حُجِّیتِ حدیثِ مصطفیٰ
(دوسری قسط) تحریر: جناب حمید اللہ خاں عزیز
آپe کے
فیصلے‘ احکامات احادیث مبارکہ کی شکل میں مرتب ومدون ہوئے۔ جو پوری امت کے لیے زندگی
گذارنے کے لیے لائحہ عمل کا درجہ رکھتے ہیں۔ پھر ایمان واسلام کی عند اللہ قبولیت کے
لیے ایک ضروری شرط یہ بھی ہے کہ کسی فرد انسانی کو یہ قطعاً اجازت نہیں کہ آپe کے
احکام وفرامین یعنی احادیث رسولe پر
ناگواری ظاہر کرے۔ بلکہ خوشی وفرحت کے ساتھ آپe کی احادیث کو سنے اور اس پر عمل کرنے کی سعی کرے۔ اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَ مَآ اٰتٰیكمُ
الرَّسُوْلُ فَخُذُوْه۱ وَ مَا نَهٰٹكمْ عَنْه فَانْتَهوْا۱ وَ اتَّقُوا اللّٰه} (الحشر:
۷)
’’رسول تم کو جو
کچھ دے اسے لے لو (اس پر عمل کرو) اور جس سے تم کو منع کرے اس سے رک جاؤ۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں رسول اللہe کے دو ارشادات گرامی پڑھیے:
[إذا نهیتكم عن شیء
فاجتنبوه وإذا أمرتكم بشیء فأتوا منه ما استطعتم۔]
’’میں جب تم کو کسی
چیز سے منع کروں تو تم اس سے بچو اور جب میں تم کو کسی چیز کے کرنے کا حکم دوں تو تم
اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو۔‘‘ (بخاری)
[وإذا نهیتكم عن
شیء فدعوه۔]
’’میں جب تم کو کسی
چیز سے منع کروں تو تم اس کو ترک کر دو۔‘‘ (مسلم: ۴۱۲)
ان احادیث سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ رسول
اللہe کے
فرمودات کی حیثیت شرعی ہے جس سے روگردانی قطعاً جائز نہیں۔ آپe کا
کسی چیز سے متعلق حکم دینا اور منع کرنا وحی الٰہی پر مبنی تھا اور رسول اللہe کی
اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ ارشاد فرمایا:
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ
فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰه}
’’جس نے رسول e کی
اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘ (النساء: ۸۰)
قرآن کی یہ آیت امت مسلمہ کو عمل بالحدیث کی دعوت دے رہی ہے
کیونکہ اطاعت رسول‘ آپe کے
افکار اور ارشادات عالیہ پر عمل کرنے سے ممکن ہے۔ بجز اتباع رسول اور اعتصام بالاحادیث
کے اس کی دوسری کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس لیے جو لوگ احادیث مصطفیe کا
انکار کرتے ہیں وہ دراصل ذات باری تعالیٰ کے منکر ہیں۔
{وَ اَطِیْعُوا اللّٰه
وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّكمْ تُرْحَمُوْنَ}
’’اللہ اور اس کے
رسولe کی
اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ (آل عمران: ۱۳۲)
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ
فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰه}
’’جس نے رسول e کی
اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔‘‘ (النساء: ۸۰)
{قُلْ اَطِیْعُوا
اللّٰه وَ الرَّسُوْلَ۱ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰه لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ}
(آل عمران: ۳۲)
’’اے نبی! آپ کہہ
دیجیے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اگر یہ منہ پھیر لیں تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں
سے محبت نہیں کرتا۔‘‘
{یٰٓاَیُّها الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰه وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكمْ۱
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْه اِلَی اللّٰه وَ الرَّسُوْلِ} (النساء:
۵۹)
’’اے ایمان والو!
فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول اکرمe کی
اور تم میں جو امراء ہوں ان کی بھی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ
اور اس کے رسولe کی
طرف۔‘‘
{وَ اَطِیْعُوا اللّٰه
وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْا۱ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا
عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ}
’’تم اللہ اور رسول
کی اطاعت کرو اور ڈرتے رہو۔ اگر منہ پھیرو گے تو یہ جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف
صاف صاف پہنچا دینا ہے۔‘‘ (المائدہ: ۹۲)
{وَ اَطِیْعُوا اللّٰه
وَ رَسُوْلَهٓ اِنْ كنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ}
’’اللہ اور اس کے
رسول کی اطاعت کرو‘ اگر تم ایمان والے ہو۔‘‘ (الانفال: ۱)
{یٰٓاَیُّها الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰه وَ رَسُوْلَه وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْه وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ}
(الانفال: ۲۰)
’’اے ایمان والو!
اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو‘ اس کی فرمانبرداری سے روگردانی نہ کرو‘ سنتے جانتے
ہوئے۔‘‘
{وَ اَطِیْعُوا اللّٰه
وَ رَسُوْلَه وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهبَ رِیْحُكمْ وَ اصْبِرُوْا}
(الانفال: ۴۶)
’’اللہ اور اس کے
رسول کی اطاعت کرو‘ آپس میں اختلاف نہ کرو‘ ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ
جائے گی اور صبر کرو۔‘‘
{وَ یُقِیْمُوْنَ
الصَّلٰوة وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوة وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰه وَ رَسُوْلَه۱ اُولٰٓیِك
سَیَرْحَمُهمُ اللّٰه}
’’مومن مرد اور مومن
عورتیں سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ بھلائی کا
کام کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ
اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل
ہو کر رہے گی۔‘‘ (التوبہ: ۷۱)
{اِنَّمَا كانَ قَوْلَ
الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰه وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكمَ بَیْنَهمْ اَنْ
یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا} (النور: ۵۱)
’’ایمان والوں کا
قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لیے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ان میں فیصلہ
کر دیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔‘‘
{وَ مَنْ یُّطِعِ
اللّٰه وَ رَسُوْلَه وَ یَخْشَ اللّٰه وَ یَتَّقْه فَاُولٰٓیِك همُ الْفَآیِزُوْنَ}
(النور: ۵۲)
’’جو اللہ اور اس
کے رسول کی فرمانبرداری کرے‘ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اس کی نافرمانی سے بچے‘ وہی لوگ
کامیاب ہیں۔‘‘
{قُلْ اَطِیْعُوا
اللّٰه وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ۱ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْه مَا حُمِّلَ
وَ عَلَیْكمْ مَّا حُمِّلْتُمْ}
’’اے نبی! آپ کہہ
دیجیے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو‘ اگر تم نے رو گردانی کی تو رسول کے ذمہ تو صرف
وہی ہے جو اس پر لازم کیا گیا ہے اور تم پر اس کی جواب دہی ہے جو تم پر لازم کیا گیا
ہے۔‘‘ (النور: ۵۴)
{وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوة
وَ اٰتُوا الزَّكٰوة وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكمْ تُرْحَمُوْنَ} (النور:
۵۶)
’’نماز کی پابندی
کرو‘ زکوٰۃ کی ادائیگی کرو اور رسول کی اطاعت کرتے رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
{یٰٓاَیُّها الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰه وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ لَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكمْ}(محمد:
۳۳)
’’اے ایمان والو!
اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔‘‘
{فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوة
وَ اٰتُوا الزَّكٰوة وَ اَطِیْعُوا اللّٰه وَ رَسُوْلَه} (المجادله: ۱۳)
’’تو اب نمازوں کو
قائم رکھو‘ زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو۔‘‘
{وَ اَطِیْعُوا اللّٰه
وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ۱ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ
الْمُبِیْنُ}(التغابن: ۱۲)
’’اللہ اور رسول
کی اطاعت کرو‘ پس اگر تم اعراض کرو تو ہمارے رسول کے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے۔‘‘
ان تمام آیات میں اتباع رسول کا حکم دیا گیا ہے۔ کہیں فرمایا:
{اَطِیْعُوا اللّٰه
وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ}
کہیں فرمایا:
{اَطِیْعُوا اللّٰه
وَ الرَّسُوْلَ}
اور کسی آیت میں ارشاد ہے:
{اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ}
ان سب جگہوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں سے ایک ہی مطالبہ
ہے کہ فرمان الٰہی کی تعمیل کرو اور ارشاد نبوی e پر عمل کرو۔
{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ
فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰه۱ وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰك عَلَیْهمْ حَفِیْظًا}
(النساء: ۸۰)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہe کی اطاعت کو اطاعت الٰہی قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’جس شخص نے رسول
اللہe کی
اطاعت کی اس نے دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔‘‘
{قُلْ اِنْ كنْتُمْ
تُحِبُّوْنَ اللّٰه فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكمُ اللّٰه وَ یَغْفِرْ لَكمْ ذُنُوْبَكمْ}
(آل عمران: ۳۱)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اطاعت رسول کو حب الٰہی کا معیار
قرار دیا‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے محبت‘ رسول اکرمe کی اطاعت میں ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اے نبی! لوگوں سے کہہ دیں کہ اگر تم حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو
تو میری پیروی اختیار کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے
گا۔‘‘
{وَ مَنْ یُّطِعِ
اللّٰه وَ رَسُوْلَه یُدْخِلْه جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِها الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ
فِیْها۱ وَ ذٰلِك الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ٭ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰه وَ رَسُوْلَـــه وَ
یَتَعَدَّ حُدُوْدَه یُدْخِلْه نَارًا خَالِدًا فِیْها۱ وَ لَــــه عَذَابٌ مُّهیْنٌ}
(النساء: ۱۳-۱۴)
’’جو اللہ تعالیٰ
اور اس کے رسولe کی
اطاعت کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی
ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ
اور اس کے رسولe کی
نافرمانی کرے گا اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے گا‘ اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس
میں وہ ہمیشہ رہے گا‘ ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘
غرضیکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کا ٹھکانا
جہنم ہے۔
{وَ مَنْ یُّطِعِ
اللّٰه وَ رَسُوْلَه یُدْخِلْه جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِها الْاَنْهٰرُ۱ وَ مَنْ
یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْه عَذَابًا اَلِیْمًا} (الفتح: ۷۱)
’’جو اللہ تعالیٰ
اور اس کے رسولe کی
اطاعت کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی
ہوں گی اور جو منہ پھیرے گا اسے وہ دردناک عذاب دے گا۔‘‘
ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے اللہ اور اس کے رسول e کی
اطاعت پر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت اور اللہ اور اس کے رسول e کی
نافرمانی پر ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب کا فیصلہ فرمایا۔
{وَ مَنْ یُّطِعِ
اللّٰه وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓیِك مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰه عَلَیْهمْ مِّنَ
النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ۱ وَ حَسُنَ اُولٰٓیِك
رَفِیْقًا}
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ
اور اس کے رسول e کی
اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام نازل فرمایا
ہے‘ یعنی انبیاء‘ صدیقین‘ شہداء اور صالحین کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔‘‘
(النساء: ۶۹)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے
رسول eکی اطاعت کرنے والوں کا حشر انبیاء‘ صدیقین‘ شہداء اور نیک لوگوں
کے ساتھ ہو گا۔
{وَ مَا كانَ لِمُؤْمِنٍ
وَّ لَا مُؤْمِنَة اِذَا قَضَی اللّٰه وَ رَسُوْلُهٓ اَمْرًا اَنْ یَّكوْنَ لَهمُ الْخِیَرَة
مِنْ اَمْرِهمْ۱ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰه وَ
رَسُوْلَه فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا}
’’کسی مومن مرد وعورت
کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول e کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر اسے اس معاملہ میں
خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول e کی
نافرمانی کرے‘ وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔‘‘ (الاحزاب: ۳۶)
{یٰٓاَیُّها الَّذِیْنَ
اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰه وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكمْ لِمَا یُحْیِیْكمْ}
(الانفال: ۲۴)
’’اے ایمان والو!
اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو‘ جب کہ رسول e تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی
ہے۔‘‘
{لَقَدْ كانَ لَكمْ
فِیْ رَسُوْلِ اللّٰه اُسْوَة حَسَنَة لِّمَنْ كانَ یَرْجُوا اللّٰه وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ
وَ ذَكرَ اللّٰه كثِیْرًا} (الاحزاب: ۲۱)
’’یقینا تمہارے لیے
رسول اللہe میں
عمدہ نمونہ موجود ہے‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع
رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔‘‘
یعنی نبی کریمe کی
زندگی جو احادیث کے ذخیرہ کی شکل میں ہمارے پاس محفوظ ہے کل قیامت تک آنے والے تمام
انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے کہ ہم اپنی زندگیاں اسی نمونہ کے مطابق گذاریں۔
{وَ مَنْ یُّشَاقِقِ
الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَه الْهدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ
نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِهٖ جَهنَّمَ۱ وَ سَآئَتْ مَصِیْرًا} (النساء:
۱۱۵)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ حکم رسولe اور سنت نبویe کی مخالفت کرنے والوں کو جہنم کی سزا سناتے ہوئے فرماتے
ہیں:
’’جو شخص رسول اللہe کے
خلاف کرے اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور کے راستے پر چلے جب کہ ہدایت اس پر واضح
ہو چکی ہے تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں
گے‘ جو بدترین ٹھکانا ہے۔‘‘
غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں متعدد جگہوں پر یہ بات
واضح طور پر بیان کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہe کی
اطات بھی ضروری ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت رسول اکرمe کی
اطاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول کی اطاعت کا حکم دیا اور رسول
کی اطاعت جن واسطوں سے ہم تک پہنچی ہے یعنی احادیث کا ذخیرہ‘ ان پر اگر ہم شک وشبہ
کرنے لگیں تو گویا یا تو ہم قرآن کریم کی ان مذکورہ تمام آیات کے منکر ہیں یا زبان
حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی چیز کا حکم دیا ہے یعنی اطاعت رسول جو
ہمارے اختیار میں نہیں۔
حجیت حدیث فرامین
نبویہ کی روشنی میں:
بہ مصطفی برساں خویش را کہ ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است
انبیاء کے سردار وآخری نبی کریمe نے بھی قرآن کریم کے ساتھ سنت رسولe کی
اتباع کو ضروری قرار دیا ہے۔ حدیث کی تقریبا ہر کتاب میں نبی کریمe کے
ارشادات تواتر کے ساتھ موجود ہیں‘ ان میں سے صرف تین احادیث پیش خدمت ہیں:
\ رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا: ’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی
کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔‘‘ (بخاری ومسلم)
\ رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا: ’’جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو اس سے باز آجاؤ اور جب میں تمہیں
کسی کام کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس کی تعمیل کرو۔‘‘ (بخاری ومسلم)
\ رسول اللہe نے
ارشاد فرمایا: ’’میری امت کے تمام افراد جنت میں جائیں گے‘ سوائے ان کے جنہوں نے انکار
کیا۔‘‘ آپe سے
کہا گیا کہ اللہ کے رسول! دخولِ جنت سے کون انکار کر سکتا ہے؟ تو آپe نے
فرمایا: ’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گیا اور جس نے میری نافرمانی کی
اس نے (دخول جنت سے) انکار کیا۔‘‘ (بخاری ومسلم)
قرآن کریم میں عموما احکام کی تفصیل مذکور نہیں‘ نبی اکرمe نے
اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے اقوال واعمال سے ان مجمل احکام کی تفصیل بیان کی
ہے۔ اس لیے تو اللہ تعالیٰ نبی ورسل کو بھیجتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اپنے
اقوال واعمال سے امتیوں کے لیے بیان کریں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار
مقامات پر نماز پڑھنے‘ رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے لیکن نماز کی تفصیل قرآن
کریم میں مذکور نہیں کہ ایک دن میں کتنی نمازیں ادا کرنی ہیں؟ قیام یا رکوع یا سجدہ
کیسے کیا جائے گا اور کب کیا جائے گا؟ اور اس میں کیا پڑھا جائے گا؟ ایک وقت میں کتنی
رکعت ادا کرنی ہیں؟
اسی طرح قرآن کریم میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم تو ہے لیکن تفصیلات
مذکور نہیں کہ زکوٰۃ کی ادائیگی روزانہ کرنی ہے یا سال بھر میں یا پانچ سال میں یا
زندگی میں ایک مرتبہ؟ پھر یہ زکوٰۃ کس حساب سے دی جائے گی؟ کس مال پر زکوٰۃ واجب ہے
اور اس کے لیے کیا کیا شرائط ہیں؟
غرضیکہ اگر حدیث کی حجیت پر شک کریں تو قرآن کریم کی وہ سینکڑوں
آیات جن میں نماز پڑھنے‘ رکوع کرنے یا سجدہ کرنے کا حکم ہے یا زکوٰۃ کی ادائیگی کا
حکم ہے وہ سب نعوذ باللہ بے معنی ہو جائیں گی۔
اسی طرح قرآن کریم (سورۂ المائدہ: ۳۸) میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد وعورت کے ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے۔ اب سوال پیدا
ہوتا ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ اگر ایک ہاتھ کاٹیں تو داہنا کاٹیں یا بایاں؟
پھر اسے کاٹیں تو کہاں سے؟ بغل سے؟ یا کہنی سے؟ یا کلائی سے؟ یا ان کے بیچ میں کسی
جگہ سے؟ پھر کتنے مال کی قیمت کی چوری پر ہاتھ کاٹیں؟ اس مسئلہ کی مکمل وضاحت حدیث
میں ہی ملتی ہے‘ معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو حدیث کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔
اس طرح قرآن کریم (سورۂ الجمعہ) میں یہ ارشاد ہے کہ جب جمعہ
کی نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ
دو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کا دن کونسا ہے؟ یہ اذان کب دی جائے؟ اس کے الفاظ کیا ہوں؟
جمعہ کی نماز کب ادا کی جائے؟ اس کو کیسے پڑھیں؟ خرید وفروخت کی کیا کیا شرائط ہیں؟
اس مسئلہ کی مکمل وضاحت احادیث میں ہی مذکور ہے۔
بعض حضرات سند حدیث کی بنیاد پر ہوئی احادیث کی اقسام یا راویوں
کو ثقہ قرار دینے میں محدثین وفقہاء کے اختلاف کی وجہ سے حدیث رسول e کو
ہی شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ
نے قرآن کریم قیامت تک آنے والے تمام عرب وعجم کی رہنمائی کے لیے نبی اکرمe پر
نازل فرمایا ہے اور قیامت تک اس کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔ اسی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ
نے متعدد جگہوں (مثلاً سورۂ النحل: ۴۴‘ ۶۴) میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اے نبی! یہ کتاب ہم نے آپ پر نازل فرمائی ہے تا کہ آپe اس
کلام کو کھول کھول کر لوگوں کے لیے بیان کر دیں۔‘‘
تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے الفاظ کی حفاظت کی ہے‘
اس کے معانی ومفاہیم جو نبی اکرمe نے
بیان فرمائے ہیں وہ بھی کل قیامت تک محفوظ رہیں گے۔ ان شاء اللہ!
قرآن کریم کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے معنی ومفہوم کی حفاظت
بھی مطلوب ہے‘ ورنہ نزول قرآن کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ احادیث کے ذخیرہ میں بعض باتیں غلط طریقہ
سے نبی اکرمe کی
طرف منسوب کر دی گئی ہیں لیکن محدثین وعلماء کی بے لوث قربانیوں سے تقریبا تمام ایسے
غلط اقوال کی تحدید ہو گئی ہے جو حدیث کے کامل ذخیرہ کا ادنی سا حصہ ہے۔ جہاں تک راویوں
کے سلسلہ میں محدثین وعلماء کے اختلاف کا تعلق ہے تو اس اختلاف کی بنیاد پر حدیث کی
حجیت پر شک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اختلاف کا اصل مقصد خلوص کے ساتھ احادیث کے ذخیرہ
میں موضوعات کو الگ کرنا اور احکام شرعیہ میں ان ہی احادیث کو قابل عمل بنانا ہے جس
پر کسی طرح کا کوئی شک وشبہ نہ رہے۔
حفاظت حدیث کے لیے محدثین کے ہاں رائج فنی باریکیاں‘ کڑی تنقید
اور احتیاطی تدابیر ہر دور کے اندر علمی دنیا میں قابل ستائش رہی ہیں۔ حفاظت حدیث کے
لیے اسی مبارک جماعت سے وابستہ لوگوں نے ہر نازک اور کڑے وقت میں اپنے آپ کو پیش کیا‘
رسول اللہe کی
احادیث مبارکہ کی مدافعت کی‘ شہر بشہر‘ قریہ بقریہ گھوم پھر کر بڑی عرق ریزی کے ساتھ
احادیث کو جمع کیا اور ان کی روایات کرنے والوں کے حالات کو محفوظ کیا۔
قیامت تک آنے والی نسلوں کو یہ مبارک ذخیرہ بحفاظت پہنچانے کے
لیے اسانید کو رواج دیا‘ راویان حدیث کی عدالت وضبط کو پرکھنے کے لیے زبردست اصول اختیار
کیے‘ جس کی بدولت احادیث کا قیمتی ذخیرہ منافقین اور ملحدین کی شاطرانہ چالوں‘ روافض
اور اہل بدعت کی خطرناک دسیسہ کاریوں سے محفوظ رہا۔ وضع حدیث (یعنی اپنی طرف سے کوئی
بات گھڑ کر رسول اللہe کی
طرف منسوب کرنا) اسلام دشمن فرقوں کی وہ خطرناک چال تھی جو اگر چل جاتی تو یہ دین اسلام
کی مستحکم عمارت کو وہ نقصان پہنچاتی جو اسلام کا بڑے سے بڑا طاقتور دشمن بھی نہ پہنچا
سکتا‘ پھر اسلام کی وہ صاف ستھری صورت باقی نہ رہتی جس پر اللہ تعالیٰ نے اس دین کو
پسند کیا تھا۔ بلکہ اس کا حلیہ بدل جاتا اور یہ پچھلی قوموں کی طرح ایک ناقابل عمل
داستان وچیستان بن جاتا‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کو فریب کاروں اور دجالوں کی
حرکات کا خوب پتہ تھا اس لیے قدرت کی طرف سے اس پسندیدہ دین کی حفاظت کے لیے ان برگزیدہ
ہستیوں کا انتخاب کیا گیا جنہیں دنیا ’’محدثین‘‘ کے عالی شان لقب سے یاد کرتی ہے۔
قرآن مجید کو جمع وحفاظت کے ساتھ پیغام مصطفیe یعنی
احادیث نبویہe کے
جمع وتدوین اور حفاظت پر ارشادات مصطفیe نے صحابہ کرام] اور تابعین عظام رحمہم اللہ تعالیٰ کو
تحریک دی‘ ان میں آپe کی
ان بشارتوں کا بڑا عمل دخل ہے جن کی وجہ سے علمائے حدیث اور محدثین کرام کے لیے احادیث
کے سنگ پاروں اور بحر آثار کے قطروں کو محفوظ کرنا ایک نہایت ہی اہم علمی مشن‘ حرز
جاں وظیفہ حیات بن گیا۔ مثلاً
[نضر الله امرا سمع
منا حدیثا فحفظه حتی یبلغه] (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجه)
’’اللہ تعالیٰ اس
شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے ہماری حدیث سنی‘ اسے یاد کیا اور اسے آگے پہنچایا۔‘‘
[نضر الله امرا سمع
منا حدیثا فبلغه فرب مبلغ احفظ من سامع] (ابن ماجه: ۱/۸۵)
’’اللہ تعالیٰ اس
کے چہرے کو پر رونق اور شاداب کرے جو ہماری حدیث کو سن کر اسے آگے پہنچاتا ہے‘ بعض
اوقات کسی سے سننے والا سنانے والے سے زیادہ یاد رکھنے والا ہوتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن وسنت کے مطابق زندگی گذارنے والا
بنائے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment