احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
غیبت کی جائز اور ناجائز صورتیں
O ہمارے
معاشرہ میں غیبت کرنے کا عام رواج ہے‘ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ غیبت
کیا ہوتی ہے اور اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ آیا غیبت کی کوئی جائز
صورتیں بھی ہیں؟!
P غیبت کی تعریف یہ ہے کہ کسی کی عدم موجودگی میں ایسی
بات کرنا جو اس میں پائی جاتی ہو۔ اگر اس کے سامنے وہ بات کی جائے تو اسے ناگوار گذرے‘
اگر اس میں وہ بات نہ پائی جاتی ہو تو اسے بہتان کہا جاتا ہے جو غیبت سے بڑھ کر جرم
ہے۔ اگر بطور فساد کسی کا کلام یا فعل بیان کیا جائے تو اسے نمیمہ کہا جاتا ہے۔ غیبت
کی یہ تعریف حدیث میں آئی ہے۔ (مسلم‘ البر والصلہ: ۶۵۸۳)
قرآن مجید میں غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے
مترادف قرار دیا ہے۔ (الحجرات: ۱۲)
غیبت خواہ زندہ انسان کی ہو یا فوت شدہ کی‘ جرم کی نوعیت کے
اعتبار سے اس میں کوئی فرق نہیں۔ ہمارے معاشرہ میں قائم شدہ مجالس اس بے لذت گناہ سے
آباد رہتی ہیں۔ اسے حلال اور جائز سمجھ کر کرنا کفر‘ نام لیے بغیر کسی کی غیبت کرنا
نفاق جبکہ دوسرے کے ہاں وہ شخص معلوم ہو اور نام لے کر کسی کی غیبت کرنا ایک سنگین
جرم اور کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہe نے
اس کی سنگینی کو بایں الفاظ بیان کیا ہے۔ آپe نے فرمایا: ’’جب مجھے معراج کے وقت سیر کرائی گئی تو
میرا گذر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور اپنے چہروں اور سینوں کو
ان ناخنوں سے چھیل رہے تھے۔ میں نے پوچھا‘ جبریل! یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ
یہ وہ ہیں جو غیبت کر کے دوسروں کا گوشت کھاتے اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے۔‘‘ (ابوداؤد‘
الادب: ۴۸۷۸)
ایک دوسری حدیث میں قبر کے اندر عذاب سے دو چار ہونے کی وجہ
یہ بیان کی گئی ہے کہ انسان دنیا میں دوسروں کی غیبت کرتا تھا۔ (بخاری‘ الادب: ۶۰۵۵)
قرآن کریم میں اسے مردہ خوری سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ غیبت
کرنے والا دوسرے کی غیرت پر حملہ کرتا ہے گویا اسے کاٹ کاٹ کر کھا رہا ہے۔ مردہ بھائی
اس لیے فرمایا کہ جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ پاس موجود نہیں ہوتا۔ رسول اللہe نے
ایسے شخص کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ (بخاری‘ الادب:
۶۰۵۶)
بعض اوقات کسی عظیم مقصد کے پیش نظر غیبت کرنا جائز ہے جیسا
کہ امام بخاریa نے
ایک عنوان بایں الفاظ تجویز کیا ہے: ’’فسادی اور اہل شک کی غیبت کرنا جائز ہے۔‘‘ (بخاری‘
الادب: باب نمبر ۴۸)
محدثین وفقہاء نے جواز کی درج ذیل صورتیں بیان کی ہیں:
\ مظلوم آدمی: … حاکم کے سامنے ظالم کی غیبت کر کے اپنے ظلم کی فریاد کر سکتا ہے۔ کیونکہ اس
کے بغیر نہ تو عدالتی نظام چل سکتا ہے اور نہ ہی مظلوم کی داد رسی ہو سکتی ہے۔
\ فتویٰ لینے کے لیے: … مظلوم‘ مفتی کے سامنے اپنے ظلم کی داستان بیان کر سکتا ہے
تا کہ اسے کتاب وسنت کے مطابق فتویٰ مل سکتے‘ اس میں کوئی حرج نہیں۔
\ کسی کے شر سے بچنے کے لیے: … اپنے مومن بھائی کو دوسرے کے عیب سے مطلع کیا جا سکتا ہے
