Sunday, December 29, 2019

شائستہ اور پروقار اندازِ گفتگو 49-2019


شائستہ اور پروقار اندازِ گفتگو

تحریر: جناب پروفیسر مولا بخش محمدی
ہمیں آپس میں دھیمی ،پرُوقار اور شائستہ لہجہ میں بات کرنی چاہیے،چونکہ نرم لہجہ اور نرمی سے گفتگو کرنے سے ہمارے دل میںاچھا اثر پیدا ہوتا ہے،اگر دل میں غصّہ اور نفرت ہو تو قریب بیٹھا ہو ا شخص بھی دور جاکر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ غُصّہ،غضب، تعصب، حسد، بغض، عناد و نفرت کی وجہ سے دلوں میں مزید فاصلے بڑھ جاتے ہیں جبکہ محبت بھرا رویّہ نرم گفتار دل و دماغ پر انتہائی خوشگوار اثر چھوڑتے ہیں، اس لیے اگر آپ کسی کے دل میں جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پُر تشددشور و غل بھیانک اور غصّے بھری آواز سے نہیں بلکہ نرم گفُتاری شائستہ باوقار دھیمی گفتگو سے بات کرنی چاہیے ،چونکہ بادلوں کی ہولناک گرج و چمک سے دل تو دھل جاتے ہیں جبکہ نرم بارش کی باوقار بوندوں سے جسم پر پڑنے والے ٹھنڈے قطرے سکون قلب عطا کرتے ہیں۔ غصّے کو لمحاتی پاگل پن بھی کہا جاتا ہے، چونکہ تجربہ شاھد ہے کہ غصّہ و غضب سے مغلوب الغضب ہوجانا اور قابو سے باہر ہوئے جذبات ایک ایسی خوفناک آندھی اور طاقت کی مانند ہوتے ہیں جو پہلے اپنے آپ کو پھر آس پاس والوں کو تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ کبھی تو غصّہ میں کیے ہوئے چند لمحات کے فیصلے برسوں تک بھگتنا پڑتے ہیں، کبھی چند لمحات کے جذباتی فیصلوں کے باعث مردوزن میں قتل وغارت جیسے سنگین جرائم وقوع پذیر ہوجاتے ہیں۔تجربہ شاھد ہے کہ فورا ً غصّہ میں بے قابو ہوکر طلاق دے دینا پھر پچھتاوے کے بعد مُفتی صاحبان کی حاضریاں دیتے رہنا کوئی اچھا کام نہیں۔ کبھی غضبناک ہونے سے، بلڈپریشر،دماغی فالج اور ہارٹ اٹیک جیسے موذی امراض جسم و جان سے چمٹ جاتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بے قابو غصّہ ہاتھ میں پکڑے ایسے جلتے کوئلے کے مانند ہے جس سے بیک وقت پورا گھرانہ خاکستر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بلاشبہ غُصّہ و غضب دوسرے کی خطا کی سزا اپنے آپ کو دینے کے برابر ہے، مثلاً خود اپنے گھر میں ہر وقت خوف و دہشت کی علامت بنے رہنا ، گھر میں داخل ہوتے ہی گھر والوں کے پسینے چھوٹ جانا ،کلیجہ منہ کو آجانا ، ہرگز معیاری و متوازی زندگی نہیں۔ ایک جہاندیدہ دانا ہستی کا قول کتنا سچ ہے کہ اپنے جذبات پر خود حکومت کرو نہ کہ تمہارے جذبات تم پر حکومت کرنے لگیں اور تم بے بس ہو جاؤ مشتعل دماغ مصائب و مسائل میں بے پناہ اضافے کا باعث بنتا ہے۔ غُصّہ ایک ایسی خوفناک چنگاری ہوتی ہے جو ابتدائی مراحل میں اگر بجھائی نہ جائے تو آگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے، غُصّہ ہماری سوچ سمجھ عقل و شعُور کے دروازے تک بند کردیتا ہے ،غُصّہ جہالت سے شروع ہوکر پشیمانی اور ندامت پر جاکر اختتام پذیر ہوتا ہے، غُصّہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کی علامات تکبر ، غُروراور احساس برتری ہوا کرتے ہیں جو مذہبی و اخلاقی لحاظ سے انتہائی مذموم عمل ہے۔ دیکھا جائے تو غُصّہ کی حالت میں انسان کی آنکھیں،کان اور چہرے سُرخ ہوجایا کرتے ہیں، گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں، زبان قینچی کی صورت اختیار کر لیتی ہے‘ دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہوجاتا ہے۔ پھر بدحواسی کے عالم میں گالم گلوچ،الزام تراشی،ہاتھاپائی،مارپیٹ،طلاق، قتل و غارت حتیٰ کہ کبھی تو خودکشی کی نوبت بھی آجاتی ہے، غصیلے لوگ پورے معاشرے سے کٹ کر اپنی ضد، انا،لایعنی مباحث اور شکوک و شبہات کے مکمل مریض بن جاتے ہیں، پھر تنہائی، مایوسی، ناامیدی اور قنوطیت ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ آئے دن ہمارے ہاں جرائم و تشددپر مبنی ڈرا مے اور فلمیں دیکھتے ہوئے ہماری تحریروں، تقریروں، محاضرات علمیّہ، مجالس اور عدلیہ کے فیصلوں میں بھی غُصّہ جھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔ سیاسی لیڈر جس بے رحمی اور شقاوت قلبی سے حریف مخالف کو نیچا دِکھانے کے درپے ہوتے ہوئے جس بدتمیزی اور سفاکی سے ایک دوسرے کی کردار کُشی کرتے ہیں، تقاریر میں گلہ پھاڑتے ہوئے بدترین اخلاقی گراوٹ کے مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں‘ وہ کسی سے مخفی نہیں اور نہ ہی کسی مہذب قوم کا یہ شیوہ ہے۔ جبکہ دیگر باوقار زیورِ تعلیم سے آراستہ زیرک و ذہین قومیں آپس کے اختلافات،تنازعات کا ہر وقت جایزہ لیتے ہوئے گھمبیر مسائل کا حل نکال کر اعتدال کی راہ اختیار کر تے ہیں تاکہ کسی صورت میںشدید تنازعات لڑائی جھگڑے اور قتل وغارت کی کبھی نوبت تک نہ آئے۔ بلاشبہ زندہ معاشروں میں بعض اوقات اختلافات اور تنازعات بھی جنم لیتے ہیں مگر وہ پیہم رواں دواں زندگیوں پر اثرات نہیں ہوتے۔ قوم کے باشعور ذھین و زیرک افراد ان کا ڈٹ کر خوبصورت حل بھی تلاش کر لیتے ہیں جس کے باعث سفاکی وانارکی‘ انتشار و افتراق اور خونریزی کی نوبت نہیں آتی بلکہ باشعور اَقوام و ملّل اختلافات اور تنازعات بڑے شان ،شعّور اور شائستگی سے برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں،بلکہ وہ تنقید کے باعث بھی آپے سے باہر ہونے کے بجائے اسے مناسب اہمیت دیتے ہوئے اختلاف کرنے والوں سے خوشگوار ماحول میں مذاکرات اور افہام وتفہیم سے محبت کی راہ پالیتے ہیں، اس طرح یہ معاشرہ زعفران بن کر فکر و فہم شعور و آگھی کی معطر لہریں اٹھتی نظر آتی ہیں، پھر یہ سماج افکار نُو کے تازہ پھولوں سے معطر ہوجاتا ہے اور محبت و خُلوص اور وُسّعت قلبی کی دلرُبا خوشبو سے پورا معاشرہ مہک اٹھتا ہے۔ لیکن افسوس! ہمارے مزاجوں میں اعتدال ،بردباری، سنجیدگی کے بجائے اشتعال ،انتقام اور تصادم کے اجزاء طاقت ور ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مثلاً بعض حضرات غُصّے میں اتنے لال پیلے ہوجاتے ہیں کہ اگر ان لوگوں کو انکی وہ وڈیوز نارمل حال میں دکھائی جائیں تو یہ حضرات یقینا شرم کے مارے پانی پانی ہوکر آپکے سامنے آنے کی بھی ہمت نہیں کریں گے۔ ویسے دیکھا جائے تو غُصّے غضب اور چڑچڑاپن کی کئی وجوہات جن میں تعلیم و تربیت کی کمی،خوفِ الٰہی کا فقدان، بیروزگاری، ناانصافی، خاندانی رقابتیں، رنجشیں، تلخ مزاجی، تکبر و غرور، جھوٹی اناپرستی، عدم برداشت اورکسی ذات کے خلاف منفی جذبات کی فراوانی نمایاں نظر آتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے سچے مخلص بندے اور حقیقی متقین ہمیشہ عاجزی، انکساری، تواضع اور خاکساری اپنائے ہوئے تکبر اور غُرور کے مرض سے ہمیشہ کلیۃً محفوظ رہتے ہیں‘ چونکہ خود غُصّہ بیج ہے تکبر اور اناپرستی کا۔
اپنی ذات،نفس ،مقام و مرتبہ، خاندان و جاہت، رنگ و نسل اور قوّت و اقتدار پر فخر کرنے والااپنے آپ کو دوسری مخلوق سے ہمیشہ بالاتر سمجھتے ہوئے حق کو پامال کرتے ہوئے اپنے آپ کو دوسروں سے ہر لحاظ سے بلند و بالا تصور کرتا ہے، جبکہ انسان کو غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کتنا روف و رحیم، حلیم و کریم ہے کہ ہم جیسے لاتعدادانسانوں کی نافرمانیاںاور قصور ہمیشہ سے معاف کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا فقط رضائے الٰہی کی خاطر دوسروں کی خطاوںسے درگذر کرنا نظر عفّو سے نوازنا رحمان الرحیم کا بیحد پسند یدہ فعل ہے، ایسے حالات و واقعات میں دینی، سیاسی اور سماجی باوقار قائدین کرام کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ ہمیشہ شیریں اور ملائم لہجہ اپنائیں‘ نرم گُفتاری کو سماج میں فروغ دیں۔
ہمیشہ الزام تراشی،دشنام بازی،گالم گلوچ، بغض وعناد اور تَعصّب و تکبر سے بچتے ہوئے آپس میں مل جل کر گفت و شنید سے مسائل کا حل ڈھونڈیں۔ شائستہ اور باوقار لہجہ اپنائیں اور اپنے سماج میں قوت برداشت پیدا کریں اس طرح افتراق و انتشار‘ غُصّہ و غضب کے ساتھ ہیجاں‘ میں بھی کمی واقع ہوگی، باہمی اعتماد اور اسلامی رشتے اور اخوت کے بندھن میں سب لوگ یکجان ہوجائیں گے۔
ایسے میں ہمیں براہ راست قرآن و سنت اور آپe کی سیرت و سوانح سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ جیسا کہ نفسیات ایک وسیع قابل ذکر اور اہم علم ہے جس کی بنیاد آج سے ۱۴۴۰ سال قبل رسول مکرمe نے رکھی۔ آیاتِ ربانی اور احادیث رسولe نفسیاتِ انسانی کے مبادی اُصول وضع کرنے میںکلیدی کردار ادا کرتے ہیں جس سے تعمیر انسانیت ہوئی ، چونکہ مہذب گُفتگو کرنا اسلام کا ایک زرین اُصول ہے ، اگر تاریخ کا بغائیر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہذب گُفتگو ہی نے اقوام و افراد کو اسلام کا گرویدہ بنایا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں سے اچھے انداز میں گُفتگو کرو۔
’’تم فرعون کے پاس جاؤ تو اس سرکش سے بھی نرمی سے بات کرو شاید وہ سمجھ لے یاڈر جائے۔‘‘ (طٰہٰ)
’’اور یہ کہ مسلمان جب غضبناک ہوتے ہیں تو وہ معاف کرتے ہیں۔‘‘ (الشوریٰ)
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
’’کیا انسان دیکھتا نہیں کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا پھر وہ صریح جھگڑالو بن گیا۔‘‘ (یٰسین)
ایسے ہی احادیث نبویہ سے بھی مہذب ومتمدن اور شائستہ گفتگو کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے، سیدناعبداللہt نے بیان کیا کہ رسول مکرمe نے فرمایا: ’’مسلمانوں کو گالی دینا فسق اور جنگ کرنا کفر ہے۔‘‘ (بخاری: ۴۸)
 ایک اور جگہ جہنم میں جانے والے گناہوں میں ایک گناہ زبان کی بدکلامی شرم گاہ کی خباثتوں کو قرار دیا گیا ہے ۔ (ابن ماجہ: ۴۲۴۶)
مزید یہ کہ سیدنا جریرt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا کہ جو کوئی نرمی اور مہذب انداز سے محروم کردیا گیا وہ خیرکثیر سے محروم کر دیا گیا ۔ (مسلم: ۱۶۵۹۸)
سب سے افضل اس کا اسلام ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں۔ (بخاری)
قرآن و سنت سے جو بات واضح ہو کے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کی شناخت نرم شائستہ اور مہذب گفتگو سے ہے، چونکہ عظیم قومیں تہذیب ،شائستگی اور وقاراپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتیں لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہر لمحہ مہذب اور شاندار وشائستہ گفتگو کی عادت اختیار کریں۔ سورۃ احزاب میں ارشاد ربانی ہے کہ
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو‘ سیدھی بات یعنی مہذب اور شائستہ گفتگو کیا کرو اللہ تعالیٰ تمہارے تمام امور کو سنوار دے گا اور تمہارے تمام گناہ معاف کرے گا۔‘‘
مزید یہ کہ سورۃ البقرہ میں ارشاد الٰہی ہے کہ
’’قول معروف یعنی مہذب گفتگو اور درگذر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل آزاری ہو۔‘‘
صحیح مسلم میں ایک جگہ ارشاد نبویe ہے کہ ’’جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ مہذب گفتگو کرے یا خاموش رہے۔‘‘
اسلام میں جہاں مہذب گفتگو کا حکم آیا ہے وہیں فضول لغو لایعنی باتوں سے باز رہنے کی بھی تاکید آئی ہے، قرآن عظیم کی روشنی میں کسی نادان کا بھی جواب تلخی سے نہ دیا جائے بلکہ ہر حال میں سلامت روی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ دراصل یہ نرم باوقار شائستہ کلام مخاطب کے قلب پر اثر انداز ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیاں لڑائی جھگڑا اور فساد پیدا نہیں ہوتا، مقصد یہ کہ ایسے فقرے جن میں لَعن، طَعن ، تَحقیر و تذلیل اور تُرش روئی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہو اُن سے محفوظ رہنا چاہیے بے تکی لَغو باتوں سے حتیٰ المقدور بچنا چاہیے۔ انسان کی زبان اس کا ذریعہ اظہارمافی الضمیر ہے پھر اس کا اظہار بھی خوشگوار وخوبصورت ہی ہونا چاہیے تویقیناً یہ سلگتی ہوئی دنیا بھی جنت نظیر بن جائے گی۔ انسان کی زبان ایسی باوقار اور قیمتی متاع ہے کہ شیریں شائستہ اور مہذب ہو تو کائنات میں دوستی اور محبت کی خوشگوار فضا قائم ہو گی ، اگر یہ تیز تلخ ،تُرش، طعن وتشنیع کی حامل ہو تودشمنیاں اور عداوتیں ہی جنم لیتی ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول کیا خوبصورت ہے کہ تلوار کا زخم تو وقت کے ساتھ بھر سکتا ہے، مگر زبان کا دیا ہوا زخم ہمیشہ تر و تازہ ہی رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن عظیم، احادیث رسولe اور سیرت النبیe سے کما حقہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ زندگی کے ہر شعبہ حیات میں انفرادی، اجتماعی،معاشی و معاشرتی،مادی و روحانی، سیاسی و سماجی، قومی و بین الاقوامی مواقع پر باوقار، مہذب، شائستہ اور شیریں گفتگو کو اپنا شعار بنا سکیں۔آمین!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)