حُجِّیتِ حدیث مصطفیٰﷺ
(پہلی قسط) تحریر: جناب حمید اللہ عزیز
نبی آخر الزماں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیe کے
اسوۂ مبارکہ اور سیرت طیبہ کے متعدد گوشے ہیں جن میں سے ہمارے نزدیک اہم ترین قرآن
وحدیث کی دعوت وتبلیغ اور اس کی سربلندی کے لیے جد وجہد ہے۔ یہ نبی محترمe کی
وہ سنت مبارکہ ہے جس سے آپe کی
حیات طیبہ کا ایک لمحہ بھی خالی نہیں رہا۔ تا ہم نبی کریمe کے
اسوہ اور سیرت کے تمام گوشے ہی انوار وبرکات کے حامل ہیں اور آپe کی
ذات گرامی کا ذکر کسی پہلو سے بھی کیا جائے موجب خیر وسعادت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد e کو سیادت انبیاء کا تاج پہنا کر آپe کو
خاتم النبیین کے بلند مقام ومرتبے پر فائز کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{مَا كانَ مُحَمَّدٌ
اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكمْ وَ لٰكنْ رَّسُوْلَ اللّٰه وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ۱
وَ كانَ اللّٰه بِكلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا} (الاحزاب: ۴۰)
’’حضرت محمدe تم
میں سے کسی بالغ مرد کے حقیقی باپ نہیں لیکن آپe اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ
تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
{وَ رَفَعْنَا لَك
ذِكرَك} (الم نشرح: ۴)
’’اور ہم نے آپ کا
ذکر بلند کر دیا ہے۔‘‘
{وَ مَآ اَرْسَلْنٰك
اِلَّا رَحْمَة لِّلْعٰلَمِیْنَ}
’’(اے نبی!) ہم نے
آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
{لَقَدْ جَآئَكمْ
رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكمْ عَزِیْزٌ عَلَیْه مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ
رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ} (التوبه: ۱۲۸)
’’تمہارے پاس ایک
رسول آیا ہے وہ خود تم ہی میں سے ہے جس چیز سے تمہیں تکلیف پہنچے وہ اس پر گراں ہے‘
تمہارے فائدے کے لیے وہ حریص ہے ایمان لانے والوں کے لیے بہت شفیق اور مہربان ہے۔‘‘
{لَقَدْ مَنَّ اللّٰه
عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهمْ یَتْلُوْا
عَلَیْهمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكیْهمْ وَ یُعَلِّمُهمُ الْكتٰبَ وَ الْحِكمَة۱ وَ اِنْ
كانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ}
’’اللہ تعالیٰ نے
اہل ایمان پر بڑا احسان کیا کہ خود انہی میں سے ایک رسول ان کی طرف بھیجا جو انہیں
اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے‘ ان کی زندگیاں سنوارتا ہے‘ انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم
دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔‘‘
{اِنَّآ اَعْطَیْنٰك
الْكوْثَرَ} (الكوثر: ۱)
’’بے شک ہم نے آپ
کو کوثر عطا کی۔‘‘
{اِنَّ اللّٰه وَ
مَلٰٓیِكتَه یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۱ یٰٓاَیُّها الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا
عَلَیْه وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} (الاحزاب: ۵۶)
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ نبی کریمe نے
فرمایا:
[فُضِّلْتُ عَلَی
الْاَنْبِیَائِ بِسِتٍّ: اُعْطِیتُ جَوَامِعَ الْكلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَاُحِلَّتْ
لِیَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ طَهورًا وَمَسْجِدًا، وَاُرْسِلْتُ إِلَی
الْخَلْقِ كافَّة، وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ۔] (مسلم)
’’مجھے باقی انبیاء
o پر
چھ چیزوں کے ساتھ فوقیت دی گئی ہے: 1 مجھے جوامع الکلم عطا کیے گئے ہیں۔ 2 دشمن
پر رعب کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے۔ 3 میرے لیے مال غنیمت حلال قرار دیا گیا ہے۔ 4 میرے
لیے تمام روئے زمین کو پاکیزہ اور مسجد گاہ بنا دیا گیا ہے۔ 5 مجھے
تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔ 6 میرے ساتھ سلسلہ نبوت ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
اور تیری سیرت کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ کی
طرف سے انسانیت کی رہنمائی وہدایت کا جو انتظام کیا گیا تھا وہ ہمیشہ کتاب اللہ اور
سنت رسول اللہe کی
رہنمائی پر مشتمل تھا۔ کتاب نے بنیادیں فراہم کیں تو رسول اللہe نے
اس پر عمارت اٹھائی۔ کتاب اللہ نے اصول دیئے تو رسول اللہe نے
ان اصولوں کے سانچے میں معاشرے کو ڈھالا۔ چنانچہ جتنی اہمیت کتاب اللہ کی ہے اتنی ہی
رسول اللہe کے
قول وفعل (احادیث) کی ہے۔ ان دونوں کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں انہیں جدا کیا جائے گا تو وہیں کوئی فتنہ سر اٹھاتا نظر
آئے گا۔ اس دور میں جو نئی نئی گمراہیاں پیدا ہوئی ہیں ان میں سے ایک گمراہی یہ بھی
ہے کہ کچھ آزادی پسند طبائع نے جن پر احکام شریعت کی پابندی سخت گراں اور شاق ہے یہ
نعرہ لگایا کہ دین میں حجت صرف اور صرف قرآن ہے۔ رسول اللہe کا کام صرف قرآن پہنچا دینا تھا۔ ہم صرف قرآنی احکام
کی تعمیل کے مکلف ہیں اور اس سے باہر کی کوئی چیز خواہ وہ رسول اللہe کا
قول اور فعل ہی کیوں نہ ہو دین میں حجت نہیں۔ ایسے حضرات قرآن مجید کی چند آیات مثلاً
{تِبْیَانًا لِّكلِّ
شَیْئٍ} (النحل: ۸۹)
{تَفْصِیْلًا لِّكلِّ
شَیْئٍ} (الانعام: ۱۵۴)
سے غلط مفہوم لے کر یہ بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قرآن مجید
میں تمام مسائل کا حل موجود ہے اور قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے حدیث شریف کی کوئی خاص
ضرورت نہیں۔ حالانکہ حدیث رسول اللہe بھی
قرآن کریم کی طرح شریعت اسلامیہ میں قطعی دلیل اور حجت ہے۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ
نے اپنے کلام مقدس میں متعدد مقامات پر مکمل وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ یعنی نبیu کے
افعال وارشاد سے بھی احکام شرعیہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس موضوع کا احاطہ ہم آگے چل کر کرتے
ہیں۔
حدیث کی تعریف:
اس کلام کو حدیث کہا جاتا ہے جس میں نبی u کے
قول یا عمل یا کسی صحابی کے عمل پر آپe کے سکوت‘ یا آپe کی صفات میں سے کسی صفت کا ذکر کیا گیا ہو۔ حدیث کے
دو اہم جزو ہیں:
سند: جن واسطوں سے نبی کریمe کا
قول یا عمل یا تقریر یا آپe کی
کوئی صفت امت تک پہنچی ہو۔
متن: وہ کلام جس میں نبی کریمe کے
قول یا عمل یا تقریر یا آپe کی
کوئی صفت ذکر کی گئی ہو۔
مثال: [عن فلان عن فلان عن عمر بن الخطابؓ عن رسول الله ﷺ قال: ’إِنَّمَا الاَعْمَالُ
بِالنِّیَّاتِ…‘]
فلاں شخص نے فلاں شخص سے اور انہوں نے سیدنا عمرt سے
روایت کیا ہے کہ نبی کریمe نے
فرمایا: ’’اعمال کا دار ومدار نیت پر ہے۔‘‘
یہ سند حدیث ہے۔ یہ نبی علیہ السلام کا قول ہے جو متن حدیث ہے۔
حدیث کی حجیت:
حجیت کے معنی استدلال (کسی حکم کو ثابت) کرنے کے ہیں‘ یعنی قرآن
مجید کی طرح احادیث مبارکہ سے بھی عقائد واحکام وفضائل اعمال ثابت ہوتے ہیں۔ البتہ
اس کا درجہ کتاب اللہ کے بعد ہے۔ دین اسلام کے دو ہی سرچشمے ہیں: قرآن مجید اور حدیث
مصطفیe۔ دونوں کا مأخذ
وحی الٰہی ہے۔
محدثین کرامS نے
وحی الٰہی کی دو قسمیں بیان کی ہیں: 1 وحی متلو 2 وحی غیر متلو۔
وحی متلو وہ ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے یعنی قرآن کریم‘ جس کا ایک ایک حرف کلام الٰہی ہے۔
وحی غیر متلو وہ ہے جس کی تلاوت
نہیں کی جاتی‘ یعنی سنت رسولe جس
کے الفاظ نبی اکرمe کے
ہیں۔ البتہ بات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ نبی u تک وحی متلو پہنچانے کا ذریعہ سیدنا جبریلu تھے
جو قرآنی آیات کو لوح محفوظ سے لفظ بہ لفظ محفوظ کر لیتے اور پھر من وعن صاحب شریعت
حضرت محمد مصطفیe تک
پہنچاتے۔
علمائے سلف کے نزدیک وحی غیر متلو (احادیث مبارکہ) کسی ظاہری
واسطے کے بغیر نبی u کے
قلب اطہر پر القاء کر دی جاتی ہے۔ آپe‘ اللہ کے ان فرمودات اور اسلام کے
ان احکامات کو اپنے انداز اور الفاظ میں اپنے پیروکاروں اور امتیوں کے پاس پہنچاتے
تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریمe کی تعلیمات قرآن وسنت ہی تمام قوموں اور نسلوں کے لیے
نورِ ہدایت کا کام دے سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن اور سنت محمد مصطفیe (حدیث) کو تا قیامت
محفوظ ومامون کر دیا۔ اس کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا
الذِّكرَ وَ اِنَّا لَه لَحٰفِظُوْنَ}
’’بلاشبہ ہم ہی نے
ذکر (قرآن وحدیث) نازل کیا اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ (الحجر: ۹)
قرآن وحدیث کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ رب العزت نے خود لی ہے۔
ورنہ گمراہ مذاہب اور فرقے قرآن وسنت میں اپنی من مانی تاویل وتحریف کے ذریعے قرآن
وسنت کے دلائل وبراہین کو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کرتے۔ یہ قرآن وسنت کی حقانیت
کا اعجاز ہے کہ جب کبھی کفار‘ ملحدین اور باطل پرست قوتوں نے کتاب اللہ اور حدیث رسول
اللہe پر
اپنا طعن توڑا‘ احادیث نبویہe میں
موضوع اور من گھڑت روایات کو داخل کرنے کی ناکام سعی کی۔ تو محدثین کرامS اور
علمائے اسلام نے ان کے مذموم مقاصد کی قلعی کھول دی اور خطرناک عزائم کو ناکام بنا
دیا۔
جیسے قرآن منزل من اللہ ہے اسی طرح حدیث رسول اللہe بھی
منزل من اللہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
{وَ مَا یَنْطِقُ
عَنِ الْهوٰی٭ اِنْ هوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی} (النجم: ۳-۴)
’’رسول اللہe اپنی
مرضی سے کلام نہیں کرتے‘ وہ تو محض وحی ہے‘ جو آپ کی طرف کی جاتی ہے۔‘‘
قرآن مجید کی حیثیت اصل اور متن کی ہے اور حدیث اس کی تفسیر
شارح ہے۔ چنانچہ علامہ شاطبیa فرماتے
ہیں:
[فكان السنة بمنزلة
التفسیر والشرح لمعانی احكام الكتاب] (الموافقات: ۴/۱)
حجیت حدیث قرآن
مجید سے:
اصل دیں آمد کلام اللہ‘ معظم داشتن
پس حدیث مصطفیؐ بر جاں مسلم داشتن
اللہ جل جلالہ نے قرآن مجید میں متعدد مرتبہ حدیث رسولe کے
قطعی دلیل ہونے کو بیان فرمایا ہے جن میں سے چند آیات مندرجہ ذیل ہیں:
{وَ اَنْزَلْنَآ
اِلَیْك الذِّكرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهمْ وَ لَعَلَّهمْ یَتَفَكرُوْنَن}
(النحل: ۴۴)
’’اور ہم نے آپe پر
قرآن مجید نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے پاس ان احکام کی تصریح فرما دیں جو ان کے پاس
بھیجے گئے ہیں تا کہ ان پر غور وفکر کریں۔‘‘
بطور تاکید مکرر ارشاد فرمایا:
{وَ مَآ اَنْزَلْنَا
عَلَیْك الْكتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَهمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْه} (النحل:
۶۴)
’’اور نہیں نازل
کی ہم نے آپ پر الکتاب (قرآن) مگر اس لیے کہ آپe وضاحت کر دیں لوگوں کے لیے ان امور کی جس میں اختلاف
کرتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر فرمایا کہ قرآن
کریم کے مفسر اول نبیu ہیں
اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپe پر
یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ آپe لوگوں
کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ آپe پر
صرف رسالت کا پہنچانا ہی نہیں تھا بلکہ اس کی تفسیر اور توضیح بھی تھی کہ آپe امت
کے لوگوں کے پاس اپنی قولی یا فعلی سنت سے قرآنی آیات کی توضیح فرما دیا کریں۔ اس سے
یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ آپe نے اللہ کے احکامات اوامر ونہی کی جو وضاحت فرمائی وہی
حدیث رسول اللہe ہے۔
آپe کا
ارشاد گرامی ہے:
[الا انی اوتیت القرآن
ومثله معه۔]
’’آگاہ رہو کہ مجھے
قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ قرآن کی مثل (حدیث) بھی دی گئی ہے۔‘‘
اللہ کے پیغام کو امت تک پہنچانا یہ رسول اللہe کی
منصبی ذمہ داری تھی۔ آپe نے
قرآن اور سنت کی شکل میں لوگوں تک وہی پہنچایا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل
ہوا تھا۔
{وَ مَا عَلَی الرَّسُوْلِ
اِلَّا الْبَلٰغُ} (العنكبوت: ۱۸)
’’رسول کی ذمہ داری
واضح پہنچا دینا ہے۔‘‘
ایک مقام پر ذمہ داری رسالت کے متعلق یوں فرمایا:
{فَهلْ عَلَی الرُّسُلِ
اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ} (النحل: ۳۵)
’’پھر (بتلاؤ) کہ
پیغمبروں کے ذمے اس کے سوا اور کیا ہے کہ وضاحت کے ساتھ پیغام حق پہنچا دیں۔‘‘
سورۂ یٰسین میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینے کی غرض سے
ایک بستی والوں کی طرف جن رسولوں کے بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے وہاں رسول اللہe کی
طرف سے عائد کردہ ذمہ داری کا اقرار ان الفاظ میں اپنی زبان سے کر رہے ہیں:
{وَ مَا عَلَیْنَآ
اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ} (یٰسین: ۱۷)
’’اور ہمارے ذمے
اس کے سوا کیا ہے کہ ہم پیام حق صاف صاف پہنچا دیں۔‘‘
قرآن کے پندرہ مقامات پر رسول اللہe کو ابلاغِ دین کی ذمہ داری کی تاکید در تاکید کی گئی
ہے:
{یٰٓاَیُّها الرَّسُوْلُ
بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْك مِنْ رَّبِّك۱ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ
رِسَالَتَه}(المائده: ۶۷)
’’اے رسول! اللہ
تعالیٰ نے جو آپ کی طرف (قرآن وحدیث) نازل کیا ہے اسے پہنچا دو‘ اگر آپ نے ایسے نہ
کیا تو آپ نے رسالت کو پہنچایا ہی نہیں۔‘‘
علامہ سعدیa اس
آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کی
طرف سے اپنے رسول محمدe کو
بہت بڑا حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر جو نازل کیا ہے اسے لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اس
میں ہر قسم کا امر شامل ہے۔ جسے امت نے آپ سے حاصل کیا ہے خواہ وہ عقائد کے ساتھ تعلق
رکھتا ہے یا اعمال‘ اقوال احکام شرعیہ اور مطالب الٰہیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ رسول
اللہe نے
اسے اکمل طور پر پہنچایا اور اس میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ آپe نے
دعوت دی۔ اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور جنت کی بشارت دی‘ جاہل اور ناخواندہ کو تعلیم سے
آراستہ کیا‘ حتی کہ وہ علماء ربانیین بن گئے۔
آپe نے
یہ تبلیغ اپنے قول‘ فعل‘ خطوط اور سفیروں کے ذریعے کی۔ کوئی بھلائی ایسی نہیں جس کی
خبر آپe نے
امت کو نہ دی ہو اور کوئی شر ایسا نہیں جس سے امت کو ڈرایا نہ ہو۔
آپ کی اس تبلیغ کی گواہی اکابر اور افاضل صحابہ کرام] اور
ان کے بعد ائمہ دین S اور
رجال المسلمین نے دی۔‘‘ (تیسیر الکریم الرحمن: ص ۲۳۹)
شیخ صاحب کی تفسیر سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ نبیu نے
قرآن مجید ہی نہیں بلکہ شریعت مطہرہ سے متعلقہ تمام امور کو پوری بنی نوع انسانیت تک
پہنچایا۔ صحابہ کرام] آپe کی
عملی زندگی کے شاہد ہیں جو اس بات کی مضبوط اور متفقہ دلیل ہے کہ اسلام کی تبلیغ کا
حق ادا تب ہی ہوتا تھا جب قرآن مجید کے ساتھ حدیث رسول اللہe بھی
شامل ہوتی۔
جس طرح قرآن مجید کے احکامات پر عمل کرنا فرض ہے بعینہٖ حدیث
نبوی کی پیروی بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی رہبری وہدایت کے لیے خیر
البشرe کی
ذات گرامی کو عملی نمونہ کی حیثیت سے دنیا میں بھیجا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
{لَقَدْ كانَ لَكمْ
فِیْ رَسُوْلِ اللّٰه اُسْوَة حَسَنَة لِّمَنْ كانَ یَرْجُوا اللّٰه وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ}(الاحزاب:
۲۱)
’’اے مسلمانو! تمہارے
لیے (یعنی) ان لوگوں کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت میں (رحمت الٰہی کی) امید رکھتے ہیں‘
پیروی کرنے کو رسول اللہ کی ذات میں ایک عمدہ نمونہ ہے۔‘‘
اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ ایک مومن کی اُخروی زندگی کی
کامیابی کا دار ومدار رسول اللہe کے
اقوال وافعال کی پیروی واتباع میں ہے۔ آپe کی زندگی مومنین کے لیے بہترین نمونہ ہے اور آپe کے
اقوال وافعال کے مجموعہ کا نام ہی حدیث نبویe ہے۔
حافظ ابن کثیرa اس
آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’’اس آیت کریمہ کے
اندر نبی u کی
سیرت پاک (اقوال وافعال اور کردار) کو بطور نمونہ اور حجت پیش کیا گیا ہے اور اللہ
تعالیٰ نے آپe کی
سیرت کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘ (مختصر ابن کثیر: ۳/۸۸)
قرآن مجید کے ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے اپنی محبت کا
معیار رسول اللہe کی
پیروی کو ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
{قُلْ اِنْ كنْتُمْ
تُحِبُّوْنَ اللّٰه فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكمُ اللّٰه وَ یَغْفِرْ لَكمْ ذُنُوْبَكمْ}
(آل عمران: ۳۱)
’’اے رسول! آپ ان
لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ کو چاہتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تم کو چاہے
گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
{فَلَا وَ رَبِّك
لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكمُوْك فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا
فِیْٓ اَنْفُسِهمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} (النساء:
۶۵)
’’اے پیغمبر! مجھے
اپنی ربوبیت کی قسم! کہ جب تک یہ لوگ اپنے باہمی نزاعات کا فیصلہ آپ ہی سے نہ کرائیں
اور (صرف فیصلہ ہی نہیں بلکہ) جو کچھ آپ فیصلہ کریں اس سے کسی طرح تنگ دل بھی نہ ہوں
بلکہ (دل وجان سے اس کو) قبول کر لیں‘ اس وقت تک وہ ایمان سے بہرہ مند نہیں۔‘‘
اطاعت رسولe پر
یہ آیت بین دلیل ہے‘ اس میں اللہ رب العزت اپنی ذات کریمہ کی قسم کھا رہے ہیں کہ کسی
شخص کا ایمان واسلام اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک رسول عربیe کو
اپنے جمیع امور میں فیصل نہ تسلیم کر لے۔ یعنی جو حکم آپe نے
فرمایا اس کی اطاعت وفرمانبرداری بلا چوں وچراں ہونی چاہیے۔ … (جاری)
No comments:
Post a Comment