Saturday, February 01, 2020

معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے اعمال 05-20


معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے اعمال

تحریر: جناب مولانا محمد سفیان
اس تحریر میں عام طور پر معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے چند امور کی نشاندہی مقصود ہے جو درج ذیل ہیں:
 ۱۔ ظلم وزیادتی:
اللہ کے رسولe نے فرمایا(حدیث ِقدسی ہے) اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:
’’اے میرے بندو! میں نے ظلم کواپنے اوپرحرام کرلیا ہے اورتمہارے درمیان بھی اسے حرام ٹھہرایاہے؛ لہٰذا ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہوسوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں؛لہٰذا مجھ سے ہدایت طلب کرو،میں تمہیں ہدایت دو ںگا۔اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں؛لہٰذامجھ سے ہی کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤںگا۔اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جسے میں پہناؤں؛لہٰذا مجھ سے ہی کپڑا مانگو میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم رات دن خطائیں کرتے ہواور میں ہی ہرقسم کے گناہوں کو بخشتا ہوں؛ لہٰذامجھ سے معافی مانگو‘ میں تمہیں بخش دوںگا۔اے میرے بندو! تم مجھے نقصان پہنچا سکتے ہو اور نہ نفع۔
اس کو پڑھیں:   سیدنا امیر معاویہ
اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے سب انس وجن تم میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کی طرح ہوجائیں تو اس سے میری سلطنت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے سب انس وجن تم میں سے سب سے زیادہ فاسق وفاجر شخص کی طرح ہوجائیں تو اس سے بھی میری سلطنت میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی ۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے سب انس وجن کسی چٹیل میدان میں جمع ہوکرمجھ سے مانگیں اور میں ہرشخص کی مانگ پوری کردوں تو اس سے میرے خزانوں میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی بجز اس کمی کے جو سمندر میں سوئی ڈبونے سے ہوتی ہے۔اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں شمار کرتا ہوںپھر تمہیں ان کاپورا پورا بدلہ دوںگا،تو جوشخص بھلائی کو پالے وہ اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور جو بھلائی کے سوا کسی اور چیز کو پالے تو وہ اپنے نفس ہی کو ملامت کرے۔‘‘ (صحیح مسلم)
اس حدیث ِقدسی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کو اپنے محبوب رسولe کی زبانِ نبوت سے انتہائی پیارے انداز میں خطاب فرماکر ہرکام میں محض اپنی ذات کی طرف رجوع کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔یعنی تمام انسانوں کو اپنی ہرقسم کی مرادیںاور فریادیں صرف اللہ تعالیٰ ہی سے کرنی چاہئیں۔اس لئے کہ وہی ہے جو ہماری تمام حاجات کا تنہاازالہ کرسکتا ہے اور جہاں سے ہم کبھی بھی خالی دامن لیکر واپس نہیں جاتے۔ وہی ہمارے تمام گناہوں کو معاف کرنے اور پھر انہیں نیکیوں میں بدلنے پر بھی قادر ہے۔ہم اسی کے رزق کے محتاج ہیںاور وہی ہمیں لباس بھی مہیاکرتا ہے۔اس کے سواباقی سب بے بس،لاچار اور اسی کی نظر ِکرم کے محتاج ہیں۔
