انتظامیہ کی
نا اہلی
امن وامان کا قیام‘ ضروریات زندگی کی مناسب نرخوں پر فراہمی‘ عوام کے جان ومال
اور عزت وآبرو کا تحفظ‘ عوام کے لیے ترقی وخوشحالی فلاح وبہبود اور تعلیم کے مواقع
مہیا کرنا حکومت کا بنیادی فرض ہوتا ہے۔ ستم کی بات یہ ہے کہ یہاں چوری‘ ڈکیتی‘ قتل
اور شراب نوشی وغیرہ کی وارداتیں عام ہوتی جا رہی ہیں۔ سندھ پولیس نے یہ افسوسناک انکشاف
کیا ہے کہ گذشتہ اڑھائی سال کے دوران ۲۷۹ افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔ دوسرے
صوبوں کے اعداد وشمار ان سے مختلف نہیں ہوں گے۔ اس سے معاشرے کی اخلاقی پستی کا اندازہ
کیا جا سکتا ہے۔ پھر ضروریات زندگی کی مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ نیز
اداروں میں لڑائی جھگڑے کے واقعات نہایت افسوسناک ہیں جس سے معاشرہ بری طرح متاثر ہوتا
ہے۔
ابھی پچھلے دنوں ملک کے دو اہم شعبوں‘ ایک شعبہ طب سے متعلق ڈاکٹر حضرات سے تعلق
رکھتا ہے اور دوسرا انصاف کے حصول کے لیے عوام کی خدمت کے لیے وکلاء بھی اہمیت رکھتے
ہیں۔ معتبر ذرائع کے مطابق تقریبا تین ہفتے قبل وکالت کا ایک طالب علم اپنی والدہ کو
علاج کے لیے ہسپتال لایا۔ عملے کے فوری توجہ نہ ملنے سے وارڈ بوائے سے الجھ پڑا اور
اس کو ایک تھپڑ مار دیا۔ اس پر سٹاف نے احتجاج کیا اور ان کے درمیان تکرار ہوئی۔ ایک
معمولی سی بات پر وکالت کے طالب علم نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا‘ اپنے وکیل دوستوں
کو بلوا لیا اور ہسپتال کے عملے سے مارکٹائی شروع کر دی۔ چنانچہ وکلاء اور ہسپتال انتظامیہ
میں لڑائی ہوئی۔ وکلاء نے ڈاکٹروں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی۔ دو ہفتے وکلاء اور
ڈاکٹروں کے درمیان شدید کشیدگی رہنے کے بعد دونوں کے درمیان صلح ہو گئی۔ اگر کوشش کی
جاتی تو یہ صلح مستقل ہو سکتی تھی۔ مگر ہوا یوں کہ ایک ڈاکٹر کی وکلاء کے خلاف ایک
ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ وائرل ہوئی جس سے یہ مسئلہ پیدا ہوا اور وکلاء اپنی بے عزتی
کا بدلہ لینے نکل پڑے۔ غور کا مقام ہے کہ وکلاء ایوان عدل سے پی آئی سی کا چھ کلومیٹر
کا فاصلہ طے کر کے یہاں پہنچے مگر پنجاب کی انتظامیہ تین گھنٹے تک خاموش تماشائی بنی
رہی۔ جب کارروائی شروع کی تو آدھ گھنٹے میں حالات پر قابو پا لیا۔ پھر ۲۱ دسمبر کو پی آئی سی ہسپتال پر دو تین سو سے زائد وکلاء نے دھاوا بول دیا اور وہاں
توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ سرکاری اور نجی املاک کو بڑا نقصان پہنچایا جبکہ ہنگامہ آرائی
اور مارکٹائی کے دوران جانوں کا ضیاع‘ آتشزدگی اور فوری کنٹرول نہ کرنا انتظامیہ کی
نا اہلی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسویسی ایشن کے صدر نے کہا کہ پنجاب حکومت ہمیں تحفظ دینے
میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس لیے پنجاب کے وزیر اعلیٰ‘ وزیر صحت اور وزیر قانون کو مستعفی
ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ہسپتال میں دہشت گردی کرنے
والے تمام وکلاء کے لائسنس منسوخ کیے جائیں۔
پی آئی سی کے واقعہ کا جو بھی پس منظر ہے ان واقعات کی تحقیقات ہونی چاہیے‘ واقعہ
کے ذمہ داران کو بے نقاب کرنا چاہیے اور قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطاء بندیالوی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران اس واقعہ پر
افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ پر پوری کمیونٹی کو ضرب لگی ہے۔ پی آئی سی
پر یلغار کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا مگر جوشیلے وکلاء ہڑتال کی کال دے رہے ہیں۔ ہم
یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ایسے پر تشدد واقعات کی روک تھام کے لیے انتظام نہ کیا
گیا تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہو سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ امیر محترم پروفیسر ساجد میرd نے اپنے بیان میں پی آئی سی پر حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی آئی سی
پر وکلاء کے حملے سے وکلاء برادری اور پیشۂ وکالت کا تقدس بری طرح مجروح ہوا ہے جس
کا ازالہ اب قانون وانصاف کی عملداری سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ
اس افسوسناک واقعہ کے حوالہ سے جو بھی توجیہات پیش کی جائیں اس سے ہسپتال پر حملے کا
جواز نہیں نکل سکتا۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ وکلاء تنظیموں اور وکلاء رہنما
تک نے ہسپتال پر حملے کی مذمت کی بجائے اس حملے کے دفاع میں مختلف تاویلیں پیش کرنا
اور جواز نکالنا شروع کر دیئے اور پھر گرفتار وکلاء کی رہائی کے لیے ملک بھر میں ہڑتالوں‘
عدالتی بائیکاٹ اور جلوس نکالنے کا سلسلہ شروع کر دیا جس سے ماحول میں پیدا ہونے والی
تلخی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھنے کا اندیشہ لاحق ہے۔
No comments:
Post a Comment