اللہ کی رحمت سے مایوسی اور
نااُمیدی
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اُسامہ خیاط d
ترجمہ: جناب عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ کے بندو! اللہ
سے ڈرو! یاد رکھو کہ ایک روز اسی سے ملنا ہے۔ اس کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ خوش نصیب وہ
ہے جو اس وقت کے لیے تیاری کر لے۔ بہترین زاد راہ تیار کر لے۔ اللہ کی طرف جانے والے
ہر راستے پر چلتا رہے۔ اس کی خوشنودی کا ہر ذریعہ استعمال کرے‘ ہر ذریعہ اپنائے‘ ہر
عمل اور قول سے اسے خوش کرنے کی کوشش کرے۔ اس سے قبولیت، مغفرت اور خوشنودی کی امید
رکھے۔
اے مسلمانو! وہ بد ترین چیز جس سے نفس متأثر ہوتا ہے اور دل
مضطرب ہو جاتا ہے، ایسی مایوسی ہے جس سے شعور ختم ہو جاتا ہے، اور ایسی نا امیدی ہے
جس سے دنیا تاریک ہو جاتی ہے، جس سے امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں، جس سے آرزؤیں دھری کی دھری
رہ جاتی ہیں، راستے بند ہو جاتے ہیں، دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں مایوسی
اور نا امیدی کا دو مرتبہ ذکر آیا ہے۔ دونوں مرتبہ ان سے خبردار ہی کیا گیا ہے۔ ان
کے راستے سے ہٹنے کا ہی کہا گیا ہے۔ کیونکہ یہ بڑے گناہوں میں سے ہیں۔ صاحب عزت پروردگار
کا فرمان ہے:
’’اللہ کی رحمت سے
تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔‘‘ (یوسف:
۸۷)
آیت میں روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد رحمت اور آسانی کی امید ہے۔
اسی طرح فرمایا:
’’اپنے رب کی رحمت
سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔‘‘ (الحجر: ۵۶)
یہاں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ مؤمن کی زندگی میں مایوسی
اور ناامیدی کی کوئی جگہ نہیں، بلکہ مؤمن تو ہمیشہ پر امید رہتا ہے اور اپنے گناہوں
سے ڈرتا رہتا ہے، اپنی کوتاہیوں کے انجام سے سہما رہتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اللہ کی
رحمت، اس کے عفو ودرگزر کی امید میں بھی رہتا ہے۔ نیکیوں پر قائم رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ
نے خود بھی اپنے بندوں کو رحمت کی امید دلائی ہے، اپنی مغفرت اور عفو ودرگزر کی امید
دلائی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’(اے نبیؐ) کہہ
دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ
ہو جاؤ، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے۔‘‘ (الزمر: ۵۳)
اسی طرح فرمایا:
’’مگر میری رحمت
ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، اور اُسے میں اُن لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے
پرہیز کریں گے، زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے۔‘‘(الاعراف: ۱۵۶)
امام احمدa نے
مسند میں سیدنا ابو ذرt سے
روایت کیا ہے کہ رسول اللہ e نے
فرمایا: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اے ابن آدم! تو جب بھی مجھ سے دعا کرتا ہے یا
مجھ سے سوال کرتا ہے، اور تمہارے گناہ جتنے بھی ہوں، میں انہیں بخش دیتا ہوں، مجھے
کوئی پروا نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تمہارے گناہوں کا ڈھیر آسمان تک بھی پہنچ جائے اور
پھر تم مجھ سے معافی مانگ لو تو میں تمہیں معاف کر دوں گا۔ اے ابن آدم! اگر تو میرے
پاس زمین کے برابر گناہ لے کر آئے، مگر جب تو مجھے ملے تو تو میرے ساتھ شرک نہ کرتا
ہو تو میں اتنی ہی زمین کے برابر مغفرت دے کے تمھیں معاف کر دوں گا۔۔ یعنی: زمین کے
برابر مغفرت اور درگزر دے دوں گا۔
اسی طرح صحیح البخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہ e نے
فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق سلوک
کرتا ہوں، امام احمد، امام ابن حبان اور امام حاکم کی روایات میں ہے: ’’وہ میرے بارے
میں جیسا چاہے گمان کر لے۔‘‘
اسی طرح صحیح امام مسلم
میں سیدنا جابر بن عبد اللہ سے روایت
ہے کہ انہوں نے آپ e کو
وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’تم میں سے کوئی شخص نہ مرے مگر اسی حال
میں کہ وہ اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہو‘‘۔
اللہ کے بندو! یہ آیات اور احادیث اور اس حوالے سے آنے والی
بہت سی احادیث انسان کے سامنے امید کے دروازے کھول دیتی ہیں، اسے مایوسی اور نا امیدی
سے دور کر دیتی ہیں۔ اسے خیر کی طرف پھیر دیتی ہیں۔ بہترین راستے پر لے جاتی ہیں۔ اسے
مستقبل کے حوالے سے پر امید کر دیتی ہیں، پھر وہ اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھنے
لگتا ہے، اس کی رحمت کی امید میں رہتا ہے اور اس سے بہتر اجر کی توقع رکھنے لگتا ہے۔
یاد رہے کہ آپ e کے
اس فرمان، یعنی:
’’تم میں سے کوئی
شخص نہ مرے، مگر اسی حال میں کہ وہ اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہو‘‘ کا معنیٰ
یہ ہے، جیسا کہ ابو عباس قرطبیa اور
دیگر اہل علم بیان کرتے ہیں: یعنی: نیک اعمال کرتے رہو، اچھے آداب پر قائم رہو، ایسے
اعمال اور آداب جن کے ذریعے قبولیت کی امید ہو، اور جن کے ذریعے رحمت الٰہی کی امیدیں
پوری ہو سکیں۔ کیونکہ اللہ کی رحمت نیکو کاروں سے قریب ہوتی ہے۔ جبکہ اس کی سزا گناہ
گاروں اور نافرمانوں سے قریب ہوتی ہے۔ عمل کے بغیر اللہ کے بارے میں اچھی امید رکھنا
بے وقوفی ہے۔ یہ سارا معاملہ صحت مندی اور تندرستی کے وقت کا ہے۔ رہی بات موت کے وقت
کی تو اس وقت تو رحمت الٰہی اور اس کے عظیم فضل کے سوا کسی اور چیز کے بارے میں سوچا
ہی نہیں جا سکتا۔ اس وقت یہ یاد کرنا چاہیے کہ کوئی گناہ اللہ کی رحمت سے بڑا نہیں۔
وہ کریم ہے، معاف کرنے والا اور قدر دان ہے۔ نعمتیں دینے والا اور رحم فرمانے والا
ہے۔ موت کے وقت انسان کو یاد دلانا چاہیے کہ ناامیدی کے حوالے سے بہت سخت احادیث آئی
ہیں۔ شاید کہ یہی احادیث مریض کے دل پر اثر کر جائیں اور اسے نیک خاتمہ نصیب ہو جائے
اور اللہ سے اس حال میں ملے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہو، اس طرح وہ اللہ سے محبت کرنے
والوں کے گروہ میں اٹھایا جائے، جبکہ وہ اس سے پہلے نافرمانوں کے ٹولے میں تھا۔ آپ
e کا
یہ فرمان اس بات کی تائید کرتا ہے: ’’ہر بندے کو اسی حال پر اٹھایا جائے گا جس حال
پر وہ مرا ہو گا۔‘‘ (مسلم)
اللہ سے اچھی امید کسی حالت، کسی واقعے یا کسی زمانے کے حوالے
سے نہیں ہونی چاہیے، بلکہ یہ امید ہر حال میں برقرار رہنی چاہیے، تو جس طرح یہ ضروری
ہے کہ انسان اللہ کی طرف متوجہ ہوتے وقت اس سے اچھی امید رکھے، اس کی مغفرت اور درگزر
کی توقع رکھے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں اور ہر پریشانی میں
انسان برابر اللہ کے بارے میں اچھے گمان پر قائم رہے۔ ہر مصیبت کے وقت بھی اسی پر ڈٹا
رہے، ہر سانحے کے وقت یہی چیز ذہن میں رکھے۔ جب انسان کو کوئی تکلیف آئے، یا اسے کوئی
مصیبت کا سامنا ہو، یا قرض کا بوجھ بڑھ جائے، یا کسی قریبی پیارے کی جدائی کا وقت ہو،
انسان کو اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا
چاہیے۔ بلکہ اسے چاہیے کہ وہ یقین رکھے کہ اس پر جو برائی اور مصیبت آئی ہے، یہ اس
کے لیے بہتری ہی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ اس کے درجے بلند فرما دے گا، اس کے گناہ معاف
فرما دے گا، یا اس سے کوئی مصیبت دور کر دے گا، یا اسے جلد یا بدیر صبر کا بدلہ ضرور
عطا فرمائے گا۔ جیسا کہ اس حدیث میں آیا ہے جسے امام بخاری نے سیدنا ابو ہریرہt سے
روایت کیا ہے کہ رسول اللہ e نے
فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جس کے بارے میں اچھا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبتوں میں مبتلا
کر دیتا ہے‘‘ یعنی: اسے مصیبتوں کے ذریعے آزماتا ہے تاکہ اسے مزید ثواب ملے۔ اسی طرح
امام ترمذی نے اور امام ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ سیدنا انس بن مالکt سے
روایت کیا ہے کہ رسول اللہ e نے
فرمایا:
’’آزمائش جتنی سخت
ہو گی، اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند کرتا ہے تو انہیں
آزماتا ہے۔ جو اس وقت اللہ سے راضی رہتا ہے، اللہ بھی اس سے راضی ہو جاتا ہے اور جو
آزمائش کے وقت اللہ سے ناراض ہو جاتا ہے، اللہ بھی اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی پناہ! کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جب مصیبتیں ان کے
سامنے آتی ہیں اور آزمائش کا شکار ہوتے ہیں تو زندگی کو کالے چشمے سے دیکھنے لگتے
ہیں۔ وہ اپنے دل میں یہ بٹھا لیتے ہیں کہ آزمائش لمبی ہو جائے گی، وہ ہلاکت کے قریب
پہنچ جائیں گے، سختیاں ان کا پیچھا کرتی رہیں گی۔ آزمائشیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔
اللہ کے بندو! یہ سب اللہ کے بارے میں بد گمانی کے مترادف ہے۔ اہل ایمان ایسا کبھی
نہیں کرتے۔ یہ صفت اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں
کی صفت نہیں۔ اللہ تعالیٰ خوف کے بعد امن عطا فرماتا ہے۔ فقر وفاقہ کے بعد بے نیازی
دیتا ہے۔ سختی کے بعد نعمتوں سے نوازتا ہے۔ سخت دنوں کے بعد بلندی، رحمت اور مغفرت
عطا فرماتا ہے۔
عتبہ بن غزوان نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے بیان کیا: مجھے یاد
ہے جب ہم سات لوگ تھے، رسول اللہe بھی
ہمارے ساتھ تھے اور ہمارے پاس کھانے کے لیے درختوں کے پتوں کے سوا اور کچھ نہیں تھا،
ہمارے منہ زخمی ہو گئے، ایک چادر لے کر میں نے اور سعد بن مالک نے آدھی آدھی کر لی۔
آدھی کا میں نے تہہ بند باندھا اور آدھی کا سعد نے۔ آج ہم میں سے ہر ایک کسی نہ
کسی علاقے کا گورنر ہے۔ اللہ کے بندو! ایسی کتنی مثالیں ہیں، ہمارے ماضی میں بھی اور
ہمارے سامنے کی بھی، جن کا ذکر کرنا مشکل ہے۔
اللہ کے بندو! اللہ
سے ڈرو! یا درکھو کہ ہر وقت اللہ کے بارے میں اچھا گمان کرنا چاہیے۔ اس سے اچھی امید
رکھنی چاہیے اور اپنے گناہوں کے نتائج سے ڈرنا چاہیے۔ یہی سچے اہل ایمان کا طریقہ ہے۔
اہل احسان کا رویہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
’’اور جب ہم انسان
پر (کوئی) انعام فرماتے ہیں تو وہ (شکر سے) گریز کرتا اور پہلو تہی کر جاتا ہے اور
جب اسے کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے (گویا نہ شاکر ہے نہ صابر) اے
نبیؐ! ان لوگوں سے کہہ دو کہ ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے، اب یہ تمہارا رب
