مشرف کے خلاف فیصلہ سنگ میل ثابت ہو گا
سزا پر عمل نہ بھی ہو
سکا تو اثرات بڑے مثبت اور تا دیر رہیں گے۔ سیاسی قائدین کو اپنی رائے کا اظہار
کرنا چاہیے۔ تناؤ سے نکلنے کے لیے تمام اسنیک
ہولڈرز کے درمیان باہم
مکالمے کی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن مناسب موقع پر ’یقین دہانی‘ کے راز سے پردہ
اٹھا دیں گے: پروفیسر ساجد میر
بشکریہ: روزنامہ امت
... انٹرویو نجم الحسن عارف
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ پروفیسر ساجد میر بیک
وقت نواز لیگ کے مستقل حلیف بھی ہیں اور متحدہ مجلس عمل کے اہم رکن بھی۔ ساتھ ہی وہ
گرینڈ اپوزیشن کے بھی ایک اہم ستون ہیں۔ وہ واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے جنرل پرویز
مشرف کے خلاف عدلیہ کے حالیہ فیصلے کی کسی اگر مگر کے بغیر حمایت کی ہے۔ پروفیسر ساجد
میر سے کیا گیا انٹرویو نذر قارئین ہے۔
O پروفیسر ساجد میر
صاحب! پرویز مشرف کے بارے میں عدلیہ کے حالیہ فیصلے کے اثرات ملکی سیاست اور مستقبل
پر کیا دیکھتے ہیں؟
P یہ بڑا اہم
فیصلہ ہے۔ اس سے پہلے ایسا فیصلہ کبھی نہیں آ سکا تھا کہ جس میں کسی جمہوری حکومت کا
تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والے فوجی آمر کو سزا سنائی گئی ہو۔ اگرچہ سبھی لوگ
یہی کہہ رہے ہیں کہ اس فیصلے پر عمل در آمد نہیں ہو گا لیکن میں کہوں گا کہ اگر فیصلے
پر عمل نہیں بھی ہوتا تو یہ ایک بہت اچھا اور اہمیت کا حامل فیصلہ ہے۔ بلکہ ملکی تاریخ
میں اسے ایک اہم سنگ میل قرار دینا چاہیے۔ آنے والے دنوں میں کوئی طالع آزما تختہ الٹنے
سے پہلے سوچے گا ضرور کہ اس بارے میں عدالت پہلے کیا کہہ چکی ہے۔ ہو سکتا ہے اس سے
آمریت کا دروازہ مکمل طور پر بند نہ ہو سکے۔ مجھے یہ کہنے میں بھی باک نہیں کہ ہمارے
ملک میں ’ہنوز جمہوریت دور است‘ والا معاملہ ہے۔ لیکن پھر بھی فیصلہ جمہوریت کے حق
میں بہت اچھا اور اہم ہے۔
O جمہوریت کے
حق میں عدلیہ نے تو یہ فیصلہ دے کر کافی اہم کردار ادا کر دیا۔ آپ کے خیال میں سیاسی
جماعتوں کی ذمہ داری کیا ہو گی؟ کیا انہیں بھی اپنی طرف سے جمہوریت اور جمہوری استحکام
کے لیے کچھ کرنا ہو گا؟
P میں سمجھتا
ہوں کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ پوری قوم کی ذمہ داری ہے کہ جمہوری نظام کے لیے
اپنا کردار ادا کریں۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے انہیں چاہیے کہ کرپشن کے معاملات
سے نجات پائیں اور سیاسی قائدین اپنی ہی تجوریاں بھرنے کی بجائے عوام کے لیے بھی کچھ
کریں۔ اگرچہ کرپشن کے خاتمے کے لیے کچھ صحیح اور کچھ غلط گرفت ہو رہی ہے لیکن سیاسی
لوگوں کو خود بھی چاہیے کہ کرپشن سے اپنے دامن کو صاف رکھیں اور عوام کے لیے بھی کچھ
کر کے جائیں۔ کرپشن فری حالات کی عملی ضرورت ہے۔
O یہ جو آپ نے
فرمایا کہ سیاسی قیادتیں اور جماعتیں ’عوام کے لیے بھی کچھ کریں‘ معاف کیجیے گا جمہوریت
تو سنا ہے ہوتی ہی عوام کے لیے ہے۔ عوام کے لیے صرف ’’کچھ‘‘ کرنے کا تصور آگے بڑھے
گا تو پھر تو عوام کے لیے عملا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ پانچ سے دس فیصد
حصہ ہی عوام کو ملے گا؟
P میری مراد
یہی ہے کہ عوام کو ترجیح میں شامل ہونا چاہیے اور صرف لیڈروں کو اپنی ہی تجوریاں نہیں
بھرنی چاہئیں۔
O آپ نے یہ بھی
کہا ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمل نہ ہونے کی بات ہو رہی ہے۔
P اصل بات یہ
ہے کہ عدلیہ نے جو فیصلہ دے دیا ہے یہی کافی ہے۔ یہ ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ میں تو
یہ بھی کہتا ہوں کہ اس فیصلے پر عمل اگر نہ بھی ہو سکا تو بھی اس فیصلے کے اثرات بڑے
مثبت ہوں گے اور تا دیر رہیں گے۔
O کیا وجہ ہے
کہ آپ جس فیصلے کو بڑا اہم قرار دے رہے ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت نے اس
فیصلے پر لب کشائی سے بھی گریز کیا ہے۔ نواز لیگ کی اعلیٰ قیادت بولی ہے نہ آصف علی
زرداری اور نہ ہی مولانا فضل الرحمن؟
P بالکل سیاسی
قائدین کو بولنا چاہیے تھا اور عدالتی فیصلے پر ان کی جو بھی رائے تھی سامنے لانا چاہیے
تھی۔ لیکن نواز لیگ کی نیچے والی لیڈر شپ نے تو اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ لگتا
ہے اعلیٰ قیادت نے ضرورت سے زیادہ احتیاط کر لی یا ڈر گئی ہے۔ میاں نواز شریف تو بیمار
ہیں لیکن میاں شہباز شریف کا اس بارے میں بیان آنا چاہیے تھا۔
O زرداری صاحب
جو ہر موضوع پر بڑے ڈھنگ سے بات کر لیتے ہیں وہ بھی خاموش رہے ہیں؟ اس سے تو ووٹ کو
عزت دو اور جمہوریت کے حق میں سیاسی جماعتوں کا بیانیہ کھوکھلا نہیں ثابت ہو جائے گا؟
P انہیں بھی
بولنا چاہیے تھا اور اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔ مولانا فضل الرحمن بھی نہیں
بولے۔ میں نے ان کا بھی اس بارے میں کوئی بیان نہیں دیکھا۔ انہیں بھی اپنا موقف سامنے
لانا چاہیے تھا تا کہ عام آدمی کا ذہن بنے کہ عدلیہ کا فیصلہ درست تھا۔ اس فیصلے کا
اخلاقی اور قانونی جواز تو موجود ہے۔
O ملک میں جس
تناؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اس سے نکلنے کے لیے آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟
P تناؤ کی تو
’’اوور آل‘ کیفیت ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو باہم مکالمے
کا آغاز کرنا چاہیے تا کہ ایک روڈ میپ تیار ہو سکے اور یہ فیصلہ ہو سکے کہ آئندہ ہر
اسٹیک ہولڈر کا دائرہ کار کیا ہو گا اور کس طرح اپنے اپنے دائرہ کار میں رہیں گے۔
O آئین پاکستان
میں تو ہر ادارے کا دائرہ کار پوری طرح واضح ہے۔ پھر اس کے لیے سر جوڑنے کی کیا ضرورت
ہے؟ ضرورت تو آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کی ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ اسٹیک ہولڈرز
سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟
P دائرہ کی
بات نہیں۔ اصل مسئلہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہنے کا ہے۔ اس کے لیے ایک مرتبہ پھر
شعور کو اجاگر کرنے اور پختہ کرنے کی ہے۔ ایک دوسرے کو تذکیر کرانے کی ضرورت ہے۔ اس
مقصد کے لیے باہم مل کر سوچ بچار کی جا سکتی ہے۔ ایک دوسرے کی سنی جا سکتی ہے اور دوسرے
سے اپنی بات کہی جا سکتی ہے۔ اسٹیک ہولڈرز میں میرے خیال میں سیاسی جماعتیں‘ فوج‘ عدلیہ
اور میڈیا ہے‘ جسے چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ کیونکہ کالم نگار حضرات بھی ایسی بات کرتے
ہیں کہ انہیں اختیار دے دیا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا اس لیے میں انہیں بھی اسٹیک
ہولڈر ہی سمجھتا ہوں۔
O کیا وجہ ہے
کہ جمہوریت میں بھی سیاستدان حضرات عوام کو ملکی معاملات کا اصل اسٹیک ہولڈر نہیں سمجھتے۔
جمہوریت میں تو اصل حصہ دار عوام نہیں ہوتے‘ عام آدمی نہیں ہوتا؟
P پارلیمنٹ
انہی لوگوں کی نمائندہ ہوتی ہے اس لیے ان کی آواز ہر جگہ پہنچتی ہے مگر اپنے نمائندوں
کے ذریعے سے۔
O مگر یہ بلاول
بھٹو کا تازہ بیان ہے کہ ۱۹۸۸ء سے ۲۰۱۸ء تک ہر الیکشن میں دھاندلی ہوتی رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی اپوزیشن جماعتوں
کی حمایت سے دیئے گئے اپنے دھرنے میں جعلی اسمبلی کے خلاف واضح موقف دیا تھا۔ ایسے
میں آپ اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ کہہ سکتے ہیں؟
P یہ درست ہے
کہ بعض لوگوں کو دھاندلی سے‘ جعلی طریقے سے اسمبلی میں لایا جاتا ہے۔ لیکن اس کا یہ
مطلب نہیں کہ سبھی لوگ دھاندلی سے جیت کر آتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی اسمبلی میں آتے ہیں
جن کے پاس عوام کا حقیقی مینڈیٹ ہوتا ہے۔ اس لیے اسمبلیوں کے ذریعے عوام کی نمائندگی
ہو جاتی ہے۔
O دسمبر ختم
ہونے کے قریب ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اسی دسمبر کے حوالے سے کہا تھا۔ مولانا کو ایسی
کیا یقین دہانی کرائی گئی تھی جو انہوں نے آپ جیسے اتحادیوں کو بھی خوشخبری سنائی تھی۔
کیا اس یقین دہانی کی کوئی عملی صورت نظر آ رہی ہے؟
P مولانا فضل
الرحمن کیا چیز لے کر آئے تھے اس بارے میں انہوں نے ہمارے ساتھ ابھی تک کھل کر تو کوئی
بات نہیں کی۔ جب اے پی سی ہوئی تو پیپلز پارٹی کے نمائندوں نے ان سے پوچھا بھی تھا
کیا یقین دہانی آپ کو کرائی گئی ہے اور اس یقین دہانی کی سطح کیا ہے؟ اس پر مولانا
نے کہا تھا کہ یقین دہانی کی مناسب سطح ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ
ہر جماعت کی کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو سب کو نہیں بتائی جا سکتیں۔ یہ کہتے ہوئے مولانا
فضل الرحمن نے میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف بے نظیر بھٹو کے زیر قیادت ٹرین مارچ
کے اپوزیشن کے فیصلے کی کہانی سنائی کہ کیسے اپوزیشن جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ ٹرین
مارچ کراچی سے شروع ہو گا۔ کس جماعت ک ی ذمہ داری کیا ہو گی۔ کون سی جماعت فنانس کا
بندوبست کرے گی۔ کونسی جماعت انتظامات کو دیکھے گی؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ٹرین مارچ کے
آغاز کی تاریخ سے ایک یا دو دن پہلے بے نظیر بھٹو نے ٹرین مارچ منسوخ کرنے کا اعلان
کر دیا۔ بعد ازاں جب اپوزیشن جماعتوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو ایسی کیا یقین دہانی
کرائی گئی تھی تو انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ بس مسکرا دیں۔ یہ سن کر اے پی سی میں موجود
پی پی پی کے نمائندے نیر بخاری اور قمر کائرہ بھی مسکرا دیئے اور خود مولانا بھی مسکرا
پڑے۔ ممکن ہے مولانا فضل الرحمن کسی مناسب موقع پر یقین دہانی کے اس راز سے پردہ اٹھا
دیں گے۔
No comments:
Post a Comment