سیدنا امیر معاویہ
(دوسری قسط) تحریر: جناب مولانا محمد ابراہیم ربانی
سیدنا امیر معاویہؓ کا کاتب وحی ہونا:
سیدنا امیرمعاویہt کے کاتب وحی اور خال المؤمنین ہونے پر سلف صالحین کا
اتفاق ہے۔
جیساکہ امام ابن کثیرa رقمطراز ہیں:
[وهذا قدر متفق علیه
بین الناس قاطبة۔]
یعنی معاویہt کے
کاتب وحی ہونے پر اجماع ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ: ۵/۴۵۳)
اسی طرح سلف صالحین کے متفقہ عقائد پر مشتمل کتاب ’موسوعۃ مواقف
السلف فی العقیدۃ والمنہج والتربیۃ‘ میں امیر معاویہt کے بارے میں سلف کا متفقہ موقف یوں بیان کیاگیاہے:
[فهو خال المؤمنین
وكاتب وحی رب العالمین۔]
’’وہ (معاویہ)خال
المؤمنین اور اللہ تعالیٰ کی وحی کے کاتب تھے۔‘‘
آنے والی سطور میں اس حوالے سے سلف صالحین کی عبارات بمع حوالہ
پیش خدمت ہیں:
اہل بیت کے چشم وچراغ سیدنا عبداللہ بن عباسw فرماتے
ہیں:
[وكان یكتب الوحی۔]
(دلائل النبوه: ۶/۳۴۲)
’’معاویہt کاتب
وحی تھے۔‘‘
مشہورتبع تابعی اور ثقہ امام معافٰی بن عمرانa (المتوفیٰ۵۸۱۔۶۸۱ھ) فرماتے ہیں:
[معاویة صاحبه وصهره
وكاتبه وامینه علی وحی الله عز وجل۔]
’’معاویہt نبی
اکرمe کے
صحابی،سسرالی رشتہ دار (یعنی سالے) آپe کے کاتب اور اللہ کی وحی کے سلسلے میں آپe کے
امین تھے۔ (تاریخ بغداد: ۱/۴۲۲)
امام اہل سنت ابوعبداللہ احمدبن حنبل الشیبانیa (المتوفی۱۴۲ھ) ابوالحارث احمدبن محمد الصائغa فرماتے
ہیں کہ ہم نے امام احمدa سے
بذریعہ خط پوچھاکہ آپ اس شخص کے متعلق کیا کہتے ہیں جس کا یہ دعوی ہوکہ میں معاویہa کو
کاتب وحی اور خال المؤمنین نہیں مانتا تو امام صاحب نے دوٹوک الفاظ میں فرمایا:
[هذا قول سوء ردیء،
یجانبون هؤلاء القوم، ولا یجالسون، ونبین امرهم للناس۔]
’’یہ انتہائی بری
اور ردی بات ہے،ایسے لوگوں سے کنارہ کشی کی جائے، ان کی مجلس اختیار کرنے سے باز رہا
جائے اور انکی گمراہیوں سے لوگوں کو واقف کیا جائے۔‘‘ (السنۃ لابی بکر بن خلال: ۲/۴۳۴)
امام ابوبکر محمد بن حسین الآجریa (المتوفی۰۶۳ھ) لکھتے ہیں:
[معاویة رحمه الله
كاتب رسول اللهﷺ علی وحی الله عز وجل وهو القرآن بامر الله عز وجل۔]
یعنی سیدنا معاویہt اللہ
تعالی کی طرف سے وحی قرآن کو لکھنے والے تھے۔ (الشریعۃ: ۵/۱۳۴۲)
امام ابومحمد علی بن احمد بن سعید بن حزم الظاہری a (المتوفیٰ۶۵۴ھ) سیدنامعاویہ اورزید بن ثابتw کے
بارے میں فرماتے ہیں:
[فكانا ملازمین للكتابة
بین یدیه ﷺ، فی الوحی وغیر ذلك، لا عمل لهما غیر ذلك]
’’اللہ کے نبیe نے
ان دونوں کو صرف وحی اور اس کے علاوہ(خطوط وغیرہ) لکھنے کے لیے رکھا ہوا تھا، اس (کتابت)کے
علاوہ ان کے ذمہ کوئی اور کام نہیں تھا۔‘‘ (جوامع السیرۃ: ۱/۷۲)
