نیکیوں کا اجر ضائع کرنے والی
چیزیں
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن حُمید d
ترجمہ: جناب عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
اے لوگو! میں خود کو اور آپ سب کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا
ہوں۔ اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اللہ سے ڈرو۔ عزت اللہ کی فرمان برداری سے جڑی ہوئی
ہے اور رسوائی نافرمانی کا ساتھی ہے۔ اللہ کی پناہ مانگو، ایسے شر سے جو توحید کو تباہ
کرنے والا ہو، ایسی بدعت سے جو سنت کا خاتمہ کرنے والی ہو، ایسی خواہش سے جو توحید
پر غالب آ جائے، ایسے جذبات سے جو نافرمانی کی طرف لے جائیں، ایسی غفلت سے جو ذکر سے
مشغول کر دے۔ ارشاد ہوتا ہے:
{وَمَا اُمِرُوا
إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللَّہَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ حُنَفَاء َ وَیُقِیمُوا الصَّلَاۃَ
وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ وَذَلِکَ دِینُ الْقَیِّمَۃِ٭} (الْبَیِّنَۃِ: ۵)
’’(اور اُن کو اِس
کے سوا کوئی علم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اُس کے لیے خالص
کر کے، بالکل یکسو ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں یہی نہایت صحیح و درست
دین ہے۔‘‘
اے مسلمانو! نیت کے بغیر عبادت کرنا تکلف ہے، اخلاص کے بغیر
عبادت کی نیت ریاکاری ہے، پیروی کے بغیر اخلاص خواہش پرستی ہے۔ بندے کا راس المال حقوق
اللہ پر ایک نظر ہے، پھر ان کے ادا ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ ہے۔
اللہ کے بندو! نیکیاں کرنے اور عبادت ادا کرنے میں محنت لگتی
ہے، انہیں ادا کرتے وقت انسان کو مشقت محسوس ہو سکتی ہے۔ مگر اللہ کے بندے! ان کی ادائیگی
سے بھی زیادہ اہم ان کے اجر کی حفاظت اور ان کی نگہبانی ہے۔ تاکہ یہ بے فائدہ نہ رہ
جائیں اور بے قیمت بن کر ضائع نہ ہو جائیں۔ تم دیکھتے ہو کہ بعض لوگ باقاعدگی کے ساتھ
پانچوں نمازیں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مساجد میں ادا کرتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں،
حج بھی کرتے ہیں، زکوٰۃ بھی دیتے ہیں اور صلہ رحمی بھی کرتے ہیں، نیکی اور بھلائی کے
کام بھی کرتے ہیں، مگر جب شیطان ان پر غالب آتا ہے تو ان سے نیکیاں ضائع کرنے والے
کام کرا لیتا ہے، اس طرح ان کی محنت رائیگاں جاتی ہے، اور اللہ معاف فرمائے! ان کی
آخرت تباہ ہو جاتی ہے۔
اللہ کے بندو! اجر ضائع کرنے والے کاموں سے خوب بچنا چاہیے ان
سے چوکنا رہنا چاہیے۔ اجر ضائع ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ گناہوں کے ذریعے نیکیوں کا اجر
ختم ہو جائے۔ اجر ضائع کرنے والے بعض کاموں سے تو ساری نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں، جیسے
کفر، ارتداد، عقیدے کی منافقت اور اللہ محفوظ فرمائے! تقدیر کو جھٹلانا۔ ان کاموں سے
ساری نیکیاں ضائع ہو جاتی ہے۔ کچھ کام ایسے بھی ہیں جن سے کچھ نیکیاں ضائع ہوتی ہیں
اور ایمان برقرار رہتا ہے، صرف اس عبادت کا اجر ضائع ہو جاتا ہے جس میں وہ پائے جاتے
ہیں۔ لیکن یہی کام بعد میں سارے اعمال ضائع ہونے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ہم اللہ سے عافیت
کا سوال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کفر اور اہل کفر کے بارے میں فرمایا:
{وَمَنْ یَکْفُرْ
بِالْإِیمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِینَ٭}
(الْمَائِدَۃِ: ۵)
’’اور جو کسی نے
ایمان کی روش پر چلنے سے انکار کیا تو اس کا سارا کارنامہ زندگی ضائع ہو جائے گا اور
وہ آخرت میں دیوالیہ ہوگا۔‘‘
اسی طرح بلند
شان والے کا فرمان ہے:
{مَنْ کَانَ یُرِیدُ
الْحَیوٰۃَ الدُّنْیَا وَزِینَتَہَا نُوَفِّ اِلَیْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِیہَا وَہُمْ
فِیہَا لَا یُبْخَسُونَ٭ اُولَپکَ الَّذِینَ لَیْسَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا
النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیہَا وَبَاطِلٌ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ٭} (ہُودٍ:
۱۵-۱۶)
’’جو لوگ بس اِسی
دنیا کی زندگی اور اس کی خو ش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کار گزاری کا سارا پھل
ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی مگر آخرت میں
ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے (وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جو کچھ انہوں
نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔‘‘
اسی طرح شرک کے بارے فرمایا:
{مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِینَ
اَنْ یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّہِ شَاہِدِینَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ بِالْکُفْرِ اُولَپکَ
حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ وَفِی النَّارِ ہُمْ خَالِدُونَ٭} (التَّوْبَۃِ: ۱۷)
’’مشرکین کا یہ کام
نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں درآں حالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر
کی شہادت دے رہے ہیں ان کے تو سارے اعمال ضائع ہو گئے اور جہنم میں انہیں ہمیشہ رہنا
ہے۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نبی اکرمe کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: بلند شان والا فرماتا ہے:
{وَلَقَدْ اُوحِیَ
اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ
وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ٭} (الزُّمَرِ: ۶۵)
’’تمہاری طرف اور
تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک
کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا اور تم خسارے میں رہو گے۔‘‘
یقینا! نبی اکرمe شرک
سے تو پاکیزہ ہیں۔ بلکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپe کسی شرک میں پڑ جائیں، مگر پھر بھی یہ ایک عظیم یاد
دہانی اور ڈراوا ہے جو شرک سے اور اس کے قریب جانے سے ڈراتا ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے انبیاءe کا
ذکر کیا۔ جن میں اولو العزم انبیاء بھی شامل تھے۔ فرمایا:
{وَلَوْ اَشْرَکُوا
لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ٭} (الْأَنْعَامِ: ۸۸)
’’لیکن اگر کہیں
ان لوگوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کا سب کیا کرایا غارت ہو جاتا۔‘‘
وہ بھی شرک سے مبرّا ہیں۔ مکمل طور پر مبرّا ہیں۔ مگر یہ بھی
شرک سے، اس کے قریب جانے سے، اس کے وسائل اور ذرائع سے ایک عظیم ڈراوا ہے۔ توحید کی
نگہبانی کی تلقین ہے، صرف اللہ کی عبادت کی تاکید ہے اور تمام طرح کی عبادتیں اسی کے
لیے کرنے کی ہدایت ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ارتداد کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا
ہے:
{وَمَنْ یَرْتَدِدْ
مِنْکُمْ عَنْ دِینِہٖ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ فَاُولَپکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ
فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاُولَپکَ اَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ٭}
’’جو کوئی اس دین
سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع
ہو جائیں گے ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔‘‘ (الْبَقَرَۃِ:
۲۱۷)
اللہ کے بندو! تقدیر کو جھٹلانے سے بھی نیکیاں ضائع ہو جاتی
ہیں۔ سیدنا زید بن ثابتt کی
حدیث میں آتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
[سمعتُ رسولَ اللہﷺ
یقول: لو کان لکَ مثل اُحُد ذہبًا، أو مثل جبل اُحُد ذَہَبًا تُنفِقُہ فی سبیل اللہ
ما قَبِلَہ اللہُ منکَ حتی تؤمِنَ بالقَدَرِ کُلِّہِ۔] (رواہ أحمد، وابن ماجہ)
میں نے رسول اللہe کو فرماتے ہوئے سنا: اگر ’’تمہارے پاس اُحد پہاڑکے برابر
سونا ہو، یا یوں فرمایا کہ جبلِ اُحُد جتنا سونا ہو اور تم اسے اللہ کی راہ میں خرچ
کرنا چاہو، تو بھی اللہ تعالیٰ یہ صدقہ اس وقت تک قبول نہ کرے گا جب تک تم تقدیر پر
ایمان نہ لے آؤ۔‘‘ (مسند احمد وابن ماجہ)
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمرw تقدیر کو جھٹلانے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
[فإذا لقیتَ أولئک
فَأَخْبِرْہُم أنی بریء منہم، وہم برآء منی، والذی أحلف بہ، لو أن لأحدہم مثل
جبل اُحُد ذہبًا فأنفَقَہ فی سبیل اللہ ما قَبِلَہ اللہُ منہ، حتی یؤمن بالقَدَر۔]
(رواہ مسلم)
’’جب تمہیں ایسے
لوگ ملیں تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور ان کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں۔
میں ساری قسمیں کھا کر کہتا ہوں کہ اگر وہ اُحُد کے برابر سونا بھی اللہ کی راہ میں
دیں تو اللہ ان سے قبول نہ کرے، جب تک وہ تقدیر پر ایمان نہ لے آئیں۔‘‘ (مسلم)
اے مسلمانو! اسی طرح رسول اللہe کا مقابلہ کرنا اور آپe کی حکم عدولی کرنا بھی نیکیاں ضائع کرنے والی چیز ہے۔
اللہ کی عظیم نازل کردہ کتاب میں ہے:
{اِنَّ الَّذِینَ
کَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ
لَہُمُ الْہُدٰی لَنْ یَضُرُّوا اللّٰہَ شَیْئًا وَسَیُحْبِطُ اَعْمَالَہُمْ٭}
’’جن لوگوں نے کفر
کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول سے جھگڑا کیا جبکہ ان پر راہ راست واضح ہو چکی
تھی، در حقیقت وہ اللہ کا کوئی نقصان بھی نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ ہی ان کا سب کیا
کرایا غارت کر دے گا۔‘‘ (مُحَمَّدٍ: ۳۲)
نبی اکرمe کے
یہاں آواز بلند کرنا بھی مقابلے کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ رب العزت کا فرمان ہے:
{یَا اَیُّہَا الَّذِینَ
اٰمَنُوا لَا تَرْفَعُوا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوا
لَـــہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ
لَا تَشْعُرُونَ٭} (الْحُجُرَاتِ: ۲)
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو! اپنی آواز نبیe کی
آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبیe کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں
ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں
خبر بھی نہ ہو۔‘‘
اہل علم فرماتے ہیں کہ یہ حکم آپe کی وفات کے بعد بھی جاری ہے۔ تو جب مسلمان آپe کی
مسجد میں ہو، یا آپ کی قبر کے قریب ہو تو اسے آواز دھیمی رکھنی چاہیے۔ اسی طرح اگر
وہ مسجد نبوی میں گفتگو کر رہا ہو یا کسی مسئلے میں بحث مباحثہ کر رہا ہو تو بھی اسے
اِس ادب کا خیال کرنا چاہیے۔ روایت ہے کہ خلیفہ ابو جعفر المنصورe کی
دار ہجرت کے امام، امام مالکa کے
ساتھ مسجد نبوی میں بحث ہو گئی۔ امام مالک نے خلیفہ سے کہا: اے امیر المؤمنین! یہاں
اپنی آواز اونچی نہ کیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو ادب سکھاتے ہوئے فرمایا تھا:
{لَا تَرْفَعُوا
اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ} (الْحُجُرَاتِ: ۲)
’’اپنی آواز نبیe کی
آواز سے بلند نہ کرو۔‘‘
پھر کچھ لوگوں کی تعریف بھی کی۔ فرمایا:
{إِنَّ الَّذِینَ
یَغُضُّونَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ اُولَپکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اللّٰہُ
قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیمٌ} (الْحُجُرَات: ۳)
’’جو لوگ رسول خدا
کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں وہ در حقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں
کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے، اُن کے لیے مغفرت ہے اور اجر عظیم۔‘‘
پھر کچھ لوگوں
پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا:
{اِنَّ الَّذِینَ
یُنَادُونَکَ مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ} (الْحُجُرَاتِ:
۴)
’’اے نبی! جو لوگ
تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔‘‘
آپe کی
وفات کے بعد بھی آپ کی حرمت ویسی ہی ہے جیسی آپ کی زندگی میں تھی۔ اس پر ابو جعفر خاموش
ہو گئے۔
ایک لطیف نقطہ یہ بھی ہے کہ اہل علم فرماتے ہیں کہ یہی ادب حدیث
کو سنتے اور پڑھتے وقت بھی اپنانا چاہیے۔ فرماتے ہیں:
[إن کلامہ المأثور
بعد موتہ مثل کلامہ المشہور من لفظہ۔]
آپe کی
وفات کے بعد آپ کی احادیث ویسی ہی ہیں جیسے آپe خود گفتگو فرما رہے ہوں۔
اللہ کے بندو! دین اور دین داروں کا مذاق اڑانا بھی اجر ضائع
کر دینے والا کام ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَلَئِنْ سَأَلْتَہُمْ
لَیَقُولُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ اَبِاللَّہِ وَاٰیَاتِہٖ وَرَسُولِہٖ
کُنْتُمْ تَسْتَہْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیمَانِکُمْ اِنْ
نَعْفُ عَنْ طَآپفَۃٍ مِنْکُمْ نُعَذِّبْ طَآپفَۃً بِاَنَّہُمْ کَانُوا مُجْرِمِینَ٭}
(التَّوْبَۃِ: ۶۵-۶۶)
’’اگر ان سے پوچھو
کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے
تھے ان سے کہو، کیا تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اُس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے
ساتھ تھی؟ اب عذرات نہ تراشو، تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے، اگر ہم نے تم میں
سے ایک گروہ کو معاف کر بھی دیا تو دوسرے گروہ کو تو ہم ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ
مجرم ہے۔‘‘
اسی طرح دین کے کسی حکم کو ناپسند کرنا۔ بلند شان والا الٰہ
فرماتا ہے:
{ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ
کَرِہُوا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَہُمْ٭} (مُحَمَّد: ۹)
’’کیونکہ انہوں نے
اُس چیز کو ناپسند کیا جسے اللہ نے نازل کیا ہے، لہٰذا اللہ نے اُن کے اعمال ضائع کر
دیے۔‘‘
یہ بہت بڑی برائی ہے جس سے مسلمانوں کو بچنا چاہیے۔ بالخصوص
اس وقت جب شریعت کے احکام مرضی اور خواہش کے مطابق نہ ہوں، تو نفس میں ان کے بارے میں
نفرت پیدا ہو جائے۔ ایسی صورت میں نیکیاں ضائع ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ اس لیے مسلمان کو
یہ ورد کثرت سے کرتے رہنا چاہیے:
[رضیتُ باللہ ربًّا،
وبالإسلام دینًا، وبمحمدﷺ نبیًّا۔]
’’میں اللہ تعالیٰ
کو اپنا رب مانتا ہوں، اسلام کو اپنا دین تسلیم کرتا ہوں، محمدe کو
نبی تسلیم کرتا ہوں۔‘‘
اس دعا کو صبح
وشام تین تین مرتبہ پڑھے۔
اسی طرح اللہ کے بندو! کاہنوں، جادوگروں، شعبدہ بازوں اور نجومیوں
کے پاس جانے سے بھی نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے: جو کسی مستقبل کی خبریں
بتانے والے کے پاس جائے، پھر اس کی بتائی ہوئی معلومات کو صحیح تسلیم کر لے، تو اس
نے نبی اکرمe پر
نازل کردہ کتاب کا انکار کر دیا۔ (مسند احمد)
دوسری صحیح حدیث میں ہے:
[مَنْ أتی عرَّافًا
فسألہ عن شیء لم تُقبَل لہ صلاۃٌ سبعینَ لیلۃً۔] (رواہ مسلم)
’’جو کسی مستقبل
کی خبری بتانے والے کے پاس جا کر اس سے کچھ پوچھ لے، تو ستر دنوں تک اس کی نماز قبول
نہیں ہو گی۔‘‘ (مسلم)
اہل علم بیان کرتے ہیں:
[سؤال الکہان یَمنَع
قبولَ الصلاۃ أربعینَ لیلۃً، وتصدیقہم بما یقولون یُوقِع فی الکفر۔]
’’مستقبل کی خبریں
بتانے والوں سے کچھ پوچھ لینے سے چالیس دن کی نماز ضائع ہو جاتی ہے، ان کی باتوں کو
صحیح مان لینے سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔‘‘ … اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے۔
اللہ کے بندو! مستقبل کی خبریں بتانے والوں اور نجومیوں کے پاس
جانے اور ان کی باتیں صحیح تسلیم کرنے سے توحید جاتی رہتی ہے اور اگر انسان کی توحید
ہی چلی جائے تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ آج کے دور میں کاہن اور شعبدہ باز میڈیا پر بھی
لوگوں کو دھوکے سے اپنے جال میں پھنسا رہے ہیں۔ تو ان سے بچ کر رہیے‘ چوکنے رہیے۔
اسی طرح اللہ کا مقابلہ کرنے سے بھی اعمال ضائع ہو سکتے ہیں۔
اللہ کا مقابلہ کرنا یہ ہے کہ کسی مسلمان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اللہ اسے معاف
نہیں کرے گا۔ جو اللہ کا مقابلہ کرتا ہے وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ کی رحمت اور بخشش
اپنے مسلمان بھائی کے شامل حال نہیں ہو سکتی۔ وہ اپنے بھائی کا گناہ اور اس کی کوتاہی
کو بہت سنگین سمجھتا ہے اور گویا کہ اللہ کی رحمت کا اکیلا امیدوار بن جاتا ہے۔ سیدنا
جندب بن عبد اللہ بجلیt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا: ایک شخص کہتا تھا:
[واللہِ لا یغفر
اللہُ لفلان، وإن اللہ تعالی قال: ومَنْ ذا الذی یتألَّی علیَّ ألا أغفر لفلان؟
فإنی قد غفرتُ لفلان وأحبطتُ عملَہ۔]
’’اللہ کی قسم! اللہ
فلاں کو معاف نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کون ہے جو میرے بارے میں یہ کہتا
ہے کہ میں فلاں کو معاف نہیں کروں گا؟ میں نے اس شخص کو معاف کر دیا اور کہنے والے
کی نیکیاں ضائع کر دیں۔‘‘ (مسلم)
حدیث میں یتألیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے مراد قسم کھا
کر اللہ کے بارے میں کچھ بتانا ہے۔
اللہ کے بندو! جو شخص خود کو نیک اور راست باز سمجھتا ہو، اسے
کوتاہی کرنے والوں اور گناہ گاروں کو حقیر اور بے قیمت سمجھنے سے بچنا چاہیے، انہیں
حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ بلکہ خود کو بھی رضا مندی اور پسندیدگی کی نگاہ
سے نہیں دیکھنا چاہیے، کیونکہ یہ بھی ہلاکت کا ایک عظیم راستہ ہے۔ ہم اللہ سے عافیت
کا سوال کرتے ہیں۔ اے خلوص رکھنے والے! لوگوں کے دل جیتو! ان کی غلطیاں ریکارڈ نہ کرو۔
اے مسلمانو! اللہ میری اور آپ کی حفاظت فرمائے! نیکیاں ضائع
کرنے والا ایک اور کام ریا کاری ہے۔ حدیث قدسی میں آتا ہے:
