کچھ اس کا بھی علاج اے چارہ گر! ہے کہ نہیں؟!
تحریر: جناب پروفیسر
محمد یٰسین ظفر
دنیا
کے حالات کس تیزی سے بدل رہے ہیں۔ اس کا اندازہ ہر وہ شخص کر سکتا ہے جو اس پر گہری
نظر رکھتا ہے۔ صبح کی خبریں شام اور شام کی صبح تک مکمل تبدیل ہو جاتی ہیں۔ جو بات
شام کو ناممکن نظر آتی ہے وہ صبح تک ممکن ہو جاتی ہے۔ عالمی منظر نامے میں ہر ملک اپنے
مفادات کے لیے نئے نئے رنگ بدلتا ہے۔ اس کے اس طرز عمل سے دوسروں پر کیا منفی اثرات
مرتب ہوتے ہیں اسے ذرا پروا نہیں! یہی وجہ ہے کہ صبح کا دوست شام تک دشمن اور شام کا
دشمن صبح تک دوست بن جاتا ہے‘ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ذرا دیر نہیں کرتے۔
امریکہ
کو لیجئے کہ اپنے حلیف ممالک کی آشیر باد سے افغانستان میں برسرپیکار ہے۔ کم و بیش
اٹھارہ بیس سال کے بعد آخر کار مذاکرات کی میز پر آنا ہوا۔ طالبان سے کئی نشستیں ہوئیں‘
دنیا پر امید نظروں سے ان مذاکرات کی کامیابی کی منتظر ہے کہ عرصہ دراز سے جاری قتل
و غارت اپنے انجام کو پہنچے گی اور لوگ سکھ کا سانس لیں گے۔ بسا آرزو کہ خاک شدہ ۔
اچانک امریکی صدر نے یہ مذاکرات معطل کر دیئے۔ افغانستان میں قیام امن کی کوشش خاک
میں مل گئی۔ صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پورا خطہ اس سے متاثر ہو رہا ہے۔ خاص کر پاکستان
پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کہ افغانستان کے
مستقبل سے پاکستان کا گہرا تعلق ہے۔
پاکستان
اپنے محل وقوع کے اعتبار سے بہت اہم خطہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی طاقتیں پاکستان پر گہری
نظر رکھتی ہیں۔ اس کے پڑوس میں بھارت اور چین ہے۔ چین بڑی حکمت عملی سے اپنے مفادات
سمیٹ رہا ہے جبکہ بھارت سے کشمیر کی وجہ سے حالات کشیدہ رہتے ہیں۔ بھارت پاکستان کے
حالات خراب کرنے میں کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور کھلم کھلامداخلت کرتا ہے۔
بلوچستان میں تخریب کاری میں بھارت کا ہاتھ ہوتا ہے جس کی واضح مثال کلبھوشن یا دیو
ہے اور اب بھی وہ ایسی حرکتوں سے باز نہیں آتا۔
پاکستان
اس وقت کئی ایک مسائل سے دو چار ہے۔ معاشی بحران‘ لا اینڈ آرڈر ہے۔ مہنگائی کا جن بے
قابو ہے‘ ہسپتالوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے‘ روز مرہ استعمال کی چیزیں مثلاً آٹا‘ چینی‘
گھی‘ بازار سے غائب ہو جاتاہے اور پھر مہنگے داموں بکتا ہے‘ ڈاکٹر مسلسل ہڑتال پر ہیں‘
ڈینگی عذاب کی صورت میں مسلط ہے۔ دوائیں نایاب ہیں‘ انصاف کا حصول مشکل ترین مرحلہ
ہے‘ لوگ اپنے حقوق کی خاطر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں‘ ناجائز مقدمات نے زندگی
اجیرن کر رکھی ہے‘ ان مسائل کے باوجود لوگوں کے لیے قابل توجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ جہاں
لاکھوں لوگ کئی ماہ سے کرفیو کی زد میں ہیں۔ خوراک‘ ادویات نایاب ہیں ۔ سکول‘ ہسپتال
بند ہیں۔ انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ ہندو سامراج کشمیریوں کی زندگی سے کھیل رہا
ہے اور ایک بڑا انسانی المیہ جنم لینے کو ہے۔
کشمیر
کے بارے میں موجودہ بھارتی حکومت (بی جے پی) نے کئی سال قبل اپنے منشور میں یہ بات
شامل کی تھی کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرے گی اور اب چند ماہ قبل انہوں نے 370 اور 35/A
کے خاتمے کا اعلان کیا۔ جس سے کشمیریوں کے ریاستی حقوق اور کشمیر
کا ریاستی سٹیٹس ختم کر دیا گیا اور اس دن سے کرفیو نافذ کیا گیا تاکہ کشمیری احتجاج
نہ کر سکیں۔ بلا شبہ یہ بھارت کی بڑی حماقت ہے کیونکہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کبھی ختم
نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہ دنیا کے اہم اداروں اور پلیٹ فارم پر متنازعہ علاقہ تسلیم
کیا گیا ہے۔ اس سے کشمیریوں کو سیاسی سطح پر فائدہ ہو گا۔ کیونکہ بھارت اس سے قبل کشمیر
کی تحریک آزادی کوجہاد اور جہادی تحریک سے جوڑ کر دہشت گردی ثابت کرنا چاہتا تھا۔ لیکن
اس اقدام سے یہ کام پس منظر میں چلا گیا اور تحریک آزادی سیاسی تحریک میں تبدیل ہو
گئی۔ جو لوگ پہلے کشمیر میں انتخابات میں حصہ لیتے تھے اب وہی لوگ بھارت کی اس پالیسی
کے شدید مخالف ہیں انہوں نے کھلم کھلا کشمیری عوام کے مطالبوں کی حمایت کر دی ہے اور
یہ لوگ ایک پلیٹ فارم پر نظر آتے ہیں۔ اب یہ تحریک سیاسی رنگ اختیار کر چکی ہے اور
سیاسی تحریکیں ہمیشہ کامیاب ہو جاتی ہیں۔
اب
بھی یہ ایک لمبی جدوجہد ہے لیکن اسے سیاسی طریقے سے حل کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں حکومت
اور عوام کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی
محاذ پر اپنا کام تیز کرے۔ تمام سفارت خانوں کو متحرک کرے۔ بڑے ممالک امریکہ‘ روس‘
چین ‘ برطانیہ‘ جرمنی ‘ آسٹریلیا کے علاوہ تمام اسلامی ممالک کو اعتماد میں لے اور
ان کی ہمدردی حاصل کرے۔ بار بار اپنا موقف اور کشمیریوں کی مظلومیت کا پرچار کرے۔ دنیا
بھر کے ذرائع ابلاغ تک رسائی حاصل کرے اور انہیں حقیقت حال سے آگاہ کرے۔ اس میں شک
نہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں میں مسئلہ کشمیر اتنا اجاگر نہ ہو سکا جتنا چند ہفتوں میں
مشہور ہوا اور اب یہ مسئلہ دنیا بھر کے لوگوں کے سامنے آ گیا ہے اور اس پر بات ہو رہی
ہے۔ یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں کم از کم کشمیر کے مسئلے پر یک جان
ہیں اور ایک صفحے پر نظر آ رہی ہیں۔
عوام
کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو متحرک کرنا ہو گا۔ دنیا میں اس وقت حساس
ترین مسئلہ انسانی حقوق کا ہے جہاں کہیں انسانی حقوق متاثر ہو رہے ہوں اور ثبوت تصاویر
اور ویڈیو کے ساتھ انہیں دکھا دیا جائے تو لوگ اس پر شدید رد عمل دیتے ہیں۔ لہٰذا ہماری
اولین ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے انسانی حقوق کی پامالی کو اپنا
موضوع بنائیں۔ اس تناظر میں تمام قابل اداروں اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو متوجہ
کریں‘ انہیں خطوط لکھیں‘ ای میل کریں اور بھارتی مظالم سے آگاہ کریں۔ یہ عالمی ادارے
از خود متحرک ہونگے اور بھارت کو مجبور کریں گے کہ وہ کشمیر کے بنیادی انسانی حقوق
بحال کرے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنا یہ مقدمہ کس انداز میں پیش کرتے ہیں۔
…………………bnb…………………
پاکستان
میں دینی مدارس بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں لاکھوں طلبہ و طالبات زیور تعلیم سے
آراستہ ہو رہے ہیں۔ یہ مدارس دینی ضرورت احسن انداز میں پوری کر رہے ہیں۔ مفت تعلیم‘
کھانا‘ رہائش ‘ کتب اور علاج معالجہ کی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ اکثر مدارس دینی تعلیم
کے ساتھ عصری تعلیم کا بھی اہتمام کرتے ہیں اور زیر تعلیم طلبہ بورڈ میں نمایاں پوزیشنیں
حاصل کرتے ہیں۔ دیگر اداروں کی طرح دینی مدارس میں اصلاح اور بہتری کی گنجائش موجود
ہے جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ حکومت نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اتحاد تنظیمات سے
مسلسل مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں بعض مسائل حل ہونے میں مدد ملی ہے۔ حکومت اور اتحاد
