اسلام کا نظریۂ اجماع
(چوتھی وآخری قسط) تحریر: جناب پروفیسر حافظ محمد شریف
شاکر﷾
کیا اجماعِ اہلِ مدینہ حجت ہے ؟
ابن قدامہ المقدسی (م ۶۲۰ھ) لکھتے ہیں کہ اجماع اہل مدینہ حجت نہیں۔ مالک کہتے ہیں کہ یہ حجت ہے کیونکہ
یہ معدن علم ہے اور منزل وحی ہے‘ یہاں اولاد صحابہ رہی ہے۔اس لیے ان کا غیرحق پر اتفاق
کرنا محال ہے اور حق کا ان سے نکلنا محال ہے۔ (ابن قدامہ:روضۃ الناظر: ۱/۲۹۹)
مالک کے سوا کوئی شخص صرف مدینہ کے باشندوں کے اتفاق کو اجماع
نہیں سمجھتا اور نہ ہی اس کی حجت کا قائل ہے ، اس لیے جمہور کے دلائل کا تذکرہ کرتے
ہوئے ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ حنابلہ کی دلیل یہ ہے کہ امت کے لیے عصمت اس کی کلیت کی
وجہ سے ثابت ہے اوراہل مدینہ کل امت نہیں ہیں۔ علی، ابن مسعود ،ابن عباس ،معاذ ،ابوعبیدہ
اور ابو موسیٰ وغیرہم مدینہ سے نکل گئے جو وہاں باقی رہنے والوں سے زیادہ عالم تھے۔اس
لیے ان کے بغیر اجماع نہیں ہو سکتا۔ (نفس المرجع)
مزید یہ کہ مدینہ کی فضیلت وہاں کے باشندو ں کے اجماع کے انعقاد
کی موجب نہیں۔ کیونکہ مکہ اس سے افضل ہے اور اس کا اجماع میںکوئی اثر نہیں۔ نیز اگر
ان کے اجماع کو حجت سمجھا جائے تو تمام زمانوں میں اس کا حجت ہونا واجب ہو گا۔ اس میں
کوئی اختلاف نہیں کہ اہل مدینہ کا قول اس زمانے میںقابلِ شمار نہیں ہے،چہ جائکہ وہ
اجماع ہو۔‘‘ (روضۃ الناظر: ۲۹۹-۳۰۰)
امام شوکانیa اجماع
اہل مدینہ کے بارے میں اصحاب مالک کے نظریات ذکر کرتے ہیں :
[اجماع اهل المدینة
علی انفرادھم لیس بحجة عند الجمھور لانھم بعض الامة وقال مالك اذا اجمعوا لم یعتد بخلاف
غیرھم ،قال فی كتاب اختلاف الحدیث: قال بعض اصحابنا انه حجة وما سمعت احداًذكر قوله
الا عابه وان ذلك عندی معیب ۔وقال الجرجانی انما ارادمالك الفقھاء السبعة وحدھم والمشھور
عنه الاول۔] (ارشاد الفحول: ۷۲-۷۳)
’’جمہور کے ہاں اہل
مدینہ کا انفرادی طورپر اجماع حجت نہیں کیونکہ وہ امت کا کچھ حصہ ہیں۔ مالک کہتے ہیں
کہ جب اہل مدینہ اجماع کرلیں تو ان کے غیر کا اختلاف ناقابل شمار ہے۔ امام شافعی کتاب
اختلاف الحدیث میں فرماتے ہیں: ’’ہمارے بعض اصحاب نے کہاہے کہ یہ اجماع حجت ہے اور
میں نے جس کسی کو اس کا ذکر کرتے سنا اس نے اس کا عیب بیان کیا اوربلاشبہ میرے نزدیک
بھی یہ عیب دار ہے۔‘‘ جرجانی نے کہا کہ مالک کی مراد صرف فقہائے سبعہ ہیں جبکہ مالک
سے مشہور پہلااجماع اہل مدینہ ہے ۔‘‘
امام باجی اندلسی (م ۴۷۴ھ) کہتے ہیں کہ امام مالک نے حجیت اجماع اہل مدینہ سے ان چیزوں میںاہل مدینہ کا
اجماع مراد لیا ہے جن چیزوں کا طریق نقل مستفیض ہو ۔مثلاً صاع،مد ، اذان، اقامت اور
سبزیوں میں زکاۃ کا عدم وجوب ان کا تعلق ایسی چیزوں سے ہے جن کا عقل تقاضا کرتی ہے
کہ یہ نبی e کے
ز مانہ میںموجود ہوں ۔تو یہ یقینی ہے کہ جن چیزوں پرآپ قائم رہے ،اگر ان میں سے کسی
میں کوئی تغیر پیدا ہوتا تو اس کا ضرور علم ہوجاتا ،باقی رہے اجتہادی مسائل تو ان میں
اہل مدینہ اور ان کے غیر سب برابر ہیں۔ (ارشاد الفحول:ص ۷۳)
قاضی شوکانی اجماع اہل مدینہ کی اقسام نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ
قاضی عبدالوھاب کہتے ہیں کہ اجماع اہلِ مدینہ کی دو قسمیں ہیں:
Ý
نقلی Þ
استدلالی
پھر اول کی تین قسمیں ہیں:ان میں سے پہلی قسم نقل ہے جو ابتدا
ء ً نبی کریمe کی
طرف سے مشروع کی گئی ہو خواہ وہ قول ہو ،یا فعل یا اقرار، جیسے صحابہ کرام] کا
صاع، مد، اذان، اقامت، اوقات، اجناس اورا س جیسی چیزوںکو نقل کرنا ۔دوسری قسم میں ان
کی نقل متصل ہے جیسے غلام کی کفالت اور اس کے علاوہ ان کا سبزیوں سے اخذ زکاۃ کا ترک
کرنا باوجودیکہ یہ مدینہ میں کاشت کی جا تی تھیں۔ نبیe اور آپ کے بعد خلفاء ان سے زکوۃ وصول نہیں کیا کرتے
تھے‘ قاضی عبدالوہاب کہتے ہیں:
’’ان کے اجماع کی یہ قسم حجت ہے جس پر عمل کرنااور اخبار ومقاییس بہ
کو ترک کرنا ہمارے ہاں لازم ہے جس میں ہمارے اصحاب کے درمیا ن کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
(نفس المرجع)
قاضی عبدالوہاب کہتے ہیں کہ دوسری قسم اہلِ مدینہ کا استدلالی
طریقہ سے اجماع ہے۔ مالکیہ نے اس میں تین طریق پر اختلاف کیا ہے۔ اول:یہ کہ یہ اجماع
نہیں اور نہ یہ قابل ترجیح ہے ، یہ قول ابو بکر ،ابویعقوب رازی ،قاضی ابوبکر ،ابن فورک،
طیالسی، ابوالفرج اور ابہری کا ہے۔ آپ نے اس کے مذہبِ مالک ہونے سے انکارکیا ہے۔ دوم:یہ
کہ یہ قابل ترجیح ہے اوراس کے قائل شافعی کے چند اصحاب ہیں۔ سوم: یہ کہ یہ حجت ہے اوراس
کا خلاف کرنا حرام نہیں‘ اس کے قائل قاضی القضاۃ ابوالحسین بن عمر ہیں ۔ابوالعباس قرطبی
کہتے ہیں کہ پہلی قسم میںاختلاف نہیں ہوناچاہیے کیونکہ اس کا تعلق نقل متواتر سے ہے
اورقول وفعل اوراقرر میں کچھ فرق نہیں۔ اس تمام سے علم قطعی حاصل ہوتاہے کیونکہ یہ
کثیر التعداد بڑا گروہ ہے ۔ عادت سچائی کے خلاف ان کے مجتمع ہونے کو محال سمجھتی ہے
اوراس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو اس طریق سے آئے وہ اخبار آحاد ،اقسیہ اور ظواہر سے اولیٰ
اور بہتر ہوتاہے۔ پھر کہتے ہیںکہ اگر کوئی خبر استدلالی قسم کے خلاف آجائے تو ہمارے
جمہور اصحاب کے ہاں خبر اولیٰ ہے۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ خبر سے بہتر ہے‘ ان کے
اس عقیدے کی بنیاد یہ ہے کہ یہ اجماع ہے،حالانکہ یہ صحیح نہیں کیونکہ جن کے لیے عصمت
کی گواہی دی گئی ہے وہ کل امت کا اجماع ہے نہ کہ ان میں سے چند افراد کا۔ (ارشاد الفحول:ص۷۳)
قاضی عبدالوہاب کے قول کو نواب صدیق حسن خان یوں مختصراً ذکر
کرتے ہیںکہ اہلِ مدینہ کا اجماع دوقسم کا ہے :
1 نقلی اور یہ
حجت ہے۔ان کے ہاں اسے اختیار کرنا اور اس کے ساتھ اخبار اور قیاسی مسائل ترک کرنا واجب
ہے ۔
2 استدلالی:اس
میں اصحابِ مالک نے تین طریق پراختلاف کیا ہے :ایک یہ کہ یہ اجماع نہیں اورنہ یہ قابلِ
ترجیح ہے ۔دوم یہ کہ یہ قابل ترجیح ہے۔ سوم یہ کہ یہ حجت ہے۔
اس کا خلاف کرنا
حرام نہیں۔ اگر کوئی خبر استدلال کے معارض آجائے تو مالکیہ کے جمہور کے ہاں خبراولیٰ
ہے۔ ایک جماعت کے ہاں اس کے برعکس ہے۔ (حصول المامول: ص ۶۴-۶۵)
خلفائے اربعہ
کا اجماع:
اس بارے میں دوقسم کے خیالات پائے جاتے ہیں:
امام احمد بن حنبل اور بعض اہل علم خلفائے اربعہ کے اجماع کو
حجت مانتے ہیں۔ (۸۵)
علامہ شنقیطی خلفائے اربعہ کے اتفاق کو حجت تو مانتے ہیں اسے
اجماع کا نام نہیں دیتے۔ آپ لکھتے ہیں :
[الصحیح انه حجة
ولیس باجماع ،لان الاجماع لایكون الامن الجمیع۔] (ارشاد الفحول:ص ۷۳)
جبکہ جمہور،خلفائے اربعہ کے اجماع کو حجت تسلیم نہیں کرتے ۔
چنانچہ شوکانی لکھتے ہیں :
[ذھب الجمھور الیٰ
ان اجماع الخلفاء الاربعة لیس بحجة لانھم بعض
الامة۔] (مذكرة اصول الفقه: ص ۲۷۶)
’’جمہور کا مذہب
یہ ہے کہ خلفائے اربعہ کا اجماع حجت نہیں کیونکہ وہ (خلفائے اربعہ) امت کا ایک حصہ
ہیں۔‘‘
حجت تسلیم کرنے والوں کے دلائل:
قولهﷺ: ’علیكم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین۔‘ وقوله: اقتدوا بالذین من بعدی ابی
بكر وعمر۔] وھما حدیثان صحیحان ونحو ذلك۔] (ارشاد الفحول: ص ۷۳)
آپ e کافرمان
کہ تم میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو ! اور آپ e کا
فرمان کہ ان دونوں ،ابوبکر و عمرکی جو میرے بعد ہیں اقتداء کرو! یہ دونوں حدیثیں صحیح
ہیں اوران جیسے (دیگر دلائل )ہیں ۔‘‘
جمہور کی طرف سے اس کا یہ جواب دیا جاتاہے:
مذکورہ بالادونوں حدیثوں میں یہ دلیل ہے کہ خلفائے اربعہ اپنی
اقتداء کے اہل ہیں نہ کہ ان کا قول ان کے غیروں پر حجت ہے ، کیونکہ مجتہد دلیل سے متعلق
بحث کا پابند ہوتاہے یہاں تک کہ جسے وہ حق سمجھتا ہے وہ اس کے لئے ظاہر ہو جائے،اگر
اس جیسی حدیث خلفاء اربعہ یا ان میں سے بعض کے قول کی حجیت کا فائدہ دیتی ہوتی، تو
’رضیت لأمتی مارضی لھا ابن ام عبد‘ حدیث عبداللہ بن مسعود کے قول کی حجیت کا ضرور فائدہ
دیتی اور ’ان اباعبیدۃ بن الجراح امین ھذہ
الامۃ‘ ابن جراح کے قول کی حجیت کا فائدہ دیتی ،کیونکہ یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں ۔
اسی طرح ’اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم‘ حدیث ہر صحابی کے قول کی حجیت کا فائدہ
دیتی ، حالانکہ اس میں جانی پہچانی جرح ہے کیونکہ اس کے رجال میں عبدالرحیم العمی اپنے
باپ سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں بہت ضعیف ہیں ،بلکہ یحییٰ بن معین نے تو عبدالرحیم
کو کذاب کہاہے ۔ بخاری نے کہا کہ یہ متروک ہے اور ایساہی ابو حاتم نے کہا ہے۔ اس کا
ایک اورطریق بھی ہے اس میںحمزہ نصیبی ہے اور وہ بہت ضعیف ہے ۔ بخاری نے کہا کہ یہ منکر
الحدیث ہے ، یحییٰ بن معین نے کہا کہ یہ ایک پیسہ کے برابر نہیں، ابن عدی نے کہا کہ
اس کی عام مرویات موضوع ہوتی ہیں اوریہ حدیث جمیل بن زید کے طریق سے بھی روایت کی گئی
ہے۔
حالانکہ وہ مجہول ہے۔ (ارشاد الفحول: ص ۷۳-۷۴)
شیخین کا اجماع:
شیخین ابوبکر و عمرw اگر کسی مسئلہ پر متفق ہوں تو کیا اسے اجماع کا نام
دیا جاسکتا ہے؟
صاحب ’’نزھۃ الخاطر العاطر‘‘ ابن بدران الدومی لکھتے ہیں کہ
شیخین ابو بکر وعمر کا اتفاق اجماع نہیں جبکہ بعض اہل علم اسے حجت مانتے ہیں۔ (نزھۃ
الخاطر العاطر: ص ۱/۳۰۱)
جمہور کے مذہب کے مطابق جب خلفاء اربعہ کا اجماع حجت نہیں تو
شیخین کا اجماع کیسے حجت ہوسکتا ہے ؟ اس کی وجہ وہی ہے جو اجماع خلفائے اربعہ میں بیان
ہوئی کہ یہ کل امت نہیں بلکہ امت کا ایک حصہ ہیں۔
اہل بیت کا اجماع:
اہل بیت کے اتفاق سے اجما ع منعقد نہیں ہوتا،جبکہ یہ بات شیعہ
کے خلاف ہے۔ (نفس المرجع)
نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں :
جمہور کا مذہب یہ ہے کہ صرف عترت کا اجماع حجت نہیں یہ بات زیدیہ
اورامامیہ کے خلاف ہے۔
ان لوگوں نے جو اللہ تعالیٰ کے فرمان {اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰه لِیُذْھِبَ عَنْكمُ الرِّجْسَ اَھْلَ
الْبَیْتِ} سے استدلال کیا
ہے، اس سے مراد تو صرف ازواج رسول امہات المؤمنینg ہیں‘ اس میں قطعاً ان کے غیر کو دخل نہیں۔ (حصول المامول:ص
۶۵)
بہر حال کسی ایک گروہ کے اتفاق کو اجماع کا نام نہیں دیا جاسکتا
،اور نہ یہ حجت ہو سکتا ہے۔
کسی ایک شہر یا ملک کے باشندوںکا اجماع:
شوکانی لکھتے ہیں :
حرمین مکہ ومدینہ کے باشندوں یا دوشہروں کوفہ و بصرہ کے باشندوں
کا اجماع حجت نہیں، کیونکہ یہ امت کا ایک حصہ ہیں۔بعض اہل اصول کا خیال ہے کہ حرمین
اور دوشہروں کوفہ و بصرہ کے باشندوں کا اجماع حجت ہے ۔حالانکہ اس کی کوئی وجہ نہیں۔
(ارشاد الفحول:ص۷۳)
ائمہ اربعہ کا اجماع:
ائمہ اربعہ کا اجماع حجت نہیں ،اس بارے میں شیخ الاسلام ابن
تیمیہa لکھتے
ہیں کہ فقہائے اربعہ وغیرہم جیسے بعض ائمہ کے اقوال ،باتفاق المسلمین نہ تو لازمی حجت
ہیں اور نہ ہی یہ اجماع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ (مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام: ص ۲۰/۱۰)
شیخ الاسلام نے ائمہ اربعہ اور ان کے علاوہ دیگر ائمہ کے اقوال
کو اجماع تسلیم نہیںکیا ،اوران اقوال کی عدم حجیت اور عدم اجماع پر مسلمانوں کا اتفاق
ذکر کیا ہے اور یہی بات صحیح ہے ، کیونکہ اجماع کی جتنی بھی تعریفیں ملتی ہیں تقریبا
سب میں ’’علمائے عصر‘‘ یا ’’عصر واحد‘ ‘ کی شرط مذکور ہے۔ لہٰذا جب ائمہ اربعہ کا زمانہ
ایک نہیں تو عصر واحد کی شرط مفقود ہونے کے سبب کسی مسئلہ میں محض اتفاق ائمہ اربعہ
کو اجماع سے موسوم نہیں کیا جاسکتا ۔ائمہ اربعہ میں سے صرف امام مالک اور امام ابو
حنیفہ معاصر ہیں اور ان کے زمانہ میں بہت سے لوگ موجود تھے جو ان کے مسائل سے اتفاق
نہیں رکھتے تھے۔ امام احمد بن حنبل اورابو حنیفہ ، نیز امام احمد بن حنبل اور امام
مالک ہم عصر نہیں ہیں۔ البتہ امام شافعی نے امام مالک کا زمانہ اور احمد بن حنبل نے
شافعی کا زمانہ پایاہے، لہٰذا یہ چاروں ہرگز ہم عصر نہیں ہیں ۔اگر ہم عصر بھی ہوتے
تب بھی ان کااجماع قابل حجت نہ ہوتا کیونکہ ائمہ اربعہ امت کا ایک حصہ ہیں نہ کہ کل
اُمت ۔
مبتدعین کا اجماع
:
ان کا اجماع قابل اعتبار ہے یا نہیں ؟اس کے بارے میں شوکانی
لکھتے ہیں کہ جب مبتدع مجتہد کی بدعت اس کی تکفیر کی مقتضی ہوتو کیا مبتدع مجتہد کو
اجماع میںمعتبر سمجھا جائے گا؟زرکشی (م ۷۴۵ھ) کہتے ہیں کہ ایسا مجتہد امت معصومہ میںداخل نہ ہونے کے سبب ،بلا اختلاف اجماع
میںمعتبر نہیں، صفی ہندی(م۷۱۵ھ) کہتے ہیں کہ
اگرمبتدع مجتہد کا کافر ہونا ثابت ہوبھی جائے تب بھی اس اعتقاد کے سبب اس کے کفر پرہمارے
اجماع کے ساتھ دلیل پکڑنا ممکن نہیں۔ (ارشاد الفحول:ص:۷۱)
استاد ابو منصور
نے کہاہے کہ اہل سنت کہتے ہیں کہ اجماع میں قدریہ خوارج اور رافضیوں کا اتفاق معتبر
نہیں ہے ، اشہب (م۲۰۴ھ) نے اسے مالک
سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ عباس بن ولید (م۱۷۱ھ) نے اوزاعی (م۱۵۷ھ) سے روایت کیا اور ا سے ابو ثور (م۲۴۰) نے ائمہ حدیث سے نقل کیا ہے ۔ابوبکر صیرفی (م۳۳۰ھ) نے کہا کہ جو لوگ خواہش پرست ہیں مثلاً قدریہ مرجیہ علاوہ ازیں جو اہل کوفہ
و بصرہ کی فقہی آراء رکھتے ہیں جب یہ دین کی سمجھ رکھتے ہوں یہ اجماع سے خارج نہیں
ہونگے لہٰذا جب کہا جائے کہ خطابیہ اور رافضیہ نے ایسی بات کی تو فقہی مسائل میں بھی
ان کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا، کیونکہ یہ اس کے اہل نہیں ہیں۔ (ارشاد الفحول:ص:
۷۱)
اکثریت کا اجماع:
جمہور کے ہاں اکثریت کے قول کے ساتھ اجماع منعقد نہیں ہوتا ،جبکہ
ابن جریر طبریم اور ابوبکر رازی احمد بن علی الحنفی الجصاص( متوفیٰ ۳۰۵ھ) کہتے ہیں کہ ایک دو کی مخالفت معتبر نہیں ،اس لیے ان کی مخالفت اجماع میں قادح
نہیں۔ (مذکرۃ اصول الفقہ: ص: ۲۷۴)
لیکن جمہور کے ہاں حجیت اجماع کے لیے تمام امت کا اجماع ہونا
ضروری ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جمیع امت کے علماء کا قول قابل اعتبار ہے کیونکہ عصمت
کل اُمت کو حاصل ہے نہ کہ بعض کو۔ (نفس المرجع)
اس سے ملتی جلتی بات شوکانی نے کی ہے کہ جب مجتہدین میں سے صرف
ایک شخص اہل اجماع کی مخالفت کرے تو اس بارے میں جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اجماع واقع
نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ قابل حجت ہو گا۔ (ارشاد الفحول: ص: ۷۸-۷۹)
لہٰذا ثابت ہوا کہ جمہور کے ہاں اکثریت کے اجماع کو اجماع کا
نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور اکثریت کا اجماع قابل حجت بھی نہیں ہوگا۔
منکر اجماع کاحکم:
منکر ِاجماع کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہa لکھتے
ہیں :
[التحقیق ان الاجماع
المعلوم یكفر مخالفه كما یكفر مخالف النص، بتركه، لكن ھذا لا یكون الا فیما علم ثبوت
النص به ۔واماالعلم بثبوت الاجماع فی مسئلة لا نص فیھا۔ فھذا لا یقع ،واما غیرالمعلوم
فیمتنع تكفیره۔] (مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام: ص: ۱۹/۲۷۰)
’’تحقیق یہ ہے کہ جس اجماع کے بارے میں علم ہو اس
کے مخالف کو اسی طرح کافر کہاجائے گا جس طرح نص (کتاب و سنت ) کے مخالف کو ترکِ نص
کی وجہ سے کافر کہا جاتا ہے۔لیکن یہ اسی (اجماع) کے بارے میں ہے جس کے بارے میں نص
ثابت ہونے کا علم ہو۔لیکن ایسے مسئلہ کے بارے میں ثبوتِ اجماع کا معلوم ہونا جس (مسئلہ)
کے بارے میں کوئی نص موجود نہ ہو، یہ تو واقع ہی نہیں ہوتا اور جس (اجماع ) کے بارے
میں علم نہ ہو اس کے مخالف کو کافر کہنا ممتنع ہے۔‘‘
شیخ الاسلام کی اس سے مراد بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس کا
شارع کی نصو ص سے وجوب و ندب ،تحریم وکراہت اور اس کا مباح ہونا ظاہراً معلوم ہو،جو
ایسے اجماع کا انکار کرے اسے تو کافر کہا جائے گا مگر جو اس سے جاہل ہو اسے کافر نہیں
بلکہ معذور سمجھا جائے گا۔جیسے کوئی شخص دارالحرب میں مسلمان ہوجائے اور اسے اس بات
کا علم نہ ہو کہ شراب حرام ہے ،نماز فرض ہے یا جیسے کوئی شخص تعلیمات اسلامیہ سے دور
باد یہ میں رہتا ہو اور وہ اللہ تعالی کے اسے دوبارہ زندہ کرنے پر شک کرتا ہو یا جیسے
کوئی شخص مُجمع علیہ امر کا جس کا حکم ہر کسی کے ہاں معروف نہ ہو ،منکر ہو:جیسے وقوف
ِعرفہ سے پہلے وطی کرنے سے حج کا فاسد ہوجانا ،دادی کو وراثت سے چھٹا حصہ دینا، پوتی
کو صلبی بیٹی کے ساتھ چھٹا حصہ دینا اوراس جیسے دیگرمسائل کا اگر کو ئی شخص انکار کردے
تو اس کے عذر کی وجہ سے اس پر کفرکا حکم نہیں لگایا جاسکتا لیکن جس کے پاس ایسا کوئی
عذر نہ ہو ، وہ قطعی کا فر ہے۔‘‘ (اصول الفقہ و ابن تیمیۃ: ۱/۳۱۵)
شیخ الاسلام مزید لکھتے ہیں کہ جو شخص شراب ،مردار اور فواحش
جیسی محرمات ِ متواترہ میںسے کسی چیز کی تحریم کا انکار کرے یا اس کی تحریم میںشک کرے
تو اس سے توبہ کرائی جائے اوران تینوں کی تحریم کا اعتراف کرایا جائے، اگر وہ تائب
ہوجائے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کردیا جائے وہ دین اسلام سے مرتد ہوچکا اس کی نماز جنازہ
نہ پڑھی جائے اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے درمیان دفن کیا جائے۔ (مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام:
۲۸/۲۱۸)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے اس شخص کے بارے میں
پوچھا گیا جو کہتا ہے کہ جب عورت کو تین طلاق ہوجائیں تو وہ نکاح ثانی کے بغیر تین
طلاق دینے والے کے لیے مباح ہے تو شیخ الاسلام نے کہا: کیا مسلمانوں میںکوئی شخص یہ
بات کہتاہے؟ سائل نے کہاکہ جو شخص یہ کہے اس پر کیا واجب ہوتاہے ؟ اورجو تین طلاق واقع
ہوجانے کے بعد نکاح ثانی کے بغیر اس عورت کا حلال سمجھے اس پر کیا واقع ہوتا ہے ؟اور
نکاح ثانی جو اس عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال ٹھہرادے ،اس کی کیا صفت ہے ؟ اللہ
آپ پر رحم فرمائے‘ آپ ہمیں فتویٰ دے کر اجر و ثواب حاصل کریں۔‘‘ (نفس المرجع: ۳۲/۸۱)
شیخ الاسلام نے اس استفتاء کا جواب یوں دیاکہ تمام تعریفیں اللہ
رب العلمین کے لیے ہیں ۔جب عورت پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں ،تو کتاب و سنت اور اجماعِ
امت کے مطابق جب تک وہ عورت کسی اور خاوند سے نکاح نہ کرے ،وہ پہلے خاوند پر حرام ٹھہرتی
ہے۔علمائے مسلمین سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ تین طلاق واقع ہونے کے بعد دوسرے
خاوندسے نکاح کرنے کے بغیر پہلے خاوند کے لیے مباح ٹھہرتی ہے۔اور جس کسی نے یہ بات
ان سے نقل کی ہے اس نے جھوٹ بولا اور جو شخص اس کا قائل ہے یاجس نے تین طلاق واقع ہونے
کے بعد دوسرے خاوند سے نکاح کئے بغیر اس سے وطی حلال قرار دی اگر وہ جاہل ہے تو اپنی
جہالت کے سبب معذور تصور ہوگا ۔مثلاً اس نے
کسی ایسی قوم کے مکان میں نشوو نما پائی جو شرائع اسلام سے متعارف نہیں ہیںیا وہ ابھی
مسلمان ہوا یا اس قسم کی اور چیزیں ،تو ایسے شخص کو دین سے متعارف کرایا جائے گا پھر
اگر وہ تین طلاق واقع ہونے کے بعد دوسرے خاوندسے نکاح کے بغیر اس کے مباح ہونے یا اس
فعل کے حلال ہونے پر اصرار کرے تو اس سے توبہ کرائی جائے ،اگر وہ توبہ کرلے توٹھیک
ورنہ اسے اس جیسے مرتدوں کی طرح جو واجبات کے وجوب کا محرمات کی تحریم کا اور مباحات
کی حلت کا ،جن کا دین اسلام سے ہونا معلوم ہے،کا انکار کرتے ہوں،قتل کردیا جائے۔ یہ
چیز امت کے اپنے نبی علیہ افضل الصلوۃو السلام سے نقل متواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ یہ ہر
خاص و عام کے ہاں ظاہر ہے جیسے کوئی شخص اسلام کی بنیاد شہادتین، پانچ نمازوں ،ماہِ
رمضان کے روزوں اور بیت حرام کے حج کا انکار کرے۔ (مجموع فتاویٰ شیخ الاسلام: ص ۳۲/۸۱-۸۲)
اجماعی مسائل کے منکر کے بارے میںشیخ الاسلام ابن تیمیہa مزید
لکھتے ہیںکہ جو شخص پانچ نمازوں، ماہ رمضان کے روزوں اور بیت عتیق کے حج جیسے واجبات
ظاہر ہ متواترہ کے وجوب کا انکار کرے یا فواحش ،ظلم ، شراب ،جوا ،زنا وغیرہ جیسے بعض
محرمات ِ ظاہرہ متواترہ کی تحریم کا انکار کرے یا روٹی ،گوشت ،نکاح جیسے بعض ظاہرہ
متواترہ مباحات کی حلت کا انکار کرے وہ کافر و مرتدہے اس سے توبہ کرائی جائے ،اگر توبہ
کرلے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کردیا جائے اور اگر وہ اسے پوشیدہ رکھے تو زندیق منافق ٹھہرے
گا۔ اکثر علماء کے نزدیک اس سے توبہ نہیں کرائی جائے گی بلکہ جب اس کی زندیقیت ظاہر
ہوگی تو اسے توبہ کا مطالبہ کیے بغیر ہی قتل کردیا جائے گا۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں
جو اجنبی عورتوں سے بھائی چارہ اوران سے خلوت کو حلال سمجھنے جیسی بعض بے حیائیوں کو
حلال خیال کرتے ہیں ،یہ گمان کرتے ہوئے کہ یہ جو کچھ ان عورتوں کے ساتھ کرتے ہیں اس
سے ان عورتوں کو برکت حاصل ہوتی ہے ،اگرچہ یہ کام شریعت میں حرام ہیں ۔اسی طرح جو شخص
یہی چیز اَمْرَدْ سے حلال سمجھے ،اور ان کی طرف دیکھ کر لطف اندوز ہونے اور ان کے ساتھ
بغل گیر ہونے کو بعض سالکین کا طریقہ خیال کرے کہ اس طرح مخلوق کی محبت سے خالق کی
محبت حاصل ہوتی ہے اور یہ فاحشہ کبرٰی کے مقدمات و مبادیات کا حکم دیتے ہیں ، جیسے
اسے بعض ایسے لوگ حلال سمجھتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ’’ملک یمین غلام و لونڈ ی کے ساتھ
لواطت کرنا جائز ہے۔‘‘ پس یہ تمام کے تمام باتفاق المسلمین کافرہیں۔ (اُصول الفقہ وابن
تیمیہ: ۱/۴۰۵)
نتیجۃ البحث:
فقہائے عظام
کے خیالات کا مطالعہ کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اجماع دور حاضر میں بھی
ممکن ہے اور قابل عمل ہے ۔
چونکہ اجماع کی اصطلاحی تعریف میں ـ’’فی عصر واحد‘‘
کی شرط موجود ہے، اس بناپر خلفائے اربعہ کا اجماع، اصطلاحی اجماع نہیں، کیونکہ ان خلفاء
کا زمانہ ایک نہیں۔ یہ ایک دوسرے کے بعد خلیفہ بنے ہیں، تاہم کسی مسئلہ میں خلفائے
راشدین کا متفق ہونا خوش آئند ہے اور یہ قابل حجت ہے۔
مدینۃالرسول کے باشندگان صحابہ کا مقام و مرتبہ بجا،لیکن کسی
پیش آمدہ مسئلہ میں ان کا اتفاق و اتحاد اجماع کی اصطلاحی تعریف کا حامل نہیں۔ اس
لیے اس پر ’’اجماع‘‘کا لفظ منطبق نہیں ہوتا،جس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے اصحاب رسول تبلیغ
و جہاد یا دیگر مقاصد کے تحت دیگر مقامات پر منتقل ہو گئے تھے، لہٰذا کسی مسئلہ پر
اہل مدینۃ صحابہ کا اتفاق و اتحاد ،اجماع نہیں۔ البتہ وفات رسولe کے
قریب تر زمانہ میں اجماع صحابہ کا وجود پایا جاتا ہے جس کی بہترین مثال خلافت ابوبکر
صدیق کی خلافت پر صحابہ کا اجماع ہے۔ایسا اجماع بلا اختلاف قابل حجت ہے۔
شیخین کے اجماع کو اجماع سے موسوم نہیںکیا جاسکتا ۔تا ہم شیخین
کریمین کی اقتداء بحکم رسول [اقتدوا بالذین من بعدی ابی
بكر وعمر۔] لازم ہے۔
علاوہ ازیں اہل بیت کا اجماع ،کسی شہر یا کسی ملک کے باشندوں
کا اجماع ، ائمہ اربعہ کا اجماع ،مبتدعین کا اجماع اور اکثریت کا اجماع قابل حجت نہیں،کیونکہ
ان تمام پر اجماع کی تعریف منطبق نہیں ہوتی،لہٰذا ان میں سے کسی کو اجماع امت کا نام
نہیں دیا جا سکتا۔
اجماع امت سے تواتر عملی پر راہنمائی:
اُمت مسلمہ میں جس قدر اسلامی احکام پر عمل ہورہاہے اور اُمت
مسلمہ جن منہیات سے اجتناب کرتی چلی آرہی ہے اس پر ساری اُمت کااجماع ہے ،سود کی حرمت
پر اُمت کا اجماع ہے، قربانی پراُمت تواتر سے عمل کرتی چلی آرہی ہے اوراس پر اُمت کااجماع
ہے ۔میت کو جنازہ پڑھ کردفنانا، اس پراُمت کا اجماع ہے۔ اسی طرح اوربہت سے اسلامی احکامات
ہیں۔
![]() |
Add caption |
No comments:
Post a Comment