ہی بہتر جانتا ہے کہ سیدھی راہ پر کون ہے۔‘‘ (الاسراء: ۸۳ـ۸۴)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! امام بخاری اور امام مسلم نے سیدنا ابوسعید خدریt سے
روایت کیا ہے کہ رسول اللہ e نے
فرمایا: ’’مسلمان کو جو بھی تھکاوٹ، تنگی، پریشانی، اذیت یا غم ملتا ہے، حتیٰ کہ جو
کانٹا بھی چبھتا ہے، اس سے بھی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔‘‘
اہل علم بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث میں ہر مؤمن مرد اور مومنہ
عورت کے لیے عظیم بشارت ہے۔ کیونکہ مسلمان کو کسی نہ کسی بیماری یا پریشانی کی وجہ
سے تکلیف تو محسوس ہوتی ہی رہتی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ تکلیف جسمانی ہو یا روحانی،
بہر حال ان سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ اللہ کے بندو! مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اہل علم
متفق ہیں کہ ان سے صرف چھوٹے گناہ جھڑتے ہیں، رہی بات بڑے گناہوں کی، تو ان کے لیے
تو توبہ کا ہونا ضروری ہے۔ امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ e کا
فرمان ہے ’’پانچوں نمازیں، جمعے، اور رمضان، بیچ میں ہونے والے گناہوں کو معاف کرا
دیتے ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ بڑے گناہوں سے بچا جائے۔‘‘
بہر حال یہ بھی ایک خوش خبری ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی،
اس کے عفو ودرگزر اور اس کی مغفرت کی امید کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ علامہ ابن القیمa فرماتے
ہیں: امید ایک ایسا محرک ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف اور آخرت کی فکر کی طرف
لگاتا ہے۔ جس سے انسان کے اعمال بہتر ہو جاتے ہیں۔ امید اور تمنا میں فرق یہ ہے کہ
تمنا میں سستی پائی جاتی ہے۔ تمنا سے کوئی شخص سنجیدگی اور محنت کی طرف نہیں آتا۔
جبکہ امید کے ساتھ محنت اور توکل بھی ہوتا ہے۔ اس لیے اہل علم متفق ہیں کہ عمل کے بغیر
پر امید رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر علامہ ابن قیمa نے بیان کیا کہ ایک امید اس شخص کی ہے کہ نیکی بھی کرتا
ہے، اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرتا ہے اور اس کے اجر کی امید بھی رکھتا ہے۔
ایک امید یہ بھی ہے کہ کوئی شخص گناہ کر بیٹھے اور پھر توبہ کر لے، اسے اللہ کی مغفرت
کی امید ہوتی ہے۔ رہی بات اس شخص کی جو کوتاہی اور نافرمانی پر قائم رہتا ہے، عمل کے
بغیر ہی اللہ کی رحمت کا امید وار بنا پھرتا ہے، تو اس کی امید بے وقوفی، دھوکہ، تمنا
اور جھوٹی امید ہے۔ اللہ کے بندو! اللہ سے
ڈرو! اپنے دلوں سے مایوسی اور نا امیدی کی جڑیں کاٹ دو۔ اللہ کے بارے میں اچھا گمان
رکھو۔ اس کی رحمت کی امید رکھو، اس کی مغفرت کی توقع رکھو، نیک اعمال پر قائم رہو،
اسے خوش کرنے والے کام کرو، اور ان کاموں سے بچو جو اس کی سزا کی موجب ہیں اور جن سے
وہ ناراض ہوتا ہے۔
اے اللہ! ہم تجھ سے نیکیاں کرنے اور برائیاں چھوڑنے کی توفیق
مانگتے ہیں۔ مسکینوں سے محبت کا سوال کرتے ہیں۔ تیری مغفرت اور رحمت کے خواہشمند ہیں۔
جب تو کسی قوم کو فتنے میں مبتلا کرنے چاہے تو ہمیں فتنے سے بچا کر اپنے پاس بلا لینا۔اے
اللہ! ہمارے بیماروں کو شفا عطا فرما! ہمارے فوت شدگان پر رحم فرما! ہماری نیک خواہشات
پوری فرما۔ ہمارے اعمال کا خاتمہ نیک اور ہمیشہ باقی رہنے والے کاموں پر فرما!
No comments:
Post a Comment