موزوں پر مسح کے احکام
تحریر: جناب مولانا
عبدالرحمن اثری
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کی سہولت کے لیے دین کے بعض
احکام میں رعایت اور نرمی رکھی ہے، ان احکام میں سے موزوں پر مسح بھی ہے جس کا کرنا
اللہ کے رسولe سے
ثابت ہے۔ شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجرؒ رقم طراز ہیں: حفاظ حدیث کی ایک جماعت نے وضاحت
کی ہے کہ موزوں پر مسح کرنا متواتر (دلائل سے ثابت) ہے۔ (فتح الباری: ۱ / ۴۰۸) اور آپ نے اس سے متعلق احکام کو بھی بیان فرما دیا ہے۔ درج ذیل سطور میں احادیث
کی روشنی میں احکام بیان کئے جا رہے ہیں:
غزوۂ تبوک میں فجر کی نماز کے وقت اللہ کے رسولe وضو
فرما رہے تھے، اور سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ ساتھ میں موجود تھے، بیان کرتے ہیں:
[كنت مع النبیﷺ فتوضأ
فأھویت أن أنزع فقال دعھما فانی أدخلتھما طاھرتین فمسح علیھما] (متفق علیه)
’’میں اللہ کے رسولe کے
ساتھ تھا، آپ نے وضوء بنایا، میں جھکا کہ آپ کے خف (چمڑے کا موزہ) کو اتار دوں، آپ
نے فرمایا: ان کو چھوڑ دو، میں نے ان کو وضوء کی حالت میں پہنا ہے۔‘‘
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ موزوں پر مسح کرنا اس وقت درست ہوگا
جب وضو کی حالت میں ان کو پہنا جائے۔ ایک دوسری حدیث میں بھی اس کی صراحت ہے:
[وعن أبی بكرة رضی
الله عنه عن النبیﷺ أنه رخص للمسافر ثلاثة أیام ولیالیھن، للمقیم یوما ولیلة اذا
تطھر فلبس خفیه أن یمسح علیھما۔] (دارقطنی)
’’اللہ کے رسولe نے
مسافر کے لیے تین دن اور تین رات اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات کی مدت موزوں
پر مسح کرنے کی متعین فرمائی ہے، جب وہ وضو کر کے ان کو پہنے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موزے پر مسح کی رخصت سے فائدہ اٹھانا
ہو تو ان کو بحالت وضوء پہنا جائے اور مدت مسح بھی اس حدیث میں بیان کر دی گئی کہ مقیم
کے لیے ایک دن اور ایک رات اور مسافر کے لیے تین دن اور تین رات۔
احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسح کی مدت موزہ پہننے کے
وقت کے بجائے پہننے کے بعد جب پہلی مرتبہ وضو کر کے اس پر مسح کیا جائے اس وقت سے شروع
ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ظہر کی نماز کے وقت وضو کر کے موزہ پہنا گیا اور اس کے
بعد عصر کی نماز کے وقت وضو کرنے کی ضرورت پڑی اور وضو کر کے موزے پر مسح کیا گیا تو
موزے پر مسح کرنے کی مدت ظہر کے وقت سے نہیں بلکہ عصر کے وقت جب اس پر پہلی مرتبہ مسح
کیا گیا اس وقت سے شروع ہوئی۔ سیدنا ابوبکرt رسولe سے بیان کرتے ہیں:
[انه رخص للمسافر
اذا توضأ لبس خفیه ثم أحدث وضوئا أن یمسح ثلاثة أیام ولیالیھن وللمقیم یوما ولیلة۔]
(ابن ماجه)
’’اللہ کے رسولe نے
مسافر کے لیے جب وہ وضو کر کے اپنا موزہ پہنے پھر وضوء کی تجدید کرے تو تین دن اور
اس کی راتیں اور مقیم کے لیے ایک دن اور رات مسح کرنے کی رخصت دی۔ یعنی اس کے مسح کی
مدت موزہ پہننے کے بعد پہلے وضوء سے شروع ہوئی۔ ‘‘
اسی طرح ایک دن اور رات اس کی مدت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مسح
کی حالت میں ایک دن اور ایک رات پوری ہونے کے وقت ہم وضوء سے نہیں ہیں تو اب ہم وضوء
کر کے اس پر مسح نہیں کر سکتے، بلکہ ہم موزہ اتار کر پیروں کو وضوء کرتے وقت دھوئیں،
لیکن اگر اس مدت کے پوری ہونے کے بعد بھی ہم اسی وضوء کی حالت میں ہیں جو ہم نے مدت
پوری ہونے سے پہلے کیا تھا تو اس وضوء کا اعتبار ہو گا اور اس سے ہم نمازیں بھی ادا
کر سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ مدت پوری ہوتے ہی ہمارا مسح کالعدم نہیں ہو جائے گا بلکہ
مدت پوری ہونے کے بعد وضو کے ٹوٹنے پر مسح کی مدت ختم ہو گی، اس طرح اگر کوئی شخص موزہ
پہنے ہوئے ہے اور اس پر مسح کر کے نماز ادا کر رہا ہے، مدت مسح کے دوران استنجاء کے
لیے جاتے وقت یا سوتے وقت اسے موزہ اتارنا ضروری نہیں، اگر مدت کے دوران اس نے موزہ
اتار دیا تو اب دوبارہ پہن کر اس پر مسح نہیں کر سکتا بلکہ نئے سرے سے پورا وضوء کر
کے تب اسے موزہ پہننا ہوگا۔ البتہ مدت مسح کے دوران اگر اس پر غسل جنابت واجب ہو جائے
تب اسے غسل جنابت کرنے کے لیے موزہ اتارنا ہی ہوگا۔ سیدنا عمرt کی
موقوف اور سیدنا انسt کی
مرفوع روایت ہے:
[اذا توضأ أحدكم
ولبس خفیه فلیمسح علیھما ولیصل فیھما ولا یخلعھما ان شاء الا من جنابة۔] (دارقطنی)
’’جب تم میں سے کوئی
شخص وضو کر کے اپنے موزے پہنے تو ان پر مسح کرے اور اسے پہنے ہوئے نماز پڑھے، ان کو
نہ اتارے، اگر وہ چاہے، ہاں سوائے جنابت کے۔‘‘
مطلب یہ کہ جنابت کی حالت میں غسل کے لیے اسے اتارنا ہوگا، حضرت
صفوان بن عسال کی مرفوع روایت ہے: ’’ولکن من غائط وبول ونوم‘‘ (نسائی، ترمذی) لیکن
پیشاب، پاخانہ اور سونے کے لیے اسے اتارنے کی ضرورت نہیں۔
موزوں پر مسح اس کے اوپر والے حصہ پر کیا جائے اور ایک بار کیا
جائے، سیدنا علیt کی
روایت ہے کہ
[لو كان الدین بالرأی
لكان أسفل الخف أولی بالمسح ولكن رأیت رسول اللهﷺ یمسح علی ظاھر خفیه] (ابوداؤد)
’’اگر دین کے مسائل
عقل سے طے ہوتے تو موزے کا نچلا حصہ مسح کا زیادہ حق رکھتا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ
اللہ کے رسولe نے
اس کے اوپر مسح کیا۔‘‘
مسح کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ کی انگلیوں کے کنارے پانی سے تر
کر کے ان کو پیر کی انگلیوں پر رکھ کر پنڈلی تک سیدھے کھینچا جائے، اس سلسلہ میں بعض
روایتیں بھی آئی ہیں، سیدنا علیt سے
بیان کیا گیا ہے کہ:
[انه رأی رسول اللهﷺ
یمسح علی ظھر الخف خطوطا بالأصابع۔] (سبل السلام ۱/۸۵)
’’اللہ کے رسولe نے
اپنے موزے کے اوپر مسح کیا انگلیوں سے لکیر کھینچتے ہوئے، مگر امام نوویؒ نے اسے ضعیف
قرار دیا ہے۔ ‘‘
جس طرح چمڑے کے موزے پر مسح کرنا درست ہے اسی طرح اون، سوت اور
نیلون کے موزوں پر بھی مسح کرنا درست ہے، البتہ اس سلسلہ میں علماء نے لکھا ہے کہ مسح
کرنے کے لیے یہ موزے موٹے ہوں تو بہتر ہے، سیدنا مغیرہ بن شعبہt کی
روایت ہے کہ
[توضأ النبیﷺ ومسح
علی الجوربین والنعلین۔] (ترمذی)
’’اللہ کے رسولe نے
وضو فرمایا اور اپنی جورابوں اور جوتیوں پر مسح کیا۔‘‘
موزوں پر مسح کرنے کی روایت متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے۔ سیدنا
ثوبانt کہتے
ہیں:
[بعث رسول اللهﷺ
سریة فأمرھم أن یمسحوا علی العصائب یعنی العمائم والتساخین یعنی الخفاف۔] (ابوداؤد)
’’اللہ کے رسولe نے
ایک فوجی دستہ بھیجا اور آپ نے ان کو (پٹیوں) عمامے اور موزوں پر مسح کرنے کا حکم
دیا۔‘‘
موزوں میں اگر پیوند لگا ہوا ہو یا معمولی سوراخ ہو تب بھی اس
پر مسح کرنا درست ہے۔ اگرچہ ائمہ کرام کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ پھٹے ہوئے
موزے پر مسح کرنا درست ہے یا نہیں، اس سلسلہ میں احوط یہی ہے کہ ایسے موزے جو اتنے
پھٹے ہوئے نہ ہوں جن کو عرف عام میں پھٹا ہوا کہا جا سکے اور جس سے قدم کا وہ حصہ پھٹا
ہونے کی وجہ سے ظاہر نہ ہو جس پر مسح کیا جاتا ہے (مسح کا محل ہے) تو اس پر مسح کیا
جائے۔
اور اگر پھٹن ایسی ہو کہ اس پر پھٹا ہونے کا اطلاق ہو سکے تو
اس حصہ کی سلائی کر کے یا پیوند لگا کر اس پر مسح کیا جائے بہتر یہی ہے اور اختلاف
سے بچنے کا راستہ بھی یہی ہے۔ (واللہ اعلم)
خلاصہ یہ ہے کہ موزوں پر مسح دین کی سہولتوں میں سے ایک ہے اور
اس سے فائدہ اٹھانا خصوصاً سردی کے اس موسم میں اس سے سردی سے حفاظت بھی ہے۔
No comments:
Post a Comment