[أنا أغنی الشرکاء
عن الشرک، مَنْ عَمِلَ عملًا أشرَک معی فیہ غیری ترکتُہ وشِرْکَہ۔] (رواہ مسلم)
’’میں سب سے بڑھ
کر شرک سے بے نیاز ہوں۔ جو کسی عمل میں میرے ساتھ کسی اور کو شریک کرتا ہے، میں اسے
اور شرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘
اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! بچ کر رہو، لوگوں کی تعریف کو اپنا
مقصد بنانے سے بچو۔ ایک شخص رسول اللہe کے
پاس آیا اور اس نے کہا: اس شخص کے بارے میں بتائیے جس کا مقصد اجر بھی ہو اور لوگوں
کی تعریف بھی۔ اسے کیا ملے گا؟ آپe نے فرمایا: اسے کچھ نہیں ملے گا۔ اس شخص نے یہ سوال
تین مرتبہ کیا۔ مگر رسول اللہe نے
یہی فرمایا: اسے کچھ نہیں ملے گا۔ پھر آپe نے فرمایا: اللہ تعالیٰ صرف اسی عمل کو قبول کرتا ہے
جو اخلاص کے ساتھ کیا جائے اور جس کا مقصد اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہو۔‘‘ (ابو داؤد)
جس کی نیکی کا مقصد لوگوں کی تعریف کمانا ہو، اس کی نیکی بے
فائدہ اور باطل ہے اور اسے اس کا اُس دن کوئی اجر نہیں ملے گا، جس دن راز کھل جائیں
گے، نیتیں واضح ہو جائیں اور ریا کاری کرنے والے رسوا ہو جائیں گے۔ اس دور میں لوگ
نئے آلات سے آزمائے جا رہے ہیں۔ بعض لوگ ان کے ذریعے اپنی نیکیوں کی تشہیر کرتے ہیں۔
بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بھائیوں کے لیے کتنی دعائیں کیں اور کتنے نیک اعمال کیے۔
حالانکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں دعا کی جائے۔ تو بچ
کر رہیے اور چوکنے رہیے۔ اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے۔
اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں ایسے شرک سے جسے ہم جانتے
ہوں، جو شرک لا علمی میں ہم سے ہو گیا ہے، اس کے لیے ہم معافی چاہتے ہیں۔
اللہ کے بندے! اسی طرح تنہائی میں حرام کام کرتے رہنے سے بھی
نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ سیدنا ثوبانt سے
روایت ہے کہ آپe نے
فرمایا:
[لَاَعْلَمَنَّ أقوامًا
من أمتی یأتون یوم القیامۃ بحسنات أمثال جبال تہامۃ بیضاء، فیجعلہا اللہ ہباء ً
منثورًا، قال ثوبانُ یا رسول اللہ، صِفْہُم لنا، جَلِّہم لنا؛ ألَّا نکون منہم ونحن
لا نعلم۔ قال: أمَا إنہم إخوانُکم ومن جِلْدَتِکم، ویأخذون من اللیل کما تأخذون،
ولکنہم أقوام إذا خَلَوْا بمحارم اللہ انتہکوہا۔] (ابن ماجہ، والبیہقی)
’’میں اپنی امت کے
ایسے لوگوں کو پہچان لوں گا، جو قیامت کے دن تہامہ پہاڑجتنی سفید چمکدار نیکیاں لے
کر آئیں گے، مگر اللہ تعالیٰ ان نیکیوں کو غبار کی طرح اڑا دے گا۔ سیدنا ثوبانt نے
کہا: اے اللہ کے رسول! ان کی صفت ہمیں بتائیے، ان کی علامتیں ہمارے لیے واضح کیجیے۔
ایسا نہ ہو کہ ہم بھی ان ہی میں سے ہوں اور ہمیں معلوم بھی نہ ہو۔ آپe نے
فرمایا: وہ تمہارے ہی بھائی ہوں گے، آپ ہی کی نسل میں سے ہوں گے، جس طرح تم تہجد پڑھتے
ہو، ویسے وہ بھی تہجد پڑھتے ہوں گے، مگر وہ لوگ تنہائی میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں
سے نہ رکتے ہوں گے۔‘‘ (ابن ماجہ)
یہ بچارے لوگوں سے ڈرتے رہے اور اللہ سے نہ ڈرے، اس طرح انہوں
نے اللہ کو لوگوں سے بھی کم حیثیت دی۔ حالانکہ وہ تو راز اور راز سے بھی زیادہ چھپی
باتوں کو جانتا ہے۔ ہمارے دور کی تنہائیاں کتنی زیادہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ
رکھے۔ رابطے کے ذرائع، نیٹ ورکس اور سکرینز۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے ساتھ انسان اپنے
ساتھیوں میں بیٹھے ہی تنہائی میں چلا جاتا ہے۔ اللہ کی اس آیت کو پڑھو:
{یَسْتَخْفُونَ مِنَ
النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُونَ مِنَ اللّٰہِ وَہُوَ مَعَہُمْ اِذْ یُبَیِّتُونَ مَا
لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطًا٭}
’’یہ لو گ انسانوں
سے اپنی حرکات چھپا سکتے ہیں مگر خدا سے نہیں چھپا سکتے وہ تواُس وقت بھی اُن کے ساتھ
ہوتا ہے جب یہ راتوں کو چھپ کر اُس کی مرضی کے خلاف مشورے کرتے ہیں اِن کے سارے اعمال
پر اللہ محیط ہے۔‘‘ (النِّسَائِ: ۱۰۸)
حافظ ابن قیّمe فرماتے
ہیں:
[أجمَع العارفون
أن ذنوب الخلوات ہی أصل الانتکاسات، وأن طاعۃ السر ہی أصل الثبات۔]
’’علم رکھنے والے
اس بات پر متفق ہیں کہ تنہائی کے گنا ہ رسوائی کی بنیاد ہیں، جبکہ تنہائی کی نیکیاں
ثابت قدمی کی بنیاد ہیں۔‘‘
اللہ کے بندو! سیدہ عائشہr نے رسول اللہe سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تھا:
{وَالَّذِینَ یُؤْتُونَ
مَآ اٰتَوْا وَقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰی رَبِّہِمْ رَاجِعُونَ٭} (الْمُؤْمِنَونَ:
۶۰)
’’جن کا حال یہ ہے
کہ دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اور دل اُن کے اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں
اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔‘‘
کیا اس سے مراد
وہ لوگ ہیں جو شراب نوشی اور چوری کرتے ہیں؟ آپe نے فرمایا:
[لا یا ابنۃَ الصِّدِّیقِ،
ولکنہم الذین یصومون ویُصَلُّونَ ویتصدَّقون وہم یخافون ألَّا یُتَقَبَّلَ منہم۔]
نہیں! اے صدیق کی بیٹی! بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نمازیں
پڑھتے ہیں اور صدقے دیتے ہیں پھر بھی ڈرتے رہتے کہ ان سے یہ ساری عبادتیں قبول نہ ہوں!
تو نیکیوں میں مقابلہ کرو۔ اچھے کاموں میں ایک دوسرے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ (مسند
احمد، ترمذی اور حاکم)
فرماتے ہیں: اس کی سند صحیح ہے۔ امام ذہبی نے بھی ان کی تائید
کی ہے۔
تو اللہ کے بندے! خیال رکھنا! کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن
تم اللہ کے سامنے پہاڑوں جتنی نیکیاں لے کر پہنچو، مگر ان کا تجھے کوئی فائدہ نہ ہو،
کیونکہ تم نے کوتاہی برتی ہو اور توجہ نہ دی ہو۔ کوتاہی اور بے توجہی میں تم ایسے کاموں
میں لگ گئے جو اجر وثواب ضائع کرنے والے ہیں۔ پھر کیسے بچو گے؟ اس وعید کو یاد رکھ:
{اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ
وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ٭}
’’کہیں ایسا نہ ہو
کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘ (الْحُجُرَاتِ: ۲)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد! اللہ کے بندو! قطع رحمی بھی نیکیاں برباد
کرنے والا کام ہے۔ حسن درجے کی حدیث میں ہے: ہر جمعرات اور جمعے کی درمیانی رات میں
اللہ کے سامنے لوگوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قطع رحمی کرنے والے کی نیکیاں
قبول نہیں کرتا۔ قطع رحمی کرنے والا لعنت کا مستحق ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا
ہے:
{فَہَلْ عَسَیْتُمْ
اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوا اَرْحَامَکُمْ اُولَئِکَ
الَّذِینَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمَی اَبْصَارَہُمْ٭}
’’اب کیا تم لوگوں
سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں
پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ
نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنا دیا۔‘‘ (محمد: ۲۲-۲۳)
سیدنا جُبیر بن مطعمt کی حدیث میں ہے:
[لا یَدْخُل الجنۃَ
قاطعُ رحمٍ۔]
’’قطع رحمی کرنے
والا جنت میں نہیں جائے گا ۔‘‘
سیدنا ابن مسعودt صبح
کے درس میں بیٹھے تھے تو کہنے لگے:
[اُنْشِدُ اللہَ
قاطعَ الرحمَ لَمَا قام عنا؛ فإننا نرید أن ندعو ربنا، وإن أبواب السماء مرتَجَّۃ؛
أ: مغلقۃ! دون قاطع الرحم۔]
’’اللہ کا واسطہ
ہے کہ قطع رحمی کرنے والا اُٹھ جائے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے ہیں اور قطع رحمی
کرنے والے کے لیے آسمان کے دروازے بند ہوتے ہیں۔‘‘
پیارے بھائیو! لوگوں کے حقوق کھانا ان پر قول وفعل سے ظلم کرنا
بھی نیکیاں ضائع کرنے والا اور ہلاکت خیز کام ہے۔ اس حوالے سے آنے والی وہ وعید ہی
کافی ہے جو حدیثِ مفلس میں آئی ہے۔ جو قیامت کے دن آئے گا اور اس نے کسی کو گالی دی
ہو گی، کسی کی عزت پر حملہ کیا ہو گا، کسی کا مال کھایا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو
گا، کسی کو مارا ہو گا۔ اِس کو بھی اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی، اُس کو بھی اس کی
نیکیاں دے دی جائیں گی، اگر نیکیاں ختم ہو گئیں اور حقوق پورے نہ ہوئے تو دوسروں کی
برائیاں اس کے سر ڈال کر اسے آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ (اسے مسلم نے سیدنا ابو ہریرہt سے
روایت کیا ہے)
روز قیامت لوگوں کے درمیان لین دین درہم یا دینار سے نہیں ہو
گا، بلکہ نیکیوں اور گناہوں سے ہو گا۔ جس نے کسی پر ظلم کیا ہے، وہ آج ہی اس کا ازالہ
کر لے، کیونکہ بعد میں درہم اور دینار نہ بچیں گے۔
سنو! اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو۔ یاد رکھو کہ نیکیاں ضائع کرنے
والی چیزیں بہت سی ہیں۔ ان سے بچنا چاہیے۔ ان کے معاملے میں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔
بدعت سے بھی نیکیاں ضائع ہوتی ہیں اور اجر ختم ہو جاتا ہے۔
جو ہمارے دین میں کسی ایسی چیز کا اضافہ کرتا ہے جو اس کا حصہ
نہیں ہے، تو وہ چیز اسی پر مردود ہے۔ جو کوئی ایسا عمل کرتا ہے جو ہمارے طریقے کے مطابق
نہ ہو وہ اسی پر مردود ہے۔ جو جھوٹ بولنا، اس پر عمل کرنا اور فضول گوئی نہیں چھوڑتا،
تو اللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں ہیکہ وہ اسے کھانے اور پینے سے روکے رکھے، جو عصر
کی نماز چھوڑ دیتا ہے اس کی نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔ جو شراب پیتا ہے اس کی چالیس
دنوں کی نماز ضائع ہو جاتی ہے۔ جو دنیا کی شراب پی لیتا ہے وہ آخرت کی شراب کبھی نہیں
پی سکتا، الاّ یہ کہ وہ توبہ کر لے۔ شراب نوشی کا عادی جنت میں نہیں جائے گا۔ جو کسی
کتے کو پالتا ہے، الاّ یہ کہ وہ کتّا چوپایوں کی حفاظت کے لیے ہو، یا شکار کے لیے ہو،
یا کھیتی باڑی میں کام دینے والا کتا ہو، تو روزانہ اس کے عمل میں سے ایک قیراط اجر
ضائع ہوتا رہتا ہے۔
اے اللہ! مسلمانوں کے احوال درست فرما! اے اللہ! مسلمانوں کے
احوال درست فرما! اے اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کے احوال درست فرما! اے اللہ! ان کی جانوں
کی حفاظت فرما! انہیں حق، ہدایت اور سنت پر اکٹھا فرما! انہیں اپنے اور ان کے دشمنوں
پر نصرت عطا فرما! نیک لوگوں کو ان کا حکمران بنا! انہیں برے لوگوں کے شر سے محفوظ
فرما! ان کے علاقوں میں امن، عدل اور سلامتی عام فرما! اے اللہ! انہیں برائیوں اور
ظاہر وپوشیدہ فتنوں سے محفوظ فرما۔
No comments:
Post a Comment