تنظیمات مدارس کے مابین ایک یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں ۔ ان میں مدارس کی رجسٹریشن
کا اہم مسئلہ ہے جسے وزارت تعلیم کے تحت کیا گیا۔ اب امید ہے کہ چند ہفتوں میں اس کا
پہلا دفتر لاہور میں فعال ہو گا۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ رجسٹریشن آفس کھولنے سے
اگر وزارت تعلیم ایک اہم اجلاس اتحاد تنظیمات مدارس کے سرکردہ نمائندوں سے کر لے تو
بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
جس
طرح مدارس کے خلاف یک طرفہ پروپیگنڈہ ہو رہا ہے اور بلا وجہ انہیں بدنام کیا جاتا ہے
کہ یہ دینی علوم کے ساتھ دنیاوی علوم پڑھانے سے انکاری ہیں اور باقاعدہ قومی دھارے
میں نہیں آ رہے ۔ اسی طرح دوسری طرف حکومت کے بارے میں خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ
حکومت کو مدارس سے کوئی خیر خواہی نہیں اور نہ ہی ان کی بہتری مطلو ب ہے ۔ بلکہ یہ
کوئی بیرونی ایجنڈا ہے جس کی تنفیذ کے لیے حیلے بہانے کیے جا رہے ہیں اور مدارس سے
خوف زدہ عناصر ان کا راستہ روکنا چاہتے ہیں اور طرح طرح کی پابندیاں عائد کر رہے ہیں
مثلاً رجسٹریشن کا مسئلہ‘ بینک اکاؤنٹ ‘ لازمی عصری تعلیم۔ آخر سرکاری یا پرائیویٹ
سکولوں میں اس طرح کا طرز عمل کیوں اختیار نہیں کیا جاتا۔
اگر
یہ بات کہی جائے تو بے جا نہ ہو گی کہ اس وقت دنیا میں معاشی کشمکش جاری ہے۔ بڑے ممالک
اس جنگ میں باہم دست و گریبان ہیں اور مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کو نیچا دکھایا جاتا
ہے۔ برآمدات پر بھاری ٹیکس اور بعض مصنوعات پر بلا وجہ پابندیاں شامل ہیں‘ تجارت کا
حجم مقرر کر دیا جاتا ہے۔ کر خاص ترقی پذیر ممالک کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ ہے۔ حالانکہ
انہی کی مصنوعات یا خام مال دوسرے ممالک کی وساطت سے باہر جا رہا ہے اور یہ حرکت محض
ان ممالک کو اقتصادی نقصان پہنچانے کے لیے کی جا رہی ہے۔ مثلاً پاکستان سے کپاس کا
کوٹہ مقرر کیا گیا۔ وہ مکمل ہوا تو پاکستانی تاجر مجبوراً سری لنکا کے کوٹے سے یہی
کپاس برآمد کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے منافع کا کچھ فیصد وہ لے جاتے ہیں اس طرح دیگر اجناس
بھی شامل ہیں۔ اس معرکہ آرائی کو بعض لوگ تہذیبوں کی جنگ قرار دے رہے ہیں اور کھلم
کھلا اسلام اور مغرب کی اس رسہ کشی کو مستقبل کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔ چونکہ اسلامی
تہذیب کے مضبوط مراکز مدارس ہی تو ہیں‘ یہی مدارس تہذیب کے محافظ اور قلعہ شمار ہوتے
ہیں لہٰذا اس تہذیبی جنگ میں مدارس کو سرفہرست رکھا گیا ہے۔ مغرب کی بدنیتی بالکل واضح
ہے کہ وہ محض بہانہ بنا کر مسلمانوں کو نہ صرف مالی، معاشی لحاظ سے کنگال کرنا چاہتا
ہے بلکہ وہ اسلامی تہذیب سے بھی محروم کرنا چاہتا ہے۔
بہر
حال یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ اس وقت دنیا میں اسلامی اور غیر اسلامی کشمکش شروع
ہے جس کے مظاہر مختلف شکلوں میں نظر آتے ہیں۔ چند ہفتے قبل ناروے کے دارالحکومت اوسلو
میں قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کا حادثہ پیش آیا۔ علاوہ ازیں کتنی باپردہ مسلم خواتین
کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، زبردستی ان کے حجاب اتارے جاتے ہیں۔
اب
حال ہی میں چین میں مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت پر متعدد رپورٹیں منظر عام ہو رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایسی ایسی دل دہلا دینے والی ویڈیوز ہیں جس میں مسلمان
نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس پر بس نہیں بلکہ بی بی سی نے اپنی خبروں
میں واضح کیا کہ اویغور کے مسلمانوں کی فکری و نظریاتی تبدیلی کے لیے مراکز قائم کیے
جا رہے ہیں۔ ایسے بورڈنگ سکولز قائم کر دیئے گئے ہیں جہاں مسلمان بچوں کو ان کے والدین
سے الگ رکھا جا رہا ہے تاکہ ان کی سوچ تبدیل کر دی جائے۔ چین کے مغربی صوبے سنکیانگ
کے مسلمانوں کو تربیتی کیمپوں میں رکھا جاتا ہے۔ جہاں ان پر انسانیت سوز تشدد کیا جاتا
ہے اور انہیں ترک اسلام پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس صوبے سے جہاں
کی اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے‘ آج کل داڑھیاں اور مساجد غائب ہو رہی ہیں۔
کس قدر دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ان المناک حادثات پر کوئی اسلامی ملک نہ احتجاج
کرتا ہے اور نہ ہی چین سے بات چیت کرنے کو تیار ہے‘ لہٰذا مسلمانوں کو لاوارث سمجھ
کر یہ ظلم دن بدن بڑھ رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کم از کم اس پر او آئی سی کو صدائے
احتجاج بلند کرنا چاہیے۔
آج
کل ایک عام مسلمان اور بالخصوص نوجوان یہ سوچ رہا ہے کہ آخر دنیا میں اس وقت میں ہی
کیوں ذلت و پستی کی زندگی گزار رہا ہوں؟ جنگ و جدل مار دھاڑ‘ قتل وغارت‘ اکھاڑ پچھاڑ
آخر اس کا مقدر ہی کیوں ہے؟ ستاون اسلامی ممالک میں چند ایک کے علاوہ سب میں معاشی‘
سیاسی حالات نہایت ابتر ہیں۔ غربت و افلاس‘ جہالت وبیماری نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
معاشی حالات ناقابل یقین ہیں اور غیر ملکی قرضوں پر سارا کام چل رہا ہے۔ لوٹ مار‘ کرپشن
اپنے عروج پر ہے۔ غیر تو غیر یہاں مسلمان مسلمان کو کھا رہا ہے۔ بعض ممالک جن میں شام
‘ عراق ‘ لیبیا‘ یمن ‘ افغانستان‘ فلسطین اور اب کشمیر کی حالت قابل رحم ہے۔ لاکھوں
لوگ قتل ہوئے جو بچے ہیں وہ مہاجر ہو گئے اور آج دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اس
کے بہت سے اسباب ہیں لیکن ایک بات بہت واضح ہے۔ کہ اسلام دشمن قوتوں نے طے کر لیا ہے
کہ اب جنگ مسلمان خطے میں ہی لڑی جائے گی۔ انہیں آپس میں مسلح کر کے آمنے سامنے کھڑا
کر دیا گیا اور خود اسلحے کے سوداگر اور تماشبین بن کر ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے لوگ
اس قدر نالائق اور ناسمجھ ہیں کہ ان کے آلہ کار بن کر اپنے ہاتھ خون سے رنگ رہے ہیں۔
سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے کوئی حکومت جم کر اپنا ایجنڈا مکمل نہیں کر سکتی۔ نہ ہی
ترقیاتی عمل پورا ہوتا ہے‘ لہٰذا اکثر ممالک کی حالت نہایت خستہ ہے۔
ان
تمام حالات میں مسلمانوں کے تمام طبقات جن میں سیاستدان ‘ صاحب اقتدار یا حزب اختلاف
‘ عسکری قوت‘ عدلیہ کے معزز جج حضرات‘ وکلاء‘ اساتذہ کرام‘ دانشور‘ ادیب اور شعراء
‘ علماء مشائخ‘ خطیب وواعظین اور نوجوان مرد و خواتین شامل ہیں۔ نہایت ادب سے التماس
ہے کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داری اور فرائض کو سمجھیں اور پوری دیانت داری سے ادا کریں۔
قومی فریضہ سمجھ کر دوسروں کی خیر خواہی ہمدردی کریں اور اتحاد و اتفاق سے اس بگڑتی
صورت حال کو سنبھالیں اور اس ڈوبتی کشتی کو کسی محفوظ مقام پر کنارے لگائیں۔ یاد رکھیں
اگر ایسا نہ کیا تو آنے والی نسلیں ختم اور فنا ہو جائیں گی۔
نہ
سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے‘ اے پاکستاں والو!
تمہاری
داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
No comments:
Post a Comment