صاحبِ قرآن سے قرآن کی وفائیں
تحریر: جناب مولانا
منظور احمد جمالی
معزز قارئین! قرآن کریم ایک عظیم ترین کتاب ہے۔ یہ وہ کتاب
ہے جو وفا کرنے والی ہے۔ قرآن مجید اپنے پڑھنے والوں کو دنیا میں عزت و رفعت سے نوازتا
ہے اور پریشانیوں سے بچاکر رکھتا ہے اور یہی قرآن مجید بندے کو عذاب قبر سے بھی بچاکر
رکھے گا حتی کہ روز حشر جب کوئی کچھ کام نہیں آئے گا وہاں قرآن کریم وفا کرکے دکھائے
گا۔ یہ روز حشر پڑھنے والے،حفظ کرنے والے اور عمل کرنے والے لوگوں کے لیے سفارشی بن
کر آئے گا اور بندے کے لیے ہر حوالے سے باعث نجات بنے گا۔ سیدناابوہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللّہ e نے
فرمایا:
[یُؤتَی الرَّجُلُ
فِی قَبرِهٖ فَاِذَا اُتِیَ مِن قِبَلِ رَاسِهٖ دَفَعَته تِلَاوَة القُرآن وَإذَا
اُتِیَ مِن قِبَلِ یَدَیه دَفَعَته الصَّدَقَة وَ إِذَا اُتِیَ مِن قِبَلِ رِجلَیه
دَفَعه مَشیُه إِلَی المَسَاجِدِ۔]
’’آدمی کو قبر میں
دفن کردینے کے بعد جب اس کے سر کی طرف سے (عذاب) آتا ہے تو تلاوت قرآن اسے دور کر
دیتی ہے۔ جب سامنے سے آتا ہے تو صدقہ و خیرات دور کردیتے ہیں اور جب اس کے پاؤں کی
طرف سے آتا ہے تو مسجد کی طرف چل کر جانا اسے دور کر دیتا ہے۔ یعنی ’’عذاب دینے والے
فرشتوں کو دور کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (الطبرانی فی الاوسط: ۱۰/۱۹۹، و الترغیب والترھیب: ۵۲۲۵)
ایک روایت میں سیدنا عبداللہ بن مسعودt بیان کرتے ہیں کہ
[یُؤتَی الرَّجُلُ
فِی قَبرِهٖ فَتُؤتَی رِجلَاه فَتَقُولُ رِجلَاه: لَیسَ لَكم عَلَی مَا قِبَلِی سَبِیلُه
كانَ یَقُومُ یَقرُاُ بِی سُورَة المُلك ثُمَّ یُؤتَی مِن قِبَلِ صَدرِه او قَالَ بَطنِه
فَیَقُولُ: لَیسَ لَكم عَلیَ مَا قِبَلِی سَبِیلُه كانَ یَقرَأ بِی سُورَة المُلك ثُمَّ
یُؤتی رَاسُه فَیَقُولُ: لَیسَ لَكم عَلَی مَا قِبَلِی سَبِیلُه كانَ یَقرَا بِی سُورَة
المُلك قَالَ: فَهیَ المَانِعَة تَمنَعُ مِن عَذَابِ القَبرِ وهی فِی التَّورَاة سُورَة
المُلك وَ مَن قَرَأها فِی لَیلَة فَقَد اَكثَرَ وَ اَطنَبَ۔]
’’جب بندہ قبر میں
لایا جاتا ہے تو اگر عذاب اس کی ٹانگوں کی طرف سے آتا ہے تو وہ پکار اٹھتی ہیں کہ
اس طرف سے تمہارے آنے کے لیے کوئی راستہ نہیں کیونکہ یہ شخص سورۃ ملک کی تلاوت کیا
کرتا تھا۔ عذاب اس کے سینے یا پیٹ کی طرف سے آنا چاہتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ادھر
سے بھی آنے کی اجازت نہیں کیونکہ یہ آدمی سورۃ ملک تلاوت کرتا تھا۔ اگر عذاب سر کی
جانب سے آنا چاہتا ہے تو سر کہتا ہے کہ میری طرف سے بھی کوئی راستہ نہیں‘ کیونکہ یہ
سورۃ ملک کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ آپe نے
فرمایا: یہ تو ’’مانعہ‘‘ یعنی عذاب سے محفوظ رکھنے والی سورت ہے۔ تورات میں اس کا نام
سورۃ الملک تھا جس نے اسے رات کے وقت پڑھا اس نے بہت زیادہ اور عمدہ کام کیا۔‘‘ (المستدرک
للحاکم: ۳۸۹۲)
یہ مضمون پڑھیں: قرآن حکیم اور مغربی شدت پسندی
جیسا کہ قرآن کریم نے اپنے پڑھنے والوں کو عذاب قبر سے بچا
کے رکھا بالکل اسی طرح قرآن قیامت کے دن شفیع بن کر آئے گا اور اپنے پڑھنے والے کے
حق میں شفاعت کرے گا۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمروt سے روایت ہے نبی کریم eنے فرمایا:
[الصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ
یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَة یَقُولُ الصِّیَامُ: اَیْ رَبِّ مَنَعْتُه
الطَّعَامَ وَالشَّهوَاتِ بِالنَّهارِ فَشَفِّعْنِی فِیه وَیَقُولُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُه
النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِی فِیه قَالَ: فَیُشَفَّعَانِ۔] (مسند احمد:
۸۳۲۴)
’’روزہ اور قرآن
قیامت کے دن بندے کے لئے شفاعت کریں گے‘ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس کو کھانے
پینے اور دوسری خواہشات سے روکے رکھا پس تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ اُدھر
قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کو نہ سونے دیا پس تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما‘ سو ان کی سفارش قبول کر لی
جائے گی۔‘‘
قرآن مجید قیامت کے دن حاضر ہو گا‘ اللہ تعالی سے عرض کرے گا:
اے میرے رب! صاحب قرآن کو جوڑا پہنا‘ اے میرے رب! اس سے راضی ہو جا۔ جیسا کہ سیدنا
ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ نبی اکرم e نے
فرمایا:
[یَجِیئُ الْقُرْآنُ
یَوْمَ الْقِیَامَة فَیَقُولُ: یَا رَبِّ حَلِّه فَیُلْبَسُ تَاجَ الْكرَامَة، ثُمَّ
یَقُولُ: یَا رَبِّ زِدْه فَیُلْبَسُ حُلَّة الْكرَامَة ثُمَّ یَقُولُ: یَا رَبِّ ارْضَ
عَنْه فَیَرْضَی عَنْه فَیُقَالُ لَه: اقْرَاْ وَارْقَ وَتُزَادُ بِكلِّ آیَة حَسَنَة۔]
’’قرآن قیامت کے
دن پیش ہو گا پس کہے گا: اے میرے رب! اسے (یعنی صاحب قرآن کو) جوڑا پہنا تو اسے کرامت
(عزت و شرافت) کا تاج پہنایا جائے گا پھر وہ کہے گا: اے میرے رب! اسے اور دے تو اسے
کرامت کا جوڑا پہنایا جائے گا۔ وہ پھر کہے گا: اے میرے رب! اس سے راضی و خوش ہو جا
تو وہ اس سے راضی و خوش ہو جائے گا۔ اس سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور چڑھتا جا تیرے
لیے ہر آیت کے ساتھ ایک نیکی کا اضافہ کیا جاتا رہے گا۔‘‘ (جامع ترمذی: ۲۹۱۵)
اور اسی طرح سیدناعبداللہ بن عمروw سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے
فرمایا:
[یُقَالُ لِصَاحِبِ
الْقُرْآنِ اقْرَاْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كمَا كنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا فَإِنَّ
مَنْزِلَك عِنْدَ آخِرِ آیَة تَقْرَؤُها۔]
’’صاحب قرآن(حافظ
قرآن یا ناظرہ خواں)سے کہا جائے گا: پڑھتے جاؤ اور چڑھتے جاؤ اور عمدگی کے ساتھ ٹھہر
ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ تم دنیا میں عمدگی سے پڑھتے تھے‘ تمہاری منزل وہاں ہے جہاں تم
آخری آیت پڑھ کر قراء ت ختم کرو گے۔‘‘ (سنن ابو داؤد: ۱۴۶۴)
امام خطابیa نے
کہا ہے کہ
’’قرآن کریم کی
آیات کی تعداد جنت کی سیڑھیوں کی تعداد کے برابر ہے چنانچہ قرآن پڑھنے والے سے کہہ
دیا جائے گا کہ جتنی آیتیں پڑھو گے اتنی سیڑھیاں چڑھو گے‘ چنانچہ جو پورا قرآن پڑھ
لے گا وہ آخری سیڑھی چڑھ جائے گا اور جو اس کا کوئی حصہ پڑھے گا وہ اسی تعداد میں
سیڑھیاں چڑھے گا اور اس کا ثواب قرآن پڑھنے کے اختتام پر ختم ہوگا۔‘‘ (صحیح ترغیب
و ترہیب: ۱۴۲۶)
روز قیامت قرآن کریم ایک انسانی صورت میں حاضر ہوگا اور صاحب
قرآن سے ہمکلام ہوگا۔صاحب قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہت اور بائیں ہاتھ میں دوام
عطا کر دیا جائے گا‘ اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا‘ اس کے والدین کو ایسے بہترین
دو جبے پہنائے جائیں گے کہ دنیا و ما فیہا اس کے برابر نہیں ہوگا۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہt سے
مرفوعا مروی ہے کہ:
[یَجِیئُ الْقُرْآنُ
یَوْمَ الْقِیَامَة كالرَّجُلِ الشَّاحِبِ یَقُولُ لِصَاحِبِه: هل تَعْرِفُنِی؟ اَنا
الَّذِی كنْتُ اُسْهرُ لَیْلَك واُظمء هوَاجِرَك وإِن كل تَاجِر من وَرَاء تِجَارَتِه
واَنا لَك الْیَوْم من وَرَاء كل تَاجِر فَیُعْطَی الْملك بِیَمِینِه والْخُلْد بِشِمَالِه
ویُوضَع عَلَی رَاسِه تَاج الْوَقَار ویُكسَی وَالِدَاه حُلَّتَیْن لَا تَقُوم لَهم
الدُّنْیَا و ما فِیها فَیَقُولَان: یَا رَبّ! اَنَّی لَنا هذا؟ فَیُقَال: بتعلیم وَلَدِكمَا
الْقُرْآن و إِن صَاحَب الْقُرْآن یُقَال لَه یَوْمَ الْقِیَامَة: اقْرَا وارْقَ
فی الدَّرَجَات ورَتِّلْ كمَا كنْتَ تُرَتِّل فی الدُّنْیَا فَإِن مَنْزِلك عَنْد آخِرِ
آیَة معك۔]
’’قیامت کے دن قرآن
ایک رنگ اور جسم کی تبدیلی کی صورت میں آئے گا اور صاحب قرآن سے کہے گا: کیا تم مجھے
جانتے ہو؟ میں وہ ہوں جو تمہیں راتوں کو بیدار اور دوپہر کو پیاسا رکھتا تھا۔ ہر تاجر
اپنی تجارت کے پیچھے تھا اور آج میں ہر تاجر کے علاوہ آپ کے ساتھ ہوں‘ تب صاحب قرآن
کو دائیں ہاتھ میں بادشاہت اور بائیں ہاتھ میں دوام عطا کر دیا جائے گا‘ اس کے سر پر
وقار کا تاج رکھا جائے گا اس کے والدین کوایسے دو جبے پہنائے جائیں گے‘ دنیا اور جو
کچھ اس میں ہے اس کے برابر نہیں ہوگا۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! یہ ہمارے لئے کس وجہ
سے؟ تو کہا جائے گا: تم دونوں نے اپنے بچے کو قرآن کی تعلیم دی تھی اور قیامت کے دن
صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ پڑھو اور درجات چڑھتے جاؤ اور اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھو
جس طرح دنیا میں پڑھتے تھے‘ تمہاری منزل تمہاری آخری آیت پر ہے۔‘‘ (سلسلہ صحیحہ:
۳۰۰۲)
ایک روایت میں ہے کہ سیدنا بریدہt کہتے ہیں کہ رسول اللہ e نے
فرمایا:
[یَجِیئُ الْقُرْآنُ
یَوْمَ الْقِیَامَة كالرَّجُلِ الشَّاحِبِ فَیَقُولُ: اَنَا الَّذِی اَسْهرْتُ لَیْلَك
وَاَظْمَاْتُ نَهارَك۔]
’’قیامت کے دن قرآن ایک تھکے ماندے شخص کی صورت میں آئے گا اور حافظ
قرآن سے کہے گا کہ میں نے ہی تجھے رات کو جگائے رکھا اور دن کو پیاسا رکھا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ: ۳۷۸۱)
سورہ البقرہ اور سورہ آل عمران قیامت کے دن اپنی صحبت میں پڑھنے
اور عمل کرنے والوں کی طرف سے دفاع کریں گی۔ جیسا کہ سیدنا ابوامامہ باہلیt سے
روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ e کویہ
فرماتے ہوئے سنا:
[اقْرَئُوا الْقُرْآنَ
فَإِنَّه یَاْتِی یَوْمَ الْقِیَامَة شَفِیعًا لِاَصْحَابِه اقْرَئُوا الزَّهرَاوَیْنِ
الْبَقَرَة وَسُورَة آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهمَا تَاْتِیَانِ یَوْمَ الْقِیَامَة كاَنَّهمَا
غَمَامَتَانِ اَوْ كاَنَّهمَا غَیَایَتَانِ اَوْ كاَنَّهمَا فِرْقَانِ مِنْ طَیْرٍ
صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ اَصْحَابِهمَا اقْرَئُوا سُورَة الْبَقَرَة فَإِنَّ اَخْذَها
بَرَكة وَتَرْكها حَسْرَة وَلَا تَسْتَطِیعُها الْبَطَلَة۔]
’’قرآن پڑھا کرو
کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحاب قرآن (حفظ وقراء ت اور عمل کرنے والوں) کا شفاعتی بن
کر آئیگا‘ دو روشن چمکتی ہوئی سورتیں: البقرہ اور آل عمران پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت
کے دن اس طرح آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان ہوں یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑتے
پرندوں کی وہ ڈاریں ہوں‘ وہ اپنی صحبت میں (پڑھنے اور عمل کرنے) والوں کی طرف سے دفاع
کریں گی۔ سورہ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اسے حاصل کرنا باعث برکت اور اسے ترک کرناباعث
حسرت ہے اور باطل پرست اس کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘ (صحیح مسلم: ۱۸۷۴)
اسی طرح سورۃ الملک اپنے پڑھنے والے کی شفاعت کرے گی یہاں تک
کہ اس کی بخشش ہو جائے۔ جیسا کہ سیدناابوہریرہt سے روایت ہے کہ نبی اکرم e نے
فرمایا:
[سُورَة مِنَ الْقُرْآنِ
ثَلَاثُونَ آیَة تَشْفَعُ لِصَاحِبِها حَتَّی یُغْفَرَ لَه: تَبَارَك الَّذِی بِیَدِه
الْمُلْك۔] (سنن ابو داؤد: ۱۴۰۰)
’’قرآن کی ایک سورۃ
جو تیس آیات پر محیط ہے اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرے گی یہاں تک کہ اس کی مغفرت ہو
جائے اور وہ [تَبَارَك الَّذِی
بِیَدِه الْمُلْك] ہے۔‘‘
قرآن کریم آپ کے حق میں یا آپ کے خلاف حجت ہے‘ جیسا کہ سیدنا
ابو مالک اشعریt سے
روایت ہے کہ رسول اللہ e نے
فرمایا:
[الْقُرْآنُ حُجَّة
لَك اَوْ عَلَیْك۔] (مسلم: ۵۳۴)
’’قرآن تمہارے حق
میں یا تمہارے خلاف حجت ہے۔‘‘
تمہارے حق میں حجت سے مراد ہے کہ قرآن مجید روز قیامت اپنے
پڑھنے والے کی نجات کے لیے اللہ عزوجل سے التجائیں کرتا رہے گا حتی کہ بندے کی نجات
ہوجائے اور وہ جنت میں داخل ہوجائے۔جیسا کہ سیدنا جابرt سے مروی ہے کہ نبیe نے فرمایا:
[اَلْقُرْآنُ شَافِعٌ
مُشَفَّعٌ، مَنْ جَعَلَه اَمَامَه قَادَه إِلَی الْجَنَّة، وَمَنْ جَعَلَه خَلْفَ ظَهرِه
سَاقَه إِلَی النَّارِ۔]
’’قرآن شفاعت کرنے
والا ہے اور اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ جو شخص اسے اپنے سامنے رکھے گا اسے جنت کی
طرف لے جائے گا‘ اور جو اسے اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دے گا اسے جہنم کی طرف ہانک کر
لے جائے گا۔‘‘ (الصحیحۃ للالبانی: ۲۰۱۹)
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں قرآن مجید سمجھنے
اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
No comments:
Post a Comment