اس کو پڑھیں:   نماز مومن کی معراج
 ۲۔ حرام خو ری:
اللہ کے رسولe نے فرمایا: ’’وہ جسم جنت میں داخل نہ ہوگا جوحرام سے پلا ہو۔‘‘ (رواہ أبو یعلیٰ والبزار والطبرانی)
اللہ کے رسولe نے فرمایا ہے: ’’ایک شخص بہت لمبا سفر کر کے (اورکثیر مال خرچ کرکے حج کیلئے جاتا ہے) اس کاجسم تھکاوٹ سے چوراور گردوغبار سے اٹاپڑاہے ، پھر وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر اللہ سے اے میرے رب! اے میرے ربکہہ کردعاکرتا ہے۔حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے ،اس کا پینا حرام کا ہے،اس کا لباس حرام کا ہے اور حرام کی غذا سے اس نے پرورش پائی ہے۔پس ایسے شخص کی دعا کہاں سے قبول ہوگی؟‘‘ (صحیح مسلم)
اللہ کے رسولe نے سُود کھانے والے پر، کھلانے والے پر، اس کولکھنے والے پراور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، ابوداؤد)
اللہ کے رسولe نے فرمایا: ’’میں نے (معراج کے موقع پر)دیکھا کہ ایک شخص جہنم کے اندر خون کی ایک نہر میں غوطے لگارہاہے اور اس کے کنارے پر بھی ایک آدمی کھڑا ہے جس کے ہاتھ میں پتھر ہیں،جب اندر والاآدمی باہر آنے کی کوشش کرتا ہے توباہر والااس کے چہرے پر پتھر مارکر اسے واپس اندرجانے پر مجبور کردیتا ہے اور وہ واپس اپنی جگہ پر پہنچ جاتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھ والے فرشتوں سے پوچھا کہ یہ نہروالاشخص کون ہے اور اسے اتنا سخت عذاب کیوں دیا جارہا ہے؟توفرشتوں نے بتلایا کہ یہ سُود کھانے والے لوگ ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس کو پڑھیں:   اسلام کا نظریۂ اجماع
اللہ کے رسولe نے فرمایا: ’’سُود کے ستر سے زائددرجے ہیں، ان میں سب سے ہلکے درجے کا گناہ اپنی سگی ماں سے زناکرنے کے برابر ہے۔‘‘ (ابن ِماجہ‘ صحیح)
ان احادیث میں ان لوگوں کیلئے انتہائی سخت وعیدیں ہیں کہ جو دولت کمانے کی دھن میںحلال وحرام کی تمیز کھو بیٹھتے ہیں۔ان کی کوئی عبادت اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل ِ قبول نہیں ہوتی۔ چاہے وہ کثیر سرمایہ لگاکراور سخت محنت جھیل کر حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کیلئے بھی جائیں تب بھی ان کی عبادت قبول نہیں ہوگی۔ اگر وہ اسی حالت میں مرجائیں تو ان پر جنت بھی حرام ہے۔ پھر سُودسے وابستہ لوگوںکاگناہ بھی آپ نے مطلع فرمالیا۔ ہاں! اگر وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی سچے دل سے توبہ کریں اور آئندہ حرام نہ کھانے کا پکا اور سچا عہد کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف کرنے پر قادر ہے۔
 ۳۔ منا فقا نہ خصلتیں:
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ
’’بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔‘‘ (اٰل عمران: ۱۴۵)
اللہ کے رسولe نے فرمایا: ’’چار باتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی انسان میں ایک ساتھ جمع ہوجائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ جس انسان میں ان میں سے ایک بھی خصلت پائی جائے وہ منافق کی خصلت ہے جب تک کہ اسے ترک نہ کر دے۔ 1 جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے، 2 جب بات کرے تو جھوٹ بولے، 3 جب (کسی سے)وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، 4 اور جب (کسی سے) جھگڑا ہو تو بد زبانی کرے۔‘‘ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
اس کو پڑھیں:   ولیمہ کی شرعی حیثیت
اس حدیث میں اللہ کے رسولe نے منافق کی چار علامات گنوائی ہیں۔ہمیں اپنی زندگی پر غور کرنا چاہیے کہ کہیں یہ صفات جو نہ صرف اللہ اور اس کے رسولe کی نظروں میں بری اور ناپسندیدہ ہیں ،بلکہ کسی عام معاشرے میں بھی انہیں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ پھر کہاں یہ کہ ہم اپنے آپ کومسلمان بھی کہیں اور اللہ اور اس کے رسولe کی نافرمانی بھی کریں۔اس لئے ان عادات ِبد سے خود بھی بچیں، اپنی اولاد کوبھی بچا ئیں اور اپنے معاشرے میں جس شخص کوبھی ان بری اور ناپسندیدہ باتوں میں مبتلا دیکھیں اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں۔ تبھی ہم ایک بہت ہی بہترین اور باعث ِتقلید معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
 ۴۔ مخالف جنس کی مشابہت اختیارکرنا:
سیدنا عباسw فرماتے ہیں کہ ’’اللہ کے رسولe نے لعنت فرمائی ہے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیارکرتی ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس حدیث پر غور کریں اور پھر اپنے آپ کو دیکھیں کہ ہم کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسولe کی لعنت کے موجب تونہیں بن رہے؟اس لئے کہ آج کے معاشرے میں تقریباًہرمعاملے میں عورتوںکا مرد کی مشابہت اختیار کرنااور مردوں کا عورتوں کی مشابہت اختیارکرنا عام ہوچکا ہے۔ لباس سے لیکر شکل وصورت تک ہر معاملے میں دونوں ایک دوسرے کے امتیازات کوتوڑنے میں مسلسل مصروفِ عمل ہیں۔آج کسی مرد کودورسے دیکھ کرپہنچاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ مرد ہے یا عورت ؟اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کوداڑھی جیسی جو نعمت عطاکی تھی، تاکہ کوئی انہیں زن ہونے کا طعنہ نہ دے سکے ۔مگر آج کے مرداگرچہ زبانی اب بھی اس طعنے کوپسندنہیں کرتے مگر عملی طور پر زن بننے میں کوئی قباحت بھی محسوس نہیں کرتے۔اب اگر کوئی ان کی ظاہری حالت دیکھ کر انہیں واقعی زن سمجھ اور کہہ بیٹھے تو اس میں کہنے والے کا کیا قصور؟اور پہلے عورتوں کے بال لمبے اورمردوں کے چھوٹے ہوتے تھے مگراب مردوں کے بال لمبے اور عورتوں کے چھوٹے ہوتے ہیں۔پہلے عورتیں چٹیا باندھتی تھیں اور مرد بال کھلے رکھتے تھے مگر اب مرد چٹیا باندھتے‘ پونی لگاتے اور عورتیں بال کھلے رکھتی ہیں۔ پہلے عورتیں کانوں میں بالیاں پہنتی تھیں اور اب مردوں نے بھی پہننا شروع کر دی ہیں۔ اس طرح کی اور بہت ساری مثالیں ہیں جو ہمارے معاشرے میں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ ایسے ہی مردوں اور عورتوںکو اللہ کے نبیe نے مخنث (ہیجڑا) قرار دیا ہے اور فرمایا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔ خود اللہ کے نبیe نے ایک مخنث کو اپنے گھر سے نکال دیا تھا اور آپ کی اتباع میں سیدنا فاروقِ اعظمt نے بھی یہی کام انجام دیا تھا۔لہٰذا ہمیں بھی اللہ کے رسولe کی اس سنت ِمبارکہ پر ضرورعمل کرنا چاہیے۔ (صحیح بخاری، ابوداؤد)
اس کو پڑھیں:   حُجیت حدیث مصطفی ﷺ
۵۔ عر یا نیت وفحا شی :
اللہ کے رسولe نے فرمایا: ’’کتنی ہی عورتیں ایسی ہیں جو دنیا میں تولباس پہنے ہوئے ہوتی ہیں مگرآخرت میں برہنہ ہوں گی۔‘‘ (صحیح بخاری)
اللہ کے رسولe نے فرمایا: ’’وہ عورتیں جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوتی ہیں،مردوں کی طرف مائل ہو جانے والی اور انکو اپنی طرف مائل کرنے والی ہوتی ہیں۔وہ جنت میں ہرگز داخل نہ ہوںگی اور نہ ہی اس کی خوشبو پا سکیں گی ، حالانکہ اس کی خوشبو تو پانچ سو برس کی مسافت سے آرہی ہو گی۔‘‘ (مؤطا وصحیح مسلم)
آج اگرہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو یقینا معلوم ہوگا کہ آج ہمارے اندر جدید تہذیب اور فیشن کے نام پربے حیائی اورفحاشی و عریانیت کا ایک بہت بڑاسیلاب اُمڈ آیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ’’ڈھانپ کربھی بدن برہنہ ہیں‘ اب لباسوں میں بے لباسی ہے۔‘‘ وہ عورتیں جو باریک ، تنگ‘ چست اور مختصرلباس پہننے کی شوقین ہیںاور مغربیت کواپنی زندگی کا لازمی جزء قرار دیتی ہیں ،تو انہیں مذکورہ بالا آحادیث کے ذریعے اپنے انجام سے واقف ہوجاناچاہیے۔
 ۶۔ قطع رحمی:
اللہ کے رسولe کافرمان ہے: ’’قطع رحمی کرنے والا(رشتے ناطوںکوتوڑنے والا) جنت میں داخل نہ ہو گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
اللہ کے رسولe کافرمان ہے: ’’رحم (صلہ رحمی) اللہ کے عرش کے ساتھ معلق ہے،جس نے اسے ملایا اللہ اسے ملادے گااور جس نے اسے توڑا اللہ اسے توڑدے گا‘‘۔ (صحیح مسلم)
اس کو پڑھیں:   سیدنا امیر معاویہ  
قطع رحمی کا مطلب رشتہ داروں سے براسلوک کرنا اوران سے تعلقات کوتوڑدینا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ا س کوجوڑنے کا حکم دیاہے ،پس جواسے جوڑے گایعنی قرابت داروں سے اچھا سلوک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت کے ساتھ جوڑدے گا۔ جواسے توڑنے کی کوشش کرے گااللہ تعالیٰ اسے دنیا میں بھی تنہا چھوڑدے گا اور آخر ت میں بھی جنت کے دروازے اس پر بند ہوںگے۔اس لئے ہمیں رشتہ داروں کوناراض کرنے سے باز رہنا چاہئے اور ان کی جائز ضروریات کاہردم خیال رکھنا چاہیے۔
 ۷۔ پڑوسی کوتنگ کرنا:
اللہ کے رسولe نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پرایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑاسی کو تکلیف نہ دے۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
اللہ کے رسولe نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں،اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں،اللہ کی قسم! وہ مومن نہیں، صحابہ] نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کون؟ فرمایا: جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی تنگ ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
اس لیے ہمیں اپنی پڑوسیوں سے ہمیشہ اچھا سلوک روا رکھنا چاہیے۔
۸۔ تجارت میں غلط بیانی کرنا:
اللہ کے رسولe کافرمان ہے: ’’تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے (قیامت کے دن)اللہ نہ توبات کرے گا، نہ انہیں نظر ِرحمت سے دیکھے گا،بلکہ ان کو درد ناک عذاب دیا جائے گا۔سیدنا ابو ذرt نے فرمایا کہ ایسے لوگ تو پھر ہلاک وبرباد ہوگئے،آخر وہ ہیں کون لوگ ؟ فرمایا: 1 اپنے لباس کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، 2صدقہ کرکے احسان جتلانے والا 3 اورجھوٹی قسم کھاکر اپنا مال بیچنے والا۔‘‘ (صحیح مسلم)
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کودھوکادینے سے باز نہیں آتے۔ اپنے چند دنیاوی روپے بچانے کی خاطر اپنی آخرت داؤ پرلگادیتے ہیں۔ اپنے کاروبار کو وسعت دینے اورزیادہ سے زیادہ مال کمانے کیلئے مسلسل جھوٹ اور فریب کا سہارالیتے ہیں۔وہ دیکھیںکہ ان کیلئے اس حدیث ِمبارکہ میں کس قدر سخت عذاب کی وعید ہے۔ حالانکہ قیامت کے دن تو تمام انبیاء علیہم السلام بھی اللہ تعالیٰ کی نظر ِرحمت کے بے حد محتاج ہوںگے۔اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی بھی جنت میں نہیں جاسکتا ،حتیٰ کے اللہ کے آخری پیغمبرe بھی۔(صحیح مسلم، مسند ِاحمد)
پھر کہاں کوئی عام ساشخص اللہ کی نظر ِرحمت کے حصول سے بے پروا ہوجائے اور محض اپنی دنیا میں ہی مگن رہے اوراسے اپنی عاقبت کاکچھ خیال نہ ہو؟؟کیا ہم محض دنیا پرستی میںمگن ہوکراپنے رب سے ملاقات کواس حدتک بھول بیٹھے ہیں کہ ہمیں اپنے برے انجام کی فکربھی نہیں رہی؟؟
اس کو پڑھیں:   اسلام کا نظریۂ اجماع
 ۹۔ قو م پرستی ا ورعصبیت:
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
’’اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیںایک مرد اور ایک عورت سے پیداکیا ہے اورپھر تمہیں قوموں اور قبیلوں میں بانٹ دیا،تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچان سکو (اور یادرکھو کہ) یقینا اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ اللہ کے قریب تر وہ ہے جو پرہیز گاری میں سب سے زیادہ ہے۔‘‘ (الحجرات: ۱۳)
اللہ کے رسولe کافرمان ہے: اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور آباء واجدادکافخرہٹادیا ہے۔لوگ صرف دوطرح کے ہیں: 1 مومن اور پرہیز گار 2یافاجر اوربدبخت۔پس تمام لوگ آدم کی اولاد میں سے ہیںاور آدم کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیداکیا ہے۔ (ترمذی)
اللہ کے رسولe نے فرمایا: جوشخص عصبیت کے جھنڈے تلے آتا ہے،عصبیت کی طرف لوگوںکوبلاتا ہے،اور عصبیت پرکسی کی مددکرتا ہوا مر جاتاہے تو ایسا شخص جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(یعنی بغیر اسلام کی حالت میں مرتا ہے۔) (صحیح مسلم)
اس کو پڑھیں: 
کتنی بڑی دوغلی پالیسی ہے کہ آج کے دور کو ہم ترقی یافتہ اورجدیددورکہتے نہیں تھکتے،مگرکام سارے وہ کرتے ہیں جواسلام کے آنے سے پہلے کے تھے۔یہ عصبیت لوگوں کااپنے آباء واجدادکی نسبت پر فخرکرنا،اپنے مال ودولت پرنازکرنااوراپنی قوم اور قبیلے کی ناجائز اوربے جاحمایت کرنا۔ اس کی جدیدشکل آج یہ بھی ہے کہ لوگ اپنی جماعتوںاور تنظیموں کی ہرجائزوناجائز بات کوتسلیم کرتے اوران کیلئے لڑتے ہیں‘ اگر اسی حالت میں بغیرتوبہ کئے ہوئے وہ مرجاتے ہیں تو ان کی موت اسلام سے قبل کی جاہلیت کی موت کی طرح ہے،گویاانہوں نے اسلام کوپایا ہی نہیں۔اسلام ہرقسم کی عصبیت سے بالاتر ایک انتہائی پرامن اور عدل وانصاف پرمبنی مذہب ہے۔اس کا کسی بھی قسم کی عصبیت اور ناانصافی سے کسی بھی قسم کاتعلق نہیں۔ جولوگ اسلام کے آجانے کے بعد بھی قومی ،علاقائی یالسانی وغیرہ کی عصبیت میں مبتلا ہیں اور بغیرتوبہ کئے اسی پرمرجاتے ہیں تو ایسے لوگ اسلام سے ہٹ کرجاہلیت کی موت مرتے ہیں۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)