رجوع الی اللہ میں سنجیدگی
امام الحرم النبوی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل الغزاویd
ترجمہ: جناب عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ کے بندو! میں خود کو اور آپ سب کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت
کرتا ہوں۔ پرہیزگاری ہی ہدایت اور کامرانی کا راستہ ہے۔ قیامت کے لیے بہترین زاد راہ
اور سامان ہے۔
{وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ
خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوَی}
’’زاد راہ لے لو،
یاد رکھو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔‘‘ (البقرۃ: ۱۹۷)
اے مسلمانو! بندہ مؤمن اللہ کی طرف سفر میں بڑا سنجیدہ ہوتا
ہے۔ اپنے ہدف کو پانے کے لیے وہ مستقل مزاجی سے کام کرتا ہے۔ کوئی چیز اسے اپنے ہدف
سے پھیر نہیں سکتی۔ کوئی رکاوٹ اسے اپنے مقصد سے پھیر نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کی ذمہ
داریاں انتہائی عظیم اور اس کے مقاصد اتنے بلند ہوتے ہیں کہ وہ بے قیمت چیزوں میں لگ
کر انہیں ضائع نہیں کر سکتا۔ اسی لیے غیر متعلقہ چیزوں کی طرف بھی توجہ نہیں کرتا۔
وہ سنجیدگی سے چلنے کا عزم وارادہ کر چکا ہوتا ہے، وہ محنت کے لیے مکمل طور پر تیار
ہو چکا ہوتا ہے۔
اللہ کے بندو! آئیے ہم نبی اکرمe کے طریقے کو نظر میں رکھتے ہوئے اس حقیقت پر بات کر
لیتے ہیں، تاکہ یہ حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آ جائے اور ہم بھی اس پر عمل کرنے لگیں۔
امام حاکم نے مستدرک میں سیدنا جابرt سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہe چلتے
تو ادھر ادھر نگاہ نہ پھیرتے‘ معنی یہ ہے کہ جب وہ چلتے تو اپنے مقصد سے کبھی نہ ہٹتے
اور خواہ مخواہ نہ رکتے۔ اللہ میری اور آپ کی رہنمائی فرمائے! ادھر ادھر دیکھنے کی
عادت سے انسان کو جان چھڑا لینی چاہیے۔ کیونکہ راستے میں ادھر ادھر دیکھنے سے رفتار
بھی کم ہو جاتی ہے، اس کی وجہ سے مقصد سے نظر بھی ہٹ سکتی ہے، خواہ مخواہ رکنا بھی
پڑ سکتا ہے اور ٹھوکر بھی لگ سکتی ہے۔ اس سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ طریقہ آپe کی
سنت کے خلاف ہے۔ کیونکہ جب آپe کسی
کام کے لیے نکلتے تو پورے عزم کے ساتھ نکلتے اور توجہ اسی پر رکھتے۔ ضرورت سے زیادہ
آہستہ نہ چلتے۔ جب ادھر ادھر دیکھنے کی ضرورت نہ ہو تو یوں کرنا انتہائی برا ہے۔
اللہ کے بندو! عقلمند انسان ادھر ادھر تب ہی دیکھتا ہے جب اس
کے دیکھنے کا کوئی مقصد ہو۔ اس طرح اس کی نظر بھی ٹھیک جگہ پر پڑتی ہے اور بے مقصد
نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر کچھ چیزیں انسان کی توجہ کھینچ لیتی ہیں اور اس کی نظر پھیر
لیتی ہیں۔ رسول اللہe صرف
راستے میں ہی ادھر ادھر دیکھنے سے گریز نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ اس سے بڑھ کر بے مقصد
چیزوں کو بھی نظر انداز کر دیتے تھے۔ مثال کے طور پر دعوت کا راستہ روکنے والوں کی
