احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
نیوندرا کی شرعی حیثیت
O ہمارے
معاشرہ میں شادی بیاہ اور ولیمے کے موقع پر نیوتا‘ نیوندرا یا نیوندا دیا جاتا ہے‘
اسے سلامی بھی کہتے ہیں۔ دینے والا زیادہ وصول کرنے کی نیت سے دیتا ہے‘ کتاب وسنت میں
اس کی کیا حیثیت ہے اور اسے لینے دینے کی کہاں تک گنجائش ہے؟!
P ہمارے معاشرہ میں شادی بیاہ کے موقع پر کچھ ایسی رسومات
کی جاتی ہیں جو ہندو مت تہذیب سے مأخوذ ہیں۔ مثلاً شادی کے وقت اپنی لخت جگر کو جہیز
دے کر اسے وراثت سے محروم کرنا‘ اسی طرح اس خوشی کے موقع پر تحفہ کے نام پر نیوندرا
دینا بھی اسی قبیل سے ہے۔ جسے فقہی موشگافیوں کے ذریعے محفوظ راستہ دیا جاتا ہے۔ جواز
فراہم کرنے کے لیے ایک حدیث کا سہارا لیا جاتا ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’آپس میں تحائف کا تبادلہ کرو‘ اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘ (موطا امام
مالک: ج۲‘ ص ۲۱۴)
یہ حدیث اپنی جگہ پر بہت اہمیت کی حامل ہے لیکن تحفہ دے کر واپسی
کی نیت رکھنا‘ شریعت میں اس کی مثال بہت ہی بھیانک بیان ہوئی ہے۔ رسول اللہe نے
فرمایا: ’’ہمارے لیے یہ بُری مثال نہیں ہونی چاہیے کہ جو کوئی تحفہ دے کر اسے واپس
لے وہ اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے اسے چاٹ لیتا ہے۔‘‘ (بخاری‘ الہبہ: ۲۶۲۲)
بعض اہل علم کو ہم نے دیکھا ہے کہ وہ ’’نیکی کا بدلہ نیکی سے
دیا جائے۔‘‘ (الرحمن: ۶۰) کی بناء پر اس رسم کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اس کے ذریعے
کوئی نیکی نہیں کی جاتی بلکہ زیادہ لینے کی نیت سے یہ رسم یعنی نیوندرا دیا اور لیا
جاتا ہے۔ یہی تو وہ سودی ذہنیت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ فقہی طور پر
بھی دیکھا جائے تو پھر بھی اسے برقرار نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ جہاں مصالح پر مفاصد
غالب ہو جائیں وہاں اس کا راستہ بند کرنا چاہیے۔ اب نوبت بایں جا رسید کہ دعوتی کارڈ
پر دعوت ولیمہ کے بجائے ’’تقسیم طعام‘‘ لکھا جاتا ہے۔ جس کی وضاحت اس طرح کی جاتی ہے
کہ لوگ اس دعوت کے موقع پر گھروں سے اپنے اپنے برتن لے کر آتے ہیں اور پہلے سے وصول
کردہ رقم صاحب خانہ کو جمع کروا کر کھانا وصول کرتے ہیں۔ کھانا وصول کرنے والوں کی
باقاعدہ لسٹ بنتی ہے تا کہ سند رہے اور آئندہ ادلے کا بدلہ وصول کیا جائے۔
ضرورت ہے کہ ایسی رسومات کو ختم کیا جائے اور ان پر پابندی عائد
کی جائے۔ الحمد للہ! اس رسم کو ختم کرنے کا آغاز ہو چکا ہے‘ ہمارے ایک دوست نے اپنے
بیٹے کی شادی کی اور ولیمہ کے دن بڑے بڑے بینرز آویزاں کیے جن پر یہ لکھا تھا: ’’یہاں
کوئی نیوندرا/سلامی قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
اسی طرح ہمارے ایک دوسرے دوست نے اپنے بیٹے کی دعوتِ ولیمہ کے
کارڈ پر یہ نوٹ لکھا: ’’ہمارے بیٹے کو صرف آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے‘ یہاں کسی قسم کی
سلامی‘ نیوتا‘ تحفہ یا نقدی قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
اللہ کی توفیق سے ہم نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی پر اس
بات کا خاص اہتمام کیا ہے کہ احباب گرامی سے کسی قسم کا تحفہ یا نقدی وصول نہیں کی‘
اس رسم کو ختم کرنا چاہیے۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے ٹینشن فری دعوت ولیمہ
بنایا جائے بصورت دیگر ایک غریب آدمی کو سوچنا پڑتا ہے کہ وہاں دعوت میں جا کر کیا
دینا ہے اور کتنا دینا ہے۔ اگر کوئی خیر خواہی کرنا چاہتا ہے تو کسی غریب کے ساتھ پوشیدہ
طور پر مالی تعاون کر دیا جائے جبکہ اس رسم میں تو زیادہ لینے کی نیت سے دیا جاتا ہے
جیسا کہ سوال سے معلوم ہوتا ہے۔ دعوت ولیمہ کے موقع پر ہمیں خیر خواہی کے نمونے بھی
اسلاف میں ملتے ہیں۔ رسول اللہe نے
سیدہ صفیہ بنت حییrسے شادی کے موقع پر جو ولیمہ کیا‘ آپe نے صحابہ کرام] سے فرمایا جبکہ دسترخوان بچھا دیا گیا تھا: ’’جس کے
پاس جو کچھ ہے وہ دستر خوان پر لے آئے۔‘‘ تو کوئی کھجوریں لایا‘ کوئی گھی لایا اور
کوئی ستو لایا‘ پھر اس کا ملیدہ بنا لیا گیا۔ یہی رسول اللہe کی
دعوت ولیمہ تھی۔ (بخاری‘ الصلوٰۃ: ۳۷۱)
اس دعوتِ ولیمہ میں صحابہ کرام] نے اپنے زاد راہ سے کھانے کا اہتمام کیا‘ اسی طرح جب
سیدنا علیt کی
سیدہ فاطمہr سے
شادی ہوئی تو رسول اللہe نے
فرمایا کہ شادی کے موقع پر دعوت ولیمہ کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اس موقع پر سیدنا سعدt نے
عرض کیا‘ اللہ کے رسول! میں مینڈھا ذبح کر کے لاتا ہوں‘ کسی صحابی نے اپنے ذمے کوئی
دوسری اشیاء لے لیں جبکہ ایک صحابی مکئ کا آٹا لے آئے۔ اس طرح ولیمہ کا سامان جمع ہوا
تو سیدنا علیt نے
دعوتِ ولیمہ کا اہتمام کیا۔ (مسند امام احمد: ج۵‘ ص ۳۵۹)
نقدی کی بجائے اگر کسی غریب کے ساتھ دعوتِ ولیمہ کے موقع پر
اس کا تعاون ہو جائے تو بہت اچھا طریقہ ہے بلکہ اس سنت کا احیاء ہونا چاہیے۔ موجودہ
رسم نیوندرا تو نری جہالت ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا جہالت ہو سکتی ہے کہ کھانے کے بعد
میرج ہال کے دروازے پر رقم وصول کرنے والوں کو بٹھا دیا جائے‘ وہ نام بنام لوگوں سے
رقم اکٹھی کرتے رہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق ایسی دعوتوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تا کہ
ان رسومات جاہلیہ کی حوصلہ شکنی ہو‘ باقی رہا غریب سے تعاون کرنا وہ بھی لوجہ اللہ
ہمدردی کے طور پر‘ ایسا کرنے پر اللہ کے ہاں اجر ملنے کی امید ہے۔ واللہ اعلم!
کیا آلاتِ زراعت ذلت کا باعث ہیں؟!