مثلاً اگر کوئی شخص دوسرے سے رشتہ کرنا چاہتا ہو تو اس کے عیوب سے باخبر کیا جا سکتا
ہے۔
\ محدثین کا قانونِ جرح وتعدیل: … جس پر ذخیرہ احادیث کی جانچ پڑتال کا انحصار ہے‘ اس صورت
میں راویوں کے عیب بیان کرنا ممنوعہ غیبت میں شمار نہیں ہو گا۔
\ ایسے لوگوں
کے خلاف علی الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں کو بیان کرنا جو فسق وفجور پھیلا
رہے ہوں یا وہ لوگوں میں بے حیائی اور بے غیرتی پھیلا رہے ہوں‘ ایسا کرنا غیبت نہیں۔
\ تعارف اور پہچان
کی غرض سے کسی کے عیب کو ذکر کرنا جیسا کہ اعمی اور اعرج وغیرہ ہیں۔ یہ اس صورت میں
جائز ہیں جب اس کے بغیر تعارف ناممکن یا مشکل ہو۔
مذکورہ بالا صورتوں میں غیبت کرنا جائز ہے بلکہ بعض اوقات واجب
ہے۔ امام بخاریa نے
یہ بھی بیان کیا ہے کہ کسی شخص یا قوم کی خصلت بیان کرنا اور انہیں دوسرے اشخاص یا
دوسری اقوام پر فضیلت دینا غیبت میں داخل نہیں‘ اگرچہ دوسروں کو یہ ناگوار ہی کیوں
نہ ہو۔ اس کی تفصیل ہماری تالیف ’’ہدایۃ القاری شرح بخاری‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
( ج ۹ ص ۹۸)
والد کو تکلیف دینا اور اس کے ترکہ پر قابض ہو جانا
O میرے
والد گرامی جب فوت ہوئے تو بڑے دونوں بھائیوں نے اس کی تمام جائیداد پر قبضہ کر لیا
جبکہ وہ زندگی میں والد محترم کو اذیت دیتے رہے۔ اس طرز عمل کے متعلق شریعت کیا رہنمائی
کرتی ہے؟!
P مرحوم کے بڑے بیٹوں نے دو قسم کے جرائم کیے ہیں۔ ایک
تو زندگی میں اپنے والد کو اذیت پہنچائی جو نا قابل تلافی جرم ہے۔ دوسرا یہ کہ انہوں
نے دوسرے ورثاء کا حق غصب کرتے ہوئے مرحوم باپ کی تمام جائیداد پر قبضہ کر لیا ہے۔
جہاں تک والد کو اذیت دینے کا معاملہ ہے اس کے متعلق قرآن وحدیث میں بہت وعید آئی ہے۔
انسان کو اگرچہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے لیکن اس کی پیدائش کا ذریعہ اس کے والدین
کو ٹھہرایا ہے۔ اس لیے اللہ کے حق کے بعد سب سے بڑا حق اس کے والدین کا ہے کہ ان کے
ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور یہ حق ایمان وعقیدہ کے اختلاف کے باوجود بھی باقی رہتا
ہے۔ حسن سلوک میں دو چیزیں آتی ہیں‘ ایک یہ ہے کہ ان کے ساتھ سختی کی بجائے نرمی کی
جائے۔ دوسری یہ ہے کہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کی
جائے۔ چنانچہ سیدنا عیسیٰu کے
متعلق قرآن کریم نے شہادت دی ہے کہ ’’وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والے
تھے۔ ان پر دباؤ ڈالنے والے اور ان کے نافرمان نہیں تھے۔‘‘ (مریم: ۱۴)
ان کی ضروریات کو پورا کرنا بھی ان سے حسن سلوک کی ہی ایک صورت
ہے۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ نقد رقم دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے ان کی ضروریات کو پورا
کر دیا ہے یہ درست نہیں۔ اگر کوئی بیٹا ان سے دور رہتا ہے تو فون پر ان سے رابطہ رکھنا‘
ان کی خیریت دریافت کرتے رہنا‘ ان کی ملاقات کے لیے وقت نکالنا‘ ان کے ساتھ کچھ وقت
گذارنا‘ اپنے معاملات میں ان سے مشورہ لینا اور انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرنا۔ یہ سب