کوئی پروا نہ کرتے تھے۔ آپe کے
مقدس مقصد کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کی بھی کوئی پروا نہ کرتے تھے۔ سیرت کے
کچھ ایسے عظیم واقعات ہیں جو بتاتے ہیں کہ آپe کتنے ثابت قدم اور مستقل مزاج تھے۔ آپe بے
وقوفوں کی گستاخیوں اور اذیتوں کو نظر انداز کر دیتے تھے، ان کے برے مقاصد اور بری
نیت کی کوئی فکر نہیں کرتے تھے۔ (بخاری ومسلم)
سیدہ عائشہr بیان
کرتی ہیں: یہودیوں کے ایک ٹولے نے رسول اللہe کے یہاں داخل ہونے کی اجازت مانگی اور یوں سلام کیا
کہ ’’السام علیک‘‘ یعنی تم پر موت ہو۔ میں نے کہا: بلکہ تم پر موت بھی ہو اور لعنت
بھی۔ آپe نے
فرمایا: ’’عائشہ! اللہ تعالیٰ بڑا نرم ہے اور ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔‘‘
میں نے کہا: کیا آپ نے ان کی بات سنی نہیں؟ آپe نے فرمایا: میں نے بھی تو کہہ دیا ہے کہ ’’وعلیکم‘‘
یعنی تم پر بھی۔ جب مشرکین قریش نے رسول اللہe کو گالیاں دیں اور ایک عورت نے رسول اللہe کا
نام بگاڑکر یہ کہا کہ ’’ہم نے مذمم، (یعنی قابل مذمت انسان) کی بات نہیں مانی اور اس
کے دین کو رد کر دیا ہے تو رسول اللہe نے فرمایا: کیا آپ کو اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ اللہ
تعالیٰ مجھے قریش کی گالیوں اور لعنتوں سے کس طرح بچا لیتا ہے؟ وہ گالیا دے رہے ہیں
اور لعنتیں بھیج رہے ہیں، مذمم کو، جبکہ میں تو محمد ہوں! (بخاری ومسلم)
آپe ان
کی گالیوں اور گستاخیوں کو نظر انداز کر دیتے۔ میرے ماں باپ آپe پر
قربان! آپe غیر
اہم، حقیر اور بے مقصد چیزوں کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے۔ ان کی وجہ سے اپنی دعوت کو
کبھی نہیں روکتے تھے اور ایسی وجوہات کی بنیاد پر کبھی نہیں رکتے تھے۔
تو آپ بھی اپنے راستے پر چلتے رہیے۔ کبھی نہ رکیے۔ منزل آپ کی
طرف خود نہیں آتی۔ دنیا کا یہی طریقہ ہے۔ یہ جہدِ مسلسل ہے۔ اگر اس میں پیچھے مڑ کر
دیکھو گے تو جو کچھ تمہارے پاس ہے، اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گے۔
جو اپنی سلامتی کا طالب ہے، اپنی عزت آبرو کی حفاظت چاہتا ہے،
اسے یہی زیب دیتا ہے کہ وہ جاہلوں کی گستاخیوں کو نظرانداز کر دے۔ ان کی جہالت کا مقابلہ
ویسی ہی جہالت سے نہ کرے۔ بلکہ ایسا رویہ رکھیں کہ میں جب کسی برے انسان کے پاس سے
گزرتا ہوں اور وہ مجھے گالی دیتا ہے تو میں خاموشی سے گزر جاتا ہوں، پھر کہتا ہوں وہ
مجھے تو مخاطب نہیں کر رہا تھا۔
کسی نے ایک شخص کو گالی دی تو اس نے اسے مڑ کر بھی نہ دیکھا
تو اس نے کہا: میں تجھے ہی مخاطب کر رہا ہوں۔ اس شخص نے کہا اور میں تجھے ہی نظر انداز
کر رہا ہوں۔ امام شافعیa کی
بات کتنی خوبصورت ہے۔ کہتے ہیں: لوگوں نے کہا: جب انہوں نے تجھے برا کہا تو تم خاموش
رہے! میں نے جواب دیا: جواب برائی کی کنجی ہے۔کسی جاہل یا احمق کا جواب نہ دینا بھی
ایک فضیلت ہے۔ خاموشی سے انسان کی عزت بھی محفوظ رہتی ہے۔ کیا تم نے کبھی غور نہیں
