اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کا پہلا تقاضا
تحریر: جناب میاں محمد
جمیل
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے خالق ہونے کے حوالے
سے الخالق، البدیع، الباری، الفاطر، المصور اور الخلّاق کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں
جن کا مختصر مفہوم یہ ہے:
’’الخالق ‘‘ کا نام لفظِ خُلِق سے ماخوذ ہے۔ اس کے تین معانی ہیں۔ عدم
سے وجود میں لانا، کسی چیز اور کام کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنا اور اس کی فطرت اور
اس کے ماحول کے مطابق پیدا کرنا۔ جس طرح مچھلی کی فطرت پانی میں رہنا پسند کرتی ہے
اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی طبیعت اور فطرت میں ایسی حدّت رکھ دی ہے جو اسے انتہائی
ٹھنڈک میں بھی زندہ رکھتی ہے۔ لہٰذا جو کسی چیز کو عدم سے وجود بخشے، اس کا سو فی صد
ٹھیک اندازہ کرے اور اُسے فطرت اور ماحول کے مطابق پیدا کرے۔ اسے ’’الخالق‘‘ کہتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی کچھ پیدا نہیں کر سکتا۔ وہ ملائکہ،
جِنّ ، انس، حیوانات، جمادات، نباتات گویا کہ ہر چیز کا اکیلا ہی خالق ہے۔ اس لیے یہ
نام اور کام اسی کو زیبا ہے۔
﴿اَللّٰهُ خَالِقُ
كُلِّ شَيْءٍ وَّ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ﴾ (الزمر)
’’اللہ ہی ہر چیز
کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔‘‘
﴿اَلَا لَهُ الْخَلْقُ
وَ الْاَمْرُ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ (الأعراف)
’’سنو پیدا کرنا
اور حکم دینا اللہ ہی کا کام ہے ،بہت برکت والا ہے اللہ جو سارے جہانوں کا رب ہے۔‘‘
’’البدیع‘‘ وہ ہے جو پہلے سے موجود کسی مواد اور نمونے کے بنا بنانے
اور پیدا کرنے والاہے۔ زمینوں، آسمانوں میں اللہ تعالیٰ کے سِوا کوئی ہستی نہیں
جو اس طرح کسی چیز کو بنائے یا پیدا کر سکے۔پیدا کرنا تو درکنار دنیا میں جو ایجادات
ہوئی ہیں اور ہوں گی وہ اسی کی پیدا کردہ مٹیریل اور بنائی ہوئی کسی ایک یا کچھ چیزوں
کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہیں۔ از خود مٹیریل تخلیق کرنا اور قدرت کے پیدا کیے ہوئے
کسی نمونے سے فائدہ اٹھائے بغیر کوئی چیز بنانا بڑے سے بڑے سائنسدان کے بس کی بات نہیں‘
لہٰذا ’’بدیع‘‘ نام اور صفت صرف اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہے۔اس لیے اس کا ارشاد ہے:
﴿بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ
وَ الْاَرْضِ﴾ (الانعام)
’’وہ آسمانوں اور
زمین کا موجد ہے ۔‘‘
﴿اَللّٰهُ يَبْدَؤُا
الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ﴾ (الروم)
’’اللہ ہی مخلوق
کوپہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا پھر اسی کی طرف تم لُٹائے جاؤ
گے۔‘‘
الباری: کا مصدر براء ہے۔ جس کا معنٰی جُدا کرنا اور پھاڑنا
ہے۔ یہ اس لئے ’’اللہ‘‘ کا نام اور اس کی صفت ٹھہرا کہ وہ اپنی منشا کے مطابق کسی چیز
کا نقشہ بناتا اور پھر اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالتا ہے۔ اسے صرف ’’کن‘‘ فرماتا ہے
اور وہ چیز ’’فیکون‘‘ کے عمل سے گزر جاتی ہے۔
یعنی اس کی عین مرضی اور حکم کے مطابق معرض وجود میں آجاتی ہے۔ ظاہر ہے مخلوق میں سے
کسی کو یہ قدرت حاصل نہیں ۔اس لیے البدیع کی شان اور اختیار رکھتا ہے دوسرا نہیں۔
﴿هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ
الْبَارِئُ الْم﴾ (الحشر)
’’وہ اللہ ہے جو
ہر چیز کو ابتدا سے پیدا کرنے والا۔‘‘
﴿اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ
اِذَاۤ اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۰۰۸۲﴾ (يٰس)
’’جب کسی چیز کا
ارادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جا
تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
الفاطر: پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا یعنی جو چیز پہلے سے موجود
نہ ہو بے شک وہ جاندار ہو یا غیر جاندار ۔ سیدنا ابن عباسw فرماتے ہیں کہ میرے پاس دو بدو آئے جن کا ایک کنویں
کی ملکیت پر جھگڑا تھا۔ ایک نے کہا ’’اَنَا فَطَرْتُہَا‘‘ ’’میں نے یہ کنواں پہلے
کھودا تھا۔‘‘ گویا کہ فاطر کا معنٰی کسی کام کی ابتدا کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان
اور ہر چیز کی ابتدا فرمائی ہے۔ اس لیے اس کا اسم مبارک فاطر ہے۔
﴿هَلْ اَتٰى عَلَى
الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـًٔا مَّذْكُوْرًا۰۰۱﴾ (الدهر)
’’انسان پر ایسا
دور بھی گزرا ہے جب اس کا ذکر تک نہیں تھا؟‘‘
﴿قَالَتْ رُسُلُهُمْ
اَفِي اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ﴾ (ابراهيم)
’’ان کے رسولوں نے
فرمایا: کیا اللہ کے بارے میں شک کرتے ہو ؟جو آسمانو ں اور زمین کو پیدا کرنے والاہے
۔‘‘
﴿قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ
اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ﴾ (الأنعام)
’’فرما دیں کہ کیا
میں آسمانوں اورزمین کو پیدا کرنے والے اللہ کے سوا کسی اور کو اپنامددگار بنالوں
؟‘‘
﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ
فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا ﴾ (فاطر)
’’اللہ ہی کے لیے
تمام تعریفیں ہیں جو آسمانوں اور زمین کا بنانے اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کرنے
والا ہے۔‘‘
المصوّر: دنیا میں جو لوگ اپنے ہاتھ یا کیمرے کے ذریعے
تصویر بناتے ہیں‘ وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں
کو سامنے رکھ کر ہی کوئی نہ کوئی تصویر بناتے ہیں۔ کسی بھی منظر کو اپنے سامنے رکھیں
وہ مصور حقیقی کا حصہ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے کروڑوں ، اربوں، کھربوں صورتیں بنائی ہیں۔
انسانوں پر غور کریں ’’اللہ‘‘ نے ہی انسان کو عدم سے وجود بخشا ہے، وہی ہے جسم میں
روح پھونکتا اور اسی نے انسان اور ہر چیز کو الگ الگ شناخت عطا فرمائی ہے۔ اربوں انسان
اور کڑوروں جانور آپس میں نہیں ملتے۔ اس لیے کم سے کم عقل رکھنے والا انسان بھی پکارا
اٹھتا ہے۔
﴿فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ
اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَؕ۰۰۱۴﴾ (المؤمنون)
’’بڑا ہی بابرکت
ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔ ‘‘
﴿هُوَ الَّذِيْ يُصَوِّرُكُمْ
فِي الْاَرْحَامِ كَيْفَ يَشَآءُ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۰۰۶﴾
(ال عمران)
’’وہی ہے جو جس طرح چاہتا
ہے رحموں میں تمہاری صورتیں بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں وہ نہایت غالب
خوب حکمت والا ہے۔‘‘
ارشادِ ربانی ہے:
’’وہ اللہ ہے جو
ہر چیز کو ابتدا سے پیدا کرنے والا اور صورتیں بنانے والا ہے ، اس کے لیے بہترین نام
ہیں‘ ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کر رہی ہے اور وہ زبردست اور خوب
حکمت والا ہے۔‘‘
قرآن مجید میں کئی مقامات پر تخلیق کے لیے ’’جَعَلَ‘‘
کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جو تقریباً لفظ ’’خلق‘‘ کا مترادف ہے۔ مزید فرمایا:
’’وہی ہے جس نے تمہارے
لیے رات بنائی۔تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کوروشن بنایا۔ بے شک اس میں ان
لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور سے سنتے ہیں۔‘‘
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور وہی ہے جس
نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان سے خشکی اورسمندر کے اندھیروں میں راستہ معلوم
کرو ۔بے شک ہم نے ان لوگوں کے لیے کھول کرآیات بیان کر دی ہیں جو جاننے کی کوشش کرتے
ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور اللہ نے تمہی
سے تمہارے لیے تمہاری بیویاں بنائیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے بنائے
۔‘‘
الخلّاق: یہ خُلق سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یہ نام قرآن مجید میں دو
مرتبہ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس لئے ’’خلّاق ہے کہ اس نے ایک نطفہ سے انسان کو پیدا
کیا اور ہر انسان کو الگ الگ شکل و صورت عطا کرنے کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا صلاحتیں
عطا کی ہیں۔ یہی حال دوسری مخلوقات کا ہے جو ایک جنس ہونے کے باوجود آپس میں نہیں
ملتیں۔
﴿اِنَّ رَبَّكَ هُوَ
الْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُ۰۰۸۶﴾ (الحجر)
’’بے شک آپ کا رب
کما ل درجے کا پیدا کر نے اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔‘‘
ارشاد الٰہی ہے:
’’کیا جس نے آسمانوں
اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ انہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟کیوں نہیں وہ تو
سب کچھ جاننے اور پیدا کرنے والاہے۔‘‘
مذکورہ بالا تمام اسمائے گرامی لغوی، معنوی اور توصیفی اعتبار
سے ایک دوسرے کا حصہ ہیں۔ اس کے باوجود کوئی بڑے سے بڑا علّامہ ان کی ماہیّت اور لطافت
کو پوری طرح بیان نہیں کر سکتا۔ تاہم سمجھنے کے لئے ان اسمائے مبارکہ میں خالق کا نام
انسان کی فہم کے زیادہ قریب اور آسان ہے۔ اس لئے جن آیات میں اس کا خالق اور جاعل
ہونا بیان کیا گیا ہے اور ان میں انسان کی تخلیق کا مقصد بیان ہوا یہاں انہی آیات
کا حوالہ دیا جائے گا تاکہ معلوم ہو کہ خالق
نے ہمیں کیوں پیدا کیا اور ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے۔ فرمایا:
’’اے لوگو! اپنے
رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیز گار بن
جاؤ۔ اسی نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی نازل
فرما کر اس سے تمہارے لیے پھل پیدا کیے جو
تمہارا رزق ہیں، حقیقت جاننے کے باوجود اللہ کے ساتھ شریک نہ بنائو۔ ‘‘
اَنْدَادًا ’’ند‘‘ کی جمع ہے جس کا معنٰی ہے ہمسر اور شریک
۔ فرمانِ باری ہے:
’’وہ آسمانوں اور
زمین کا موجد ہے اس کی اولاد کیسے ہوگی کیونکہ اس کی بیوی ہی نہیں ؟ اس نے ہرچیز پیدا
کی اور وہ ہرچیز کو خوب جاننے والاہے۔ یہی اللہ تمہار ا رب ہے۔ اس کے سوا کوئی سچا
معبود نہیں ،ہرچیز کوپیداکرنے والا ہے، بس اسی کی عبادت کرو اور وہ ہرچیز پرنگہبان
ہے۔اسے کوئی آنکھ نہیں دیکھ سکتی اور وہ ہر ایک کو دیکھتا ہے اور وہ نہایت باریک دیکھنے
والا اورسب خبر رکھنے والاہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی ذات ہر قسم کی شراکت سے مبرّا اور اولاد کی ضرورت
سے بے نیاز ہے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد یا شریک ٹھہرانا مشرکوں کی ذہنی پستی اور
فکری دیوانگی کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے باطل تصورات اور ہر قسم کی یاوا گوئی
سے پاک اور مبرّا ہے۔ کائنات کی تخلیق کے لیے بدیع کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا
کہ جس اللہ نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے اور مٹیریل کے اوپر نیچے سات آسمان اور
تہ بہ تہ سات زمینیں پیدا کی ہیں اسے اولاد کی کیا ضرورت ہے ؟ مقصد یہ ہے کہ ہر چیز
اس کی غلام اور تابع فرمان ہے۔ ارشاد ہوا:
’’یقیناً تمہارا
رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اورزمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر جلوہ نما
ہوااور وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کرنے والا نہیں
، وہی اللہ تمہارا رب ہے، بس اسی کی عبادت کرو ۔ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟‘‘
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے زمین ، آسمانوں کو بغیر
کسی نمونے کے چھ دن میں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو وہ ایک لمحہ میں بھی زمین
و آسمانوں کو پیدا کرسکتے تھے۔ لیکن اس میں یہ حکمت ظاہر فرمائی کہ ہر کام کو مناسب
وقت دینا اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ جس کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ ہر چیز یا کام اپنے
طبعی تقاضوں کے مطابق کما حقہ سر انجام پائے۔ ’’اللہ‘‘ ہی زمین و آسمانوں اور پوری
کائنات کا نظام سنبھالے ہوئے ہے۔ زمین و آسمانوں کی پیدائش اور کائنات کا نظام سنبھالنے
میں اس کا کوئی ساجھی، شریک اور مشیر نہ تھا، نہ ہے اورنہ ہوگا اورنہ اس نے اپنی خدائی
میں کسی کو ذرہ برابر اختیار دیا ہے۔جب کائنات کی تخلیق اور نظام چلانے میں اللہ
تعالیٰ کا کوئی شریک ، معاون اور مشیر نہیں تو اس کے سامنے اس کی اجازت کے بغیر کوئی
سفارش کرنے کی جرأت کیسے کرسکتاہے؟ لوگو! اللہ ہی تمہارا رب ہے لہٰذا صرف اور صرف
اسی ایک کی عبادت کیا کرو۔ اتنے بڑے حقائق اوردلائل کی موجودگی میں کیا تم نصیحت حاصل
کرنے کے لیے تیار ہو؟ نصیحت سے مراد یہاں توحید کا عقیدہ اور خالصتاً اللہ کی عبادت
،تابعداری کرنا ہے۔ جو شخص اس کو نہیں مانتا وہ ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا ۔اس آیت مبارکہ
میں تخلیق ِکائنات کا ثبوت دینے کے بعد اس بات کی پرزور تردید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ
کسی کی سفارش کا محتاج اوراسے ماننے پر مجبور نہیںجب کہ مشرک کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ
تعالیٰ نے بزرگوں سے خوش ہوکر انہیں اپنی خدائی میں کچھ اختیار دے رکھے ہیں اللہ تعالیٰ
ان کی سفارش مسترد نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عقیدہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے بے
خوف اور اس سے دور کردیتا ہے۔ جس سے اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور اعتقادی اور عملی برائیاں
پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لیے ہر نبی نے اس عقیدہ کی تردید کی۔ اللہ تعالیٰ کے ’’رب‘‘ ہونے
کا تقاضا ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔
﴿رَبُّ السَّمٰوٰتِ
وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَ اصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ١ؕ هَلْ تَعْلَمُ
لَهٗ سَمِيًّاؒ۰۰۶۵﴾ (مريم)
’’وہ آسمانوں اور
زمین کا رب ہے اور ان ساری چیزوں کا جو ان کے درمیان ہیں پس تم اسی کی بندگی کرو اور
اسی کی بندگی پر قائم رہو۔ کیا تمہارے علم میں اس کے ہم نام کوئی ہستی ہے ؟‘‘
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رسول کریمe کی
ڈھارس بندھانے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ جب کفار اور مشرکین آپ کی مخالفت
کریں تو آپ بالخصوص نماز میں اپنے رب کو یاد کیا کریں۔ جس کا صاف معنٰی ہے کہ
ا ن لوگوں سے الجھنے اور پریشان ہونے کی بجائے آپ اپنے رب کے ذکر و فکر میں مصروف
ہو جایا کریں تاکہ آپ پر اُس کی رحمت نازل ہو جس سے آپ کا غم دور ہوگا، اسی اسلوب
اور ضرورت کے پیش نظر یہاں بھی آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رب کی عبادت کریں اور
اس کی عبادت کرنے پر قائم رہیں، اسی کا نام لیتے رہیں۔ وہ ایسی لازوال اور بے مثال
ہستی ہے جس کا ہمسر ہونا تو دور کی بات کوئی اس کاہم نام ہی نہیں۔
یہی بات سمجھاتے ہوئے سیدنا ابراہیم uنے اپنے باپ اور قوم سے بیک وقت یہ استفسار کیا کہ اے والد گرامی
اور میری قوم کے لوگو! بتلائو جن پتھر اور مٹی کی بنی ہوئی مورتیوں کے سامنے مراقبے
کرتے ہو ،اور جن سے مانگتے ہو ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ قوم کا جواب تھا کہ ہم
نے اپنے آباء واجداد کو اس طرح ہی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ سیدنا ابراہیم uنے اُنھیں باور
کروایا کہ تم واضح طور پربہک چکے ہو۔ (الانبیاء : ۵۱ تا ۵۴ ) سیدنا ابراہیم uنے اپنی قوم کو یہ بھی سمجھایا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو
اور اُسی سے ڈرتے رہو اگر تم حقیقت جانتے ہوتو تمھارے لیے یہی بہتر ہے ۔ اللہ تعالیٰ
کو چھوڑ کر تم بتو ں کی عبادت کرتے ہو اور پھر اُن کے بارے میں جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے
ہو‘ یہ تمھیں کسی قسم کا رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ صرف ایک اللہ سے رزق مانگو‘
اُسی ایک کی عبادت کرو اور اُسی کا شکریہ ادا کرو کیونکہ تم سب نے اُسی کی طرف پلٹ
کر جاناہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
’’تم اللہ کو چھوڑ
کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم جھوٹ بناتے ہو،حقیقت یہ ہے کہ اللہ
کے سوا تم جن کی عبادت کرتے ہو وہ تمہیںرز ق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اللہ ہی سے
رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کا شکر ادا کرو۔ اسی کی طرف تم پلٹ کرجانے
والے ہو۔ اگر تم جھٹلادو تو تم سے پہلے بہت سی قومیں جھٹلا چکی ہیں اور رسول پر واضح
طور پر پیغام پہنچا دینا ہے۔‘‘
اللہ کا فرمان ہے:
’’اے لوگو! ایک مثال
بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو!اللہ کو چھوڑ کر جن معبودوں کو پکارتے ہو وہ سب مل
کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ
اس سے واپس نہیں لے سکتے‘ کمزور ہیں مددچاہنے والے بھی اورکمزور ہیں جن سے مدد مانگی
جاتی ہے وہ بھی۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں پہچانی جس طر ح پہچاننے کا حق ہے‘
حقیقت یہ ہے کہ اللہ قوت اوربڑی عزت والا ہے۔ ‘‘
شرک کا عقیدہ اس قدر ناپائیدار اور کمزور ترین ہے کہ اگر اس
پر معمولی سا غور کر لیا جائے تو اسے چھوڑنا انسان کے لیے نہایت ہی آسان ہو جاتا ہے۔
کیونکہ مشرک شرک کے بارے میں انتہائی جذباتی ہوتا ہے جس وجہ سے مثال بیان کرنے سے پہلے
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے لوگو! تمہارے سامنے ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے پوری
توجہ کے ساتھ سنو۔ یعنی اس سے بدکنے کی بجائے اس پرٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرو۔بے شک
جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے‘ بے شک وہ سب کے
سب اس کا م کے لیے اکٹھے ہوجائیں۔ مکھی پیدا کرنا تو درکنار اگر مکھی کوئی چیز اُڑا
لے جائے تو وہ اُس سے چھڑا نہیں سکتے۔ مراد یں مانگنے والے اور جن سے مرادیں مانگی
جاتی ہیں سب کے سب کمزور ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں جانی جس طرح
اُس کی قدر جاننے کا حق تھا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بڑا طاقت ور اور ہر چیز پر غالب ہے۔
ان الفاظ میں یہ اشارہ موجود ہے کہ مشرک کو شرک سے بالفعل روکنا اللہ تعالیٰ کی قدرت
سے باہر نہیں‘ وہ ہر قسم کی قدرت اور غلبہ رکھتا ہے لیکن اس نے اپنی حکمت کے تحت مشرک
کو مہلت دے رکھی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے شرک کی بے ثباتی ثابت کرنے اور اس سے نفرت
دلانے کے لیے ایسے جانور کی مثال دی ہے جس سے ہر آدمی نفرت کرتا ہے۔ عام مکھی کی مثال
اس لیے دی گئی ہے کہ یہ اس بات کا امتیاز نہیں کرتی کہ جس چیز پر بیٹھ رہی ہے وہ کس
قدر غلیظ اور بدبو دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک وقت وہ گندگی کے ڈھیر پر بھنبھنا رہی
ہوتی ہے اور دوسرے لمحہ کھانے والی چیز پر جا بیٹھتی ہے۔ مکھی اور کتاکسی چیز سے سیر
نہیں ہوتے‘ اس لیے مشرک کی مثال کتے کے ساتھ بھی دی گئی ہے۔ (الاعراف: ۱۷۳ تا ۱۷۶) کردار کے اعتبار سے یہی مشرک کی مثال ہے کہ وہ عقیدہ توحید کی عظمت اور برکت کو
چھوڑ کر جگہ جگہ ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے یہاں تک کہ ایسے لوگوں کے چرنوں میں جا بیٹھتا
ہے جنہیں اپنی پاکی ،پلیدی کا بھی خیال نہیں ہوتا۔ وہ ایسے لوگوں سے مانگتا ہے جو دربدر
کی ٹھوکریں کھاتے اور مزارات پر آنے والوں کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں‘ یہ تو کلمہ
گو حضرات کا حال ہے۔ جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے تو وہ شرک کرنے کی وجہ سے انسانیت
سے اس حد تک گر چکے ہیں کہ ان میں کچھ لوگ جانوروں اور مجذوبوں کے نفس کی پوجا کرتے
ہیں۔ یہ اس لئے کہ مشرک نے اپنے رب کی قدر نہیں پہچانی جس وجہ سے وہ غیروں کی عبادت
کرتا اور جگہ جگہ ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ حالانکہ فطرت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے
خالق کی عبادت کرے اور دنیا وآخرت کی ذلّت سے مامون ہو جائے۔
No comments:
Post a Comment