امام ابومنصورمعمربن احمد اصبھانیa (المتوفیٰ۸۲۴) اہل سنت کا اجماعی عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
[وان معاویة بن أبی
سفیان كاتب وحی الله وأمینه، وردیف رسول اللهﷺ وخال المؤمنین رضی الله عنهم۔]
’’سیدنا معاویہt کو
اللہ تعالیٰ کی وحی کا کاتب وامین، نبی اکرمe کے ساتھ ایک ہی سواری پر سفر کرنے اورخال المؤمنین
ہونے کاشرف حاصل ہے۔‘‘ (الحجۃ فی بیان المحجۃ للامام اسماعیل بن محمد بن الفضل الاصبھانی:
۱/۸۴۲)
امام ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن عبدالبر الاندلسیa (المتوفیٰ۳۶۴ھ)فرماتے ہیں:
[وهو أحد الذین كتبوا
لرسول الله ﷺ۔]
’’آپt ان
خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں رسول اللہe کے کاتب وحی ہونے کا شرف حاصل ہے۔‘‘ (الاستیعاب: ۳/۶۱۴۱)
امام ابوبکراحمدبن علی بن ثابت بن مھدی،خبیب بغدادیa (المتوفیٰ۳۶۴ھ) فرماتے ہیں:
[واستكتبه النبیﷺ]
’’نبی اکرمe نے
انہیں کتابت وحی کا کہا۔‘‘ (تاریخ بغداد: ۱/۲۲۲)
ابو القاسم علی بن الحسن، ابن عساکرa (المتوفی۱۷۵ھ) فرماتے ہیں:
[خال المؤمنین وكاتب
وحی رب العالمین۔] (تاریخ دمشق: ج۹۵/۵۵)
’’معاویہt خال
المؤمنین(مومنوں کے ماموں) اور رب العالمین کی وحی کو لکھنے والے ہیں۔‘‘
مزیدفرماتے ہیں:
[وأصح ما روی فی
فضل معاویة حدیث أبی حمزة عن ابن عباس أنه كاتب النبیﷺ فقد أخرجه مسلم فی صحیحه۔]
سیدنا امیر معاویہt کی
فضیلت میں سب سے صحیح حدیث ابوحمزہ کی حدیث ہے کہ سیدناعبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں
معاویہ کاتب رسولe تھے۔
اس روایت کوامام مسلم نے اپنی صحیح میں درج کیاہے۔ (ج۹۵ص۶۰۱)
ابو الفرج عبد الرحمن بن علی، ابن الجوزیa (المتوفیٰ۷۹۵ھ) لکھتے ہیں:
[كان معاویة كاتب
رسول اللهﷺ۔]
’’سیدنا معاویہt رسول
اللہe کے
کاتب تھے۔‘‘ (تلقیح فہوم اہل الاثر: ۱/۳۳۳)
ایک اورمقام پر امام ابن الجوزیa فرماتے ہیں:
[واستكتبه النبی
ﷺ۔]
’’نبی اکرمe نے
انہیں کتابت وحی کا کہا۔‘‘ (المنتظم فی تاریخ الامم والملوک: ۵/۵۸۱)
کاتبین وحی کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
[وقد كتب الوحی اثنا
عشر رجلا: ابو بكر وعمر وعثمان وعلی وأبی بن كعب وزید ومعاویة وحنظلة بن الربیع وخالد
بن سعید بن العاص وأبان بن سعید والعلاء بن الحضرمی۔]
’’بارہ آدمی وحی
لکھنے کا کام کرتے تھے۔ابوبکر، عمر، عثمان، علی، ابی بن کعب، زید، معاویہ، حنظلہ بن
ربیع، خالد بن سعید بن العاص، ابان بن سعید، علاء بن حضرمی۔‘‘ (کشف المشکل من حدیث
الصحیحین: ۲/۶۹)
تنبیہ: امام ابن الجوزیa کے
متعلق بعض ناصبیوں کا یہ کہناکہ وہ معاویہt کی فضیلت کے قائل نہیں تھے غلط ہے۔ مندرجہ بالا تین
عبارات سے ان کی اس بات کی تردید ہورہی ہے، باقی امام صاحب نے جو امیر معاویہt کے
بیٹے یزید پر جرح کی ہے اس کا یہ قطعامطلب
نہیں کہ وہ معاویہt کے
فضائل ومناقب کے منکر ہیں۔ ناصبیوں کو ائمہ دین کے بارے میں اس طرح کی الزام تراشی
سے اللہ کا خوف کرنا چاہیے۔
شیخ الاسلام، فاتح رافضیت امام ابو العباس احمد بن عبد الحلیم
بن عبد السلام، ابن تیمیہ الحرانیa (المتوفیٰ۸۲۷ھ) امیر معاویہt کے
فضائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
[وكان یكتب الوحی،
فهو ممن ائتمنه النبیﷺ علی كتابة الوحی۔]
’’اور وہ(معاویہ)
وحی لکھاکرتے تھے پس وہ ان حضرات میں سے تھے جن کو نبی اکرمe نے کتابت وحی پر امین مقرر کیاتھا۔‘‘ (منہاج السنۃ النبویۃ:
۷/۴۰)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
[وكان أمینا عنده
یكتب له الوحی۔]
’’یعنی امیرمعاویہt رسول
اللہe کے
نزدیک امانتدار تھے اور ان پرنازل ہونے والی وحی لکھا کرتے تھے۔‘‘ (مجموع الفتاوی:
۴/۲۷۴)
اسی طرح جب دشمنان صحابہ نے امیر معاویہt کے
کاتب وحی ہونے کاانکارکیاتو شیخ الاسلام نے قلم کوجنبش دیتے ہوئے لکھا:
[فهذا قول بلا حجة
ولا علم فما الدلیل علی أنه لم یكتب له كلمة واحدة من الوحی وانما كان یكتب له رسائل؟]
’’روافض کی یہ بات
علم ودلیل سے کوری ہے، (جواب دو!کہ)اس بات پر کیادلیل ہے کہ سیدنا امیر معاویہ نے صرف
خطوط لکھے ہیں، وحی کا ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔‘‘ (منہاج السنۃ النبویہ: ۴/۷۲۴)
مؤرخ اسلام امام ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر دمشقیa (المتوفیٰ۴۷۷ھ)فرماتے ہیں:
[والمقصود منه أن
معاویة كان من جملة الكتاب بین یدی رسول اللهﷺ الذین یكتبون الوحی۔]
’’ہمارا بتانے کا
مقصد یہ ہے کہ امیرمعاویہt ان
جملہ کاتبین وحی میں سے ہیں، جو کتابت وحی کا فریضہ سرانجام دیا کرتے تھے۔‘‘ (البدایۃ
والنہایہ: ۸/۹۱۱)
امام ابومحمدعبد اللہ بن احمد بن محمد بن قدامہ المقدسیa (المتوفیٰ۰۲۶ھ) مسلمانوں کا عقیدہ بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
[ومعاویة خال المؤمنین،
وكاتب وحی الله، أحد خلفاء المسلمین رضی الله عنهم۔]
سیدنا معاویہt خال
المؤمنین (مومنوں کے ماموں)، اللہ کی وحی کے کاتب اورمسلمانوں کے خلیفہ تھے۔ (لمعۃ
الاعتقاد: ص۴۰)
ابو عبد اللہ حسین بن ابراہیم الھمدانی a (المتوفٰی۳۴۵ھ)فرماتے ہیں:
[اعلم أن معاویة
خال المؤمنین، وكاتب الوحی المبین، المنزل من عند رب العالمین علی رسوله محمد۔]
’’معلوم ہوناچاہیے
کہ معاویہt مومنوں
کے ماموں اور اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے والی وحی (قرآن) کو لکھنے والے تھے۔‘‘
(الاباطیل والمناکیر: ۱/۶۵۳)
ابو الحسن علی بن بسام الشنترینیa (المتوفٰی۲۴۵ھ) فرماتے ہیں:
[معاویة بن ابی سفیان
كاتب الوحی وصهره علیه السلام وردیفه۔]
’’سیدنامعاویہ بن
ابی سفیانt کاتب
وحی، نبی اکرمe کے
سسرالی رشتہ دار (سالے) اور آپe کے
ساتھ ایک ہی سواری پر سفر کرتے تھے۔‘‘ (الذخیرۃ فی محاسن اہل الجزیرۃ: ۱/۱۱۰)
ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان الذھبیa (المتوفیٰ۸۴۷ھ) فرماتے ہیں:
[وقد صح عن ابن عباس
قال: … وكان یكتب الوحی۔]
’’یعنی سیدنا ابن
عباسw سے
صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے‘ وہ فرماتے ہیں: … معاویہ وحی لکھا کرتے تھے۔‘‘ (تاریخ اسلام:
۲/۵۴۰)
ابو عمرو خلیفہ بن خیاطa (المتوفٰی۰۴۲ھ)کہتے ہیں:
[ كتب له معاویة
بْن ابی سفْیان۔]
’’معاویہ بن ابی
سفیان آپe کے
پاس کتابت کا کام کرتے تھے۔‘‘ (تاریخ خلیفۃ بن خیاط ص۹۹)
امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف النوویa (المتوفی۶۷۶ھ) فرماتے ہیں:
[وكان أحد الكتاب
لرسول اللهﷺ۔]
’’آپt ان
خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں رسول اللہe کے کاتب وحی ہونے کا شرف حاصل ہے۔‘‘ (تھذیب الاسماء
واللغۃ: ۲/۱۰۱)
ابو الفضل احمد بن علی بن محمدبن حجر العسقلانیa (المتوفیٰ۲۵۸ھ)فرماتے ہیں:
[صحابی أسلم قبل
الفتح وكتب الوحی۔] (تقریب التھذیب: ۴۵۹)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
[وهذا معاویة بن
أبی سفیان یكتب الوحی۔] (لسان المیزان: ۵/۵۹)
’’یہ معاویہt وہ
ہیں جو کاتب وحی تھے۔‘‘
ابواسحاق ابراہیم الشاطبیؒ (المتوفٰی۰۹۷ھ) فرماتے ہیں:
[وذكر أهل السیر
أنه كان لرسولﷺ كتاب یكتبون له الوحی وغیره منهم عثمان وعلی ومعاویة والمغیرة بن شعبة
وأبی بن كعب وزید بن ثابت وغیرهم۔]
’’سیرت نگاروں نے
یہ بات بیان کی ہے کہ رسول اکرمe کے
کئی کاتب تھے جو آپ کے لیے وحی وغیرہ لکھا کرتے تھے۔ انہی میں سے عثمان،علی، معاویہ،
مغیرہ بن شعبہ، ابی بن کعب اورزیدبن ثابت] ہیں۔‘‘ (الاعتصام: ۱/۸۱۳)
شارح بخاری ابو حفص عمر بن علی، ابن الملقن a (المتوفی۴۰۸ھ) فرماتے ہیں:
[اما معاویة فهو
خال المؤمنین، ابو عبدالرحمن بن ابی سفیان صخر بن حرب الخلیفة الاموی كاتب الوحی، أسلم
عام الفتح۔] (التوضیح: ۳/۳۴۳)
’’سیدنا معاویہt مومنوں
کے ماموں ابوعبدالرحمان بن ابی سفیانw، اموی خلیفہ، کاتب وحی فتح مکہ والے
سال مسلمان ہوئے۔‘‘
امام احمد بن محمد بن ابی بکر قسطلانیؒ (المتوفٰی۳۲۹ھ) سیدنا امیر معاویہt کے
بارے میں لکھتے ہیں:
[وهو مشهور بكتابة
الوحی۔]
’’وہ کتابت وحی کے
ساتھ مشہور تھے۔‘‘ (المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ: ۱/۳۳۵)
نیز لکھتے ہیں:
[كاتب الوحی لرسول
اللهﷺ ذا المناقب الجمة۔]
’’آپt رسول
اکرمe کے
کاتب اور بیشمار مناقب ومراتب کے مالک تھے۔‘‘ (ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری: ۱/۱۷۰)
عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطیa لکھتے ہیں:
[وكان أحد الكتاب
لرسول اللهﷺ۔]
’’آپt رسول
اکرمe کے
کاتب تھے۔‘‘ (تاریخ الخلفاء: ۱/۱۴۸)
ابو الحسین محمد بن محمد، ابن ابی یعلیؒ فرماتے ہیں:
[ومعاویة خال المؤمنین،
وكاتب وحی رب العالمین۔]
’’معاویہ مومنوں
کے ماموں اوراللہ تعالی کی وحی (قرآن) کو لکھنے والے تھے۔‘‘ (الاعتقاد لابن ابی یعلی:
۳۴)
امام احمد بن محمد بن علی بن حجر ہیثمیa (المتوفٰی۴۷۹) سیدنا امیرمعاویہt کادفاع
کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
[خال المؤمنین أجمعین
كاتب الوحی۔]
’’وہ تمام مومنوں
کے ماموں اور کاتب وحی ہیں۔‘‘ (الصواعق المحرقۃ علی اہل الرفض والضلال والزندقۃ: ۲/۸۰۷)
ابو عبد اللہ محمد الانصاریa (المتوفٰی۳۰۷ھ) سیدنا امیر معاویہt کے
متعلق لکتے ہیں:
[وكاتب الوحْی عنه
وخال المؤمنینؓ۔]
’’وہ کاتب وحی اور
مومنوں کے ماموں ہیں۔‘‘ (الذیل والتکملۃ لکتابی الموصول والصلۃ: ۱/۵۰۶)
ابوعبداللہ محمدبن محمد المراکشیa (المتوفٰی۵۹۶ھ) سیدنا امیرمعاویہt کے
بارے میں کہتے ہیں:
[فاتخذه رسول اللهﷺ
كاتبا للوحی۔]
’’رسول اکرمe نے
امیر معاویہ کو کاتب مقرر کیا تھا۔‘‘ (البیان المغرب: ۱/۹)
علامہ ابن العماد حنبلیؒ امیرمعاویہt کے بارے میں لکھتے ہیں:
[وهو أحد كتبة الوحی۔](شذرات
الذهب: ۱/۲۷۰)
’’وہ کاتبین وحی
میں سے ایک تھے۔‘‘
علامہ محمود بن احمد العینیؒ (المتوفٰی۵۵۸ھ) لکھتے ہیں:
[معاویة بن أبی سفیان
صخر بن حرب الأموی كاتب الوحی أسلم عام الفتح] (عمدة القاری: ۲/۹۴)
محمد بن اسعد الصدیقی الدوانی لکھتے ہیں:
[وكان معاویة كاتب
وحیه۔]
’’معاویہ کاتب وحی
تھے۔‘‘ (الحجج الباہرۃ: ۲۳۱)
ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ سیدنامعاویہt کے
کاتب وحی اور خال المؤنین ہونے پر اسلاف امت کا اتفاق ہے۔
کتب شیعہ سے ثبوت:
مذہب شیعہ کی درج ذیل معتبر کتب میں سیدنا امیر معاویہt کو
کاتب وحی تسلیم کیا گیاہے۔
b معانی الاخبار
ص۶۴۳،طبع دارالمعرفہ
b معانی الاخبار
اردو مترجم ج۲ص۳۹۳۔۴۹۳،طبع کراچی
b الإحتجاج للطبرسی
ج۱ص۹۳۲،ط انتشارات الشریف الرضی
b شرح نہج البلاغۃ
لابن ابی الحدید ج۱ص۸۳۲
اسی طرح دورحاضر کا بہت بڑا فتنہ اور نیم شیعہ انجینئر محمدعلی
مرزا نے بھی اپنے لیکچر میں سیدنا امیر معاویہt کو کاتب وحی کہاہے۔
مرزا کے کسی چاہنے والے نے بھی سیدنا امیر معاویہt کو
کاتب وحی تسلیم کیاہے۔ (خال المؤمنین ایک صحابی اورکاتب وحی ص۷۲)
No comments:
Post a Comment