سیدنا امیر معاویہ
تحریر: جناب مولانا
محمد ابراہیم ربانی
آج کے اس پرفتن دور میں صحابہ کرام] بالخصوص سیدنا معاویہ بن ابی سفیانw کادفاع
کرنا علماء اہل سنت والجماعت کا فریضہ ہے۔دشمنان صحابہ کی طرف سے دیگر اصحاب رسولe کی
بنسبت سیدنا معاویہ t پر
زیادہ تنقیدکی جاتی ہے،بلکہ صحابہ کرام] کی عزتوں پر حملے کرنے والوں کی ابتداء اسی مظلوم صحابی
سے ہوتی ہے۔
اسی بناء پر اگر یہ کہاجائے کہ امیرمعاویہt کے
دفاع میں تمام اصحاب رسول کا دفاع مضمر ہے تو غلط نہ ہوگا۔
اہل سنت کے مشہور ثقہ امام ربیع بن نافع الحلبیa (المتوفی۱۴۴ھ) فرماتے ہیں:
[معاویة بْن اَبِی
سفیان ستر اصحاب رسول اللهﷺ، فإذا كشف الرجل الستر اجترء علی ما ورائه۔]
’’سیدنا معاویہ بن
ابی سفیانt رسول
اللہ eکے صحابہ کے لیے پردہ ہیںجب کوئی شخص اس پردے کوکھول دیگا تو
وہ اس پردے کے پیچھے جو لوگ ہیں ان پر بھی تنقید کرے گا۔‘‘ (تاریخ بغداد: ۱/۳۲۲)
کاتب وحی اورخال المومنین ہونے کاشرف:
سیدنا امیر معاویہt کوجلیل القدرصحابی ہونے کے ساتھ کاتب وحی اورخال المؤمنین
(یعنی مومنوں کا ماموں) ہونے کاشرف بھی حاصل ہے۔
سیدناعبداللہ بن عباسw بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو سفیانt نے
رسول اکرمe سے
کہا:
[یا نبی الله ثلاث
اعطنیهن، قال نعم قال عندی احسن العرب واجمله، ام حبیبة بنت ابی سفیان، ازوجكها، قال:
نعم قالومعاویة، تجعله كاتبا بین یدیك، قال نعم قال وتؤمرنی حتی اقاتل الكفار، كما
كنت اقاتل المسلمین، قال نعم۔]
’’اے اللہ کے نبی!
آپ مجھے تین چیزیں عطا فرما دیجیے (یعنی تین چیزوں کے بارے میں میری درخواست قبول
فرمالیجیے)آپe نے
جوابا ارشاد فرمایا: جی ہاں۔ (ابوسفیانt) نے عرض کیا کہ میری بیٹی ام حبیبہr عرب
کی سب سے زیادہ حسین وجمیل خاتون ہے میں اسے آپ کی زوجیت میں دیتا ہوں۔ آپe نے
فرمایا:جی ہاں۔(ابوسفیانt)نے عرض کیاکہ آپ
معاویہ کو کاتب وحی بنالیں تو آپe نے
فرمایا:جی ہاں۔پھر (ابوسفیانt)نے عرض کیاکہ آپ
مجھے کسی دستے کا امیر بھی مقرر کردیں تاکہ میں کفار سے لڑائی کروں جس طرح میں(قبول
اسلام سے قبل) مسلمانوںسے لڑائی کرتاتھاتو آپe نے فرمایا: جی ہاں۔‘‘ (صحیح مسلم: ۹۰۴۶)
اس صحیح حدیث سے ثابت ہواکہ امیرمعاویہt کو
کاتب وحی اور خال االمؤمنین ہونے کاشرف حاصل ہے۔
سیدناعبداللہ بن عباسw فرماتے ہیں:
[كنت العب مع الغلمان
فإذا رسول اللهﷺ قد جاء فقلت ما جاء إلا إلی فاختبات علی باب فجاء فحطانی حطاة فقال
اذهب فادع لی معاویة وكان یكتب الوحی قال: فذهبت فدعوته له فقیل: إنه یاكل، فاتیت رسول
اللهﷺ فاخبرته فقال فاذهب فادعه فاتیته فقیل انه یاكل، فاتیت رسول الله صلی الله علیه
وسلم فاخبرته فقال فی الثالثة لا اشبع الله بطنه۔]
’’میں لڑکوں کے ساتھ
کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہ e تشریف
لے آئے‘ میں نے کہا آپe میرے
لیے ہی تشریف لائے ہیں۔میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا۔ آپe نے
میرے کندھوں کے درمیان تھپکی لگائی اورفرمایا کہ جائو معاویہt کومیرے
پاس بلائو اور وہ (معاویہ)کاتب وحی تھے۔(ابن عباسw)کہتے ہیں کہ میں نے جاکر انہیں بلایا
تو بتایاگیاکہ وہ کھانا کھا رہے ہیں۔میں نے آکر رسول اللہe کوبتایا تو آپ نے فرمایا: دوبارہ جائو اور انہیں بلائو‘
میں ان کے پاس(دوسری بار)گیا تو بتایا گیاکہ وہ کھانا کھارہے ہیں۔میں واپس رسول اللہe کے
پاس آیا اور آپ کو اس کی اطلاع دی تو آپe نے (بطور مزاح) تیسری بار فرمایا: اللہ اس کے پیٹ کو
سیر نہ کرے۔ (دلائل النبوہ للبیہقی: ۶/۳۴۲)
مسند طیالسی میں اسی حدیث کے یہ الفاظ ہیں:
[ان رسول اللهﷺ بعث
إلی معاویة یكتب له۔] (مسند ابی داؤد الطیالسی: ۴/۴۶۴)
’’یعنی رسول اللہe نے
معاویہt کی
طرف پیغام بھیجا کہ وہ آپ کے لیے وحی کی کتابت کریں۔‘‘
بعض لوگ اس حدیث میں موجود الفاظ [لا اشبع الله بطنه] کو دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں بلکہ بعض ناصبیوں نے تو اس صحیح
حدیث کاہی سرے سے انکار کردیا۔ العیاذ باللہ!
حالانکہ یہی الفاظ صحیح مسلم(۶۹/ ۴۰۶۲)میں بھی موجود ہیں جبکہ بخاری ومسلم کی تمام مرفوع ومتصل روایات کی صحت پر اجماع
ہے۔
حقیقت میں ان الفاظ سے امیر معاویہt کی تنقیص ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس سے ان کی منقبت وفضیلت
ثابت ہورہی ہے۔ لغت عرب سے واقفیت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ کلام عرب میں اس طرح
کے الفاظ مزاح اور تکیہ کلام کے طور پر بولے جاتے ہیں۔
جیساکہ مشہور لغوی ابومنصورالازہری ابوعبید سے نقل کرتے ہوئے
کہتے ہیں:
[وهذا علی مذهب العرب
فی الدعاء علی الشیء من غیر إرادة لوقوعه، لا یراد به الوقوع۔]
ایسی باتیں اہل عرب کے اس طریقے کے مطابق ہوتی ہیں جس میں وہ کسی کے بارے میں بد
دعا کرتے ہیں لیکن اس کے وقوع کا ارادہ نہیں کرتے یعنی بددعا کا پورا ہوجانا مراد ہی
نہیں ہوتا۔ (تہذیب اللغۃ: ۱/۵۴۱)
مزید توضیح کے
لیے چند ائمہ کی تصریحات پیش خدمت ہیں:
شارح مسلم علامہ نوویa (المتوفٰی۶۷۶ھ) اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
[وقد فهم مسلم رحمه
الله من هذا الحدیث ان معاویة لم یكن مستحقا للدعاء علیه فلهذا ادخله فی هذا الباب
وجعله غیره من مناقب معاویةلانه فی الحقیقة یصیر دعاء له۔]
امام مسلمa نے
اس حدیث سے یہ سمجھاہے کہ سیدنامعاویہt بددعاکے مستحق نہیں تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث
کو اس باب میں ذکر کیاہے۔ امام مسلم کے علاوہ دیگراہل علم نے بھی اس حدیث کو سیدنا
معاویہt کے
مناقب میں شامل کیا ہے کیونکہ نبی اکرمe کے یہ الفاظ حقیقت میں ان کے لیے دعا بن گئے تھے۔ (شرح
مسلم: ۶۱/۶۵۱)
مشہور مؤرخ ومفسرعلامہ ابن کثیرa (المتوفٰی۴۷۷ھ) فرماتے ہیں:
[فركب مسلم من الحدیث
الأول وهذا الحدیث فضیلة لمعاویة۔]
’’امام مسلمa نے
اس حدیث کو پہلی حدیث کے متصل بعد ذکر کیا ہے، اس حدیث سے سیدنا معاویہt کی
فضیلت ثابت ہوتی ہے۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: ۸/۸۲۱)
امام آجریa (المتوفٰی۰۶۳ھ) نے اس حدیث کو [باب ذكر استكتاب
النبیﷺ لمعاویة رحمه الله بامر من الله عز وجل] میں ذکر کر کے بتایاکہ اس حدیث سے معاویہ کی فضیلت مترشح ہورہی
ہے۔ (کتاب الشریعۃ قبل حدیث: ۴۳۹۱)
حافظ ابن عساکرa (المتوفٰی ۱۷۴ھ) اسی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
[واصح ما روی فی
فضل معاویة۔]
’’امیرمعاویہt کی
فضیلت میں سب سے صحیح ترین روایت یہی ہے۔‘‘ (تاریخ دمشق: ۹۵/۶۰۱)
قاضی عیاض مالکیa (المتوفٰی۴۴۵ھ) اس حدیث کی توضیح میں فرماتے ہیں:
[یحمل علی انه من
القول السابق إلی اللسان من غیر قصد إلی وقوعه، ولا رغبة إلی الله تعالی فی استجابته۔]
’’اس قول کو سبقت
لسانی پر محمول کیاجائیگا جس میں وقوع کا ارادہ نہیں ہوتااورنہ ہی اللہ تعالیٰ سے اس
کی قبولیت کی رغبت ہوتی ہے۔‘‘ (اکمال المعلم: ۸/۵۷)
علامہ جلال الدین سیوطیa اسی حدیث کے بارے میں کہتے ہیں:
[اصح ما ورد فی فضل
معاویة رضی الله عنه حدیث ابن عباس انه كان كاتب النبیﷺ فقد اخرجه مسلم فی صحیحه۔]
’’امیرمعاویہ کی
فضیلت میں سب سے صحیح ترین ابن عباسw کی
حدیث کہ وہ کاتب وحی تھے ہے جس کو امام مسلم
نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔‘‘ (تنزیہ الشریعۃ للکنانی: ۲/۸)
علامہ ابن حجرa (المتوفیٰ۲۵۸ھ) اس طرح کے ایک جملے کے متعلق فرماتے ہیں:
[إنها كلمة تجری
علی اللسان ولا یراد حقیقتها۔] (فتح الباری: ۱/۷۵۵)
’’یہ ایسا کلمہ ہے
جو زبان پر جاری ہوجاتاہے اور اس کی حقیقت مقصود نہیں ہوتی۔‘‘
علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (المتوفٰی۹۴۴ھ) بھی اس طرح کی ایک حدیث کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
[هی كلمة لا یراد
بها الدعاء، وإنما تستعمل فی المدح كما قالوا للشاعر إذا اجاد: قاتله الله لقد اجاد۔]
’’یہ ایسا کلمہ ہے
کہ جس سے بددعامراد نہیں ہوتی،اسے صرف تعریف کے لیے استعمال کیاجاتا ہے جیساکہ کوئی
شاعرعمدہ شعر کہے توعرب لوگ کہتے ہیں قاتلہ اللہ (اللہ اسے مارے) اس نے عمدہ شعر کہا
ہے۔‘‘ (شرح صحیح البخار: ۹/۹۲۳)
علامہ ابن الملقنa (المتوفٰی۴۰۸ھ) اس طرح کے ایک جملے کے بارے میں فرماتے ہیں:
[كلمة تدعو بها العرب
ولا یریدون حقیقتها ووقوعه۔]
’’یہ ایک ایساکلمہ
ہے جس کے ذریعے عرب لوگ دعا دیتے ہیں اور وہ اس کی حقیقت اوروقوع کا ارادہ نہیں رکھتے۔‘‘
(التوضیح: ۳۲/۹۳۱)
علامہ ابو عبد الرحمن محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (المتوفٰی۰۲۴۱ھ) اسی حدیث [لا اشبع الله بطنه] کے بارے میں فرماتے ہیں:
[وقد یستغل بعض الفرق
هذا الحدیث لیتخذوا منه مطعنا فی معاویةﷺ ولیس فیه ما یساعدهم علی ذلك، كیف وفیه انه
كان كاتب النبیﷺ۔]
’’بعض گمراہ فرقے
اس حدیث کو غلط استعمال کرتے ہوئے اس سے سیدنا معاویہt کی تنقیص ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس حدیث
میں ایسی کوئی بات نہیں جو ان کی تائید کرتی ہو،اس حدیث سے معاویہt کی
تنقیص کیسے ثابت ہوگی اس میں تو یہ ذکر ہے کہ وہ نبی اکرمe کے
کاتب وحی تھے۔‘‘ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ: ۱/۵۶۱)
ائمہ دین کی ان تصریحات سے ثابت ہوا کہ اس حدیث سے سیدنا معاویہt کی
تنقیص ثابت نہیں ہوتی بلکہ یہ حدیث تو ان کی فضیلت وشرف کو واضح کررہی ہے۔
نیز یہ تو بات تھی ان الفاظ کے متعلق جو کہ بطورتکیہ ومزاح بولے
جاتے ہیں لیکن اگر رسول اکرمe کسی
صحابی کے لیے حقیقت میں بددعابھی کرلیں تو اس کوبھی اللہ تعالیٰ دعامیں بدل دیتے ہیں۔
سیدناابوہریرہt روایت
کرتے ہیں کہ آپe نے
فرمایا:
[اللهم إنما محمد
بشر، یغضب كما یغضب البشر، وإنی قد اتخذت عندك عهدا لن تخلفنیه، فایما مؤمن آذیته،
او سببته، أو جلدته، فاجعلها له كفارة، وقربة، تقربه بها إلیك یوم القیامة۔]
’’اے اللہ! بلاشبہ
محمدe بشرہے
اسے انسانوں کی طرح غصہ آجاتاہے،میں نے تجھ سے ایسا وعدہ لیاہواہے جس کو تونہیں توڑیگا‘
وہ یہ ہے کہ جس مؤمن کو میں تکلیف دوں یا برابھلا کہوں یا اسے ماروں تو ان چیزوں کو
اس کے لیے گناہ کا کفارہ بنادے اور روزقیامت ان چیزوں کو اس کے لیے اپنی قربت کا ذریعہ
بنا دے۔‘‘ (صحیح مسلم: ۱۰۶۲)
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:
[اللهم إنما انا
بشر فای المسلمین لعنته او سببته فاجعله له زكاة ورحمة۔]
’’اے اللہ! میں بشرہوں
لہٰذا مسلمانوں میں سے کسی کو بھی میں برابھلا کہوں یا بددعا کروں یا اسے ماروں تو
ان چیزوں کو اس کے لیے پاکیزگی اور رحمت بنادے۔‘‘ (صحیح مسلم: ۰۰۶۲)
امام ابن عساکرa (المتوفٰی۱۷۵ھ) فرماتے ہیں:
[قال بعض اهل العلم:
وهذه افضل فضیلة لمعاویة لان النبیﷺ قال: اللهم إنما انا بشر، اغضب كما یغضب البشر،
فمن لعنته او سببته فاجعل ذلك له زكاة ورحمة۔]
’’بعض اہل علم کا
کہنا ہے کہ یہ سیدنامعاویہt کی
افضل ترین فضیلت ہے کیونکہ نبی اکرمe کا فرمان ہے اے اللہ! میں بشرہوں‘ عام انسانوں کی طرح
مجھے بھی غصہ آتا ہے لہٰذا مسلمانوں میں سے کسی کو بھی میں برابھلا کہوں یا بددعا
کروں یا اسے ماروں تو ان چیزوں کو اس کے لیے پاکیزگی اور رحمت بنادے۔‘‘ (تاریخ دمشق:
۱۷/۷۱)
امام العصر علامہ ذہبیa (المتوفٰی۶۸۷ھ) نے بھی ان الفاظ [لا اشبع الله بطنه] کی توجیہہ میں رسول اللہe کا یہ فرمان [اللهم من سببته او شتمته من الامة فاجعلها له رحمة۔] پیش فرمایا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء: ۳/۳۲۱)
عبداللہ بن بریدہa فرماتے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہt نے
ایک ذاکرین (اللہ کا ذکر کرنے والوں) کی مجلس میں فرمایا:
[كنت ختنه وكنت فی
كتابة وكنت أرحل له راحلته۔]
میں رسول اکرمe کا
سالا ہوں، آپe کی
کتابت میرے ذمہ تھی اور میں ہی آپe کی سواری تیار کرتا تھا۔ (الشریعۃ للآجری: ۵/۱۶۴۲)
اس سے معلوم ہوا کہ امیرمعاویہt کا رسول اللہe سے خاص(گہرا) تعلق تھا۔ …… (جاری)
No comments:
Post a Comment