راستے کے حقوق
تحریر: جناب مولانا
محمد طیب
دین
اسلام نے ہمیں مہذب زندگی گزارنے کی دعوت دی او رنبی کریمe نے زندگی کے ہر شعبہ میں راہنمائی
کی ہے۔ چاہے وہ معاشی،معاشرتی یا سیاسی ہو یا اس کا تعلق معاملات،عبادات اور اخلاقیات
سے ہو ۔
یہ
واضح کر دیا کہ ہمارے کیا حقوق ہیں اور دوسروں کے ہم پر کیا حقوق ہیں۔ آپe
نے فرمایا:
[اَعْطِ کُلَّ ذِی
حَقٍّ حَقَّہٗ۔] (بخاری ومسلم)
’’ہر حق دار کو اس کا حق ادا کیجیے ۔‘‘
اس
کے ساتھ ساتھ نبی کریمe نے ان حقوق کو بجالانے کے آداب
بھی سکھلائے ۔
اللہ
تعالیٰ کا ہم پر یہ حق ہے کہ اس کی وحدانیت کا صدق دل سے اقرار کیا جائے اور اخلاص
کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے۔
نبی
کریمe کا اپنی امت پر حق یہ ہے کہ
آپe کی تعلیمات کی اتباع اورپیروی
کی جائے۔ بندوں کا بندوں پر حق یہ ہے کہ ایک دوسرے کی بھلائی کی جائے اوراس کو تکلیف
نہ پہنچائی جائے۔ اسی طرح آپe نے ہمیں راستے کے حقوق اور
اس کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھنے کی تعلیم دی ہے۔
راستے
پر کسی ایک انسان کا حق نہیں بلکہ یہ مشترکہ ملکیت ہے اور لوگوں کے اس سے اجتماعی اور
انفرادی فوائد وابستہ ہیں۔ کسی ایک شخص یا گروہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس اجتماعی
حق کو سلب کرنے اور لوگوں کا اس پر چلنا محال کر دے اور نہ ہی کسی کو یہ حق پہنچتا
ہے کہ وہ اپنی زبان،کلام طرز تکلم سے راستہ پر چلنے والوں کو تکلیف دے‘ ان کا مذاق
اڑائے، اشاروں سے ان کا استہزاء کرے۔ نظروں سے حسد وبغض کے تیر برسائے اور ہر آنے
جانے والے پر نظر رکھے کہ وہ کیا لارہا ہے‘ کیاخرید رہا ہے۔ اسی طرح لوٹ مار کا بازار
گرم نہ کرے‘ حماقتیں اور سازشیں نہ کرے‘ پروپیگنڈہ اور افواہیں نہ اُڑائے ، بدامنی
اور بے یقینی کی کیفیت پیدا نہ کرے۔
شارع،طریق،راستہ
مشترکہ ملکیت ہے کوئی بھی اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا، راہ اور راہی کا احترام کرنا لوگوں
کے لیے چلنا پھرنا آسان کرنا، اعلیٰ اخلاق، مہذب اورترقی یافتہ معاشرے کی علامت ہے۔
آیئے
دیکھتے ہیں کہ وہ راستہ جس پہ ہر امیر، غریب، چھوٹے، بڑے ، مردوعورت کا برابر حق ہے
نبی محترمe اس کے بارے میں ہمیں کیا تعلیمات
دیتے ہیں؟
[عَنْ اَبِی سَعِیدٍ
الخُدْرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّﷺ قَالَ: إِیَّاکُمْ وَالجُلُوسَ
عَلَی الطُّرُقَاتِ، فَقَالُوا: مَا لَنَا بُدٌّ، إِنَّمَا ہِیَ مَجَالِسُنَا نَتَحَدَّثُ
فِیہَا، قَالَ: فَإِذَا اَبَیْتُمْ إِلَّا المَجَالِسَ، فَاَعْطُوا الطَّرِیقَ حَقَّہَا،
قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِیقِ؟ قَالَ: غَضُّ البَصَرِ، وَکَفُّ الاَذَی، وَرَدُّ
السَّلاَمِ، وَاَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَہْیٌ عَنِ المُنْکَرِ۔] (رواہ البخاری:
۲۴۶۵)
سیدنا ابوسعید خدریt
نبی کریمe سے روایت کرتے ہیں آپe
نے فرمایا: تم راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو، لوگوں نے عرض کیا ہمارے
لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہم وہیں بیٹھتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں؟ آپe
نے فرمایا کہ جب تم وہاں بیٹھنے پر مجبور ہو تو راستے کو اس کا حق
عطا کرو‘ لوگوں نے عرض کیا راستے کا حق کیا ہے؟ آپe نے فرمایا: نگاہیں نیچی رکھنا‘
ایذاء رسانی سے رکنا‘ سلام کا جواب دینا اور اچھی باتوں کا حکم دینا اور بری باتوں
سے روکنا۔‘‘
اس
حدیث مبارکہ میں نبی کریمe نے راستہ کے حقوق کو واضح کیا
جس میں سب سے پہلے:
Ý غَضُّ البَصَرِ: نظر کی حفاظت کرنا اس کو
نیچا رکھنا‘ کیونکہ راستہ میں صنف نازک اپنی ضروریات پوری کرنے کی خاطر نکلتی ہیں‘
راستہ میں بیٹھ کرتیکھی اور طنزیہ نظروں سے گھورنا ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ رب
کائنات فرماتے ہیں :
{قُلْ لِّلْمُوْمِنِیْنَ
یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ} (النور:
۳۰)
’’مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں
اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘ یہ ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ
تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔‘‘
Þ کَفُّ الاَذَی: دوسری چیز جس سے آپe
نے بچنے کی تلقین کی وہ ہے لوگوں کو تکلیف دینے سے بچنا۔ ارشاد نبویe
ہے :
[المُسْلِمُ مَنْ
سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ۔] (رواہ البخاری: ۱۰)
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کی تکلیف)
سے لوگ محفوظ رہیں۔ ‘‘
آپe
کا ارشاد ہے :
[الإِیمَانُ بِضْعٌ
وَسَبْعُونَ فَاَفْضَلُہَا قَوْلُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ، وَاَدْنَاہَا إِمَاطَۃُ
الْاَذَی عَنِ الطَّرِیقِ۔] (رواہ البخاری: ۳۵)
’’ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں‘ سب سے افضل
لاالہ الا اللہ اور سب سے ادنیٰ راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا۔‘‘
اسی
طرح صحیح مسلم میں ہے کہ آپe نے فرمایا:
[یُمِیطُ الاَذَی
عَنِ الطَّرِیقِ صَدَقَۃٌ۔]
’’راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی صدقہ ہے۔‘‘
آیئے
دیکھتے ہیں کہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانے والے کو کیا اجر وثواب اور انعام ملتاہے
۔
[لَقَدْ رَاَیْتُ
رَجُلًا یَتَقَلَّبُ فِی الْجَنَّۃِ، فِی شَجَرَۃٍ قَطَعَہَا مِنْ ظَہْرِ الطَّرِیقِ،
کَانَتْ تُوْذِی النَّاسَ۔] (رواہ مسلم)
’’آپe فرماتے ہیں کہ ایک شخص جنت
میں اس بنیاد پہ داخل ہوا کہ اس نے راستہ سے ایک درخت کو کاٹ دیا جس سے لوگوں کو گزرتے
ہوئے تکلیف پہنچتی تھی۔‘‘
منزل
تیری تلاش میں گھومے گی در بدر
خلقِ
خُدا کی راہ سے روڑے ہٹا کے دیکھ
جو
ایسے کام سر انجام دیتا ہے کہ جس سے راہگیر کو تکلیف پہنچتی ہے اس کے بارے میں آپe
کا ارشاد ہے:
[اتَّقُوا اللَّعَّانَیْنِ
قَالُوا: وَمَا اللَّعَّانَانِ یَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ: الَّذِی یَتَخَلَّی فِی طَرِیقِ
النَّاسِ، اَوْ فِی ظِلِّہِمْ۔]
’’دوموجب لعنت والی چیزوں سے بچو، صحابہ نے کہا
اللہ کے رسول! وہ دو چیزیں کونسی ہیں ؟ آپe نے فرمایا: لوگوں کے راستہ
میں یا سایہ دار جگہ پر قضائے حاجت کرنا۔‘‘ (مسلم )
تیسری
چیز آپe نے جس کا حکم دیا وہ ہے:
ß رَدُّ السَّلاَمِ: سلام کرنے والے کے سلام
کا جواب دینا
سلام
کا جواب دینا ضروری ہے‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَاِذَا حُیِّیْتُمْ
بِتَحِیَّۃٍ فَحَــیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَسِیْبًا}
’’اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا
جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو بیشک اللہ تعالیٰ ہرچیز کا حساب لینے والا ہے۔‘‘
(النساء: ۸۶)
سلام
کرنے سے آپس میں الفت محبت بڑھتی ہے اور حسد بغض ختم ہوتاہے۔
نبی
کریمe فرماتے ہیں :
[لَا تَدْخُلُونَ
الْجَنَّۃَ حَتَّی تُوْمِنُوا، وَلَا تُوْمِنُوا حَتَّی تَحَابُّوا، اَوَلَا اَدُلُّکُمْ
عَلَی شَیْء ٍ إِذَا فَعَلْتُمُوہُ تَحَابَبْتُمْ؟ اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ۔]
’’تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک
ایمان والے نہیں بنتے اور تم مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ تم ایک دوسرے سے محبت نہ
کرنے لگ جاؤ، کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس پر عمل کرنے سے تم ایک دوسرے سے محبت
کرنے لگ جاو، آپس میں سلام عام کرو۔‘‘ (رواہ مسلم)
چوتھی
چیز کا آپe نے جو حکم دیا وہ یہ ہے کہ
à وَاَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَہْیٌ عَنِ المُنْکَرِ:
بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
فرمان
باری تعالیٰ ہے :
{کُنْتُمْ خَیْرَ
اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ
وَتُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ} (آل عمران: ۱۱۰)
’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی
ہے‘ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان
رکھتے ہو۔‘‘
اس
امت کو امت مسلمہ ، خیر امت قرار دیا گیا اور اس کی علت بھی بیان کی گئی جو امر بالمعروف
ونہی عن المنکر اور ایمان باللہ ہے۔
اسی
طرح راستہ کے اور بہت سے آداب ہیں جن پر عمل کرنا چاہیے جیسے راستہ میں کسی ضرورت
مند کی مدد کرنا۔
بھولے
بھٹکے کو راستہ بتلانا ، کسی کی بھاری چیز اُتارنے یا اُٹھانے میں مدد کرنا‘ اگر فریقین
کے درمیان لڑائی جھگڑا چل رہا ہے تو ختم کروانا، ان کی صلح کروانا ، مظلوم کی مدد کرنا
، جب راستہ کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا تو:
1 باہمی الفت ومحبت پروان چڑھے گی۔
2 معاشرہ مہذب اور بااخلاق کہلائے گا اور ملک
وملت کی نیک نامی ہوگی۔
3 لوگ بے خوف وخطر اپنی حاجات پوری کرنے کے
لیے گھر سے نکل سکیں گے۔
4 سب سے بڑھ کر تعلیمات نبویe
پر عمل کرکے اجروثواب کے مستحق ٹھہریں گے۔
No comments:
Post a Comment