Sunday, December 15, 2019

الفقہ فی الدین 47-2019


الفقہ فی الدین

تحریر: جناب سید اکرام اللہ گیلانی
جب سے عالم دنیا میں انسانیت کاوجود عیاں ہوا ہے اس دور سے یہ بات ہر عاقل وبالغ کے قلب وذہن میں راسخ ہوچکی ہے کہ اس کائنات کو معرض وجود میں لانے والے یعنی رب العالمین کاایک بہت بڑامقصد ہے۔ کیونکہ دنیامیں ہرچیز کاکوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے‘ اگرچہ وہ مقصدبعض اوقات انسان کی عقل کی حد سے بالا تر ہو جائے، لیکن مقصد ضرور ہوتاہے۔ اسی طرح اللہ رب العالمین نے جب بنی نوع انسان کو دنیائے فانی میں اپناجانشین بناکر بھیجا تو ساتھ یہ بھی اعلان کردیا:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ}
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا تا کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (الذٰریات:۵۶)
تو جب اللہ رب العزت نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیداکیااوراس انسان کو طریقہ عبادت کی رہنمائی کے لیے انبیاء ورسل کو مبعوث کیا۔ پھر ان انبیاء کو کتب وصحف ، تختیاں وغیرہ سے نوازا تاکہ انسانوں کی تربیت طریقہ وحی سے کی جائے ۔
عصر حاضر میں علم ادیان کی واقفیت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دنیامیں کوئی بھی دین ہو‘ چاہے الہامی یاغیر الہامی تمام ادیان میںاحکام و مسائل موجودہیں جس کی بناپر وہ اپنے دین پر عمل کرتے ہیں۔ جو شخص اپنے دین کے احکامات وتعلیمات پر عمل نہیں کرتاتو اہل الادیان اس کو اپنے دین سے خارج قرار دیتے ہیں انہی ادیان میں سے سب سے کامل واکمل دین اسلام ہے جو کہ رب العالمین کاپسندیدہ ہے۔
اللہ رب العالمین نے ارشادفرمایا:
{اَلْیَوْمَ اَكمَلْتُ لَكمْ دِیْنَكمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا} (المائدة:۳)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا…‘‘
جب ہمارادین حق والادین ہے تو اس کے بھی بہت سے احکام و مسائل ہیں اور ان احکامات و مسائل کا اجمالی علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض وواجب ہے۔ تاکہ ہر مسلمان اپنے دین حق کے احکامات کی تعلیم حاصل کرکے دنیاوآخرت کی سعادت سے منورہو۔ اسلام کی تعلیمات کو سیکھنااور پھر اس پر عمل کرنایہ مسلمان کے دوبنیادی اصول ہیں۔ اگر صرف تعلیمات کو حاصل کرنا کافی ہوتاتو یہودی مغضوب علیہم نہ قراردیئے جاتے۔ اگر صرف عمل کی طرف توجہ دی جاتی، تعلیمات کو پڑھنے کے بغیر تو عیسائی ضآلین نہ قرار دئیے جاتے۔
لہٰذا دنیا وآخرت کی کامیابی کے لیے احکام کی تعلیمات کو سیکھ کر ان پر عمل کرنا مسلمانوں کی نشانی ہے۔
 الفقہ فی الدین:
لغوی تعریف: لفظ فقہ لغوی اعتبار سے کسی چیز کو سمجھنے کے معنی میں استعمال ہوتاہے جس طرح کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
{فَمَالِ ھٰٓؤُلَآئِ الْقَوْمِ لَا یَكادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًا} [النساء:۷۸]
’’پھر ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔ ‘‘
اسی طرح دوسری جگہ ارشادفرمایا:
{وَ لٰكنْ لَّا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ اِنَّه كانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا} [الاسراء:۴۴]
’’لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے‘ بے شک وہ ہمیشہ سے بے حد بردبار، نہایت بخشنے والا ہے۔ ‘‘
اصطلاحی تعریف:
فقہ کی بنیادی طور پر دوتعریفیں ذکر کی جاتی ہیں :
1          فہم الدین مطلقاً ’’دین اسلام کی مطلق طور پر سمجھ بوجھ رکھنا۔‘‘
2          ’’شریعت اسلامیہ کے ہر عملی حکم کو اس کی دلیل کے ساتھ جاننا فقہ کہلاتا ہے۔‘‘
اب ان دونوں تعریفوں میں بظاہر فرق تو نظر نہیں آرہالیکن جب بنظر غائر دیکھاجائے تو یہ بات سمجھ آئے گی کہ دونوں کے مفہوم میں بہت فرق ہے۔کیونکہ پہلی تعریف جس میں دین اسلام کی مطلق سمجھ بوجھ ہے   یہ دین اسلام کے دونوںپہلوؤں کو ضمن میں لیے ہوئے ہے۔
1 اعتقادی مسائل،  2 عملی مسائل
اعتقادی مسائل:
اس سے مراد ہر وہ علم ہے جس کا تعلق قلب واعتقاد سے ہو ۔مثلاتوحید، فرق ، ادیان، مذاہب فکریہ۔
عملی مسائل:
اس سے مرادہر وہ علم ہے جس کاتعلق عمل سے ہو‘ چاہے وہ عمل عبادات سے منسلک ہو یامعاملات سے۔
فقہ کی اس تعریف کااستنباط نبیeکی حدیث مبارکہ
[مَنْ یُرِدْ اللَّه بِه خَیْرًا یُفَقِّهه فِی الدِّینِ۔]
’’جس بندے کے ساتھ اللہ رب العزت خیر وبھلائی کاارادہ رکھتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں۔‘‘
اور دوسری تعریف (شریعت اسلامیہ کے ہر عمل کو اس کے ساتھ جاننا) اس تعریف میں صرف عملی مسائل کو ملحوظ خاطر رکھاگیا۔عصر حاضر میں جب فقہ کالفظ بولاجاتاہے تو اس سے مراد عملی مسائل ہوتے ہیں اور ہمارے اس مستقل موضوع میں عملی مسائل کا ہی ذکر کیاجائے گا۔
دین میں فقہ کی اہمیت:
قرآن وحدیث کے مطالعہ کے بعد انسان اس بات کو بخوبی سمجھ سکتاہے کہ دین میں فقہ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ دین میں فقہ سے مراد احکام ومسائل کو دلیل کے ساتھ سیکھناہے اور فقہ کااصل معنی بھی یہی ہے۔ دور حاضر میں لوگ فقہ کی تعلیم میں تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں:
1          کچھ لوگ فقہ سے مراد فقہاء اربعہ کی فقہ لیتے ہیں اور ان کی بات کوہی حتمی شکل دے دیتے ہیں جس کا دوسرانام تقلیدہے۔
2          کچھ لوگ فقہاء اربعہ کی بات کو بالکل کسی بھی حد تک صحیح نہیں سمجھتے اور ان پر بعض سخت اعتراضات کا بھی اطلاق کرتے ہیں۔
3          کچھ لوگ جو کہ قرآن وحدیث کو اصل سمجھتے ہیں اور اپنے مسائل کا حل قرآن وحدیث کے ساتھ کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ ائمہ اربعہ کی عزت و وقار کا بھی لحاظ کرتے ہیں اور ان کے اچھے اور معتبر استنباطات پر عمل بھی کرتے ہیںاور یہی قسم حق پر ہے۔
4          اللہ رب العزت نے دین میں سمجھ بوجھ کی فضیلت کے بارے میں ارشادفرمایا:
{وَ مَا كانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كآفَّة فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كلِّ فِرْقَة مِّنْھُمْ طَآئِفَة لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْن} [التوبه:۱۲۲]
’’اور ممکن نہیں کہ مومن سب کے سب نکل جائیں، سو ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ کیوں نہ نکلے، تاکہ وہ دین میں سمجھ حاصل کریں اور تاکہ وہ اپنی قوم کو ڈرائیں، جب ان کی طرف واپس جائیں، تاکہ وہ بچ جائیں۔ ‘‘
اللہ کے نبی eنے ارشادفرمایا:
[مَنْ یُرِدْ اللَّه بِه خَیْرًا یُفَقِّهه فِی الدِّینِ۔]
’’جس بندے کے ساتھ اللہ رب العزت خیر وبھلائی کاارادہ رکھتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں۔‘‘ (بخاری)
ایک دن اللہ کے نبیeنے سیدنا ابن عباسw کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
[اللھم فقه فی الدین۔] (مسنداحمد)
’’اے اللہ! اس کو دین کی سمجھ عطاکردے۔‘‘
اس موضوع (الفقہ فی الدین) کو دوحصوں میں تقسیم کیاگیاہے۔
1  فقہ العبادات   2   فقہ المعاملات
 پہلے فقہ العبادات کاتذکرہ کیاجائے گا اور اس کے بعدفقہ المعاملات کی تفصیل بالدلیل مذکور ہو گی۔
یہ مضمون پڑھیں:    حجیت حدیث مصطفیٰ ﷺ
فقہ العبادات کی تعریف:
انسان کامکلف شدہ عبادات کو ان کے دلائل کی روشنی میں جاننا فقہ العبادات کہلاتا ہے‘ مثلانمازکے احکام ،روزہ کے احکام وغیرہ۔
طہارت کے مسائل:
مسئلہ نمبر۱:(طہارت کی لغوی واصطلاحی تعریف)
طہارت کی لغوی تعریف: لفظ طہارۃ لغوی طور پر صفائی ، ستھرائی ، پاک ہونا وغیرہ کے معانی میں مستعمل ہوتاہے۔
اصطلاحی تعریف: حدث اور ہر وہ چیز جو اس کے معنی میں ہو اس کو ختم کرنااور نجاست کو زائل کرنا طہارت کہلاتاہے۔  [شرح الممتع علی زاد المستقنع:۱/۲۵، ۲۶]
تعریف کی شرح: (حدث) ہر اس وصٖف کو کہتے ہیں جس کا وجود نماز کے لیے مانع ثابت ہو‘ مثل انسان کاپیشاب کرنا۔ اب انسان کاپیشاب کرناایک بہت بڑامانع ہے نماز کی ادائیگی کے درمیان، اسے حدث کہیں گے اور اس حدث کو ختم کرنا طہارت کہلائے گا۔
ہر وہ چیز جو اس کے معنی میں ہو: اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز جس کا وجود نماز سے مانع تو نہیں لیکن اپنی حیثیت وشکل میں وہ حدث کے ازالہ کے مشابہ ہے۔ مثال کے طور پر انسان کا وضو کے اوپر وضو کرنا، ایک وضو کی موجودگی میں دوسرے وضو کی ضرورت نہیں لیکن اگر کوئی انسان حصول اجر کے لیے یہ کام کرے تو اس کو بھی طہارت کہا جائے گا کیونکہ وضوپر وضو کابھی وہی طریقہ ہے جو پہلے وضو کاہے۔ تو ہیئت وشکل کی وجہ سے علماء اس عمل کو بھی طہارت کہہ دیتے ہیں۔
فائدہ: اکثر فقہاء کی کتب میں دوسری طہارت (ہر وہ چیز جو اس کے معنی میں ہو) اس کاتذکرہ نہیں ہوتا بلکہ متقدمین کی کتب میں اکثر طہارت کی تعریف میں (صرف حدث کاختم کرنااور نجاست کاازالہ کرناطہارت کہلاتاہے) ذکر کرتے ہیں تو بعد میں لوگوں نے ان کی اس تعریف پر جب اعتراض پیش کیا تو علمائے معاصرین نے (ہر وہ چیز جو اس کے معنی میں ہو) اس کا اضافہ کر دیا اسی بناء پر میں نے بھی اس تعریف کو جامع ومانع تصور کرتے ہوئے قلمبند کیاہے۔
نجاست کو زائل کرنا:
نجاست ہر اس عین معین کو کہاجاتاہے جس کی پلیدگی پر نصوص موجود ہوں، مثال کے طور پر اگر کسی بندے کے جسم یا کپڑے پر پاخانہ لگاہواہے تو پاخانے کاوجود نجاست ہے اور اس نجاست کو رفع کرنا طہارت کہلاتاہے۔
مسئلہ نمبر ۲: حدث اور خبث کے درمیان فرق‘ حدث اور خبث(نجاست) کے درمیان فروق
1          حدث کو ختم کرنے کے لیے نیت کا وجود ضروری ہے۔ جبکہ خبث کو ختم کرنے کے لیے نیت کی ضرورت نہیں۔
2          حدث کوختم صر ف پانی یاپھر جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس سے ختم کیا‘ جائے گا مثلا مٹی وغیرہ
خبث ہر اس چیز سے ختم کیا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے اس کا ازالہ ہوجائے۔
3          حدث کو ختم کرنے کے لیے اعضاء مخصوصہ کو دھونا ضروی ہے ۔
خبث میں صرف نجاست والی جگہ کو دھویا جائے گا۔
4          حدث میں بھول چوک کی کوئی گنجائش نہیں۔ خبث میں اگر بھول جائے تو دوبارہ ادائیگی کی ضرورت نہیں۔ (کتاب شرح دلیل الطالبین لنیل المطالب:۱/۷،۸)
مسئلہ نمبر۳:طہارت کی اقسام
طہارت اپنے محل کے اعتبار سے دوقسموں میں تقسیم ہوتی ہے ۔1باطنی طہارت  2حسی طہارت
1          باطنی طہارت: سے مراد انسانی دل کو شرک ، بغض ، حسد وغیرہ سے صاف کرناہے۔
2          حسی طہارت: اس سے مراد حدث اور اس کے ماتحت چیزوں کو ختم کرنااور نجاست کو زائل کرنا ہے ۔
مسئلہ نمبر۳:اسلام میں طہارت کی اہمیت:
شریعت اسلامیہ نے ہر اس جانب بنی نوع انسان کی رہنمائی کی ہے جس کی موجودگی انسان کو بلندیوں میں پہنچادے اور اس کی شان وشوکت کو مدنظر رکھے۔ انہی چیزوں میں سے ایک انسانی پاکیزگی ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور حضرت محمدeنے اپنی سنت میں خاص تذکرہ کیاہے۔ فرمایا:
{وَثِیَابَك فَطَهرْ} [المدثر:۴]
’’اور اپنے کپڑے پاک رکھ۔‘‘
دوسری دلیل:
{اِنَّ اللّٰه یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ}
’’بے شک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرنے والے ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے جو بہت پاک رہنے والے ہیں۔‘‘ (البقرۃ:۲۲۲)
تیسری دلیل:
سیدنا ابوہریرہtسے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا:
[لاَ تُقْبَلُ صَلاَة مَنْ أَحْدَثَ حَتَّی یَتَوَضَّأَ] (صحیح البخاری: ۱۳۵)
’’کسی بھی انسان کی نماز بغیر طہارت کے قبول نہیں کی جاتی۔‘‘
چوتھی دلیل:
سیدنا عبداللہ بن مسعودwسے روایت ہے کہ رسول اللہeنے فرمایا:
[إِنَّ الله جَمِیلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ۔] (مسلم)
’’یقینا اللہ رب العزت خوبصورت ہے اور خوبصورتی کوپسندکرتاہے۔‘‘


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)