والدین کی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات ہیں جن کا پورا کرنا جسمانی ضروریات سے زیادہ
اہم ہے۔ رسول اللہe نے
والد کے متعلق فرمایا کہ وہ جنت کا درمیانی دروازہ ہے‘ چاہے اس دروازہ کو ضائع کر لو‘
چاہے اسے محفوظ رکھ لو۔ (ترمذی‘ البر والصلہ: ۱۹۰۰)
صورت مسئولہ میں والد کی وفات کے بعد انہیں اذیت دینے کی تلافی
یوں ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کوتاہی کی صدق دل سے معافی مانگی جائے۔ والد کے
لیے مغفرت کی بکثرت دعا کی جائے‘ ان کی طرف سے صدقہ وخیرات کیا جائے اور ان کے رشتہ
داروں اور دوستوں سے حسن سلوک کیا جائے۔ ایسا کرنے سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں
معاف کر دے گا۔
جو دونوں بیٹوں نے والد کی جمع پونجی پر قبضہ کر لیا ہے یہ بھی
کبیرہ گناہ اور بہت بڑی خطا ہے۔ دوسرے ورثاء کا حق کھانا اور اس پر غاصبانہ قبضہ کر
لینا اتنا بڑا جرم ہے کہ قیامت کے دن اپنی نیکیاں دے کر اور محروم ورثاء کے گناہ ان
کے کھاتے میں ڈال کر اس کی تلافی کی جائے گی۔ شریعت کے قانون وراثت کو ہاتھ میں لے
کر دیگر ورثاء کو ان کے حق سے محروم کرنا خود کو اللہ کی جنت سے محروم کرنے کا باعث
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قانون کو اپنی حدود قرار دیا ہے اور جو ان حدود کو پامال کرے
گا اللہ تعالیٰ اس سے خود نمٹ لے گا۔ اس کا حل یہ ہے کہ بیٹے‘ اپنے دیگر بہن بھائیوں
کا حصہ اسلامی انہیں دیں۔ دوسروں کا نا حق مال کھانے والے نہ بنیں‘ بہرحال شریعت کے
قانون وراثت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے وہ غاصب اور ظالم ہیں‘ اللہ تعالیٰ انہیں دونوں
قسم کے جرائم سے توبہ کرنے کی توفیق دے تا کہ ان کی دنیا وآخرت محفوظ فرمائے۔ آمین!
گدھی کا دودھ بطور دوا استعمال کرنا
O گدھی
کا دودھ حکماء اور اطباء مختلف ادویات میں استعمال کرتے ہیں‘ خاص طور پر ذہنی امراض
کے لیے بہت مفید ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا گدھی کے دودھ کو بطور علاج استعمال کیا جا
سکتا ہے؟!
P شریعت نے کچھ چیزوں کی حلت وحرمت کو وضاحت سے بیان کر
دیا ہے اور کچھ چیزوں کی حلت وحرمت واضح نہیں بلکہ اس کے متعلق سکوت فرمایا ہے جس کے
متعلق شارع نے سکوت اختیار کیا ہو وہ قابل معافی ہے۔ چنانچہ امام زہریa سے
جب گدھی کے دودھ کے متعلق سوال ہوا تو آپa نے اسی قاعدہ کا سہارا لیتے ہوئے اس کے استعمال کو جائز
قرار دیا۔ آپ فرماتے ہیں: ’’گدھی کے دودھ کے متعلق ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہe نے
گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے البتہ اس کے دودھ کے متعلق ہمیں رسول اللہe کا
کوئی حکم یا ممانعت معلوم نہیں۔‘‘ (بخاری‘ الطب: ۵۷۸۱)
البتہ جمہور کے نزدیک گدھی کا دودھ حرام ہے کیونکہ دودھ گوشت
سے نکلتا ہے چونکہ گوشت حرام ہے لہٰذا یہ بھی حرام ہے۔ لیکن گوشت پر قیاس کرتے ہوئے
گدھی کے دودھ کو حرام کہنا محل نظر ہے۔ کیونکہ یہ قیاس مع الفارق ہے جیسا کہ آدمی کا
گوشت حرام ہے لیکن عورت کا دودھ حلال ہے۔ بہرحال امام بخاریa نے امام زہریa کا موقف بیان کیا ہے کہ اس کا دودھ استعمال کیا جا سکتا
ہے۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment