ضعیف اور موضوع احادیث
تحریر: جناب ڈاکٹر
محبوب الرحمن
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
قارئین کرام! تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ عالم آب وگل کی آفرینش
ہی سے طاغوتی طاقتوں اور ابلیس ملعون کے طفیلیوں نے مختلف ادوار میں دین اسلام کے استیصال
اور دین حنیف کے چشمہ صافی کو مکدر کرنے اور اس کی تعلیمات کے جوہر پاروں میں اپنے
خزف ریزوں کو مدغم کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔ لیکن اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے تاریخ کے
ہر دور میں ایسی شخصیات کو وجود بخشا جنہوں نے باطل کا قلع قمع کیا اور جب کبھی بھی
کسی فرعون نے سر اٹھایا تو اس کی سرکوبی کے لیے موسیٰ نے جنم لیا۔
چنانچہ جب ارتداد کی بادِ سموم چلی تو سیدنا ابوبکر صدیقt جیسا
صاحب عزم وایمان نظر آیا‘ جب فتنۂ خلق قرآن نے سر اٹھایا تو امام احمد بن حنبلa جیسی
صابر شخصیت نے وادی کارزار میں قدم رکھا‘ جب ارجاء واعتزال اور تجہم وتعطل کا شور اٹھا
تو امام ابن تیمیہa جیسا
صاحب علم وفن مقابل آیا‘ جب قادیانیت کی وبا پھوٹی تو ثناء اللہ امرتسریa جیسا
بے باک ولا جواب مناظر اور علامہ احسان الٰہی ظہیرa جیسے بے لاگ خطیب نے زمام عمل ہاتھ میں لی۔ چنانچہ باطل
طاقتوں نے امت مسلمہ کی گمراہی کے لیے جن حبائل کید کا استعمال کیا ان میں سے ایک نہایت
خطرناک دسیسہ یہ رہا کہ جب انہوں نے امت اسلامیہ کا اپنے رسول کے اقوال وافعال سے والہانہ
شغف دیکھا اور یہ جانا کہ مسلمان آپ کے ہر فعل وقول کو بلا چوں وچراں تسلیم کرتے ہیں
تو انہوں نے اپنی مقصد براری کی خاطر احادیث گھڑ کر رسول اکرمe کی
طرف منسوب کر دیں جس کے نتیجے میں امت کی ایک کثیر تعداد گمراہیوں میں گرفتار ہو گئی۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون ازلی کے مطابق کچھ ایسی شخصیات کو وجو بخشا جنہوں نے
باطل کے ان تھپیڑوں کا مقابلہ کیا اور احادیث کی صحت وضعف کی تمیز کے لیے اصول وقواعد
وضع کیے اور احادیث رسولe میں
کھرے کھوٹے کو الگ کر کے دکھایا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے:
{یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِـُوْا
نُوْرَ اللّٰه بِاَفْوَاههمْ وَ اللّٰه مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كرِه الْكٰفِرُوْنَ}
(الصف: ۸)
حدیث کی لغوی
اور شرعی تعریف:
لغوی معنی لغت میں حدیث کے معنی جدید کے ہیں جیسا کہ کلام عرب
میں بولا جاتا ہے: [هو حدیث عهد كذا
قریب عهد به] (المعجم الوسیط:
۱۶۰)
لفظ حدیث کو قدیم کے مقابلے میں بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ حافظ
ابن حجر عسقلانیa فتح
الباری شرح صحیح بخاری میں رقم طراز ہیں:
[المراد بالحدیث
فی عرف الشرع ما یضاعف إلی النبی وكأنه أرید به مقابلة القرآن لأنه قدیم] (تدریب الراوی:
۱/۴۲)
محدثین کی اصطلاح
میں حدیث کی تعریف:
[ما یضاعف إلے النبیﷺ
من قول أو فعل أو تقریر] (المعجم الوسیط: ۱۶۰)
نیز بعض محدثین نے حدیث کی تعریف اس طرح کی ہے:
[ما أثر عن النبی
ﷺ من قول أو فعل أو تقریر أو صفة خلقیة أو سیرة سواء كان قبل البعثة أو بعدها۔] (السنة
وكانتها فی التشریع الاسلامی: ۵۹)
شریعت اسلام
میں حدیث کا مقام:
حدیث رسولe کی
اہمیت صرف یہ نہیں کہ وہ کلام اللہ کی شارح اور ترجمان ہے‘ بلکہ جس طرح کتاب اللہ کے
ذریعے شریعت اسلامیہ کے احکام متعین کیے جاتے ہیں اسی طرح احادیث رسول کے ذریعہ بھی
اوامر ونواہی کا تعین ہوتا ہے۔ اگر قرآن حکیم ہادی ورہنما ہے تو آپ کی ذات گرامی بنی
نوع انسان کے لیے ایک قائد‘ ایک مربی‘ ہادی ورہنما وسرپرست اور متبوع ومقتدیٰ کی حیثیت
رکھتی ہے۔ قرآن حکیم پر عدم تعمیل کی وجہ سے اگر {وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكرِیْ فَاِنَّ لَـــه مَعِیْشَة ضَنْكا
وَّ نَحْشُرُه یَوْمَ الْقِیٰمَة اَعْمٰی} (طٰهٰ: ۱۲۴)
کا اعلان کیا گیا ہے تو عدم اطاعت رسول پر ایمان جیسی دولت کی
نفی کرتے ہوئے:
{فَلَا وَ رَبِّك
لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَكمُوْك فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهمْ…} (النساء: ۶۵)
کی صدا سنائی گئی ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایک جگہ {وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ} (الذاریات: ۵۶) کا اعلان فرمایا
ہے تو د وسری جگہ: {وَ مَآ اٰتٰیكمُ
الرَّسُوْلُ فَخُذُوْه۱ وَ مَا نَهٰیكمْ عَنْه فَانْتَهوْا} (الحشر: ۷) کا حکم جاری فرمایا۔
نیز اللہ کے رسولe نے
قرآن حکیم کے ساتھ ساتھ سنت کو بھی سرچشمہ ہدایت قرار دیتے ہوئے فرمایا:
[تركت فیكم امرین
لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب الله وسنة نبیه] (الموطأ مع تنویر الحوالك، باب النهی
عن القول بالقدر)
نیز فرمایا: ’’مجھے قرآن پاک عطا کیا گیا اور اس کے مثل ایک
اور چیز۔‘‘ مختصر یہ کہ ان تمام آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے یہی بات سمجھ میں
آتی ہے کہ ہر طرح کے انعامات کی مستحق وہی جماعت ہو سکتی ہے جو اپنی زندگی کے ہر موڑ
پر تمسک بالکتاب کے ساتھ ساتھ تمسک بالسنہ کا بھی ثبوت دے۔
صحابہ کرام اور
احتیاط حدیث:
لا ریب یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دین اسلام میں سرمو تحریف نہیں‘
صحابہ کرام] کے
دور میں ایسے قوانین وضع کیے گئے جنہوں نے تحفظ حدیث میں بنیان مرصوص کا کردار ادا
کیا۔
نیز سیدنا ابوبکر صدیقt اور سیدنا عمر فاروقt جیسے جلیل القدر صحابیان رسولe سے
بہت ہی کم احادیث کا مروی ہونا یہ بھی کمال احتیاط کا نتیجہ تھا کیونکہ وہ لوگ حدیث
رسول [من كذب علی متعمدا
فلیتبوأ مقعده من النار] (بخاری: ۱/۲۰۲ مع الفتح) اور [من تعمد علی كذبا فلیتبوأ مقعده من النار] (حوالہ مذکور) کے مفہوم ومطلب سے اچھی طرح واقف تھے۔ چنانچہ
صحابی رسولe سیدنا
انس بن مالکt فرماتے
ہیں:
[إنه لیمنعنی أن
أحدثكم حدیثا كثیرا أن رسول اللهﷺ قال: من تعمد علی كذبا فلیتبوأ مقعده من النار]
(حواله مذكور)
وضع حدیث کی
حقیقت وابتداء:
وضع حدیث‘ محدثین کی اصطلاح میں کہتے ہیں ایسے قول کی نسبت اللہ
کے رسولe کی
جانب کرنا جسے آپe نے
بیان نہ فرمایا ہو۔ وضع حدیث کی ابتداء ہجرت رسولe کے چالیس سال بعد اس وقت سے ہوئی جب رئیس المنافقین
عبداللہ بن سبا کی ناپاک سازش کی وجہ سے شہادت عثمان غنیt کا
المناک حادثہ پیش آیا جس سے عالم اسلام میں کچھ ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ لوگ دو طبقوں
میں بٹ گئے۔ معاملہ قتال تک پہنچ گیا اور اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کے
درمیان مقابلہ آرائی ہوئی جس کو ہم جنگ جمل اور جنگ صفین کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ چنانچہ
مسلمانوں میں اختلافات‘ منافرت وعناد اور جاہلی تعصبات اور وہ سارے دروازے کھل گئے
جن کو اسلام نے مقفل کر دیا تھا‘ اسی درمیان دو ایسے سیاسی فرقے وجود میں آئے جن کو
روافض اور خوارج کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے جو بعد میں دینی اور مذہبی رخ اختیار
کر گئے اور مذہبی فرقوں میں تبدیل ہو گئے اور ہر ایک فرقہ اپنے نظریات ومعتقدات کی
حمایت میں قرآن وحدیث کو استعمال کرنے لگا اور اپنے مسلک کو برحق اور اپنے پیشوا کو
محمود اور دوسرے مسلک کو گمراہ اور اس کے پیشوا کو مبغوض ثابت کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ
قرآن میں تحریف معنوی یعنی تفسیر بالرائے وغیرہ شروع ہو گئی۔ چونکہ حدیث اس وقت کتاب
کی شکل میں مدون نہیں تھی لہٰذا انہیں ایک سنہرا موقع ہاتھ آگیا اور اس قدر احادیث
گھڑیں کہ ان کے خزف ریزوں نے احادیث کے جواہر پاروں کو چھپانا شروع کر دیا۔ لیکن اللہ
سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے قانون ازلی کے مطابق ایسے محدثین کرام کو وجود بخشا جنہوں نے
ان دجالوں کا تعاقب کیا اور ان کے خزف ریزوں سے جواہر پاروں کو چھانٹ کر الگ کر دیا۔
فجزاہم اللہ احسن الجزاء!
وضع حدیث پر
وعید:
وضع حدیث پر وعید کی معرفت کے لیے حدیث رسولe: [من كذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعده من النار] (بخاری‘ کتاب العلم: ۱/۲۰۲ مع الفتح) اور قول
رسولe: [من یعمل علی ما لم أقل فلیتبوأ مقعده من النار] (حوالہ مذکور) کافی ہے۔ باوجودیکہ اس باب میں بہت سی روایتیں
موجود ہیں۔
واضعین حدیث کے سلسلے میں ابوالعباس سراج کہتے ہیں کہ میں امام
بخاریa کے
پاس ابن الکرام کا ایک مکتوب لے کر گیا جس میں انہوں نے امام صاحب سے کچھ حدیثوں کے
بارے میں دریافت کیا تھا جس میں ایک حدیث زہری عن سالم عن ابیہ کی سند سے [الایمان لا یزید ولا ینقص] بھی موجود تھی۔ آپ نے اس حدیث کے سلسلے میں جوابا لکھا کہ [من حدث بهذا استوجب به الضرب الشدید والحبس الطویل] (الاباطیل والمناکیر: ۱۹-۲۰) بلکہ بعض ائمہ اس سے بڑھ کر واضعین حدیث کو کافر اور حلال الدم قرار دیتے ہیں۔
موضوع حدیث کی
روایت کا حکم:
امام نوویa موضوع
حدیث کی روایت کا حکم بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ’’موضوع حدیث کے وضع کو جانتے
ہوئے اس کا بیان کرنا حرام ہے۔‘‘ اور حافظ ابن صلاح بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے فرماتے ہیں کہ: [لا تحل روایته لأحد علم حاله فی أی معنی كان إلا مقرونا بیان وضعه] (مقدمۃ ابن صلاح: ۲۱۲) اورا سی بات کی طرف حدیث رسولe: [من حدث عنی بحدیث یری أنه كذب فهو أحد الكاذبین] (مسلم، باب تغلیط الکذب)
وضع حدیث کے
اسباب:
1 بعض لوگوں نے
شخصی مناقب اور خاندانی فضائل کو ثابت کرنے کی خاطر حدیثیں گھڑیں۔
2 نبی کی ذات
گرامی سے عقیدت ومحبت میں افراط اور غلو کرنا۔
3 بعض لوگوں نے
تعصب مذہبی اور ہوائے نفس کی خاطر حدیثیں گھڑیں۔
4 بعض لوگوں نے
بادشاہوں اور امیروں کی خوشنودی اور تقرب حاصل کرنے کے لیے حدیثیں گھڑیں۔
5 بعض لوگوں نے
اچھے کاموں کی طرف رغبت دلانے اور گناہ کے کاموں سے باز رکھنے کی نیت سے حدیثیں گھڑیں۔
6 شہرت اور ناموری
حاصل کرنے کے لیے حدیثیں گھڑیں۔
7 کچھ شکم پرور
لوگوں نے حدیثیں گھڑیں۔
وضع حدیث اور
اس کے برے اثرات:
آج امت مسلمہ جو طرح طرح کے شرک وبدعات اور خرافات کی دلدل میں
پھنسی نظر آتی ہے اس میں موضوع اور ضعیف روایات کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ آج لوگ ان
موضوع اور ضعیف روایتوں کی بناء پر شرک وبدعات کو عین دین اسلام اور کار خیر سمجھ کر
بلا کسی تفکر وتدبر کے اختیار کیے بیٹھے ہیں۔ مثال کے طور پر دعا میں اولیاء وانبیاء
کا وسیلہ لگانا ناجائز ہے لیکن ایک من گھڑت قصہ جو عوام میں مشہور ہے کہ سیدنا آدمu نے
جنت سے نکلنے پر اپنی دعا میں محمدe کا وسیلہ لگایا تھا۔
اب عوام اس من گھڑت قصہ کو سن کر بلا تأمل مردوں کا وسیلہ اختیار
کرتے ہیں جو بلا ریب کھلا ہوا شرک ہے۔ کیونکہ محدثین کرامs نے اس قصہ کو صراحتاً موضوع اور جھوٹ قرار دیا ہے۔ کیا
یہ موضوع اور ضعیف روایتوں کے برے اثرات پر برہان مبین نہیں؟ نیز امت محمدثہ میں جو
آج عدم اتفاق اور آپسی اختلاف وتضاد کا طوفان بپا ہے اس میں موضوع اور ضعیف احادیث
کا بھی ایک اہم رول ہے کیونکہ ان کی بناء پر تمام غلط عقائد واعمال کے علمبردار صحیح
عقائد کے حاملین کے مخالف بن جاتے ہیں اور یہ ایک عظیم ترین نقصان ہے جو موضوع اور
ضعیف روایتوں کی بناء پر امت کو جھیلنا پڑ رہا ہے۔
اسی طرح شب براء ت اور لیلۃ القدر کا معاملہ ہے کہ شب براء ت
کی فضیلت میں کوئی بھی صحیح حدیث موجود نہیں بر خلاف اس کے لیلۃ القدر کی بے انتہا
فضیلت احادیث مرفوعہ ثابتہ اور خود قرآن مجید میں وارد ہے۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
{لَیْلَۃُ الْقَدْرِ۱ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ
شَہْرٍ} (القدر)
مگر افسوس کہ لوگوں کے بگڑے ہوئے مزاج نے عملی زندگی میں اس
حقیقت کو پلٹ دیا جس رات کی کوئی فضیلت نہیں اس میں عبادات اور شب بیداری کا حد درجہ
اہتمام کرتے ہیں لیکن جس رات کی فضیلت پر بے شمار احادیث صحیحہ اور قرآنی آیات موجود
ہیں ان کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا۔ افسوس! آج عام مسلمان ضعیف اور موضوع احادیث
پر بڑی پابندی سے عمل پیرا ہیں۔
موضوع احادیث
کے پہچاننے کے طریقے:
موضوع احادیث میں ایک خاص طرح کی کھلی سطحیت ہوتی ہے جو اس کے
موضوع اور جعلی ہونے کا اعلان کرتی ہے۔ چنانچہ ربیع بن خیثم صحیح حدیث کے سلسلے میں
فرماتے ہیں: [له ضوء كضوء النهار] دن کی روشنی کی طرح اس کی روشنی ہوتی ہے اور موضوع حدیث کے
سلسلے میں فرمایا: [له ظلمة كظلمة
اللیل] اس کی تاریکی رات
کی تاریکی کی طرح ہوتی ہے۔ (تدریب الراوی: ۱/۲۷۵)
سند میں وضع
کی علامت:
1 راوی حدیث خود
اپنے وضع کا اعتراف کرے گا کہ اس نے فلاں فلاں حدیثیں گھڑی ہیں جیسا کہ ابوعصمہ نوح
ابن ابی مریم اور عبدالکریم بن ابوالعوجاء وغیرہ نے کیا ہے۔
2 راوی حدیث کذب
میں مشہور ہو اور اس سے روایت کوئی ثقہ راوی نہ کرتا ہو۔ جیسے [بجلوا
المشائخ فإن تبجیل المشائخ من تبجیل الله] مشائخ کی تعظیم کرو کیونکہ مشائخ کی تعظیم اللہ کی تعظیم ہے۔
(تذکرۃ الموضوعات للمقدسی: ۲۸ بحوالہ فتنہ وضع حدیث اور اس کی پہچان: ۹۴)
3 راوی کسی ایسے
شخص سے روایت کرتا ہو جس کا معاصر تو ہو لیکن اس کی ملاقات ثابت نہ ہو یا کسی ایسی
جگہ حدیث سننے کا دعویٰ کرتا ہو جہاں اس کا جانا ثابت نہ ہو۔ وہ اس کی وفات کے بعد
پیدا ہو۔ اس باب میں مامون بن احمد الہروری کا نام آتا ہے۔
4 راوی اہل بدعت
ہو اور اپنے مسلک کی تائید وحمایت میں حدیثیں بیان کرتا ہو۔ مثلاً خارجیہ‘ مرجیہ‘ معتزلہ
وغیرہ سے تعلق رکھتا ہو‘ اس باب میں حبہ بن جوبن کا نام آتا ہے۔
متن حدیث میں
وضع کی علامت:
1 متن حدیث میں
ایسے الفاظ ہوں کہ جو فصاحت اور بلاغت سے عاری ہوں اور کلام رسولe کا
ہونا محال ہو۔
2 حدیث عقل صریح
کے خلاف ہو جس کی تاویل نہ کی جا سکتی ہو۔ واضح رہے کہ علماء حدیث نے محال عقلی اور
محال عادی میں جو فرق بیان کیا ہے اس باب میں اس کا پورا لحاظ رکھا جائے گا۔
3 حدیث واقعہ
اور تاریخ کے خلاف ہو۔
4 حدیث قرآنی
آیات کے خلاف ہو۔
5 محسوسات ومشاہدات
کے خلاف ہو۔
6 سنت ثابتہ کے
خلاف ہو۔
7 حکمت واخلاق
کے عام اصولوں کے منافی اور بے تکی ہو جیسے: [عقولهن فی فروجهن] (المقاصد الحسنۃ: ۱۰۷ بحوالہ فتنہ وضع
حدیث اور اس کی پہچان: ۱۰۱)
8 اللہ جل شانہ
کے مرتبہ اور شان کے خلاف ہو جیسے: [إن الله اشتكت عیناه فعادته الملائكة] (فتنۂ وضع حدیث: ۹۹)
9 شان نبوت کے
خلاف ہو: [أن النبیﷺ كان
یطیر الحمام] (السنۃ ومکانتہا
فی التشریع الاسلامی: ۹۹ بحوالہ مذکور)
0 روایت میں کسی
قوم یا زبان کی مذمت ہو: [أبغض الكلام إلی الله الفارسیة وكلام الشیاطین الخوزیة وكلام أهل النار النجاریة] (تذکرۃ الموضوعات للفتنی بحوالہ فتنہ وضع حدیث اور اس کی پہچان:
۱۰۴)
خلاصۂ بحث:
خلاصہ بحث یہ ہے کہ احادیث رسولe جو حیات انسانی کے لیے جواہر پاروں کی حیثیت رکھتی ہیں
اور جن پر انسانی زندگی کا دار ومدار ہے ان میں دشمنان اسلام نے اپنے خزف ریزوں کی
آمیزش کر کے مسلمانوں کو صراط مستقیم سے متزلزل کرنے کی ناپاک کوششیں کیں اور کسی حد
تک کامیاب بھی رہے اور امت مسلمہ جس کو قرآن حکیم نے {كنْتُمْ خَیْرَ اُمَّة اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} (آل عمران: ۱۱۰) اور {وَ كذٰلِك جَعَلْنٰكمْ اُمَّة وَّسَطًا لِّتَكوْنُوْا شُهدَآء
َ عَلَی النَّاسِ} (البقرۃ: ۱۴۳) کا خطاب دیا تھا آج اباطیل واکاذیب کی دلدل میں پھنس کر اپنے قیمتی جواہر پاروں
سے ہاتھ دھو بیٹھی اور ضلالت وگمراہی کے بحر عمیق میں غرق ہو گئی۔ لیکن اللہ سبحانہ
وتعالیٰ نے مختلف عصور میں ایسے ممتاز محدثین کا ظہور فرمایا جنہوں نے اس باد صرصر
کا مقابلہ کیا اور احادیث صحیحہ کو احادیث ضعیفہ وموضوعہ سے چھانٹ کر امت اسلامیہ پر
احسان عظیم فرمایا۔ [فجزاهم الله احسن
الجزاء] مگر حیف صد حیف
کہ آج کچھ نیم قسم عالم‘ مفتی واعظین ومقررین اپنی اہمیت وعظمت کا سکہ بٹھانے کے لیے
بلا کسی خوف کے ضعیف اور موضوع احادیث کو بیان کرتے ہیں اور انہیں حدیث رسولe [من كذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعده من النار] کا ذرا بھی باک نہیں ہوتا۔
لہٰذا باخبر علماء کرام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ضعیف
اور موضوع احادیث کو اپنی تحقیق کا موضوع بنائیں اور مشہور ومعروف ضعیف اور موضوع احادیث
کے ضعف کو عوام الناس کے سامنے آشکارا کریں تا کہ امت صحیح اسلام کی طرف لوٹے اور مزید
گمراہی سے بچی رہے۔ اللہ تعالیٰ اس مہم کو تاج سرفرازی سے مشرف فرمائے۔ آمین ثم آمین!
No comments:
Post a Comment