کیا کہ شیر خاموش ہوں تو بھی لوگ ان سے ڈرتے ہیں، کتے بھونکتے رہتے ہیں، پھر وہ ذلیل
ہی ہوتے ہیں۔
جاہلوں اور باطل پرستوں کے ساتھ بحث نہ کرنا اور ان کی باتوں
پر کان نہ دھرنا حکمت کی علامت اور عزت کی راہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تعریف
فرمائی ہے جو جاہلوں سے نازیبا باتیں سننے پر انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں، گویا کہ
انہوں نے سنا ہی نہ ہو، انہیں جواب دینے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ ان کی صریح جہالت پر
انہیں جواب نہیں دیتے، ان جیسے الفاظ میں ان سے مخاطب نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان
ہے:
{وَإِذَا سَمِعُوا
اللَّغْوَ اَعْرَضُوا عَنْه وَقَالُوا لَنَا اَعْمَالُنَا وَلَكمْ اَعْمَالُكمْ سَلَامٌ
عَلَیْكمْ لَا نَبْتَغِی الْجَاهلِینَ}
’’اور جب انہوں نے
بیہودہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہو گئے کہ ہمارے اعمال ہمارے لیے اور تمہارے
اعمال تمہارے لیے، تم کو سلام ہے، ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہتے۔‘‘
(القصص: ۵۵)
انسان کو چاہیے کہ جب وہ خود راہ راست پر ہو، تو دوسروں کی باتوں
کی فکر نہ کرے۔ ان کی باتوں کا اثر بھی نہ لے۔ خاص طور پر اس وقت کہ جب ان کی بات ماننے
میں کسی جائز چیز سے پھرنے کا حکم ہو، یا کسی ناجائز کو کرنے کی بات ہو۔ اسی لیے اللہ
تعالیٰ نے رسول اللہe سے
فرمایا:
{وَلَقَدْ نَعْلَمُ
أَنَّك یَضِیقُ صَدْرُك بِمَا یَقُولُونَ٭ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّك وَكنْ مِنَ السَّاجِدِینَ٭
وَاعْبُدْ رَبَّك حَتَّی یَأْتِیَك الْیَقِینُ}
’’ہمیں معلوم ہے
کہ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان سے تمہارے دل کو سخت کوفت ہوتی ہے۔ اس کا علاج
یہ ہے کہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اس کی جناب میں سجدہ بجا لاؤ۔ اُس
آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے۔‘‘ (الحجرات: ۹۷-۹۹)
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی ہے کہ لوگوں کے ساتھ کس طرح
برتاؤ کیا جائے۔ یہ ان کی خواہ مخواہ کی باتوں کا بہترین علاج ہے۔ وہ یہ ہے کہ اللہ
کا ذکر کیا جائے، نماز قائم کی جائے اور موت کے وقت تک عبادت پر قائم رہا جائے۔
اسلامی بھائیو! جو شخص اپنے مقصد سے ہٹ کر کثرت سے ادھر ادھر
دیکھتا رہتا ہے، اس کی غفلت بڑھ جاتی ہے اور وقت ضائع ہوتا رہتا ہے۔ اس کا اتنا گھاٹا
ہی کم نہیں ہے کہ ہر بے مقصد نگاہ سے اس کا سفر طویل ہو جاتا ہے اور اس کی مہارت کم
ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہمارا شعار یہ ہونا چاہیے کہ
{خُذِ الْعَفْوَ
وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاهلِینَ}
’’اے نبی! نرمی و
درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔‘‘ (الاعراف:
۱۹۹)
عقلمند انسان ایک مقرر کردہ منصوبے کے تحت چلتا ہے، اپنے اہداف
کے مطابق کام کرتا ہے۔ اپنے بلند مقاصد کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ وہ اپنے راستے میں
چلتا رہتا ہے، پیچھے صرف اس لیے دیکھتا ہے کہ اپنی اصلاح ہو جائے اور کام میں بہتری
آ جائے۔
بے مقصد ادھر ادھر دیکھنے سے اس کا سفر ٹوٹ سکتا ہے اور اس کے
ہدف حاصل ہونے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ آج کل کی بیماری میں پڑ سکتا ہے۔ واجبات ادا کرنے
میں قاصر ہو سکتا ہے۔ اللہ کے بندے! اسی طرح لوگوں کے طعنے سن کر پیچھے مڑنے سے بچنا
چاہیے۔ بلکہ جب وہ تم پر تنقید کریں تو معاملے کا جائزہ لو۔ اگر ان کی تنقید مبنی بر
حق ہو، تو اسے مثبت سمجھو اور اسے اپنی ترقی کا ذریعہ بناؤ۔ اپنی بلندی کا راستہ بناؤ۔
اپنے کاموں پر نظر ثانی کرو۔ اپنی غلطیوں کا تدارک کرو۔ اس طرح تم آگے بڑھو گے اور
تمہارے معاملات بہتر ہو جائیں گے اور اللہ کے حکم سے تمہاری عاقبت بھی بہتر ہو جائے
گی۔
اے مسلمانو! رسول اللہe نے امت کے ساتھ کمال درجے کے خلوص کا مظاہرہ کرتے ہوئے
بیان فرمایا کہ ادھر ادھر دیکھنا کبھی نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے انسان
بھلائی سے محروم ہو سکتا ہے، اجر ضائع کر سکتا ہے۔ (صحیح بخاری)
سیدہ عائشہr بیان
کرتی ہیں: میں نے دوران نماز ادھر ادھر دیکھنے کے متعلق آپe سے
پوچھا تو آپe نے
فرمایا: یہ وہ چوری ہے جو شیطان انسان کی نماز سے کر لیتا ہے۔ اسی طرح سیدنا ابو ذرt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: جب تک انسان نماز میں اپنی نظر ادھر ادھر نہیں پھیرتا، اللہ تعالیٰ اس کی طرف
متوجہ رہتا ہے، جب وہ نظر پھیرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی توجہ پھیر لیتا ہے۔ (مسند احمد،
ابو داؤد نسائی)
دوران نماز ادھر ادھر دیکھنے سے مراد صرف آنکھوں کا پھیرنا ہی
نہیں بلکہ اس میں دل کا پھرنا بھی شامل ہے۔ وہ اس طرح کہ انسان دنیا کے معاملات کے
بارے میں سوچ بچار میں مصروف ہو جائے، جسم اور دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے دور
ہو جائے۔ کسی اور چیز کی طرف اپنی توجہ پھیر لے۔ نماز کے دوران انسان کی آنکھیں پھریں
یا توجہ، بہر حال انسان کا اجر کم ہو ہی جاتا ہے۔ منہ پھیرنے سے اکثر لوگ بچتے ہیں،
مگر دل کا پھرنا اس سے بھی برا ہے۔ اس لیے جب ضرورت ہو تو آنکھوں کو پھیرنا جائز ہے۔
لیکن دل تو بہر حال اللہ کی طرف متوجہ ہی رہنا چاہیے۔ جو اپنی نماز میں ان چیزوں کا
خیال کرتا ہے، وہ حضور قلب کے ساتھ اپنے رب کے سامنے پیش ہوتا ہے، مکمل خشوع اپنا لیتا
ہے، اس کے سامنے خوب ادب کا مظاہرہ کرتا ہے۔ نہ آنکھیں پھیرتا ہے اور نہ توجہ ادھر
ادھر کرتا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ آج نماز کے دوران کھیلنا، نظر کو ادھر ادھر
پھیرنا اور بغیر کسی ضرورت کے حرکت کرتے رہنا بعض لوگوں کی عادت بن گیا ہے۔ ایسے لوگ
نماز میں ٹھہرتے نہیں ہیں۔ اطمینان سے ان کی نمازیں خالی ہوتی ہیں۔ بعض لوگ سلام کے
فورا بعد اپنی گردنیں پوری طرح دائیں اور بائیں پھیرتے ہیں، کچھ تو بے مقصد پیچھے بھی
دیکھتے ہیں۔ بعض لوگوں کی یہ عادت تو بہت پکی ہو چکی ہوتی ہے، بالخصوص بزرگوں میں یہ
عادت پائی جاتی ہے۔ اس طرح تسبیح اور نماز کے بعد کے اذکار رہ جاتے ہیں یا ان میں حضور
قلب نہیں رہتا۔ وہ انہیں ادا کرتے وقت ان کے معانی پر غور نہیں کرتے۔
اللہ کے بندو! نماز کے دوران کسی ضرورت کے تحت نظریں پھیرنے
میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری میں ہے کہ جب سیدنا ابو بکرt امامت
کرا رہے تھے اور دوران نماز رسول اللہe تشریف لے آئے، تو صحابہ کرام نے تالیاں بجائیں تاکہ
ابو بکرt انہیں
دیکھ لیں، مگر ابو بکرt نہیں
مڑے۔ آپt نماز
میں ادھر ادھر نہیں دیکھتے تھے۔ جب لوگ زیادہ تالیاں بجانے لگے تو انہوں نے پیچھے مڑ
کر دیکھا۔ پھر رسول اللہe نے
یہ بھی واضح کر دیا: اگر دوران نماز کوئی مسئلہ درپیش ہو تو یوں کہنا چاہیے: سبحان
اللہ! تالیاں بجانا تو عورتوں کے لیے ہے‘ مقصد یہ ہے کہ ابو بکر دوران نماز ادھر ادھر
نہیں دیکھتے تھے۔ یعنی وہ مکمل طور پر اسی کی طرف متوجہ رہتے تھے۔ دائیں دیکھتے اور
نہ بائیں۔ اسی طرح ساری نمازیں ادا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لوگوں میں یہ بات معروف ہوگئی
اور لوگ انہیں اس حوالے سے جاننے لگے۔
اے بھائیو! اگر ہم غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی لوطu کو
پیچھے مڑ کر دیکھنے سے منع کیوں کیا تھا۔ فرمایا:
{فَأَسْرِ بِأَهلِك
بِقِطْعٍ مِنَ اللَّیْلِ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْكمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَك}
’’تو کچھ رات رہے
اپنے اہل و عیال کو لے کر نکل جا اور دیکھو، تم میں سے کوئی شخص پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے
مگر تیر ی بیوی ساتھ نہیں جائے گی۔‘‘ (ہود: ۸۱)
تو اس کا جواب جیسا کہ اہل علم نے دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے
نبی لوطu کو
اپنے گھر والوں کے ساتھ نکلنے کا حکم دیا اور پیچھے مڑ کر دیکھنے سے منع کیا تاکہ ان
کی چال رک نہ جائے اور ان کا مطلوبہ سفر منقطع نہ ہو جائے۔ تاکہ وہ جلد سے جلد اس بستی
سے نکل جائیں اور تاکہ ان کی فکر یہ ہو کہ فاسقوں کے عذاب سے بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ
کے اس فرمان پر غور کیجیے:
{فَأَسْرِ بِأَهلِك
بِقِطْعٍ مِنَ اللَّیْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهمْ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْكمْ أَحَدٌ
وَامْضُوا حَیْثُ تُؤْمَرُونَ}
’’لہٰذا اب تم کچھ
رات رہے اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جاؤ اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلو‘ تم میں سے
کوئی پلٹ کر نہ دیکھے بس سیدھے چلے جاؤ جدھر جانے کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے۔‘‘ (الحجرات:
۶۵)
اس میں بھی ایک عظیم قرآنی نفسیاتی قاعدہ ہے جس پر خوب غور کرنا
چاہیے۔ اس آیت میں دو حکم آئے ہیں۔ ایک کرنے کا، اور ایک نہ کرنے کا۔
{وَلَا یَلْتَفِتْ}
(الحجرات)
’’کوئی پلٹ کر نہ
دیکھے۔‘‘
{وَامْضُوا} (الحجرات:
۶۵)
’’چلے جاؤ۔‘‘
اس میں اس چیز کی دعوت دی گئی ہے کہ انسان اپنے برے اور المناک
ماضی کی کتاب بند کر دے۔ ماضی کے منظر بھی بھلا دے، اس کے لوگوں کو بھی بھلا دے۔ اس
کے لمحوں کو بھی بھلا دے۔ اس کے مراحل کو بھی بھلا دے۔ اس کے مسائل، پریشانیاں اور
دردوں کو بھی بھلا دے۔
کثرت سے ادھر ادھر دیکھنا انسان کے راستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔
اپنے اٹھتے قدموں کی توجہ مرتکز رکھنا تیزی سے پہنچنے میں معین ہے۔
اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں پیچھے مڑ کر دیکھنے
سے بھی منع کیا ہے۔
{وَلَا یَلْتَفِتْ
مِنْكمْ أَحَدٌ} (الحجرات: ۶۵)
’’کوئی پلٹ کر نہ
دیکھے۔‘‘
یہ حکم خلیل اللہ ابراہیمu کی سیرت سے بھی ملتا جلتا ہے۔ محل استشہاد یہ ہے کہ
’’جب سیدنا ابراہیمu نے
سیدہ ہاجرr اور
سیدنا اسماعیلu کو
اللہ کے حکم کے مطابق چھوڑ دیا اور چل پڑے، تو ام اسماعیل ان کے پیچھے آئیں، کہنے لگیں:
ابراہیم! ہمیں اس وادی میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں جس میں نہ انسان اور نہ کوئی چیز!
انہوں نے یہ جملہ بار بار دہرایا مگر سیدنا ابراہیمu نے ان کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ پھر انہوں نے کہا:
کیا یہ حکم آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے؟ سیدنا ابراہیمu نے
کہا: جی ہاں! انہوں نے کہا: پھر اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ پھر وہ لوٹ آئیں۔ یہاں
اس بات پر غور کیجیے کہ
’’انہوں نے اس کی
طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا بلکہ انہوں نے اپنا رخ اس جگہ کی طرف کر لیا جہاں کا انہیں
حکم ملا تھا۔ اپنے مقصد سے نہ ان کا جسم پھرا اور نہ ان کا دل۔‘‘ (صحیح مسلم)
سیدنا ابو ہریرہt بیان
کرتے ہیں کہ خیبر والے دن رسول اللہe نے فرمایا: میں یہ جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ
اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو گا، جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح نصیب فرمائے گا
پھر وہ جھنڈا سیدنا علی بن ابی طالبt کو دیا اور کہا: چلے جاؤ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا یہاں
تک کہ اللہ فتح نصیب کر دے: سیدنا علیt کچھ دیر چلتے رہے، پھر رک گئے مگر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘
یہاں اس بات پر غور کیجیے کہ جب آپe نے فرمایا: چلے جاؤ اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا تو سیدنا
علیt نے
اپنے مقصد سے نہ اپنے جسم کو پھیرا اور نہ دل کو۔ آیت اور حدیث میں جو مشترکہ حکم ہے
وہ یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھے، تاکہ وہ اپنے واجبات کی ادائیگی
سے پیچھے نہ رہ جائے۔
اے مسلمانو! یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھنا
بہت سی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔ مثال کے طور پر جو شخص شیطانی وسوسوں کا شکار ہو،
اس کا علاج یہ ہے کہ وہ انہیں نظر انداز کر دے اور ان کی فکر نہ کرے، ان کے بارے میں
زیادہ نہ سوچے، بلکہ اس سے دور ہو جائے۔ کیونکہ جب انسان انہیں توجہ دے گا اور ان کے
بارے میں زیادہ سوچے گا تو شیطان کا حملہ سخت ہو جائے گا۔ اہل علم نے اس حوالے سے ایک
عظیم قاعدہ بیان کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب انسان کو وضوء میں، غسل میں، نجاست کو ہٹانے
میں یا تیمم میں شک ہو تو وہ اسے توجہ نہ دے۔
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! اصولوں کا پابند حق پرست انسان ہمیشہ حق پر ثابت
قدم رہتا ہے۔ کوئی چیز اسے اپنے منہج سے نہیں
ہٹا پاتی۔ وہ لوگوں کو راضی کرنے کے لیے ان کی خواہشات پوری نہیں کرتا اور ان کے لیے
کبھی اللہ کو ناراض نہیں کرتا۔ عزیز مصر کی بیوی نبیُّ اللہ یوسفu کو
بار بار گناہ پر اکساتی رہی۔ انہیں بہکانے کے لیے ان کی فطری ضرورت کو ابھارتی رہی۔
بلکہ انہیں راہ راست سے ہٹانے کے لیے سارے حربے استعمال کر چکی، مگر آپ نے اس کی طرف
توجہ نہیں کی۔ بلکہ اس سے دور بھاگتے رہے۔ اللہ کی ناراضگی کا شکارہونے سے بچتے رہے۔
فتنے سے بچنے کی کوشش کرتے رہے اور جس گناہ کی طرف وہ بلا رہی تھی اس سے محفو ظ رہنے
کی پوری کوشش کرتے رہے۔ اس طرح آپ علیہ السلام کا نامہ اعمال صاف اور پاکیزہ ہی رہا۔
ان کا نام نیک، پرہیزگار، پاکیزہ، صاف ستھرے، آخرت کو ترجیح دینے والے اور عفت پسند
لوگوں میں لکھ دیا گیا۔
اللہ کے بندو! ہماری توجہ اس طرف بھی ہونی چاہیے کہ جب انسان
اپنے کام مکمل کرنے کا عزم وارادہ کر لے، خیر کے کام شروع کر دے تو ان تمام کاموں سے
بچے جو اس کی تکمیل میں رکاو ٹ بنتے ہیں۔ ایسی مصروفیات اور توجہ پھیرنے والی چیزوں
کو نظر انداز کر دے جن سے اس کے کام رک سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی کام شروع کرے
اور کام کے دوران ہی وہ اپنی توجہ موبائیل فون کی طرف کر دے، بار بار اسے دیکھتا رہے،
بلکہ ہر وقت اسی میں لگا رہے، مسلسل اسی میں مصروف رہے، بس یہی دیکھتا رہے کہ کس نے
فون کیا ہے اور کس نے پیغام بھیجا ہے۔ اس طرح وہ اس کام پر اپنی توجہ مرتکز کر لے اور
وہ کام چھوڑ دے جسے اسے مکمل کرنا تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنے حقیقی کام پر توجہ
رکھے اور اسے نہ چھوڑے۔ مگر وہ اس طرح دوسری چیزوں میں مصروف ہو کر اپنے اوقات کو بھی
ضائع کرتا ہے اور ان آلات کو اپنا حاکم بھی بنا لیتا ہے۔ حالانکہ مسلمان کا فرض یہ
ہے کہ وہ اپنے وقت کی حفاظت کرے۔ ہر وقت مطلوبہ کام کرے اور دیگر چیزوں سے مشغول ہونے
سے گریز کرے۔
اللہ کے بندو! ایک ایسی چیز ہے جس میں بہت سے مسلمان مبتلا ہو
چکے ہیں اور جس کی وجہ سے لوگ بہت سی برائیوں اور نافرمانیوں کا شکار ہو رہے ہیں، جس
