Saturday, February 01, 2020

گانا سننے کی سنگینی‘ سزا اور نقصانات 05-20


گانا سننے کی سنگینی‘ سزا اور نقصانات

تحریر: جناب مولانا محمد طیب محمدی
اللہ تعالیٰ نے زنا اور بے حیائی سے اس انداز میں منع کیا ہے کہ بے حیائی کی طرف آنے والے تمام راستے بھی ممنوع قرار دے دیے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً١ؕ وَ سَآءَ سَبِيْلًا۰۰۳۲﴾ [الاسراء : ۳۲]
”تم زنا کاری کے نزدیک مت جاؤ کیونکہ وہ بڑی بے حیائی اوربہت ہی بری راہ ہے۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ زنا کے قریب نہ جاؤ۔ اس سے بے حیائی کے سب راستے بند کردیے ہیں، پھر فرمایا کہ فواحش یعنی بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ :
﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ﴾ [الانعام : ۱۵۱]
اس فرمان سے بے حیائی کی طرف آنے والے تمام راستے ہی بند ہوگئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ”اور بےحیائیوں کے قریب نہ جاؤ، جو ان میں سے ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں۔“ قریب نہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی طرف آنے والے کسی راستے پر بھی نہ چلو۔
یوں یہ دو حکم ﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى﴾ اور ﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ﴾ دے کر اللہ تعالیٰ نے بے حیائی کا دور سے ہی راستہ بند کردیا ہے۔
لیکن جب سے انٹرنیٹ عام ہوا ہے تب سے ہر دوسرا شخص کانوں میں ہینڈ فری لگا کر گانے سننے میں مگن ہے ، شہر،بازار،گلی کوچے میں ہر کوئی گانے سننے میں مشغول ہے ، کیا مرد! کیا عورت! کیا بچّہ! کیا بوڑھا! گھر ہو یا ہوٹل، شادی ہو یا دعوت، کار، ٹرک، بس کا سفر ہو یا ہوائی جہاز کا، اسکول ہو یا کالج، فیکٹری ہو یا حَجّام کی دُکان، پان کا کَیبن ہو یا کوئی گودام! مُوسِیقی کی دُھنیں (Tunes) جگہ جگہ سُنی جاتی ہیں۔ موبائل، آئی پیڈ، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ مُوسِیقی کے اِسٹوریج (گودام) بنے ہوئے ہیں۔
بڑے بڑے شادی ہال، کلب،بازار، انٹرنیشنل ہوٹل اور دیگر اہم مقامات ا ن بیہودہ کاموں کے لئے بک کر دیئے جاتے ہیں جس کے لئے بھاری معاوضے ادا کئے جاتے اور شو کے لئے خصوصی ٹکٹ جاری ہوتے ہیں۔ چست اور باریک لباس، میک اَپ سے آراستہ لڑکیاں مجرے کرتی ہیں جسے ثقافت اور کلچر کا نام دیا جاتا ہے۔عاشقانہ اَشعار، ڈانس میں مہارت، جسم کی تھرتھراہٹ اور آوازکی گڑگڑاہٹ میں ڈھول باجوں اور موسیقی کی دھن میں کمال دکھانے والوں اور کمال دکھانے والیوں،جنسی جذبات کو اُبھارنے والوں کو خصوصی ایوارڈز سے نوازا جاتاہے۔
اندرون وبیرونِ ملک طائفوں کی شکل میں پروگرام سارا سال جاری رہتے ہیں۔ انہیں ثقافت کی ترویج کے نام پر خصوصی مراعات دی جاتی ہیں۔ شادی بیاہ اور سالگرہ کے موقعوں پرمخصوص وضع قطع کے لباس کے ساتھ رقص و سرود کی محفلیں جمتی ہیں۔ عورتیں‘ لڑکیاں، غیرمردوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ناچ اور تالی کی گونج میں خوب داد وصول کرتی ہیں۔اسی طرح ہر قسم کے فحش جنسی ناولوں اور ڈائجسٹوں کی بھرمار ہے۔ شہروں کے چوراہوں،بازاروں، سینما گھروں پر دیوہیکل عریاں عورتوں کی تصاویر آویزاں ہیں،فحش ناولوں کی بک ڈپوؤں پر بہتات ہے۔ ٹی وی، کیبل گھرگھرآچکاہے، پراگندہ گانوں کے پروگرام جاری اور ویڈیو سنٹر زپر ہر قسم کی فلمیں دستیاب ہیں۔ رہی سہی کسر ڈش انٹینا اور انٹرنیٹ نے نکال دی ہے جس سے نوجوان پود کو فحاشی اوربے راہروی کا عادی بنایا جارہا ہے ۔گلی گلی محلے محلے میں ویڈیو کے ہوشربا کاروبار کے ساتھ ساتھ اب انٹر نیٹ کیفے کے نام سے فحاشی وعریانی دھڑا دھڑ عوام میں پھیلائی جارہی ہے۔
ناچنے، گانے والے میراثی اور بھانڈ اب گلوکار، اداکار، موسیقار اور فنکار کہلاتے اورفلمی سٹار، فلمی ہیرو جیسے دل فریب مہذب ناموں سے یاد کئے جاتے ہیں۔مردوزَن کی مخلوط محفلوں کا انعقاد عروج پر ہے۔
دوسری طرف دین کے تاجر بڑی بڑی زلفوں، مونچھوں والے، داڑھی سے عاری، ڈرؤانی شکل وصورت میں نشے سے دھت قوال اور گویے مخصوص انداز اور تالیوں، چمٹوں کے شور میں جگہ جگہ محفلیں جمائے ہوئے ہیں۔قبروں، مزاروں، خانقاہوں پر ٹولیوں کی شکل میں بھیک کے کشکول اٹھائے ہوئے، ڈھول کی تھاپ پر باجوں گاجوں پر رقص وسرود کے ساتھ حاضری دیتے ہیں۔ زبانوں سے نازیبا اور گستاخانہ کلمات نکالتے ہیں۔ ربِّ ذوالجلال، حضر ت محمدe، علیtحسن t وحسینt اور فاطمہ زہرا t اور دیگر اولیاء اللہ کے نام لے کر چیختے اور دھمالیں ڈالتے اور جو جی میں آئے گاتے ہیں ۔مثال کے طور پر ’’عصمت ِکعبہ کو ٹھکرانے کا موسم آگیا ۔‘‘ میں کیا جانوں رام ، تم ایک گورکھ دھندہ، سو میں شرابی شرابی! (نعوذ باللہّٰ) اس پر طرہ یہ کہ نعت ِرسولe اور اسلامی ترانوں کو بھی میوزک او ر نسوانی آوازوں کے ساتھ مزین کرنے کا کام زوروں پر ہے۔ اگر کسی کو سمجھایا جائے تو بعض اَوقات عقل سے پَیدل جواب ملتا ہے کہ مُوسِیقی تو رُوح کی غذا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے گانوں کے بارے میں قرآن و حدیث کی تعلیم کیا ہے؟ صحابہ کرامy اور اکابرین اُمت کی رائے کیا ہے؟ ان کا نقصان کیا ہے؟کیا ایسی مجالس ومحافل میں شرکت جائز ہے؟ گانا بجانا کن لوگوں کا مشغلہ ہے ؟کیا گانے باجے روح کی غذا ہیں؟ مسلمان کی روح کی غذا کیاہے۔؟
آپ قرآن و حدیث کے دلائل میں اس موسیقی اور گانے کی سزا کا مطالعہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ کتنا بڑا اور سنگین گناہ ہے اور اس کے کتنے نقصانات ہیں۔
گانے کی سنگینی وحرمت کی سترہ وجوہات:
۱۔ گانالہو الحدیث ہے
اللہ سبحانہ و تعالی نے سورۃ لقمان میں فرمایا ہے:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ١ۖۗ وَّ يَتَّخِذَهَا هُزُوًا١ؕ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ۰۰۶﴾ [لقمان]
’’اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو لغو باتیں خریدتے ہیں، تا کہ بغیر کسی علم کے اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکیں اور اسے مذاق بنائیں، انہی لوگوں کے لیے ذلت ناک عذاب ہے۔‘‘
اس کو پڑھیں:   الفقہ فی الدین
 حِبرالامۃ ابن عباسw اس کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ لغو سے مراد یہ گانا بجانا ہے۔
[عن ابن عباس رضي الله عنه: أنه قال: هو (الغناء وأشباهه)] (رواه البخاري في الأدب المفرد ص 432)
سیدنا ابن مسعودt فرماتے ہیں :
[الْغِنَاءُ وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُرَدِّدُهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.] (تفسیر طبری تحت ھذه الآیة۔ اس اثر کو امام حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔)
’’اس ذات کی قسم جس کے سوا دوسرا کوئی الہ نہیں ہے، اس آیت ميں لہو الحديث سے مراد غناء گانا بجانا ) ہے ، انہوں نے یہ تین مرتبہ قسم کھائی۔‘‘
عکرمہ (تابعی) فرماتے ہیں: [هو الغِنَاءُ] ’’یہ غنا (گانا) ہے۔‘‘ (مصنف ابن ابی شيبہ ۲؍۳۱۰ح۲۱۱۲۷)
سیدنا ابن عمرw فرماتے ہیں : اس سے مراد گانا بجانا ہی ہے۔ (الطبری: 61/21)
صحابہ کرام] امت میں سب سے زیادہ اللہ تعالی کی کتاب کی مراد کو سمجھنے والے تھے، کیونکہ ان کے دور میں صحابہ کرام] پر قرآن مجید نازل ہوا اور امت میں سب سے پہلے انہی کو مخاطب کیا گیا، اور انہوں نے اس کی علمی اور عملی تفسیر کا نبی کریمe سے مشاہدہ بھی کیا اور حقیقتاً وہ فصیح عرب تھے، اس لیے ان کی تفسیر ملنے کی صورت میں اسے چھوڑ کر کسی اور طرف جانا صحیح نہیں۔ (ماخوذ از: اغاثۃ اللہفان)
مفسر مجاہدa کہتے ہیں: لہو الحدیث سے مراد ڈھول اور ناچ گانا ہے۔ (زاد المسير ۵/۵۸)
اس کو پڑھیں:   توحید .. فضیلت واقسام
شیخ عبد الرحمن بن ناصر بن عبد الله السعدیa (المتوفی: ۱۳۷۶ھ) کہتے ہیں: لہو الحدیث میں ہر حرام کلام، اور سب لغو اور باطل باتیں، بکواس اور کفر و نافرمانی کی طرف رغبت دلانے والی بات چیت، اور راہ حق سے روکنے والوں اور باطل دلائل کے ساتھ حق کے خلاف جھگڑنے والوں کی کلام، اور ہر قسم کی غیبت و چغلی، اور سب و شتم، اور جھوٹ و کذب بیانی، اور گانا بجانا، اور شیطانی آواز موسیقی، اور فضول اور لغو قسم کے واقعات و مناظرات جن میں نہ تو دینی اور نہ ہی دنیاوی فائدہ ہو سب شامل ہیں۔ (تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان)
۲۔ گانا بجانا اللہ اور اُس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے:
سیدنا ابن عباس t فرماتے ہیں :نبی کریمe کا اِرشاد ہے:
[إِنَّ اللَّه حَرَّمَ عَلَيَّ أَوْ حُرِّمَ الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْكُوبَةُ قَالَ: وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ.] [أبوداود: 3696 ]
”بیشک اللہ تعالیٰ نے شراب، جُوا، طبلہ اور سارنگی کو حرام قرار دیا اور فرمایا: ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔“
کوبۃ کا لفظ جس کے معنی : شطرنج، نرد، ڈگڈگی، بربط اور دوا وغیرہ پیسنے کے بٹہ کے آتے ہیں۔“
۳۔ گانے بجانے والے اللہ کے نافرمان ہیں:
اللہ اور رسولe کے فرمانبردار نماز پڑھنے والے‘ روزہ رکھنے والے اور کبھی گانا نہیں سنیں گے‘ وہ اس کو اللہ اور رسول کی نافرمانی ہی سمجھیں گے۔
”صفوان بن امیہ t فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسولe کی خدمت میں حاضر تھے کہ عمرو بن مرہ آیا اور کہنے لگا : اللہ کے رسول ! اللہ نے میرے مقدر میں بدنصیبی لکھ دی ہے اور میرے لیے سوائے اپنی ہتھیلی سے دف بجا کر روزی کمانے کا کوئی اور راستہ نہیں، لہٰذا آپ مجھے ایسا گانا گانے کی اجازت دیجیے جس میں فحش اور بےحیائی کی باتیں نہ ہوں، رسول اللہe نے فرمایا : میں نہ تو تمہیں اس کی اجازت دوں گا، نہ تمہاری عزت کروں گا، اور نہ تمہاری آنکھ ہی ٹھنڈی کروں گا، اے اللہ کے دشمن ! تم نے جھوٹ کہا، اللہ تعالیٰ نے تمہیں پاکیزہ حلال روزی عطا کی تھی، لیکن تم نے اللہ تعالیٰ کی حلال کی ہوئی روزی کو چھوڑ کر اس کی حرام کی ہوئی روزی کو منتخب کیا، اگر میں نے تم کو اس سے پہلے منع کیا ہوتا تو (آج اجازت طلب کرنے پر) تجھے سزا دیتا اور ضرور دیتا، میرے پاس سے اٹھو، اور اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو، سنو ! اگر تم نے اب منع کرنے کے بعد ایسا کیا تو میں تمہاری سخت پٹائی کروں گا، تمہارے سر کو مثلہ کر کے منڈوا دوں گا، تمہیں تمہارے اہل و عیال سے الگ کر دوں گا، اور اہل مدینہ کے نوجوانوں کے لیے تمہارے مال و اسباب کو لوٹنا حلال کر دوں گا ۔ یہ سن کر عمرو اٹھا، اس کی ایسی ذلت و رسوائی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ہی اسے جانتا ہے، جب وہ چلا گیا تو نبی اکرمe نے فرمایا :
[هٰؤُلَاءِ الْعُصَاةُ مَنْ مَاتَ مِنْهُمْ بِغَيْرِ تَوْبَةٍ حَشَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَمَا كَانَ فِي الدُّنْيَا مُخَنَّثًا عُرْيَانًا لَا يَسْتَتِرُ مِنَ النَّاسِ بِهُدْبَةٍ كُلَّمَا قَامَ صُرِعَ.]
’’یہ لوگ گنہگار ہیں، ان میں سے جو بلا توبہ کیے مرگیا، اللہ اسے قیامت کے روز اسی حالت میں اٹھائے گا جس حالت میں وہ دنیا میں مخنث اور عریاں تھا، اور وہ کپڑے کے کنارے سے بھی اپنا ستر نہیں چھپا سکے گا، جب کھڑا ہوگا گرپڑے گا۔‘‘ (ابن ماجۃ: ۲۶۱۳، بشر بن نمیر بصری راوی کذاب ہے ۔)
۴۔ گانے سے لذّت حاصل کرنا کُفر اورسننے کیلئے بیٹھنا فسق و فجور ہے:
سیدنا ابوہریرہ t روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمe نے فرمایا :
[اسْتِمَاعُ الْمَلَاهِي مَعْصِيَةٌ وَ الْجُلُوسُ عَلَيْه فِسْقٌ وَالتَّلَذُّذُ بِهَا كُفْرٌ] (نیل الاوطار:۸/۱۱۳)
’’گانا سننا گناہ ہے،اُس کے پاس بیٹھنا فسق و فجور اور اُس سے لذت حاصل کرنا کفر ہے۔‘‘
۵۔ جیسے شو میں گانا سننا حرام ہے ایسے ہی گھر میں سننا بھی حرام ہے:
جس طرح کسی میوزک شو میں بیٹھ کر گانا سننا حرام ہے ، اسی طرح ریڈیو،ٹی وی، سی ڈی اور موبائل کے ذریعہ گانا سننا بھی حرام ہے کیونکہ دونوں دراصل ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں۔
۶۔ گانے بجانے کی محفلوں میں شرکت ناجائز اور حرام ہے :
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ يُكْفَرُ بِهَا وَ يُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖۤ١ۖٞ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَ الْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَهَنَّمَ جَمِيْعَاۙ۰۰۱۴۰﴾ [النساء]
’’اللہ تعالیٰ تم پراپنی کتاب میں نازل کر چکا ہے کہ جب تم کسی مجلس کواللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ مذاق کرتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو حتیٰ کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں کرنے لگیں، ورنہ تم بھی اس وقت انہی جیسے ہوگے۔‘‘
اس کو پڑھیں:   موزوں پر مسح کے احکام
ایسی محفلوں کے لیے امر بالمعروف لازمی ہے اور ان میں شرکت کبیرہ گنا ہ ہے۔ اس آیت سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسی مجالس اور اجتماعات جن میں اللہ اور رسولe کے اَحکامات کا قولاً یا عملاً مذاق اُڑایاجا رہا ہو، ان میں شرکت ناجائز ہے۔ جیسے آج کل امراء ، فیشن ایبل اور مغربی تہذیب کے دلدادہ لوگوں کی محفلوں، شادی بیاہ، سالگرہ، محفلوں اور بسنت کے میلوں پر کیا جاتا ہے۔ ان جیسا ہونے کی قرآنی وعید اہل ایمان کے دلوں میں کپکپی طاری کرنے کے لیے کافی ہے بشرطیکہ دل میں ایمان ہو۔
قوالوں کا اندازِ راگ و غنا اور میراثیوں کا مخلوط مجالس میں ڈھول اور مختلف دھنوں پر نوجوان لڑکیوں کا بن سنور کر لڈی بھنگڑا ڈالنا، تھر تھرانا ،مٹکنا اوربغل گیر ہونا،اور غیر مردوں کا اس کو شہوت بھری نگاہوں سے دیکھنا ، ہر ذی شعور شخص اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ اس وقت اللہ اور رسولe کے احکام کی کس قدر دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں ، بھلا کسی طرح ایسے اجتماعات میں شرکت جائز ہوسکتی ہے ؟!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا﴾ [المائدة :۵۷]
’’اے اہل ایمان! ا ن لو گوں کودوست نہ بناؤ جوتمہارے دین کو ہنسی کھیل بنائے ہوئے ہیں۔‘‘
سٹیج شو میں لوگوں کی تفریح کے لیے جگت بازی‘ ذومعنی الفاظ کا استعمال‘ اشارہ کنایہ میں فحاشی وعریانی والی باتیں بھی اسی قبیل سے ہیں۔ دین کو کھیل اور مذاق بنانے والے چونکہ اللہ اور رسول کے دشمن ہیں، اس لئے ان کے ساتھ اہل ایمان کی دوستی نہیں ہونی چاہیے۔ گانا بجانا شریعت ِاسلامیہ کے ساتھ ہنسی مذاق ہے۔
امام حسن بصریa کہتے ہیں:اگر ولیمہ میں لہو اور گانا بجانا ہو تو اس کی دعوت قبول نہ کی جائے۔ (دیکھیں: الجامع للقیروانی صفحہ نمبر ۲۶۲ - ۲۶۳ )
’’زُبید کے بارے میں منقول ہےکہ جب اُنہیں کسی شادی کی دعوت میں بلایا جاتا تو اگر زُبید وہاں راگ باجوں کی آواز سنتے تو اس میں داخل نہ ہوتے تھے۔‘‘ (ذمّ الملاھی:۷۲ لابن أبی الدنيا)
اس کو پڑھیں:   اسلام کا نظریۂ اجماع
۷۔ گانا گانے والی عورت کی جانب دیکھنا بھی حرام ہے:
عمر بن خطاب t سے روایت ہے کہ نبی اکرمe نے فرمایا :
[ثَمَنُ الْقَيْنَةِ سُحْتٌ وَغِنَاؤُهَا حَرَامٌ وَالنَّظَرُ إِلَيْهَا حَرَامٌ وَثَمَنُهَا مِثْلُ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَثَمَنُ الْكَلْبِ سُحْتٌ وَمَنْ نَبَتَ لَحْمُهُ عَلَى السُّحْتِ فَالنَّارُ أَوْلَى بِهِ.] [معجم الكبیرللطبرانی:۸۷]
’’گانا گانے والی عورت کی اُجرت ،اُس کا گانا گانا اور اُس کی جانب دیکھنا بھی حرام ہے، اُس کی کمائی ایسی ہے جیسے کتے کی کمائی ، اور کتے کی کمائی حرام ہے، اور جس کا گوشت حرام سے پرورش پائے تو آگ ہی اُس کیلئے زیادہ لائق ہے۔‘‘
۸۔ اللہ تعالیٰ گانے کی آواز کو ناپسند کرتے ہیں:
ابوامامہ tکی ایک روایت میں ہے:
[إنَّ اللهَ تَعَالَى يُبْغِضُ صَوْتَ الْخَلْخَالِ كَمَا يُبْغِضُ الْغِنَاءَ وَيُعَاقِبُ صَاحِبَهُ كَمَا يُعَاقِبُ الزَّامِرِ وَلَا تَلْبَسْ خَلْخَالًا ذَاتَ صَوتٍ إلَّا مَلْعُونَةٌ.] [كنز العمال:۴۵۰۷۱]
’’بیشک اللہ تعالیٰ پازیب کی آواز کو ایسے ہی ناپسند کرتے ہیں جیسےگانے کی آواز کو ناپسند کرتے ہیں اور اس کے پہننے والی کو اسی طرح سزا دیتے ہیں جیسے بانسری بجانے والے کو دیتے ہیں اوربجنے والی پازیب وہی عورت پہنتی ہے جو ملعونہ ہے(یعنی رحمتِ الٰہی سے دور ہوتی ہے)۔‘‘
۹۔ گانے کی آواز نبیe کو ناپسندیدہ تھی، کانوں میں انگلیاں ڈال لیں
امام نافعa کہتے ہیں :
[سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ مِزْمَارًا ‏‏‏‏‏‏قَالَ فَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَى أُذُنَيْهِ وَنَأَى عَنِ الطَّرِيقِ ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ لِي يَا نَافِعُ هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا ‏‏‏‏‏‏قَالَ فَقُلْتُ لَا ‏‏‏‏‏‏قَالَ فَرَفَعَ إِصْبَعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَ مِثْلَ هَذَا فَصَنَعَ مِثْلَ هَذَا.] (سنن ابی داؤد: ۴۹۲۴)
’’ابن عمر wنے ایک باجے کی آواز سنی تو اپنی دونوں انگلیاں کانوں میں ڈال لیں اور راستے سے دور ہوگئے اور مجھ سے کہا : اے نافع ! کیا تمہیں کچھ سنائی دے رہا ہے؟ میں نے کہا : نہیں، تو آپ نے اپنی انگلیاں کانوں سے نکالیں، اور فرمایا : میں نبی اکرمe کے ساتھ تھا، اس جیسی آواز سنی تو آپ نے بھی اسی طرح کیا۔‘‘
۱۰۔ گانا بجانا غیرمسلموں کا مشغلہ ہے:
اسلام سے قبل گانے بجانے کے تمام اَطوار عروج پر تھے، عہد ِرسالت میں کافروں نے نبیe کی دعوت کو جس قدر دبانے کی کوشش کی، تمام حربے آزمائے، ان میں ایک بڑا فتنہ گانے بجانے کا بھی تھا۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ ل﴾
نضربن حارث کا شمار مشرکین مکہ کے اہم تاجروں میں ہوتا تھا ، وہ مختلف ملکوں میں تجارتی سفر کرتا تھا‘ ایک بار وہ ملک فارس سے بڑے بڑے بادشاہوں کے تاریخی قصے خرید لایا اور مشرکین مکہ سے کیا کہ محمد(e) تم کو قومِ عاد و ثمود کے واقعات سناتے ہیں ، آؤ ! میں تمہیں ان سے بہتر رستم اور اسفندیار اور دوسرے شاہانِ فارس کے قصے سناتا ہوں۔ (فتح القدیر تحت ہذہ الایۃ)
سیدنا ابن عباس t فرماتے ہیں : یہ تاجر نضربن حارث باہر سے ایک گانے والی لونڈی خرید کرلایا اور اس کے ذریعہ اس نے لوگوں کو قرآن سننے سے روکنے کی یہ صورت نکالی کہ جو لوگ قرآن سننے کا ارادہ کرتے، اپنی اس کنیز سے ان لوگوں کو گانا سنواتا او رکہتاکہ محمد(e) تم کو قرآن سنا کر کہتے ہیں کہ نماز پڑھو، روزے رکھو اور اپنی جان دے دو، جس میں تکلیف ہی تکلیف ہے لیکن تم یہ گانا سنو اور جشن طرب مناؤ ۔[شعب الایمان : ۴۸۳۰]
۱۱۔ یہ کفار کا عمل ہے
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کفار کا عمل بیان کیا ہے:
﴿اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِيْثِ تَعْجَبُوْنَۙ۰۰۵۹ وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ۰۰۶۰ وَ اَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ۰۰۶۱﴾ (النجم)
’’تو کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو ؟ اور ہنس رہے ہو ؟ اور روتے نہیں ؟ ( بلکہ ) تم کھیل رہے ہو۔‘‘
اس آیت کی تشریح میں مفسر قرآن حِبرالامت امام عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
[هُوَ الْغِنَاءُ بِالْحِمْيَرِيَّةِ اسْمُدِي لَنَا أَيْ غَنِّي لَنَا.](السنن الكبري للبيهقي: 223101)
سامدون سے مراد حمیری زبان میں گانا بجانا ہے۔ اسمدی لنا کا مطلب ہے: ’’ہمیں گانا سناؤ۔‘‘
۱۲۔ کفار کی مشابہت
علامہ البانیa فرماتے ہیں: موسیقی کا استعمال کفار کی عادت میں شامل ہوتا ہے،اس لیے ان سے مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں۔ خاص کر ان کاموں میں مشابہت اختیار کرنا تو بالکل جائز نہیں جو اللہ تعالی نے حرام کیے ہیں۔ (السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ۱ / ۱۴۵ )
غیر مذاہب مثلاً عیسائیت وہندومت سے مشا بہت ہے کیونکہ ان مذاہب میں موسیقی جائز ہے، وہ اپنی عبادت میں باجے گاجے استعمال کرتے ہیں، میت کے سوگ میں موسیقی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اگر اسلام کے نام لیوا کسی بھی تاویل کے ذریعہ سے اسے جائز قرار دیں تو:
[مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ] (ابوداؤد: 4031)
’’جو کسی قوم کی تشبیہ اختیار کرتا ہے وہ انہی سے ہے۔‘‘  ... کے مصداق ٹھہریں گے۔
۱۳۔ تالیاں اور سیٹیاں بجانا کافروں کا کام
گانے میں تالیاں سیٹیاں بھی بجائی جاتی ہیں‘ اگرچہ تالیاں اور سیٹیاں بجانے کا انداز بھی جدت اختیار کر گیا ہے ، دراصل تالیاں اور سیٹیاں بجانے کا کام بھی کافر کرتے اور اس کو عبادت سمجھتے تھے۔ جس طرح آج ہمارے ہاں دین کے نام پرقوالی ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِيَةً﴾ [الانفال:۳۵]
’’اور ان کی نماز کعبہ کے پاس صرف سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا تھی۔‘‘
چنانچہ تمام مسلمان بھائیوں کو غور کرنا چاہیے اور ایسے افعال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ایک مومن کے روح کی غذا ذکر الٰہی سے شغف ہے۔روح کی غذا گانا بجانا نہیں بلکہ یہ ایک مہلک زہر ہے جس سے دل و جسم میں قلق اور ہیجان پیدا ہوتا ہے۔گانا بجانا روح کی نہیں بلکہ شیطان کی غذا ہے جس کو سن کر زنا تو ہوسکتا ہے ایمان نہیں بڑھ سکتا۔
۱۴۔ گانے باجے کے آلات کو توڑنا:
نبیe جس طرح بتوں سے نفرت کا اظہار کرتے تھے، اسی طرح ساز باجوں سے بھی نفرت کرتے تھے۔ جس طرح بتوں کی پرستش حرام گردانتے تھے، اسی طرح ساز باجوں کو سننا بھی حرام قرار دیتے تھے۔ عبد اللہ بن عمروt فرماتے ہیں کہ نبی کریمe کا اِرشاد ہے:
[إِنَّ اللهَ بَعَثَنِي رَحْمَةً وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ وَأَمَرَنِي أَنْ أَمْحَقَ الْمَزَامِيرَ وَالْكَّنَارَاتِ يَعْنِي الْبَرَابِطَ وَالْمَعَازِفَ وَالْأَوْثَانَ الَّتِي كَانَتْ تُعْبَدُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ.] (مسند احمد:۲۲۲۱۸)
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت وہدایت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں بانسریوں اور گانے بجانے کے سامان اور ان بتوں کو ختم کردوں جو زمانہ جاہلیت میں پوجے جاتے تھے۔‘‘
ایک روایت میں نبی کریمe کا اِرشاد ہے:
[أُمِرْتُ بِهَدمِ الطَّبلِ وَالْمِزْمَارِ.] (كنز العمال: 40639)
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ڈھول اور بانسری کو مٹا دوں۔‘‘
۱۵۔ گانے کی کمائی حرام ہے:
گانے والیوں کی خرید و فروخت اور ان کی کمائی حرام ہے۔ ابوامامہ t فرماتے ہیں :
[نَهَى رَسُولُ اللَّهِﷺ عَنْ بَيْعِ الْمُغَنِّيَاتِ ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ شِرَائِهِنَّ ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ كَسْبِهِنَّ ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ أَكْلِ أَثْمَانِهِنَّ.] (ابن ماجه: 2168)
’’رسول اللہe نے (ممانعت کے بارے میں) گانا گانے والی باندیوں کی خریدو فروخت سے اور ان کی کمائی سے اور ان کی قیمت کھانے سے بھی منع فرمایا۔‘‘
علامہ ابن عبد البرa کہتے ہیں:
’’جس کمائی کے حرام ہونے پر سب کا اتفاق ہے، وہ سود، زانی عورتوں کی زنا سے کمائی، حرام، رشوت، نوحہ کرنے کی اجرت لینا، گانے کی اجرت لینا، نجومی کی کمائی، علم غیب کا دعوی اور آسمان کی خبریں دینا، بانسری بجا کر اجرت لینا، اور باطل قسم کے کھیل کر کمانا یہ سب حرام ہیں۔‘‘
ایک شخص نے کسی شخص کا ڈھول توڑ دیا تو وہ اپنا معاملہ قاضی شریح کے پاس لےگیا تو قاضی شریح نے اس پر کوئی ضمان قائم نہ کی۔ ـ یعنی اس کو ڈھول کی قیمت کا نقصان بھرنے کا حکم نہیں دیا، کیونکہ وہ حرام ہے اور اس کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ (المصنف لابن ابی شیبہ ۵/۳۹۵)
۱۶۔ گانے باجے کی کَمائی سب سے زیادہ گندی کَمائی ہے:
سیدنا انس بن مالکt فرماتے ہیں:
[أَخْبَثُ الْكَسْبِ كَسْبُ الزَّمَّارَةِ.]
’’راگ باجے کی کمائی سب سے زیادہ گندی کمائی ہے۔‘‘ (ذمّ الملاھی: 67)
۱۷۔ گانے بجانے اور اُس کے آلات فروخت کرنے میں کوئی بھلائی نہیں :
ابوامامہ t فرماتے ہیں :نبی اکرمe نے فرمایا :
[لَا تَبِيعُوا القَيْنَاتِ وَلَا تَشْتَرُوهُنَّ وَلَا تُعَلِّمُوهُنَّ وَلَا خَيْرَ فِي تِجَارَةٍ فِيهِنَّ وَثَمَنُهُنَّ حَرَامٌ فِي مِثْلِ هَذَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ.]
گانے والی باندیوں کی خرید و فروخت مت کرو اور اُنہیں گانا گانا مت سکھاؤ، ایسی باندیوں کی تجارت میں کوئی بھلائی نہیں اور اُن کی کمائی حرام ہے، اِسی بارے میں قرآن کریم کی یہ آیت نازل کی گئی ہے:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ﴾
”اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریداربنتے ہیں،تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو اللہ کے راستے سے بھٹکائیں۔“ [جامع ترمذی:۱۲۸۲]
ابوامامہ t کہتے ہیں:
[نَهَى رَسُولُ اللَّهِﷺ عَنْ بَيْعِ الْمُغَنِّيَاتِ ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ شِرَائِهِنَّ ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ كَسْبِهِنَّ ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ أَكْلِ أَثْمَانِهِنَّ.] (سنن ابن ماجة: ۲۱۶۸۔)
’’کہ رسول اللہe نے مغنیہ (گانے والی عورتوں) کی خریدو فروخت، ان کی کمائی اور ان کی قیمت کھانے سے منع کیا ہے۔!! ‘‘     ... (جاری ہے۔)


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)