احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
جھینگے کی شرعی حیثیت
O ہمارے
ہاں ہوٹلوں میں جھینگا پکایا جاتا ہے اور لوگ بڑے شوق سے اسے کھاتے ہیں، اس کی شرعی
حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ مچھلی کی قسم ہے اور اسے کھایا جا سکتا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی
میں اس کے احکام تفصیل سے لکھیں۔
P سمندری
جانوروں کے متعلق بنیادی بات یہ ہے کہ جن کی موت وحیات کا انحصار پانی پر ہے کہ انہیں
پانی سے نکالا جائے تو زیادہ دیر تک زندہ نہ رہ سکیں وہ حلال ہیں۔ اگر وہ مر بھی جائیں
تو بھی انہیں کھایا جا سکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک آدمی نے سمندر کے پانی کے متعلق
رسول اللہe سے
دریافت کیا تو آپe نے
فرمایا: ’’سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے۔‘‘ (ابوداؤد‘ الطہارہ: ۸۳)
قرآن مجید میں ارشاد
باری تعالیٰ ہے: ’’تمہارے لیے سمندر کا شکار حلال کر دیا گیا ہے اور اس کا کھانا بھی،
یہ تمہارے لیے اور قافلے کے لیے سامان زندگی ہے۔‘‘ (المائدہ: ۹۶)
اس حدیث اور آیت
کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام سمندری حیوانات حلال ہیں اور ان کا شکار کرنا اور کھانا
جائز اور مباح ہے۔ اس میں مچھلی کی تمام اقسام شامل ہیں۔
جھینگے کو عربی
میں ’’روبیان‘‘ یا ’’اربیان‘‘ کہا جاتا ہے۔ جمہور اہل علم جن میں ائمہ ثلاثہ یعنی امام
مالک‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبلs کے نزدیک جھینگے کے حلال ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ
بہت سے ماہرین لغت نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ جھینگا‘ مچھلی ہی کی ایک قسم ہے۔ اس
بناء پر احناف کے بہت سے حضرات نے بھی جھینگے کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ چنانچہ
مولانا اشرف علی تھانویa اپنے
فتاویٰ میں لکھتے ہیں: ’’جھینگا بہت چھوٹی مچھلی ہے‘ اس وقت تک احقر کو جھینگے کے مچھلی
ہونے میں بالکل اطمینان ہے۔‘‘ (امداد الفتاوی: ج۴‘ ص ۱۰۳)
اگرچہ جدید ماہرین
لغت نے سمندری حیوانات کی دو اقسام بیان کی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: \ الحیوانات
الفقریۃ \ الحیوانات غیر الفقریۃ
\ الحیوانات الفقریہ: سے مراد وہ بحری
جانور ہیں جن میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور ان میں اعصابی نظام بھی موجود ہوتا ہے، مچھلی
اور اس کی تمام اقسام اس قسم میں شمار ہوتی ہیں۔
\ الحیوانات غیر الفقریۃ: سے مراد وہ حیوانات
ہیں جو سمندر میں رہتے ہیں اور ان میں ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوتی‘ جھینگا وغیرہ اس دوسری
قسم میں شمار ہوتا ہے۔
ان ماہرین کی تعریف
کے مطابق جھینگا مچھلی کی قسم سے نہیں‘ لہٰذا وہ اسے حلال نہیں کہتے۔ ہمارے رجحان کے
مطابق تو جھینگا مچھلی کی ہی قسم ہے البتہ مچھلی کی دو اقسام ہیں: ایک وہ جن میں ریڑھ
کی ہڈی یعنی کانٹے ہوتے ہیں اور دوسری وہ جس میں ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوتی اور اس میں
کانٹے وغیرہ نہیں ہوتے۔ اگر اسے الگ قسم شمار کر بھی لیا جائے تو بھی اس کی زندگی کا
انحصار پانی پر ہے۔ اگر جھینگے کو پانی سے باہر نکال دیا جائے تو زیادہ دیر تک زندہ
نہیں رہتا۔ سیدنا ابوہریرہt سے
مروی مذکور حدیث کے مطابق سمندر کا مردہ حلال ہے۔ اسے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایسے حالات میں اہل عرب کا عرف معتبر ہو گا
کیونکہ حدیث میں سمندری حیوانات میں سے مردہ حیوان کا جو استثناء کیا گیا ہے وہ عربی
زبان کی بنیاد پر ہے لہٰذا عرب کی عرف میں بھی جھینگے کو مچھلی کی قسم سے ہی شمار کیا
گیا ہے۔
ہمارے رجحان کے
مطابق سمندر کا ہر وہ حیوان جس کی زندگی کا انحصار سمندر کا پانی ہو اور جب اسے پانی
سے الگ کیا جائے تو زیادہ دیر تک زندہ نہ رہ سکے خواہ وہ مچھلی ہو یا اس کے علاوہ کوئی
دوسرا حیوان‘ وہ حدیث کے عموم میں شامل ہے اور حلال ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ کچھ مچھلیاں
دمدار ہوتی ہیں اسے کچھ لوگ حرام کہتے ہیں کہ اس کی دم میں زہر ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں
ایک ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا جس میں دمدار مچھلی کو صاف کر کے اسے پکایا جا رہا تھا
اور لوگ اسے بڑے شوق سے کھاتے دکھائے گئے تھے۔ لیکن چینل کی میزبان اسے بار بار حرام
کہہ رہی تھی‘ حالانکہ اس کے حلال ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ اس کی زندگی کا انحصار
پانی پر تھا اور وہ پانی کے حیوانات کی ایک قسم تھی۔ بلکہ دمدار مچھلی تھی۔ ہاں جو
حیوانات پانی سے باہر بھی زندہ رہتے ہیں وہ حرام ہیں جیسا کہ مینڈک اور مگرمچھ وغیرہ
ہیں۔ لیکن مچھلی اور اس کی تمام اقسام حلال اور جائز ہیں لہٰذا ان کے استعمال میں کوئی
حرج نہیں۔ واللہ اعلم!
تجدید نکاح کے بعد کتنی طلاق کا اختیار ہے؟!
O جب
کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے اور اس کی عدت گذرنے کے بعد خاوند کو دوبارہ اس
سے نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ اب تجدید نکاح کے بعد اسے دوبارہ تین طلاق دینے کا اختیار
حاصل ہو گا یا سابقہ طلاق کو شمار کر کے بقیہ طلاق کا اختیار ہو گا؟ وضاحت کر دیں۔
P اس
میں کوئی شک نہیں کہ آدمی جب کسی عورت سے نکاح کرتا ہے تو اسے زندگی میں تین طلاق دینے
کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد صلح کی گنجائش ہوتی ہے۔ یہ صلح
اگر دوران عدت کی جائے تو نکاح بحال ہے۔ وہ رجوع کر کے اپنا گھر آباد کر سکتا ہے اور
اگر عدت گذرنے کے بعد صلح کرتا ہے تو تجدید نکاح سے گھر آباد کیا جا سکتا ہے۔ اس میں
نیا حق مہر‘ گواہان کی موجودگی‘ عورت کی رضا مندی اور سرپرست کی اجازت ضروری ہے۔ اب
یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ تجدید نکاح کے بعد سابقہ ایک یا دو طلاق بحال رہیں گی یا انہیں
ختم کر کے از سر نو خاوند کو تین طلاق دینے کا اختیار مل جائے گا۔ ہم نے اس سلسلہ میں
متعدد اہل علم سے رابطہ کیا، کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ جب نیا نکاح کیا جا رہا ہے،
جس میں اس کی تمام شرائط کو ملحوظ رکھا جائے گا تو پہلی ایک یا دو طلاق ختم ہو جائیں
گی اسے از سر نو تین طلاق دینے کا اختیار ہو گا۔ بلکہ کچھ اہل علم نے تو یہ فتویٰ دیا
ہے کہ سائل نے اپنی بیوی کو یکے بعد دیگرے دو طلاقیں دیں، پھر عدت گذر گئی اور تجدید
نکاح سے دوبارہ گھر آباد کیا گیا پھر کسی ناچاقی کی وجہ سے اسے طلاق دے دی۔ یعنی یہ
تیسری طلاق ہوئی۔ سائل کو فتویٰ دیا گیا کہ تجدید نکاح کے بعد سابقہ طلاقیں ختم ہو
چکی ہیں اور اب اسے دوبارہ تین طلاق دینے کا اختیار مل چکا ہے لہٰذا یہ پہلی طلاق ہے۔
اس سلسلہ میں مذکورہ سوال ہمارے پاس آیا ہے۔
ہمارے رجحان کے
مطابق فقہی طور پر اسے مسئلہ ہدم طلاق کہتے ہیں۔ یعنی وہ کونسی طلاق ہے جس کے بعد خاوند
کے لیے سابقہ طلاقیں ختم ہو جاتی ہیں اور اسے از سر نو تین طلاق دینے کا اختیار حاصل
ہو جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک وہ طلاق جس کے بعد خاوند کے لیے حق رجوع نہیں رہتا اس کی دو
اقسام ہیں:
\ بینونۃ صغری: اس سے مراد وہ علیحدگی
ہے جو پہلی یا دوسری طلاق کے بعد عمل میں آتی ہے بشرطیکہ مطلقہ بیوی کی عدت ختم ہو
جائے‘ اس کے بعد عقد جدید یا تجدید نکاح سے رشتہ ازدواج بحال کیا جا سکتا ہے جبکہ اس
میں حق مہر‘ گواہ‘ عورت کی رضا مندی اور سرپرست کی اجازت ہو گی۔ اس صورت میں اگر اس
نے ایک طلاق دی تھی تو تجدید نکاح کے بعد اسے دو طلاق دینے کا اختیار ہے اور اگر دوسری
طلاق کے بعد عقد جدید ہوا ہے تو اسے آخری طلاق دینے کا اختیار ہے۔ کیونکہ نکاح کے بعد
خاوند کو تین طلاق دینے کا اختیار ہوتا ہے دو کے بعد صلح یا تجدید نکاح کی گنجائش ہوتی
ہے جبکہ تیسری طلاق فیصلہ کن ہوتی ہے اس کے بعد دوران عدت رجوع یا عدت گذرنے کے بعد
عقد جدید کی گنجائش نہیں ہوتی۔
\ بینونۃ کبریٰ: اس سے مراد تیسری
طلاق ہے جسے فیصلہ کن کہا جاتا ہے، اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پھر اگر خاوند
اسے (تیسری) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں ہو گی یہاں تک کہ اس کے
علاوہ وہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح کرے، پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے تو پھر کوئی گناہ
نہیں کہ وہ دونوں آپس میں رجوع کر لیں۔‘‘ (البقرہ: ۲۳۰)
حدیث میں اس کی
مزید وضاحت ہے کہ نکاح کے بعد جب تک مباشرت نہ ہو جائے پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں
ہو سکتی‘ وہ بھی اس صورت میں کہ دوسرا خاوند اپنی مرضی سے طلاق دے۔ کسی دباؤ یا سازش
یا سمجھوتے کی صورت میں وہ طلاق نہ دے۔ ایسی صورت حال میں وہ عدت گذار کر پہلے خاوند
سے نکاح کر سکتی ہے۔ اب پہلی طلاقیں ختم ہو چکی ہیں اور اسے از سر نو تین طلاق دینے
کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔ لیکن اگر پہلے
خاوند نے پہلی یا دوسری طلاق کے بعد عقد جدید کیا ہے تو پہلی طلاقیں ختم نہیں ہوں گی
بلکہ اسے ایک یا دو طلاق دینے کا اختیار ہو گا۔ سیدنا عمر بن الخطابt سیدنا
علی t‘ سیدنا عمران بن
حصینt سیدنا
ابوہریرہt کا
یہی موقف ہے۔ امام ابن مسیب‘ امام حسن بصری‘ امام ثوری‘ امام مالک‘ امام شافعیs نے
بھی اسی بات کو اختیار کیا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہt نے سیدنا عمر بن خطابt سے بحرین کے رہنے والے ایک شخص کے متعلق سوال کیا جس
نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دی تھیں اور اس کی عدت بھی ختم ہو چکی تھی۔ پھر
اس نے دوسرے خاوند سے نکاح بھی کر لیا اور اس نے طلاق دے دی یا وہ فوت ہو گیا‘ اس کے
بعد پہلے خاوند نے اس سے نکاح کر لیا تو سیدنا عمرt نے فرمایا کہ اسے باقی ماندہ طلاق دینے کا اختیار ہے۔
(بیہقی: ج۷‘ ص ۳۶۴)
ہمارے نزدیک یہی
راجح ہے کہ ایسی صورت میں وہ باقی ماندہ طلاق دینے کا مجاز ہے۔ واللہ اعلم!
پیر کی قبر کے پاس اپنی قبر تیار کرنا
O ہمارے
گاؤں کے پاس ایک مزار ہے جہاں سالانہ میلا لگتا ہے‘ ایک صاحب ثروت آدمی نے پیر کی
قبر کے پاس اپنی قبر تیار کر رکھی ہے تا کہ مرنے کے بعد اسے وہاں دفن کیا جائے۔ کیا
زندگی میںاپنی قبر تیار کرنا جائز ہے؟
P ارض
مقدس اور سرزمین حرمین میں دفن ہونے کی تمنا تو کی جا سکتی ہے جیسا کہ سیدنا عمرt نے
اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا تھا: ’’اے اللہ! مجھے اپنے راستے میںشہادت نصیب فرما اور
مجھے موت تیرے رسول کے شہر (مدینہ) میں آئے۔‘‘ (بخاری‘ فضائل المدینہ: ۱۸۹۰)
اور سیدنا موسیٰu نے
بھی ارض مقدس کے متعلق موت کے وقت بایں الفاظ دعا کی تھیں: ’’اے پروردگار! مجھے ایک
پتھر پھینکنے کی مقدار کے برابر ارض مقدس سے قریب کر دے۔‘‘ (بخاری‘ الجنائز: ۱۳۳۹)
اس حدیث پر امام
بخاریa نے
بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’ارض مقدس یا کسی اور با برکت مقام میں دفن ہونے کی
آرزو کرنا۔‘‘ (بخاری‘ الجنائز‘ باب نمبر ۶۸)
لیکن مدافن شہداء
اور مقابر اولیاء کے قرب وجوار میں برکت کی امید کرتے ہوئے وہاں دفن ہونے کی تمنا کرنا
انتہائی محل نظر ہے کیونکہ اس سے شرک وبدعت کا چور دروازہ کھلتا ہے۔ ہمارے نزدیک اللہ
کے ہاں مقبول ہونے کے لیے پہلے ایمان پھر علم اور عمل صالح نہایت ضروری ہے۔ ان کے بغیر
کسی ارض مقدس میں دفن ہونے کی تمنا کرنا فضول اور بے کار ہے۔ کسی جگہ مرنے سے پہلے
قبر بنانا اس کا تو شریعت میں کوئی ثبوت ہی نہیں۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment