حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی
تحریر: جناب حکیم محمد
اقبال بلوچ
پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدرویa علیگ،ہمہ جہت،ہمہ صفت،عہد آفرین شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ
نے انہیں بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔وہ بیک وقت بے مثال خطیب ،بے بدل
ادیب ،نڈر صحافی ،بلند پایہ شاعر، مایہ ناز طبیب، دانشور، ممتاز سماجی وسیاسی کارکن،
تحریک پاکستان، تحریک تحفظ ختم نبوت کے کارکن تھے۔مگر ان کا سب سے بڑا وصف ان کا سچا
وپکا مسلمان ہونا تھا۔ انہوں نے حق پرستوں کی طرح زندگی گزاری اور ان کی زندگی کا عنوان
اسلام،پاکستان اور طب مشرقی ہے۔جس کام میں بھی حصہ لیا اس کا مقصد اسلام کی سربلندی
وسرفرازی رہا۔ حالات وواقعات ،مسائل و مشکلات ان کے پایہ استقلال میں لغزش پیدا نہ
کر سکے۔ گزشتہ نصف صدی میں علم وادب کا میدان ہویا طب وصحت کا، تحریک پاکستان ہو یا
استحکام پاکستان، ختم نبوت کی تحریک ہو یا نظام مصطفی کی، شعر و شاعری ہو یا سماجی
بہبود کی سرگرمیاں یاقومی خدمت کا کوئی مسئلہ ہو وہ ہر جگہ سچے جذبوں سے نظر آتے ہیں۔
حکیم عنایت اللہ نسیم کا تعلق ایک دین دار اور ممتاز طبی خانوادہ
سے تھا ۔ان کی ولادت مردم خیز سرزمین سوہدرہ میں ہوئی‘ ابتدائی دینی تعلیم مولانا غلام
نبی ربانی سے حاصل کی۔ ان کے چچا حکیم عبدالرحمن اپنے عہد کے نامور طبیب تھے۔ دوران
تعلیم ہی با با ئے صحافت مولانا ظفر علی خانؒ سے تعلق قائم ہوگیا ۔میٹرک کا امتحان
پاس کیا تو مولانا ظفر علی خانؒ کے ایما پر مزید تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
چلے گئے۔ جہاں سے طب کا پانچ سالہ ڈگری کورس امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی
ان دنوں ملی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔یوں آپ کا دور شباب حریت وآزادی سے عبارت ہے۔اس
یونیورسٹی کے طلبہ نے برصغیر کی تاریخ میں ایک انقلاب برپا کیا اور برطانوی و ہندو
سامراج سے آزادی حاصل کرکے پاکستان قائم کیا۔ حکیم عنایت اللہ نسیمؒ ان طلبہ کے سرخیل
تھے جو قیام پاکستان کی جنگ لڑ رہے تھے۔ علی گڑھ میں جب آل انڈیا مسلم سٹودنٹس فیڈریشن
کا قیام عمل میں آیا تو حکیم صاحب تأسیسی اجلاس میں شریک تھے۔ قائد اعظم کی علی گڑھ
آمد پر جن طلبہ نے ان کی بگھی کو کندھوں پر اْٹھایا ان میں وہ بھی پیش پیش تھے ۔علی
گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وہ طلبہ جو آل انڈیا مسلم لیگ
کے لکھنؤ سیشن 1937ء،
پٹنہ سیشن 1938ء
اور لاہور سیشن 1940ء
میں شریک ہوئے ان میں حکیم عنایت اللہ نسیم شامل تھے۔ 1937ء
کے بجنور کے ضمنی انتخابات میںمولانا شوکت علی اور مولانا ظفر علی خان کے ہمراہ کام
کیا ۔فسادات بہارمیں بیگم سلمیٰ تصدق حسین کے ساتھ کام کیا۔1946ء
کے انتخابات جو قیام پاکستان کے نام پر لڑے گئے میں نواب زادہ لیاقت علی اور کنور اعجاز
کے حلقہ مظفر نگر میں مسلم لیگ کی جانب سے ڈیوٹی کی۔تحریک پاکستان میں مولانا ظفر علی
خان اور ابوسعید انور کے ہمراہ کام کیا ۔قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری،
تحریک جمہوریت ،تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفی میں کا م کیا ۔آپ کو 1987ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے تحریک پاکستان گولڈ میڈل دیا
گیا ۔حکیم عنایت اللہ نسیم نظریہ پاکستان کے سچے سپاہی تھے۔ پاکستان سے محبت ان کے
ایمان کا حصہ تھی ۔وہ کہا کرتے تھے کہ یہ وطن ہم نے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔اس
کی حفاظت ہمارا فرض ہے ۔ہم نے آزادی کی نا قدری کی جس کی سزا سقوط مشرقی پاکستان کی
صورت میں ملی ہے۔ پاکستان کی بقا و تحفظ نظریہ پاکستان میں ہے۔ ہم نے عطیہ ربانی کی
قدرنہ کی اور قائد کی امانت میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں ۔اسلام پاکستان اور طب کے
حوالے سے جب کوئی مسئلہ ہوتا وہ تحریروتقریر دونوں صورتوں میں سامنے آجاتے اور رہنمائی
کرتے۔ آپ مولانا ظفر علی خان کے خصوصی مداح تھے، ان کے رفیق تھے۔ مولانا ظفر علی خان
کے انتقال کے بعد وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے ظفر علی خان کے فکرونظر کے چراغ کو جلائے
رکھا۔ مرکزی مجلس ظفر علی خان قائم کی۔ ان کے افکار کو سرعام کرنے کے لیے شہر شہر جاتے،
تقاریرکرتے ،اخبارات و رسائل میں تحریریں شائع کرواتے، اپنے تعلق اور دوستی کے شایان
شان ان کی تقلید کی‘ یو ں وہ ظفر علی خان کی زندگی کا جزو لا ینفک بن گئے۔ ان کی شخصیت
پر قائداعظم کے سیاسی افکار،علامہ اقبال کے فکر وفلسفہ ،مولانا ظفر علی خان کے جذبوں
اور ولولوں کی گہری چھاپ تھی۔ ان کی تحریریں، ان کے گہرے سیاسی شعور اور عمیق فکر پر
دلالت کرتی ہیں۔ انہوں نے جس جوش سے تحریک پاکستان کے لیے کام کیا اس سے زیادہ جذبے
سے استحکام پاکستان کے لیے کوشاں رہے۔ اسلامی شعائر وروایات کے پابند اور ان کی بے
حرمتی کسی طور پر برداشت نہ کرتے ۔ آپ نے ایک رفاہی ادارہ البدر کمپلیکس بھی قائم
کیا جس میں دارالمطالعہ، لائبریری، بچیوںکے لیے دستکاری سکول وقرآن سکول قائم کیے۔
انجمن حمایت اسلام لاہور کی جنرل کونسل ،مجلس کارکنان تحریک پاکستان کی مجلس عاملہ
،مجلس محمد علی جوہرکی مجلس عاملہ کے ممبر، مرکزی مجلس ظفر علی خان کے بانی و صدر،
طبیہ کالج حمایت اسلام لاہور کی کمیٹی کے ممبر رہے۔ اتنی مصروف زندگی کے باوجود باقاعدہ
مطب کرتے۔ آپ نیشنل کونسل فار طب حکومت پاکستان کے گیارہ سال ممبر رہے، امتحانی کمیٹی
کے چیئرمین اور حکماء کی تنظیم پاکستان طبی ایسوسی ایشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری، فار
ائیر ہیلتھ پلان اور ٹیکسٹ بک کمیٹی کے ممبر رہے۔ ان ذمہ داریوں کے حوالے سے ملک بھر
کے دورے کیے۔ طب کی دنیا میںقیادت کے درجے پر فائز تھے اور شہید حکیم محمد سعید دہلوی
کے رفیق خاص تھے۔آپ میدان طب میں عالمی فکرونظر کی تعلیم و تحقیق کے علم بردار تھے۔
عطایت کے سخت مخالف تھے اور انہیں طب کے لیے بدنامی قرار دیتے۔ اخبارورسائل میں ملکی
و ملی مسائل پر ان کی تحریریں باقاعدگی سے ان کی زندگی میں شائع ہوتی رہیں۔ ان کی معروف
تصانیف میں ظفرعلی خان اور ان کا عہد ،قائد اعظم محمد علی جناح، علی گڑھ کے تین نامور
فرزند،رسول کائناتe،طبی فارما کوپیا
،جدید و قدیم طب کا موازنہ ،پھلوں وسبزیوں سے علاج شامل ہیں.اس قدر مصروفیات کے باوجود
قلم وقرطاس سے رشتہ قائم رکھا۔
آپ 9 دسمبر 1994ء
کو چند روزہ علالت
کے بعد جمعہ کی شام انتقال کرگئے ۔آپ کی نماز جنازہ حافظ احمد شاکر بن عطااللہ حنیف
نے پڑھائی ۔ آپ کو آباؤ اجداد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا ۔شہید پاکستان محمد سعید
نے ان کو یوں خراج عقیدت پیش کیا: حکیم عنایت اللہ نسیم راہ حق کے مسافر تھے۔ انہوں
نے اس راہ میں مقصدہر سنگ گراں کو نظر انداز کیا‘ ان کا اصول حیات خدمت خلق رہا اور
مقصد حیات نفی ذات کرکے حقوق العباد پر ہمہ دم و ہمہ جہت، متوجہ رہتے ۔آپ ایک بلند
فکر طبیب تھے۔ ساتھ ساتھ علم وادب کے میدان میں مستعد و متحرک، تحریک پاکستان سے ان
کی وابستگی اور راہنماؤں سے ان کی قربت تاریخ پاکستان کا باب ہے۔
No comments:
Post a Comment