O کیا
کوئی ایسی حدیث ہے کہ رسول اللہe نے
ان زرعی آلات کو باعث ذلت قرار دیا ہو‘ جبکہ کھیتی باڑی کرنا تو رسول اللہe کے
دور سے ثابت ہے۔ کتاب وسنت کے مطابق اس کی وضاحت فرمائیں۔
P امام بخاریa نے کھیتی باڑی کی فضیلت پر ایک عنوان قائم کیا ہے اور
اس کے متعلق ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’جب کوئی مسلمان شجر کاری
یا کاشتکاری کرتا ہے پھر اس میں سے کوئی پرندہ‘ انسان یا حیوان کھاتا ہے تو اسے صدقہ
وخیرات کا ثواب ملتا ہے۔‘‘ (بخاری‘ الحدیث: ۲۳۲۰)
اس حدیث سے باغبانی‘ کھیتی باڑی اور زمین آباد کرنے کی فضیلت
معلوم ہوتی ہے لیکن ایسی کھیتی باڑی جو مسلمانوں کو جہاد اور دیگر شرعی امور سے غافل
کر دے اس سے ممانعت ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ سیدنا ابو امامہ باہلیt نے
کسی جگہ ہل کا بھالا اور دیگر زرعی آلات دیکھے تو کہا کہ میں نے رسول اللہe کو
یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’یہ زرعی آلات جس قوم کے گھر میں گھس آتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں
ذلت ورسوائی سے دو چار کر دیتا ہے۔‘‘ (بخاری‘ الحدیث والوزرعۃ: ۲۳۲)
یہ ذلت ورسوائی اس بناء پر ہو گی کہ جب انسان رات دن کھیتی باڑی
میں لگا رہے گا پھر جہاد اور اس کے لوازمات سے غافل ہو جائے گا تو دشمن کا غالب آنا
یقینی ہے‘ جیسا کہ رسول اللہe کا
ارشاد گرامی ہے: ’’جب تم بیع عینہ کرنے لگو گے‘ بیلوں کی دمیں پکڑ لو گے‘ کھیتی باڑی
ہی میں مگن ہو جاؤ گے اور جہاد کو نظر انداز کر دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط
کر دے گا۔ پھر اس ذلت کو تم سے اس وقت تک دور نہیں کرے گا جب تک تم اپنے اصل دین کی
طرف لوٹ نہ آؤ۔‘‘ (بیہقی: ج۵‘ ص ۳۱۶)
اس بناء پر کھیتی باڑی اچھا ذریعہ معاش ہے لیکن اس میں حد سے
زیادہ دل چسپی اور مداہنت مناسب نہیں۔ ایک مسلمان کو اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
کتا رکھنے سے ثواب میں کمی
O حدیث
میں آتا ہے کہ کتا رکھنے سے ثواب میں کمی ہوتی ہے جبکہ شکاری اور حفاظتی کتا رکھنے
کی شرعی طور پر اجازت ہے۔ کیا ایسا کتا رکھنے سے بھی ثواب میں کمی ہو گی؟!
P ہمارے معاشرہ میں شوقیہ اور فیشن کے طور پر کتے رکھنے
کا رواج ہے۔ اس قسم کے کتے رکھنے سے ثواب میں کمی آتی ہے‘ جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جو
کوئی کتا رکھتا ہے تو اس کے عمل سے ہر روز ایک قیراط اجر کم ہوتا رہے گا۔‘‘ (بخاری‘
الحرث والزراعۃ: ۲۳۲۲)
اس ثواب کی کمی کے کئی ایک اسباب ہیں۔ مثلا:
\ کتا رکھنے سے
رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔
\ اس سے مسافروں
کو تکلیف ہوتی ہے۔
\ نجس اشیاء کھانے
سے یہ بدبو کا باعث ہے۔
\ بعض کتوں کو
حدیث میں شیطان کہا گیا ہے۔
\ اہل خانہ کی
غفلت کی وجہ سے برتنوں کو سونگھتا پھرتا اور انہیں پلید کر دیتا ہے۔
لیکن احادیث میں ان کتوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے‘ جن سے کوئی
منفعت وابستہ ہو۔ مثلا ریوڑ یا کھیتی کی حفاظت یا شکار کے لیے جو کتا رکھا جائے اس
کی شریعت نے اجازت دی ہے حدیث میں ہے: ’’جس نے کتا پالا جو کھیتی اور ریوڑ کی حفاظت
کے لیے نہ ہو تو اس کے عمل سے ہر روز ایک قیراط ثواب کم ہوتا رہتا ہے۔‘‘ (بخاری‘ الحدیث
والزراعۃ: ۲۳۲۳)
دور حاضر میں تفتیشی کتے بھی رکھے جاتے ہیں‘ فوج میں سراغ رسانی
کے لیے انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بھی مذکورہ منحوس کتوں سے مستثنیٰ ہیں۔ بہرحال
مذکورہ وعید ان کتوں کے متعلق ہے جو فضول شوق پورا کرنے کے لیے رکھے جائیں۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment