا شخص پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے شخص کو سلام کرے اور کم لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔
جب ضرورت ہو تو سلام کو دہرانا بھی جائز ہے۔
سیدنا انسt بیان کرتے ہیں: ’’جب رسول اللہe سلام کرتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے۔‘‘ (بخاری)
بچوں کو سلام کرنا بھی سنت ہے۔ اس میں تواضع بھی نظر آتی ہے، نرمی بھی نظر آتی ہے اور اس طرح انہیں احکام شریعت کی پابندی کی عادت بھی پڑتی ہے۔
سیدنا انس بن مالکt بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا  اور کہا: ’’رسول اللہ e بھی ایسا ہی کرتے تھے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
جس طرح راستے میں سلام کرنے کا حکم ہے، اسی طرح بیٹھک میں داخل ہوتے وقت اور ان سے نکلتے وقت بھی سلام کرنے کا حکم آیا ہے۔
رسول اللہ e کا فرمان ہے: ’’جب کوئی مجلس  میں آئے تو سلام کرے، جب جانے لگے، تب بھی سلام کرے۔ پہلا سلام بعد والے سلام سے افضل نہیں ہے۔‘‘ (ابو داؤد)
ایک دوسرے کو ملتے وقت سلام کرنا اسلام کا خاصا ہے۔ رسول اللہ e کا فرمان ہے: ’’یہودیوں اور عیسائیوں سے ملتے وقت انہیں سلام نہ کرو۔‘‘ (مسلم)
’’جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو کہو: وعلیکم۔‘‘ (بخاری ومسلم)
سلام کرتے وقت آواز اتنی ہی بلند ہونی چاہیے کہ سلام کی آواز سب کو سنائی دے۔
ابن عمرw فرماتے ہیں: ’’جب سلام کرو تو سب کو سنا کر کرو، کیونکہ یہ ایک دعا ئے خیر ہے، اللہ کی طرف سے مقرر فر مائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیزہ‘‘۔
’’رات کے وقت جب رسول اللہ e گھر داخل ہوتے تو اتنی آواز میں سلام کرتے کہ جو سویا ہے اس کی آنکھ نہ کھلے، اور جو جاگ رہا ہے، وہ سن لے۔‘‘(اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔
سلام کرنے اور اس کا جواب دینے میں خطبہ جاری ہونے کے علاوہ اور کوئی رکاوٹ نہیں۔ کیونکہ خطبے کے دوران توجہ اور خاموشی سے سننے کا حکم ہے۔ اسی طرح قضائے حاجت کے وقت بھی سلام کا جواب نہیں دیا جاتا، کیونکہ وہ موقع سلام کرنے یا ذکر کرنے کا نہیں۔
سلام امن کا پیغام اور دعا ہے۔ اسلام کا حسن اور کمال ہے کہ زندہ اور مردہ، دونوں کو سلام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ فوت شدہ لوگوں سے زیادہ تو کوئی دعا کا زیادہ محتاج نہیں ہوتا۔
رسول اللہ e کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ قبرستان جاتے تو کہتے: ’’السلام علیکم دار قوم مؤمنین۔‘‘ (مسلم)
سلام ہی سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اہل ایمان کا استقبال فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جس روز وہ اس سے ملیں گے اُن کا استقبال سلام سے ہو گا۔‘‘ (الاحزاب: ۴۴)
ان کا مقام جنت ہو گا جو کہ سلامتی کا گھر ہے۔ اس میں نہ موت ہو گی اور نہ پریشانی۔ نہ غم اور نہ کوئی بیماری۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اُن کے لیے اُن کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے۔‘‘ (الانعام: ۱۲۷)
انہیں کہا جائے گا: ’’داخل ہو جاؤ ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر۔‘‘ (الحجر: ۴۶)
ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے، اس کے خزانچی ان کا استقبال کریں گے۔ کہیں گے: ’’سلام ہو تم پر، بہت اچھے رہے، داخل ہو جاؤ اس میں ہمیشہ کے لیے۔‘‘ (الزمر: ۷۳)
جب وہ اس میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا:
’’وہاں وہ کوئی بیہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی۔‘‘ (الواقعۃ: ۲۵-۲۶)
’’وہاں وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہیں گے، اور وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارک باد سے ہوگا۔‘‘ (ابراہیم: ۲۳)
’’ملائکہ ہر طرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے اور اُن سے کہیں گے کہ ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو۔‘‘ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر!‘‘ (الرعد: ۲۳-۲۴)
جب اہل جنت وہاں کی نعمتوں کے مزے لے رہے ہوں گے تو ان کی نعمتوں کا کمال یہ ہو گا کہ وہ اپنے پروردگار کا دیدار کر لیں گے اور وہ انہیں سلام کہے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’رب رحیم کی طرف سے ان کو سلام کہا گیا ہے۔‘‘  (یس: ۵۸)
اے مسلمانو! دین اسلام ایک مکمل دین ہے جس میں زندگی کے ہر معاملے کے بارے میں رہنمائی موجود ہے۔ ہر جگہ اور ہر وقت قابل عمل ہے۔ اس کے احکام سے دنیا وآخرت کا معاملہ درست ہو جاتا ہے اور انسانوں کو سعادت نصیب ہو جاتی ہے۔ یہ سلامتی کے ساتھ سلامتی کی طرف بلاتا ہے۔ یہ لوگوں کی  نرمی اور رحمت کی ذمہ داری لیتا ہے۔ ہر معاملے میں وہ راہ دکھاتا ہے جو بہتر ہے۔ جو اس پر قائم رہتا ہے، وہ جیت جاتا ہے اور مولیٰ کریم کی خوشنوی کما لیتا ہے۔
اے مسلمانو! اللہ کے ناموں کا علم اور اس کی صفات کا علم افضل ترین عمل ہے۔ اس سے اللہ کی محبت پیدا ہوتی ہے، اس کی تعظیم پیدا ہوتی ہے، اس کی خشیت پیدا ہوتی ہے اور اس سے امید بڑھتی ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کو جتنا جان لیتا ہے، اتنا ہی اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، اس کے احکام کا پابند بن جاتا ہے۔
عبودیت کی ساری کی ساری اقسام اللہ تعالیٰ کے ناموں اور اس کی صفات کی طرف لوٹتی ہیں۔ مکمل سعادت اور بلند درجات اسی میں ہیں کہ اس راہ سے اللہ کی طرف جایا جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ناموں اور اپنی صفات سے محبت بھی کرتا ہے۔ ان کے اثرات اور ان کے تقاضوں کو اپنی مخلوق میں دیکھنا بھی پسند کرتا ہے۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)