مرزا قادیانی ... اپنی تالیفات کے آئینہ میں
(دوسری قسط) تحریر: جناب ڈاکٹر سعید احمد چنیوٹی
مرزا
کا لٹریچر تین لفظوں میں:
Ý مولانا ندویa لکھتے ہیں:
’’مرزا قادیانی کے وسیع وعریض لٹریچر میں عمل
وسعی کے تقاضوں کا کوئی جواب مذکور نہیں۔ اس میں جو کچھ ہے اس کو ان تین لفظوں میں
یوں بیان کیا جا سکتا ہے: 1 دعاوی 2
پیش گوئیاں اور 3 ان کو حق بجانب ثابت کرنے کی
ناکام کوشش اور بس۔‘‘ (مرزائیت نئے زاویوں سے: ۱۳۶)
Þ ہندوستان کی نامور علمی شخصیت سر سید احمد
خان فرماتے ہیں:
’’ان کی (مرزا قادیانی) کی تصانیف میں نے دیکھیں‘
وہ اس قسم کی ہیں جیسا کہ ان کا الہام۔ یعنی دین کے کام کی نہ دنیا کے کام کی۔‘‘ (تاریخ
محاسبہ قادیانیت: از پروفیسر خالد شبیر: ۱۴۷)
ß علامہ اقبال a ان کی تالیفات کا خلاصہ اس
طرح بیان کرتے ہیں:
گفت
دیں را رونق از محکومی است
زندگانی
از خودی محرومی است
(مثنوی چہ باید کرد: ص ۷۸۰)
وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگ حشیش
جس نبوت میں نہیں قوت وشوکت کا پیام
(ضرب کلیم: ۵۱۸)
فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلمان کو سلاطین کا پرستار کرے
(ضرب کلیم: ۵۲۱)
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
(ضرب کلیم: ۴۹۸)
à تصانیف
مرزا پر مولانا محمد حنیف ندویa کا جامع تبصرہ:
’’مرزا کی کتابوں میں اتنا الجھاؤ‘ تکرار اور
ذوق صحیح سے محرومی وتہی دستی کا مظاہرہ ہے کہ کوئی شخص بھی انہیں بالاستیعاب نہیں
پڑھ سکتا۔ بلکہ خود ذوق صحیح کی پہچان ایک طرح سے یہ ہے کہ پڑھا لکھا آدمی اس معاملہ
میں سپر ڈال دے اور اپنے عجز کا پوری طرح اعتراف کرے‘ یعنی سوائے ایک طرح کے مراق اور
بد ذوق کے یہ ناممکن ہے کہ ان کی کتابوں سے شغف پیدا ہو سکے۔ میرا اپنا یہ حال ہے کہ
بارہا ان کی کتابیں پڑھنے کا عزم کیا‘ بظاہر کتاب ہاتھ میں اٹھا بھی لی لیکن چند ہی
صفحے پڑھنے کے بعد دیکھا کہ دل ودماغ بغاوت پر آمادہ ہیں‘ ناچار ہمت ہار دی اور کتاب
رکھ دی‘ صرف ایک دلچسپی البتہ ان میں ایسی ہے جو مطالعہ پر کبھی کبھی اکساتی ہے اور
وہ ہے ان کا روایتی تضاد اور بے تکا پن‘ ایک صفحے میں بسا اوقات یہ اتنی مختلف اور
متضاد باتیں کہیں گے کہ آپ کا محظوظ ہونا قطعی ہے۔ زیادہ پر لطف حصہ ان کی کتابوں کا
وہ ہوتا ہے جہاں پر اپنے منصب پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہاں دیکھنے کی چیز یہ ہوتی ہے کہ
یہ ایک دم کتنا اونچا اٹھتے ہیں اور پھر کس تیزی سے زمین پر آرہے ہیں۔ … طبیعت کا یہ
اتار چڑھاؤ پوری تحریرات میں چھایا ہوا ہے۔ جب نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ابن مریم
u کو بھی خاطر میں نہیں لاتے
بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر ’’منم محمد واحمد‘‘ تک کا نعرہ مستانہ مارتے ہیں
اور نہیں شرماتے۔ پھر جب اعتراضات سامنے آتے ہیں تو اپنا مقام اتنا گرا لیتے ہیں کہ
انہیں دائرہ اسلامیت میں رکھنا دشوار ہو جاتا ہے۔ جھوٹا اور سچا ہونا تو خیر ایک الگ
بحث ہے یہاں اصلی مصیبت یہ ہے کہ مرزا قادیانی اس چکر سے نہیں نکلے کہ یہ کہاں کھڑے
ہیں؟ ان کا دعویٰ کیا ہے؟ لوگ انہیں کیا سمجھیں اور کیا جانیں؟ ان کا کمال یہ ہے کہ
اس کے باوجود یہ تضاد اور تناقض کو بڑی حکمت سے باہم سمو دیتے ہیں۔ ان کے اسی تضاد
کی بناء پر لاہوری اور دیگر فرقوں نے جنم لیا۔‘‘
تالیفات
مرزا اور فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ:
برصغیر
میں قادیانیت کے خلاف سب سے زیادہ تالیفات حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریa
کی ہیں‘ رد قیادیانیت پر انہوں نے کسی بھی عنوان کو نظر انداز نہیں
کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے مرزا کی تصنیفی صلاحیت کو بھی زیر بحث لا کر مذکورہ عنوان
’’نا قابل مصنف‘‘ پر بھی رسالہ لکھا اور یہ کیوں ضرورت پیش آئی؟ مولانا کے الفاظ میں
ملاحظہ فرمائیے۔ مولانا امرتسریa لکھتے ہیں:
’’مرزا قادیانی سب سے پہلے بحیثیت مصنف نمودار
ہوئے پھر مجدد بنے پھر ترقی کر کے مسیح موعود بنے۔ ان سب ترقیوں کے ساتھ ساتھ فن تصنیف
میں بھی ترقی کرتے گئے یہاں تک کہ آپ کو الہام کے ذریعے سلطان القلم کا لقب ملا۔ (ریویو
قادیان اگست ۴۲ء)
ان کی مجددیت اور
مسیحیت کی تنقید پر علماء کرام نے بکثرت کتابیں لکھیں‘ ہماری طرف سے بھی کئی ایک کتابیں
شائع ہو چکی ہیں البتہ مرزا قادیانی کے فن تصنیف پر کسی مصنف نے توجہ نہ کی تھی حالانکہ
یہ مضمون ضروری تھا۔ اس کے متعلق میں نے دو رسالے شائع کیے ہیں: ایک ’’علم کلام مرزا‘‘
دوسرا ’’عجائبات مرزا‘‘۔ مرزا قادیانی کے متبعین کو جواب دینے کی جرأت نہ ہوئی۔ ہماری
تحقیق میں مرزا قادیانی کی تصنیفات براہین سے لے کر آخر تک سب کی سب علوم معقولہ کے
خلاف ہیں۔
ناظرین سے عموما
اور اتباع مرزا سے خصوصا درخواست ہے کہ وہ اس رسالہ کو دیکھنے سے پہلے مرزا قادیانی
کی عداوت یا محبت سے الگ ہو کر محض متکلمانہ حیثیت سے مطالعہ کریں‘ اگر میرے کسی تعاقب
میں غلطی پائیں تو از راہ کرم مجھے مطلع فرمائیں۔ میں شکریہ کے ساتھ قبول کروں گا۔
(خاکسار ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری (جون ۱۹۴۳ء … نا قابل مصنف
صفحہ ۲)
بعینہٖ
میری اس تحریر اور اس عنوان پر لکھنے کا ہدف بھی مرزا قادیانی کی شخصیت نہیں‘ نہ ہی
ان کو صدق وکذب کے معیار پر تولنا مقصود ہے۔ بلکہ قارئین سے گذارش ہے کہ وہ ان عبارات
کو پڑھ کر مولف کے بارے میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رائے قائم کریں۔ عقیدت اور
عداوت کے جذبات سے ہٹ کر ان عبارات اور تحریرات کا مؤلف کس مقام ومرتبہ کا انسان ہے۔
تالیف
وتصنیف کے میدان میں ان کا قلم‘ اخلاقیات‘ دعوت وارشاد کوئی لائحہ عمل مرتب کر سکا
نہ موجودہ تقاضوں کا کوئی حل تجویز کیا اور نہ ہی سیرت وعمل کا کوئی نمونہ پیش کیا۔
مرزا
قادیانی کا تالیفات میں دعویٰ اعجاز:
مرزا
قادیانی مجدد سے نبوت تک کا سفر طے کرنے سے قبل بحیثیت مصنف میدان عمل میں وارد ہوئے۔
براہین احمدیہ لکھنے سے پہلے اس کے فوائد کی طویل فہرست شائع کی۔ براہین احمدیہ کے
تعارف وتعریف میں اشتہارات چھپوائے گئے۔ انہیں اپنی تالیفات پر اس قدر ناز ہوا کہ فرمانے
لگے: مجھے الہام کے ذریعے ’’سلطان القلم‘‘ کا لقب عطا ہوا ہے۔
پھر
۲۲
فروری ۱۹۰۱ء کو رسالہ ’’اعجاز
المسیح‘‘ میں سورۂ فاتحہ کی تفسیر ملحدانہ انداز میں کرتے ہوئے اسے دعویٰ اعجاز کے
طور پر پیش کیا کہ اس طرح کی تالیف کوئی نہیں کر سکتا۔
حضرت
پیر مہر علی شاہ نے سیف چشتیائی میں نہ صرف ’’اعجاز المسیح‘‘ کی غلطیوں کے انبار کی
نشاندہی کی‘ بلکہ ساتھ یہ بھی بتایا کہ ’’سلطان القلم‘‘ مرزا قادیانی نے کس کس کتاب
سے یہ عبارتیں چرائی ہیں۔
حضرت
پیر صاحب کو اس تنقید کے انعام میں ’’بارگاہِ قادیان‘‘ سے حسب عادت یہ القاب بخشے گئے:
’’نادان‘ چور‘ کذاب‘ نجاست خور‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ غرض مرزا نے ’’نزول المسیح‘‘ کے بیس
صفحات ۶۲
تا ۸۱ صرف
حضرت پیر صاحب کے خلاف دریدہ دہنی کے لیے وقف کر دیئے۔
اسی
طرح رسالہ ’’کرامات الصادقین‘‘ کے متعلق مرزا کذاب نے اعلان کیا جو شخص اس میں سے غلطی
نکالے گا اسے فی غلطی پانچ روپیہ انعام دیا جائے گا۔
جس
پر بابو احمد دین کلرک محکمہ انکم ٹیکس سیالکوٹ نے اسے سرسری نظر سے دیکھا۔ ابتدائی
چند صفحات سے جھٹ پٹ گیارہ غلطیاں نکال کر مرزا کو لکھا اور انعام کا مطالبہ کیا۔ مرزا
قادیانی نے نہ صرف وعدہ انعام ایفاء کیا بلکہ چپ سادھ لی۔ (اخبار اہل حدیث امرتسر:
۲۵
اگست ۱۹۱۷ء)
مولانا
محمد حسین بٹالویa سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے
مرزا کی کتاب ’’دافع الوساوس‘‘ کا مطالعہ کیا اور اس سے چھیاسٹھ غلطیاں نکال کر شائع
کیں جو صاحب اس فہرست اغلاط کے دیکھنے کے شائق ہوں وہ رسالہ اشاعت السنۃ جلد ۱۵ صفحہ
۳۱۶-۳۲۱
کا مطالعہ کریں۔
۳۰ اکتوبر
کو موضع ’’مد‘‘ ضلع امرتسر میں شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسریa
کا مرزائی مناظر مسرور شاہ سے مناظرہ ہوا جس نے مرزا کی کتاب ’’اعجاز
المسیح‘‘ کو معجزہ کی حیثیت سے پیش کیا۔ شیخ الاسلام نے یہ ثابت کر کے اس کا ناطقہ
بند کر دیا کہ اس میں بے شمار اغلاط ومسروقات ہیں۔
تا
بہ اعجاز چہ رسد
احمدی اور لاہوری گروپ:
مرزا
قادیانی کے پیروکار ان کی تالیفات کی تضاد بیانیوں‘ پیچیدہ عبارتوں اور غیر موزوں الفاظ
کے استعمال کی وجہ سے الجھن کا شکار ہو گئے کہ مرزا نبی ہے یا مجدد۔ مسیح موعود ہے
یا مصلح؟ پھر اگر نبی ہے تو تشریعی‘ غیر تشریعی‘ ظلی‘ بروزی وغیرہ اور اسی بناء پر
دو واضح گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ احمدی اور لاہوری۔
احمدی
گروپ کا دعویٰ ہے کہ مرزا قادیانی نبی ہے جبکہ لاہوری گروپ ان کو نبی تسلیم نہیں کرتا
بلکہ مجدد مانتا ہے۔ دونوں گروہوں کے دعویٰ کی بنیاد مرزا کی تالیفات ہیں اور یہ بحث
بھی ایسی بے ڈھب کہ خود ان کی کتابوں سے دونوں طرح کی تائیدات مہیا ہو رہی ہیں۔ لاہوری
گروپ مرزا قادیانی کی تالیفات سے دلائل دیتا ہے کہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا‘
ان کا دعویٰ تو صرف یہ ہے کہ آنحضرتe کا امتی ہوں اور سوائے تجدید
کے اور کسی چیز کا مدعی نہیں۔ پوری تاریخ میں اس حقیقت کی مثال نہیں ملتی کہ ایک شخص
نے تو نبوت کا اونچا دعویٰ کیا اور اس کے ماننے والوں نے پوری دیانتداری سے اس سے کہیں
کم درجہ کا اہل سمجھا ہو۔ یعنی جوش عقیدت اور غلو میں انبیاء o
کو خدا کے جلال کا پیکر اور بیٹا تو کہا گیا لیکن کبھی ایسا نہیں
ہوا کہ خود ماننے والے اسے نبوت کی بلندیوں سے اتار لیں اور تجدید واصلاح کی مسند پر
بٹھا دیں۔ اسی طرح یہ خصوصیت صرف مرزا کی ہے کہ وہ ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا موقف بدل
لیں اور پھر اس سے رجوع کر لینا۔ متضاد کلام پھر اس کی تطبیق‘ اشارے کنائے تو پھر اس
کی توجیہات۔ یہ صرف تالیفات قادیانیہ کا خاصہ ہے۔ قادیانی لٹریچر میں یہ انداز آپ کو
جا بجا نظر آئے گا۔
مولانا
ندویa نے اس پر خوبصورت تبصرہ فرمایا:
’’سوال یہ ہے کہ جس شخص کے ذہن میں الجھاؤ ہو‘
جو خود اپنے منصب سے متعلق یقین کے ساتھ کوئی رائے نہ رکھتا ہو اور جو بیک وقت متضاد
دعاوی کی رٹ لگاتا ہو‘ کیا ایسا شخص ذہنوں میں کوئی سلجھاؤ پیدا کر سکتا ہے؟ کیا اس
کے ماننے سے دماغوں میں روشنی کی کوئی کرن آ سکتی ہے؟ چنانچہ مرزائی ذہنوں میں جو ایک
طرح کی پیچیدگی اور پریشانی آپ محسوس کرتے ہیں اور تناسب اور سلجھاؤ کا فقدان پاتے
ہیں تو یہ در حقیقت نتیجہ ہے اسی نمونے کا جس نے تربیت ہی ایسی پائی ہے۔ فکر ونظر کی
ٹیڑھ اور ژولیدگی سے اب ہر مرزائی پر اس کا اثر ہے کہ استواری کے ساتھ یہ کسی مسئلہ
پر غور ہی نہیں کرتے۔‘‘ (مرزائیت نئے زاویوں سے ص ۱۷۶)
No comments:
Post a Comment