اسلام کا نظریۂ اجماع
(دوسری قسط) تحریر:
جناب پروفیسر حافظ محمد شریف شاکر﷾
اجماع کی سند:
اجماع کے لیے کسی شرعی سند کا ہونا ضروری ہے کیونکہ دین میں
بغیر علم و دلیل کے بات کرنا قطعاً درست نہیں۔
ارشاد الٰہی ہے: {لاَ تَقْف مَا لَیْسَ لَك بِهٖ عِلْم} (الاسراء(۱۷): ۳۶)
’’جس کے بارے میں
آپ کو علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑیے۔‘‘
اجماع کی سند کونسی چیز ہو کہ اسے معتبر سمجھا جاسکے؟ اس بارے
میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔البتہ کتاب وسنت کے سند اجماع ہونے میں قطعاً اختلاف
نہیں‘ لیکن اجتہادو قیاس کے سند اجماع ہونے میں اختلاف موجود ہے۔ (نواب صدیق حسن خان:حصول
المأمول :ص ۶۲)
ڈاکٹر زیدان لکھتے ہیں کہ اجماع کی سند کبھی قرآن سے ہوتی ہے
اور کبھی سنت سے ، دادیوں نانیوں اوراولاد کی بیٹیوں خواہ ان کا سلسلہ نیچے کہیں تک
بھی ہو، کی حرمت پر اجماع ہے اور اس کی سند اللہ تعالیٰ کا فرمان: {حُرِّمَتْ عَلَیْكمْ اُمَّھَاتكمْ وَبَنَاتكمْ} ’’تم پر تمہاری مائیں اور تمھاری بیٹیاں حرام کردی گئی ہیں۔‘‘ جبکہ اس پر اجماع منعقد ہو چکا ہے کہ اس آیت کریمہ
میں ’امھات‘ سے مرادعورتوں میں سے اُصول ہیں ،اس لیے اس میں دادی، نانی بھی داخل ہے۔
’بنات‘ سے مرادعورتوں میں سے فروع ہیں اس لیے یہ صلبی بیٹیوں اور اولاد کی بیٹیوں کو
اگرچہ نیچے تک ہوں شامل ہے اور مبنی بر سنت اجماع میں سے صحابہ کا دادی کو میراث میں
سے چھٹا حصہ دینے پر اجماع کرنا ہے کیونکہ نبی e نے دادی کو چھٹا حصہ دیا تھا۔ (الوجیز فی اصول الفقہ:
ص: ۱۸۸-۱۸۹)
دادی کی میراث کے مسئلہ میں صحابہ کرام] نے
سیدنا مغیرہ بن شعبہt (م۵۰ھ)کی روایت (الترمذی:، حدیث: ۲۱۰۰) کو سند سمجھا جبکہ
پھوـپھی، بھتیجی اور خالہ، بھانجی کو بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں رکھنے کی حرمت پر انہوں
نے سیدنا ابوہریرہt (م۵۷ھ) کی روایت کردہ مندرجہ ذیل حدیث کو اجماع کی سند قرار دیا :
[عن ابی ھریرة قال
نھی رسول اللّٰهﷺ ان یجمع بین المرأة وعمتھا وبینھا وبین خالتھا۔] (السنة للمروزی:
ص ۷۵)
اجتہاد و قیاس کے سند اجماع ہونے کے اختلاف کا تذکرہ کرتے ہوئے
ڈاکٹر زیدان لکھتے ہیں :
[وقد اختلف الاصولیون
فی جواز انعقاد الاجماع عن اجتھاد و قیاس فجوزه الاكثرون ومنعه غیرھم كداود الظاھری
وابن جریر الطبری۔] (الوجیز فی اصول الفقه: ص ۱۸۹)
’’قیاس واجتہاد سے
انعقاد اجماع کے جواز میں اصولیوں نے اختلاف کیا ہے ۔اکثر نے تو اسے جائز قررار دیا
ہے اور ان کے غیر داؤد ظاہری اور ابن جریر طبری نے اسے ممنوع قرار دیا ہے ۔‘‘
حافظ ابن حزمa رائے
اور قیاس پر مبنی اجماع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک جماعت نے کہا کہ اجماع ایسی چیزہے
جو قرآن اور نبیe سے
آمدہ احکام کے علاوہ ہو،لیکن اس کی صورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے علماء اپنی رائے سے یا
منصوص پر اپنے کئے ہوے قیاس سے ایسے حکم پر مجتمع ہو جائیں جس میں کوئی نص موجود نہ
ہو۔ابن حزم نے کہا کہ یہ باطل ہے اور قرآن یا سنت رسول اللہ eکی ایسی نص جو واضح
کرے کہ مختلفین کے کس قول میں حق پایا جاتا ہے اس کا ہونا ضروری ہے،ایسی نص کے علاوہ
کسی اور چیز پر امت کے علماء کا اجماع ہونا یقینا نا ممکن ہے ،لہٰذا جو شخص اس نص سے
موافقت کرے گا وہ صاحب حق دو دفعہ اجر کا حقدار ہو گا:ایک دفعہ تو اپنے اجتہاد اور
اپنے طلب حق پر اور دوسری دفعہ حق کا قائل ہونے اور اس کی اتباع کرنے پر اجر کا مستحق
ہو گا جو شخص اس نص کی مخالفت کرے گاوہ اپنی مخالفت کے سبب اَجر کا حقدار نہیں ہو گالیکن
حق کا قصد کرنے والے کو اپنے طلب ِحق پر صرف ایک اَجر ملے گا ،وہ شخص گناہ کا رفع کیا
ہوا ہوگا؟ کیونکہ اس نے اس کا ارادہ نہیں کیا تھا ،اور یہ بھی واضح ہوا کہ مسلمان کسی
نص میںاختلاف نہیں کریں گے لیکن اللہ عزوجل ان کے لئے اس پر اجماع اسی طرح واقع کر
دیں گے جس طرح اللہ تعالی نے جن نصوں میں چاہا کہ وہ ان میں اختلاف کریں ان میں ان
کے مابین اختلاف واقع کر دیا۔ (الاحکام فی اصول الاحکام: ص ۴/۱۲۸-۱۲۹)
ابن حزم مزید لکھتے ہیںکہ اجماع صرف نص پر مبنی ہو سکتاہے ،یہ
نص یا تو نبیe کا
کلام ہو گا آپ سے نقل ہو کر آیا ہو اور لازما محفوظ موجود ہو ، یا آپe کا
فعل ہو پس وہ بھی آپ سے ، اسی طرح منقول ہو
، یا آپ کاکسی چیز کوبرقرار رکھناہواور جو کوئی ان وجوہ کے غیر پر مبنی اجماع کا دعوی
کرے ، اسے اس کے اسے اجماع کہنے کے دعوی کو صحیح ثابت کرنے پر مجبور کیاجائے گا ،اسے
اپنے دعوی سے زائد اس پر دلیل کی راہ نہیں ملے گی،اور جو دعوی بلا دلیل ہو وہ باطل
ہوتا ہے۔ (الاحکام فی اصول الاحکام: ص ۴/۱۳۶)
امام ابن حزمa اپنے
اس دعوی کی دلیل قرآن سے پیش کرتے ہیں :
{اتَّبِعُوْا مَا
اُنْزِلَ إِلَیْْكم مِّن رَّ بِّكمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهٖ اَوْلِیَا} [الاعراف۷:آیة
۳] فامرنا تعالی ان نتبع ما انزل ونھانا عن
ان نتبع احدا دونه قطعا،فبطل بھذ ان یصح قول احد لا یوافق النص،وبطل بھذا ان یكون اجماع
علی غیر نص ، لان غیر النص باطل ،والا جماع حق ،والحق لا یوافق الباطل۔ (نفس المرجع:
ص ۴/۱۳۶)
’’تم اس کی اتباع
کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اولیاء کی اتباع
نہ کرو۔‘‘
’’پس اللہ تعالی
نے ہمیں وحی کی اتباع کا حکم دیا جو اس نے نازل کی اور اس کے سوا کسی اور کی اتباع
کرنے سے ہمیں قطعا منع کر دیا ،پس اس سے کسی شخص کے مخالف نص قول کا صحیح ہونا باطل
ٹھہرا ،اور اس سے نص کے غیر پر مبنی اجماع ہونا باطل ٹھہرا کیونکہ نص کا غیر باطل ہے
،اور اجماع حق ہے ،اور حق باطل کے موافق نہیں ہو سکتا۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہa اجماع علی النص کی تائید میں لکھتے ہیںکہ جس نے رسول
اللہ eکی مخالفت کی اس نے مومنین کے راستہ کے سوا اور کی پیروی کی
اور یہ بالکل واضح ہے اور جو شخص مومنوں کے سواکسی اور کی راہ پر چلا یقینا اس نے رسول
اللہ e کی
بھی مخالفت کی …کیونکہ یہ دونوںایک دوسرے کو لازم ہیں اور یہ اس لیے کہ وہ تمام چیزیں
جن پر مسلمان مجتمع ہیںوہ یقینا رسول اللہ e سے منصوص ہیں لہٰذا جو ان کا مخالف ہے وہ رسول اللہ
کا مخالف ہے ۔جیسے رسول اللہ کا مخالف اللہ کا مخالف ہے۔ لیکن یہ اس چیز کا مقتضی ہے
کہ جس پر اجماع کیا گیا ہے اسے رسول اللہe نے لازماً بیان کردیا ہے اور یہی بات درست ہے۔ لہٰذا
جو بھی مجمع علیہ مسئلہ ہے اس میںبیانِ رسول پایا جاتا ہے لیکن یہ بیان رسول، بعض دفعہ
کچھ لوگوں پر مخفی رہ جاتاہے اور یہ اجماع کو جانتے ہوئے اسے دلیل بنالیتے ہیں جیسے
دلالۃ النص کا علم نہ رکھنے والا شخص نص سے استدلال کرتاہے حالانکہ وہ قرآن میںبیان
کی ہوئی امثال کی طرح نص کے ہوتے ہوئے دوسری دلیل ہوتی ہے‘ اسی طرح اجماع بھی ایک دوسری
دلیل ہے جیسے کہاجاتاہے: ’اس پر کتاب و سنت اور اجماع دال ہیں‘ اور ان اصولِ ثلاثہ
میں سے ہر ایک،ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہوتے ہوئے حق پردلالت کرتاہے۔ کیونکہ جس پر
اجماع نے دلالت کی ہے اس پر یقینا کتاب و سنت نے دلالت کی ہے اور جس پر قر آن نے دلالت
کی ہے وہ رسول اللہ سے ماخوذہے لہٰذا کتاب و سنت دونوںرسول اللہ سے ماخوذ ہیں او رکوئی
بھی ایسا مسئلہ موجود نہیں کہ اس پر اجماع تو متفق ہو لیکن اس میں نص موجود نہ ہو۔
(مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام: ص ۱۹/۱۹۴-۱۹۵)
اس بارے میں حافظ ابن حزم ’’ ومن یشاقق الرسول ‘‘کے تحت لکھتے
ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صرف طریقہ مومنین کے ماسوا کے پیرو کا رکو وعید نہیں
سنائی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کو بھی وعید سنائی ہے جو ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول
اللہ e کی
مخالفت کرتاہے۔ کیونکہ طریقۂ مومنین صرف قرآن کی اطاعت اوررسول اللہe سے
ثابت شدہ سنن کی اطاعت کا نام ہے۔ لیکن ایسی شریعت ایجاد کرنا جس کے بارے میں کوئی
نص نہیں آئی، یہ مومنین کا راستہ نہیں بلکہ یہ کفر کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{إِنَّمَا كانَ قَوْلَ
الْمُؤْمِنِیْنَ إِذَا دُعُوا إِلَی اللّٰه وَرَسُولِه لِیَحْكمَ بَیْْنَهمْ أَن یَقُولُوا
سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا }
’’مومنوں کو جب اللہ
کی طرف اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے ،تو ان کا
جواب یہ ہونا چاہیے کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔‘‘
امام ابن حزمa نے
کہا کہ کلام اللہ کی نص سے ثابت شدہ یہ مومنوں کا راستہ ہے ۔اس کے سوا ان کے لیے اصلاً
کو ئی راستہ نہیں۔ (الاحکام فی اصول الاحکام: ص ۴/۱۳۱-۱۳۲)
کچھ لوگ مضاربت جیسے مسائل کو اجماع بلانص کی دلیل کے طور پر
پیش کرتے ہیں ، حالانکہ مضاربت پر اجماع بلانص نہیں ہے۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہa فرماتے ہیں کہ مضاربت ان کے مابین خصوصا ً قریش کے ہاں
دور جاہلیت میں معروف و مشہور تھی‘ وہ اکثر تجارت پیشہ تھے اور مالدار لوگ مال تجارت
عمال کے سپرد کرتے تھے اورخود رسول اللہ e نے قبل از نبوت اور وں کا مال لے کر سفر تجارت اختیار
کیا مثلاً سیدہ خدیجہ کا مال لے کر سفر تجارت کے لیے نکلے۔جس قافلے میںابو سفیان تھے
اس کا زیادہ ترمال ابو سفیان وغیرہ کے پاس بطور مضاربت تھا۔پھر جب اسلام آیا تو رسول
اللہ e نے
اسے برقرار رکھااورآپ کے صحابہ اوروں کا مال بطور مضاربت لے کر سفر کرتے تھے اورآپ
نے اس سے منع نہیں کیا تھا۔ نبی eکاقول،فعل اور تقریر سب کے سب سنت سے موسوم کیے جاتے ہیںتو جب
آپ علیہ السلام نے مضاربت کو برقرار رکھا تویہ سنت ثابتہ ٹھہری۔ (مجموع فتاوی شیخ
الاسلام: ص ۱۹/۱۹۵)
مضاربت کے بارے میں سیدنا عمرt کا ایک مشہور اثر ہے جسے امام مالک نے مؤطامیں تخریج
کیا اور جس پر فقہاء اعتماد کرتے ہیں، جب سیدنا ابو موسیٰ اشعریt نے
مال بھیجا تو وہ مال ،عمر ؓکے دونوں بیٹوں عبداللہ اور عبیداللہ کو جو عراق کی جانب
ایک لشکر میںگئے ہوئے تھے بطور قرض دیا۔انہوں نے اس سے تجارت کی اور نفع حاصل کیا،
سیدنا عمرt نے
تمام مال مسلمانوں کے لیے لینے کا مطالبہ کیا کیونکہ سیدنا ابو موسیٰ اشعریt نے
تمام لشکر میںسے صرف ان دونوں کو یہ مال دیا تھا‘ تب ایک بیٹے نے کہا:
[لو خسر المال كان
علینا فكیف یكون لك الربح وعلینا الضمان۔]
’’اگر مال میں خسارہ
پڑتا تو ہمیں بھرنا پڑتا ،لہٰذا یہ کیسے ہوسکتا ہے خسارے کے ضامن ہم ہوں اور نفع آپ
کو دے دیا جائے؟‘‘
تو کسی صحابی نے آپ سے کہا کہ آپ اسے مضاربت کی شکل دے دیں تو
آپؓ نے اسے مضاربت کی شکل دے دی ۔صحابی نے اسے مضاربت بنانے کا مشورہ اس لیے دیا کہ
مضاربت ان کے ہاں معروف اور جانی پہچانی چیز تھی اور عہد رسالت گزرے ابھی دیر نہیں
ہوئی تھی اور یہ آپ کے بعد نئی پیدا شدہ چیز نہ تھی۔لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ ان کے مابین
دورِ رسالت میں ایسی ہی جانی پہچانی چیز تھی جیسے کاشتکاری اور درزی و قصاب جیسوں کے
دیگر پیشے تھے۔ (مجموع فتاوی شیخ الاسلام: ص ۱۹/۱۹۶)
مذکورہ بالا بیان کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہa لکھتے
ہیں کہ مذکورہ بالاکو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیے کہ بہت سے اجماعی مسائل ایسے ہوتے ہیں
کہ بہت سے مجتہدین ان کے بارے میں نص سے بے خبر ہوتے ہیں‘ پس وہ ان مسائل میں نص کے
موافق اجتہاد رائے سے گفتگو کرتے ہیں لیکن نص ان کے غیر کے ہاں موجود ہوتی ہے۔ ابن
جریر اور ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اجماع نص ہی سے ہوسکتا ہے جسے ناقلین نے رسول اللہ
e سے
نقل کیا ہو، حالانکہ یہ قیاس کی صحت کے قائل ہیں۔ ابن تیمیہa شرط
عائد نہیں کرتے کہ تمام مجتہدین نص سے باخبر ہوںکہ وہ نص کو اسی طرح معنًی نقل کریں
جیسے خبریں نقل کی جاتی ہیں ۔ لیکن جب آپ نے مواردِ اجماع کو تلاش کیا تو تمام کو نص
پر مبنی پایا اور بہت سے علماء نص سے واقف نہیں ہوتے او ر وہ جماعت سے موافقت کرتے
ہیں جیساکہ وہ بعض دفعہ قیاس کے ساتھ حجت پکڑتے ہیں حالانکہ اس مسئلہ میں اجماع موجود
ہوتاہے اور یہ اس سے واقف نہیں ہوتے اور وہ قیاس اجماع کے موافق ہوتا ہے۔ (مجموع فتاوی
شیخ الاسلام: ص ۱۹/۱۹۷-۱۹۹)
اس کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہa نے کئی مسائل بطور مثال ذکر کیے ہیں اور ان مسائل میں
اصحاب رسول کے اختلافات کا تذکرہ کیا اور اس پر خوب بحث کی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہa اصحاب
رسول کے فہم کے مقابلہ میں متاخرین کے فہم کا اجماع کے بارے میں تقابل کرتے ہوئے لکھتے
ہیں کہ صحابہ کا فہم قرآن اکثر متأخرین پراسی طرح مخفی ہے جس طرح امور سنت اور احوال
رسول کے بارے صحابہ کی معرفت سے اکثر متأخرین بے خبر ہیں۔ صحابہ‘ رسول اللہ e کے
پاس رہے ،انہوں نے نزولِ وحی اور رسول اللہ کو آنکھوں سے دیکھا اور آپ کے اقوال وافعال
کی معرفت حاصل کی جس سے وہ اپنی اس مراد پر استدلال کرتے ہیں جس کی معرفت اکثر متأخرین
کو حاصل نہیں،جن کو اس کی معرفت حاصل نہیں ہوسکی وہ اس اجماع یا قیاس سے حکم طلب کرتے
ہیں جس اجماع و قیاس کا وہ اعتقاد رکھتے ہیں۔ متاخرین میں سے جس نے کہا کہ ’’اجماع
شریعت کی عظیم سند ہے ‘‘ تو بلا شبہ اس نے اپنی حالت کے بارے میں بتایا ہے اور اسے
یہ بات کہنے کی ضرورت کتاب و سنت کے بارے میںاپنی ناقص معرفت کے سبب پیش آئی۔ یہ ان
کے اس قول کی طرح ہے کہ ’’ اکثر حوادث میں قیاس کا محتاج اس لیے ہونا پڑتا ہے کہ ان
پر نصوص کی راہنمائی معدوم ہوتی ہے۔‘‘ یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جسے نہ تو کتاب
وسنت کی معرفت حاصل ہو اور نہ ہی ان دونوںکی احکام پر دلالت کا علم ہو۔ (نفس المرجع:
ص ۱۹/۲۰۰)
امام احمدبن حنبلa نے کہا ہے کہ صحابہ نے ہر مسئلہ یا اس کی نظیرپر گفتگو
کی ،جب ممالک فتح ہوئے اور اسلام پھیلا تو ہر قسم کے اعمال پید اہوئے جن پر صحابہ
ؓ نے کتاب و سنت کے ساتھ گفتگو فرمائی، اور ان صحابہ میں بعض نے چند مسائل میں رائے
کے ساتھ گفتگو کی۔ عام صحابہ اجماع کے ساتھ دلیل نہیںپکڑتے تھے اور نہ وہ اس کے محتاج
تھے جبکہ وہ خود اہلِ اجماع تھے،ان سے پہلے کوئی اجماع نہیں تھا۔ لیکن جب تابعین آئے
تو عمر بن عبدالعزیزنے قاضی شریح کو لکھا:
اقض بما فی كتاب اللّٰه فان لم تجد فبما فی سنة رسول اللّٰه، فان لم تجد فبما به
قضی الصالحون قبلك۔
’’جو کتاب اللہ میں
ہے اس کے ساتھ فیصلہ کیجیے اگر اس میں نہ پائو تو جو رسول اللہ کی سنت میں ہے اس کے
ساتھ فیصلہ کیجیے،اگر اس میں نہ پائو تو جو تجھ سے پہلے صالحین نے فیصلہ کیا ہے تم
بھی اس کے ساتھ فیصلہ کرو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جس پر لوگوں نے اجماع کیا ہے اس
کے ساتھ فیصلہ کرو!۔(مجموع فتاوی شیخ الاسلام: ص ۱۹/۲۰۰-۲۰۱)
اس ساری بحث سے واضح ہوا کہ اجماع کی بنیاد کتاب و سنت ہے، اس
کے ہوتے ہوئے کوئی اور چیز اجماع کی بنیاد نہیں بن سکتی ۔
اجماع کی اقسام
اجماع کی تقسیم کئی طریقوں سے کی گئی ہے:
(۱) بسیط و مرکب
الاجماع اما بسیط وھو اتفاق المجمعین علی امر واحد، اومركب و ھو اتفاقھم علی قولین
او اكثر بشرط اشتراك الامر الواحد فیھما۔ (المختصر فی اصول الفقه مع بغیة الفحول: ص
۹۱-۹۲)
’’اجماع یا توبسیط
ہوگا اور یہ کسی ایک امر پر اتفاق کرنے کا نام ہے یا (اجماع )مرکب ہوگا۔ یہ دو یادو
سے زائد اقوال پر متفق ہونے کا نام ہے بشرطیکہ ان دونوں قولوں میں امرِواحد مشترک ہو۔‘‘
حافظ محمد گوندلوؒی اس کی تشریح میںصاحب التوضیح کے حوالے سے
لکھتے ہیںکہ جب صحابہ دو قولو ںپراجماع کرلیں تو ہمارے ہاں تیسرے قول کی نفی پراجماع
ہوگا ،لیکن غیر صحابہ کے بارے میں؟تو ہمارے بعض مشائخ کے ہاں ایسا ہی ہے اور بعض مشائخ
نے اسے صحابہ کے ساتھ مخصوص کیا ہے ،جبکہ یہ اصلاًجائز نہیں کہ ان کے بارے میں جہالت
کا گمان تک بھی کیا جائے۔ بعض متأخرین کہتے ہیں کہ حق بات اسے مفصل بیان کرنا ہے اور
وہ اس طرح کہ اگر تیسرا قول ان کے مجمع علیہ قول کے ابطال کو مستلزم ہو تو نیا اجماع پیدا کرنا جائز نہیں اور
اگر ایسا نہ ہو تو جائز ہے۔ (گوندلوی محمد ،حافظ: بغیۃ الفحول فی شرح مختصر الأصول:
ادارہ اشاعۃ السنۃ، لاہور : ۱۳۸۸ھ / ۱۹۶۸ء : ص۹۲)
یہ تفصیل امام شافعیa سے بھی روایت کی گئی ہے اور آپ کے اصحاب میں سے متأخرین
نے اسے اختیار کیا اور اصولیوں کی ایک جماعت نے اسے راجح قرار دیا ،انہی میں سے ابن
حاجب ہیں ،انہوں نے اس کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ دو قولوں کا راجح نیا قول مخالف ٹھہرے
گااس کے جس پر اجماع ہوچکا ہے اور ایسا نیا قول جو ان دو قولوں کو رفع نہ کرے وہ ان
دو قولوں کا مخالف نہیں بلکہ بعض وجوہ سے وہ ان دونوں قولوں میں سے ہر ایک کے موافق
ہوگا۔‘‘ (نفس المرجع:ص۲۹)
(۲) حقیقی یا حکمی
اجماع یا تو حقیقی ہوگا اور یہ مجمعین کا قولاً اتفاق کرنا ہے
جیسے ان کا پانچ نمازوں اور تعداد رکعات پر اجماع کرنا اور ان کا ابو بکر ؓ کی خلافت
پر متفق ہونایا اجماع وہ ہے جو حقیقی کے حکم میں ہو،جیسے سکوت جو تقریر پردلالت کرتاہے،
جیسے مانعینِ زکوۃ کے خلاف لڑنے پر صحابہ کا اجماع۔ بلاشبہ ان میں سے اکثر نے اس بارے
میں بات کی اورباقی خاموشی سے تسلیم کرنے والے تھے اوریہ سکوت تقریر پر دلالت کرتاہے
کیونکہ برے کام سے منع کرنا واجب ہے اوریا اجماع حکمی ہوگا اوروہ اس سے مختلف ہوتاہے
جیسے ان کا کسی مسئلہ میںدوقولوں پر یا کئی قولوں پراختلاف کرنا اور ان کا یہ اختلاف
اور قول کے بطلان پر ان کا اجماع سمجھا جائے گا۔ (بغیۃ الفحول فحافظ محمد گوندلوی: ص۹۳)
(۳) قوی، متوسط یا ضعیف
اجماع یا تو قوی ہوگا اور یہ گذشتہ اورحاضر تمام مسلمانوں کا
اتفاق کرنا ہے ،جیسے ان کا محمدe کی
نبوت، آپ کے خاتم النبیین ہونے اور قرآن کے کلام اللہ ہونے پر اجماع ہے یا متوسط ہوگا
اور وہ اھل حق کا اسی طرح اتفاق کرناہے اوریہ صحابہ کے اتفاق کے ساتھ ہی تصور ہوگا،
جیسے ان کا اللہ تعالی کے لیے خبری صفات کو بلاکیف وتشبیہ ثابت کرنے پر اجماع ہے۔ یا
ضعیف ہوگا اور یہ صحابہ کے بعدکسی چیز پر متفق ہونے کو کہا جاتا ہے ۔جیسے صرف التقاء
ختانین سے غسل واجب ٹھہرانا ،اجماع کی مندرجہ ذیل بارہ قسمیں ٹھہریں: (نفس المرجع:
ص ۹۳-۹۴)
1 الاجماع البسیط
الحقیقی القوی 2 الاجماع البسیط الحقیقی المتوسط
3 الاجماع البسیط
الحقیقی الضعیف 4 الاجماع البسیط الحکمی القوی
5 الاجماع البسیط
الحکمی المتوسط 6 الاجماع البسیط الحکمی الضعیف
7 الاجماع المرکب
الحقیقی القوی 8 الاجماع المرکب الحقیقی المتوسط
9 الاجماع المرکب
الحقیقی الضعیف 0 الاجماع المرکب الحکمی المتوسط
! الاجماع المرکب
الحقیقی المتوسط @ الاجماع المرکب الحکمی الضعیف۔
(بغیۃ الفحول لحافظ محمد کوندلوی: ص ۹۴)
شیخ الاسلام ابن تیمیہa اجماع کی یوں تقسیم و تشریح کرتے ہیںکہ اجماع کی دو
قسمیں ہیں:
1 قطعی 2 ظنّی
اس سے کوئی چارہ کار نہیں کہ خلافِ نص قطعی اجماع معلوم کیا
جائے ، لیکن ظنی اجماع،سویہ اقراری اور استقرائی ہوتا ہے‘ وہ اس طرح کہ انسان علماء
کے اقوال تلاش کرے تو ان میں کوئی اختلاف نہ پائے یا قول قرآن میں مشتہر ہو اور وہ
کسی ایسے انسان کو نہ جانتا ہو جس نے اس کا انکار کیا ہو ،اگرچہ اس اجماع کے ساتھ دلیل
پکڑنا جائز ہے لیکن اس کے ساتھ معلوم نصوص کو مسترد کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ حجتِ
ظنیہ ہے جسے انسان جزم کے ساتھ صحیح نہیں کہ سکتا۔لہٰذاانسان یقینی طور پر مخالف چیز
کی نفی نہیں کرسکتا ، اور جہاں مخالف کی قطعی نفی کرسکتا ہو وہاںاجماع قطعی ہوگا ،لیکن
جب مخالف کے نہ ہونے کا گمان ہواور اسے قطعیت کے ساتھ نہ کیاجائے تو یہ حجتِ ظنیہ ہو
گی اورحجتِ ظنیہ کے ساتھ معلوم نص دفع نہیں کی جاسکتی لیکن اسے بطورِحجت پیش کیا جاسکتاہے
اوراسے اس پر مقدم کیا جائے گا جواس سے ظنی ہونے میں کم مرتبہ ہو،اور اس پر وہ ظن مقدم
کیاجائے گا جو اس سے قوی تر ہو، پھر جب اس کا دلالۃ النص کے لیے ظنی ہونا،ثبوتِ اجماع
کے ذریعے ظنی طور پر قوی تر ہوتو دلالۃ النص کو مقدم کیا جائے گااور جب اس کا اجماع
کے لیے ظنی ہونا زیادہ قوی ہوتو اسے مقد م کیا جائے گا۔ (مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام:
ص ۱۹/۲۶۷-۲۶۸)
معتبر اور غیر معتبر اجماع:
اجماع وہی ہے جو مجتہدعلما نے کیا ہو ۔بدعتی فرقوں کا اجماع
ناقابلِ اعتبار ہے۔ جمہور کے ہاںصرف ان مجتہدین کااجماع معتبر ہے جو ہوس و فسق کے درپے نہ ہوں۔ (اصول البزدوی
(مع کشف الاسرار): ص ۳/۲۳۷)
یعنی جو عدالت سے متصف اور بدعات سے مجتنب ہوں۔
اس بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ مجتہدین کا
اتفاق ہی درحقیقت اجماع ہے اور غیر مجتہدین کوحل عقد میں کوئی دخل نہیں۔ ادلہ اربعہ
میں سے تیسری دلیل جس کا اخذ کرنا واجب ہے وہ مجتہدین کا اتفاق ہے نہ کہ کوئی اور چیز۔
(قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین: ص ۲۵۱)
شنقیطی (م ۱۳۹۳) لکھتے ہیں کہ مجتہدعلمائے
عصر کے اجماع کو معتبر سمجھنے میں کوئی اختلاف نہیں۔اس میںبھی کوئی اختلاف نہیں کہ
بچوں اور پاگلوں کو اہل اجماع میں شمار نہیں کیا جاتا،باقی رہی عوام کی بات تو اکثر
کے ہاںان کا قول معتبر نہیں، بعض لوگوں نے کہاہے کہ ان کا قول معتبر ہے کیونکہ وہ مومنین
کے نام اورلفظِ امت میںداخل ہیںاوریہ قول اجماع کے ابطال کا مقتضی ہے ،یہ اس لیے کہ
کسی ایک مسئلہ میںتمام امت کے اقوال کی معرفت محال ہے۔ حق بات یہ ہے کہ عوام کی جہالت
کے سبب ان کا قول معتبر نہیں۔ (مذکرۃ اصول الفقہ علی روضۃ الناظر: ص ۲۷۱-۲۷۲) …… (جاری)
No comments:
Post a Comment