سے لوگ سنجیدگی سے دور ہو جاتے ہیں اور حق پرستی سے ہٹ جاتے ہیں، وہ چیز لوگوں کی باتوں
کی فکر کرنا ہے۔ ان کی باتوں سے ڈرنا ہے۔ ان کی اچھی بری عادتوں میں ان کا ساتھ دینا
ہے۔ بعض لوگ تو مخلوق سے‘ اللہ سے بھی زیادہ ڈرنے لگے ہیں۔ ان کی باتوں سے جہنم سے
بڑھ کر بچنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ جب تم ان لوگوں کے حال پر غور کرتے ہو، جو راہ ہدایت
چھوڑ چکے ہیں اور راہ ہلاکت اختیارکر چکے ہیں، جب تم اس بات پر غور کرتے ہو کہ وہ شریعت
کے نا پسندیدہ کاموں کی طرف کیوں جاتے ہیں، مثال کے طور پر، اسراف، فضول خرچی، حلال
حرام کی تمیز نہ کرنا، قابل اور بہترین لوگوں کے رشتے رد کرنا، شادی میں تاخیر کرنا
اور حق مہر بہت زیادہ کرنا، حرام چیزوں کو کھانا پینا، وقت ضائع کرنا، کھیل کود اور
تماشوں میں لگے رہنا، گناہوں کے اڈوں میں جانا، مدارس یا محافل میں باتونی بن کر باتیں
کرنا۔ جب ان ساری چیزوں کی وجہ پر غور کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ ایسے کام
لوگوں کو راضی کرنے کے لیے کرتے ہیں، حالانکہ شریعت نے ایسے کاموں کو حرام ٹھہرایا
ہے اور ان کی اجازت نہیں دی۔ تب تو حیرت انتہا کو پہنچ جاتی جب تم انہیں ان گناہوں
کو کرنے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔ بلکہ ان میں شریک نہ ہونے والوں پر اور ان
کی پیروی نہ کرنے والوں پر تنقید کرتا دیکھتے ہو۔ ان کی طرح ان برائیوں میں نہ پڑنے
والوں کو برا کہتے دیکھتے ہو۔ گویا کہ ان باتوں میں پڑ کر کسی نے اصول دین میں سے کوئی
چیز چھوڑ دی ہو، یا شریعت اسلامیہ کے واجبات میں سے کوئی اہم واجب چھوڑ دیا ہو۔
اے اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں اور ہمارے گھروں میں امن نصیب
فرما! ہمارے حکمرانوں اور اماموں کی اصلاح فرما! اے پروردگار عالم! ہماری حکمرانی ان
لوگوں کے ہاتھوں میں دے جو تجھ سے ڈرنے والے، پرہیزگاری اپنانے والے اور تیری خوشنودی
کے طالب ہوں۔
اے اللہ! اے زندہ وجاوید! ہمارے حکمران کو ان باتوں اور کاموں
کی توفیق عطا فرما جن سے تو خوش اور راضی ہوتا ہے۔ اسے نیکی اور پرہیزگاری کی طرف لا۔
اے اے اللہ! ہمارے کمزور اور مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد فرما! ان بھائیوں کی مدد فرما
جو سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جو سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔ اے اللہ! تو ان کا
معین اور مددگار بن جا۔ ان کی تائید کرنے والا اور نگہبان بن جا۔ اے اللہ! ہم تجھ سے
نیکیاں کرنے کا اور پرہیز گاری کا سوال کرتے ہیں۔ عفت اور بے نیازی کا سوال کرتے ہیں۔
اے اللہ! ہمارے دین کی اصلاح فرما جس پر ہمارے معاملات کا دار ومدار ہے۔ ہماری دنیا
کی اصلاح فرما جس میں ہمارا روزگار ہے۔ ہماری آخرت کی اصلاح فرما جس کی طرف ہم نے لوٹنا
ہے۔ زندگی کو نیکیوں میں اضافے کا ذریعہ بنا اور موت کو ہر برائی سے نجات کا سبب بنا۔
آمین!
No comments:
Post a Comment