مسئلہ کشمیر اور سامراجی جبر مسلسل
تحریر: جناب پروفیسر
عبدالعظیم جانباز
کشمیر
کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ خطے کی بعد از تقسیم تاریخ کا سب سے بڑا اور دھماکہ خیز اقدام
ہے۔ آنے والے عرصے میں اپنے اثرات کے حوالے سے یہ ممکنہ طور پر تاریخ کا ایک فیصلہ
کن موڑ کہلائے گا۔ مسئلہ کشمیر کی تاریخی حیثیت کو اس نے یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا
ہے اور ایک حوالے سے اس تنازعہ کی اب تک کی کیفیت کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ ۵ اگست
۲۰۱۹ء
سے پہلے گزشتہ ۷۲
سالوں کے دوران کشمیر تنازعہ کی ایک خاص
حیثیت تھی جس کو پاک بھارت ساڑھے تین جنگوں،دوطرفہ مذاکرات اور عالمی سفارتکاری سمیت
کشمیر میں جاری تحریک کے مجموعی اثرات بھی تبدیل نہیں کر سکے، اس حیثیت کو بی جے پی
کی بھارتی حکومت کے اس فیصلے نے مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ یہ ایک انتہائی اہم اور
فیصلہ کن تبدیلی ہے جو اس پورے خطے کی سیاست، معیشت اور سفارتکاری سمیت سماج کے ہر
پہلو پر دور رس اثرات مرتب کرے گی۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یہ ایک بالکل نئے مرحلے
کا آغاز ہے لیکن اس کی نوعیت اور سمت بالکل غیر متوقع ہے جس نے زیادہ تر سیاسی حلقوں
کو کنفیوز کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ اقدام زیادہ تر لوگوں کے لئے حیران کن ہے کیوں کہ مسئلہ
کشمیر میں کسی پیش رفت کی توقع رکھنے والے بھی اس قسم کی تبدیلی کا تصور نہیں کر سکتے
تھے۔ سوشل میڈیا سمیت ابلاغ کے سبھی ذرائع اس اقدام پر تند و تیز مباحثوں کے ذریعے
اس کی تفہیم کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن کہیں بھی کوئی تسلی بخش وضاحت نہیں کر پا
رہا۔سب سے زیادہ بانجھ پن پر مبنی موقف نام نہاد بائیں بازو کا ہے جو اس کو مودی کے
ہندوتوا کے نظریات یا ہندو فاشزم کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ درحقیقت یہ اقدامات عالمی
سطح پر سرمایہ داری نظام کے زوال اور شکست و ریخت کے عمل کی پیداوار ہیںجن کو اس عمومی
تبدیلی کے عمل کے تسلسل میں ہی درست طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے
نامیاتی زوال کے اس تبدیل شدہ عہد کا انقلابی تحریکوں کے ابھار، رد انقلابی خانہ جنگیوں
سمیت وحشیانہ ریاستی جبر کی نئی اور پہلے سے زیادہ درندگی پر مبنی شکلوں کے ذریعے اظہار
ہو رہا ہے۔دنیا کے ہر خطے میں طویل عرصے سے قائم سیاسی و سماجی توازن دھماکا خیز انداز
میں ہر قسم کے واقعات کے ذریعے ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔
کچھ
عرصہ پہلے ہونے والے ہندوستان کے عام انتخابات میں مودی کی بھاری اکثریت سے فتح بھی
اسی قسم کا ایک واقعہ تھا جس میں ہندوستانی سماج میں جاری تبدیلی کے عمل نے سب سے پہلے
ہندوستانی سماج کی عرصے سے ایک ہی ڈگر پر چلی آنے والی سیاست کے خاتمے کا اعلان کیا
تھا۔ قنوطیت پسندوں کے لئے مودی کی انتخابی فتح سماج پر فاشزم کے تسلط کا اعلان تھا
جس طرح امریکہ میں ٹرمپ کی انتخابی فتح کو اس بدبودار مخلوق نے امریکی فاشزم کی مضبوطی
قرار دیا تھا۔ لیکن در حقیقت یہ دونوں فتوحات بائیں بازوکی اصلاح پسندی کی ناکامی کے
باعث دائیں بازو کی سٹیٹس کو مخالف پارٹیوں کے ذریعے موجودہ صورتحال سے نجات پانے کی
عوام کی ایک مایوس کن کوشش تھی۔ گزشتہ چند ماہ سے جاری سوڈان کی انقلابی تحریک اور
ہانگ کانگ میں ہونے والے طوفانی انقلابی واقعات اسی سٹیٹس کو ایک انقلابی بغاوت کے
ذریعے تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ دونوں قسم کے واقعات عالمی سطح پر جاری تبدیلی کے
ایک ہی عمل کا دو یکسر مختلف بلکہ الٹ طریقوں سے اظہار ہے۔ اسی طرح فلسطین پر اسرائیل
کی بڑھتی ہوئی بربریت، چین میں مسلمان آبادی پر چینی ریاست کی وحشیانہ ریاستی جارحیت،
اور بھارتی ریاست کی جانب سے کشمیر کی نیم خودمختار ریاستی حیثیت کو فوجی جبرکے ذریعے
ختم کرنے کے اقدامات بھی سماج کی بنیادوں میں جاری تبدیلی کے عمل میں معیاری جست کی
عکاسی ہے۔ یہ دنیا ایک دیو ہیکل تبدیلی کے عمل سے گزر کر معیاری طور پر ایک نئے مرحلے
میں داخل ہو چکی ہے‘ جہاں پرانی دنیا کے ظاہری خدوخال اگر کہیں باقی بھی ہیں تو وہ
آنے والے دنوں اور مہینوں میں اسی طرح اچانک تبدیل ہو جائیں گے۔ سطح پر نمودار ہونے
والے یہ واقعات کتنے ہی اچانک اور غیر متوقع کیوں نہ ہوںدر حقیقت ان واقعات کو جنم
دینے والے عناصر و اسباب سماج کی ظاہری سطح کے نیچے اس مقدار و معیار کو حاصل کر چکے
ہیں‘ جہاں وہ ہر قسم کے واقعات کو ایک دھماکے کے ذریعے سماج کی سطح پر نمودار کرنے
کے لئے مکمل طور پر پختہ ہو چکے ہیں۔یہی وہ بنیاد ہے جس کے تسلسل میں ہی موجودہ اقدامات
کی درست وضاحت ممکن ہے۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ:
اگست
۲۰۱۹ء
کو بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے ایک صدارتی حکم نامہ بھارت کی راجیہ سبھا یا ایوان
بالا میں پیش کیا جس میں ہندستانی آئین کی شق نمبر ۳۷۰ کے
خاتمے کا اعلان کیا گیاتھا۔ راجیہ سبھا میں اس پر مختصر بحث ومباحثے کے بعد ۶۱ کے
مقابلے میں ۱۲۵
ووٹوں سے جبکہ لوک سبھا میں ۶۷ کے
مقابلے میں ۳۶۷
ووٹوں سے اس کو منظور کر لیا گیا ہے۔
ہندوستانی آئین کی شق نمبر ۳۷۰ مہاراجہ
کشمیر کے الحاق ہندوستان کی دستاویز کا ہی تسلسل تھا جس کے ذریعے کشمیر کو ہندوستانی
وفاق میں ایک مخصوص حیثیت کو برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس شق کے مطابق کشمیر
کی ریاست کے امور خارجہ، مواصلات اور دفاع کا انتظام و اختیار مرکزی یا وفاقی حکومت
کے پاس ہو گا جبکہ باقی تمام امور کا اختیار ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے پاس ہو گا۔
اس کے ساتھ کشمیر کی ریاست کو اپنا آئین بنانے اور اپنا الگ جھنڈا رکھنے کے اختیار
کے ساتھ یہ استثنا بھی حاصل تھا کہ ہندوستان کے مکمل آئین کا اطلاق کشمیر میں نہیں
ہو سکتا۔ اس کے ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کا بنایا ہوا ایک اور قانون جس کو باشندہ ریاست
کا قانون بھی کہا جاتا ہے،جس کے مطابق کوئی بھی غیر کشمیری کشمیر میں زمین کی ملکیت
اور سرکاری ملازمت جیسی کوئی بھی مراعات حاصل نہیں کر سکتا،کو بھی شق نمبر 35-A
کے ذریعے آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔ ان آئینی شقوں میں ریاست یا
مرکز دونوں ایک دوسرے کی مکمل رضامندی کے بغیر کوئی تبدیلی نہ کر سکنے کے پابند قرار
دیے گئے۔ لیکن اب ان شقوں کے خاتمے کے ذریعے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی ایک نیم خودمختار
ریاست کی حیثیت کے ساتھ ہر قسم کی داخلی خود مختاری کو ختم کرتے ہوئے کشمیر کو دو انتظامی
اکائیوں میں تقسیم کر کے ’’Union Territory‘‘
کا درجہ دیتے ہوئے براہ راست مرکز کے کنٹرول میں لے لیا گیا ہے۔ لداخ کو الگ مرکز کے
تابع انتظامی اکائی بنایا گیا ہے جس کی کوئی اسمبلی نہیں ہو گی جبکہ جموں اور کشمیر
کے علاقوں کو الگ انتظامی اکائی بنایا گیا ہے جس کی اپنی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔ لیکن
دونوں علاقوں میں وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ایک لیفٹیننٹ گورنر ہی سب سے با
اختیار حاکم ہو گا۔ یوں اس پورے خطے اور عالمی سطح پر گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیر کی
تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو ختم کرتے ہوئے کشمیر کے بھارتی قبضے میں موجود حصے کو بھارت
کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کا ایک پہلو کشمیر کے حکمران طبقات
کی مراعات اور اختیارات کا ہے جبکہ دوسرا پہلو کشمیر کے عوام، محنت کش طبقے اور نوجوانوں
کی ہندوستان کے وحشیانہ جبر سے آزادی کے حصول سے منسلک ہے۔ کشمیر کے حکمران طبقات
کی سبھی سیاسی پارٹیاں اور گروہ اس خصوصی حیثیت کے باعث کشمیر کے داخلی معاملات اور
لوٹ مار کے حوالے سے دیگر ریاستوں کے حکمرانوں کے مقابلے میں تقریباً مکمل آزاد اور
با اختیار تھے۔ یہ حکمران بھارتی ریاست کی مکمل دلالی کرتے رہے اور انہوں نے کشمیری
عوام پر ڈھائے جانے والے وحشیانہ مظالم کے خلاف کبھی کوئی سنجیدہ احتجاج تک نہیں کیا۔
وہ بھارتی ریاست جس نے کشمیر کو گزشتہ تین دہائیوں سے وہاں کے باسیوں کے لئے ایک عقوبت
خانہ بنا رکھا ہے‘ یہ حکمران اسی بھارتی ریاست کے تنخواہ دار ملازم ہیں اور اپنی حاکمیت
میں وہاں بھارتی ریاست وحشت اور بربریت کا خونی کھلواڑ کر رہی ہے۔ ان حکمرانوں کے لئے
موجودہ اقدامات کا مطلب محض یہ ہے کہ ان کی اپنی مراعات اور اختیارات میں کمی ہو رہی
ہے۔ لیکن دوسری جانب خصوصی حیثیت کا حامل کشمیر بھی کشمیری عوام،محنت کشوں اور نوجوانوں
کے لئے عملاً ایک خصوصی اذیت گاہ، جیل اور مقتل ہی تھا جہاں ہندوستانی فوج کو کشمیریوں
کے خون کے دریا بہانے، خواتین کی عصمت دری کرنے، ماورائے عدالت قتل کرنے اور پیلٹ گن
جیسے مہلک ہتھیاروںسے ان کو بینائی سے محروم کرنے کے خصوصی اختیارات حاصل تھے۔ کشمیری
عوام کی اکثریت تو اس خصوصی حیثیت کے حامل کشمیر میں بھی اپنے لہو کا خراج دے کر زندہ
تھی۔ کشمیر کی حیثیت میں موجودہ تبدیلی کا درحقیقت سب سے المناک پہلو یہی ہے جس کی
وضاحت کے بغیر تمام تر شور شرابہ بے معنی ہے۔ بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت
کو تحفظ فراہم کرنے والی تمام شقوں کی موجودگی کے باوجود اگر کشمیری عوام کی زندگی
ایک خونریز جہنم کے مانند تھی اور اس سے نجات کی جدوجہد ایک کے بعد دوسری بغاوت کی
صورت میں اپنا اظہار کرتی آئی ہے تو اس نئے ریاستی حملے سے اس صورتحال کو تو تبدیل
کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ یہ درست ہے کہ ان شقوں کی موجودگی بھی کشمیری عوام کے لئے
کسی تحفظ کا باعث نہیں تھی لیکن ان کی موجودگی کوکشمیر پر بھارتی قبضے کی عارضی نوعیت
اور کشمیریوں کی ہندوستان سے الگ اپنی شناخت و پہچان کا ضامن سمجھا جاتا تھا۔ اسی لئے
ان شقوںکا خاتمہ کشمیر کی الگ شناخت کو مکمل مٹانے کا جبری فیصلہ ہے جو پہلے سے موجود
سامراجی جبر کی درندگی میں اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ فیصلہ ایک زبردست بھونچال کی
مانند ہے جس نے سات دہائیوں سے قائم ایک نازک توازن کے پر خچے اڑا دیے ہیں اور پورے
خطے کو ایک بالکل نئی اور انجانی کیفیت میں دھکیل دیا ہے۔ بھارت جنگ و امن کے ناٹک
کا سارا کھیل کشمیر کی اسی متنازعہ حیثیت پر کھیلتا رہا جس کا اب خاتمہ ہو گیا ہے۔
سات دہائیوں سے قائم اس توازن کے خاتمے سے پورے خطے میں ایک نئے اور دھماکہ خیز عہد
کا آغاز ہو چکا ہے جس میں پرانے توازن کو دوبارہ بحال کرنا تو ممکن ہی نہیں رہا لیکن
کسی نئے توازن کے قائم ہو جانے کے امکانات بھی مخدوش ہیں۔
ٹرمپ
کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش:
پاکستانی
وزیر اعظم اور عسکری قیادت کے دورہ امریکہ کے بعد جب ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی
کرنے کا اعلان کیا تو پاکستانی حکمران طبقات او رذرائع ابلاغ نے اس کو اپنی تاریخ کی
سب سے بڑی سفارتی کامیابی بنا کر پیش کیا۔ جبکہ ہندوستان کے حکومتی ذرائع نے اس پیش
کش کو اس قدر درشتی سے رد کیا کہ ٹرمپ کو بھی اپنی پیشکش کو ہندوستان کی رضامندی سے
مشروط قرار دینا جیسی وضاحت کرنا پڑی۔ اگر پاکستانی حکمرانوں کی سفارتی کامیابی کے
اعلان اور ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستان کے موجودہ فیصلے کو
دیکھا جائے تو بظاہر یوں لگتا ہے کہ ہندوستان نے تمام عالمی سفارتکاری، اقوام متحدہ
کی قراردادوں اور ہر قسم کے ضابطوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کر لیا ہے
اور عالمی سامراجی طاقتوں سمیت پاکستان کے حکمرانوں کو اس کی پیشگی اطلاع بھی نہیں
دی گئی۔ اگرچہ گزشتہ چند روز کے دوران بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں
اضافی فوج کی تعیناتی اور پاکستانی آزاد کشمیر کے وادی نیلم کے علاقوں میں کی جانے
والی اندھا دھند فائرنگ جیسے واقعات کسی غیر معمولی واقعے کے رونما ہونے کی جانب اشارہ
ضرور کر رہے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس سال کے انتخابات کی مہم کے دوران بھی یہ
ایک اہم نعرہ تھا کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کریں
گے۔ جبکہ اسی دوران پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ایک بیان میں یہ کہا تھا کہ اگر
مودی انتخابات جیت جاتا ہے تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ دی پرنٹ نامی ویب سائیٹ
پر ۵
اگست کو شائع ہونے والے نایانیما باسو
کے ایک مضمون کا عنوان ہی اس امر کی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ ہندوستان نے اس فیصلے
سے قبل تمام ضروری سفارتکاری کا عمل مکمل کر لیا تھا۔ ’’مودی نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے اپنے منصوبے کے بارے میں امریکہ کو بتا دیا تھا‘‘ کے عنوان
سے شائع ہونے والے اس مضمون میں باسو لکھتا ہے’’مختلف ذرائع نے پرنٹ کو بتایا کہ امور
خارجہ کے وزیر جے شنکر نے اپنے امریکی ہم منصب سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیوکو مودی
حکومت کے آرٹیکل 370 اور35-Aکے
خاتمے کے منصوبے کے بارے میںآگاہ کیا۔ تاہم ذرائع کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں تھا
جب امریکہ کو اس کے بارے میں مطلع کیا گیا بلکہ فروری میں پلوامہ حملے کے دو روز بعد
مشیر برائے قومی دفاع اجیت دوول نے اپنے امریکی ہم منصب جان بولٹن کو ٹیلی فون پر اسی
منصوبے کے بارے میں مطلع کیا تھا۔‘‘ اسی مضمون میں باسو مزید لکھتا ہے ’’ذرائع کے مطابق
مودی حکومت امریکہ کو ناراض کرنے کی بالکل بھی متحمل نہیں ہو سکتی اور اسی لئے ٹرمپ
انتظامیہ کی حمایت برقرار رکھنے کے تمام ضروری و حفاظتی اقدامات کئے جا چکے تھے۔‘‘
اس مضمون کے مطابق وزارت خارجہ نے امریکہ، روس، چین،فرانس اوربرطانیہ کے علاوہ اقوام
متحدہ کی
سلامتی
کونسل کے تمام ۱۵
ارکان کے نمائندوں کو اس بارے میں آگاہ
کیا۔ یہ تفصیلات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ بظاہر یہ فیصلہ جتنا اچانک اور یکطرفہ
نظر آتا ہے اصل صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے۔ خاص کر ہندوستانی حکمران طبقات نے اہم
عالمی سامراجی طاقتوںکو اپنے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا۔ دوسری جانب پاکستانی حکمرانوں
کی سفارتی کامیابیوں کی بڑھک بازی اس فیصلے کی روشنی میں انتہائی مضحکہ خیز ہو کر رہ
گئی ہے اور پاکستان کی عالمی سفارتکاری میں حیثیت اور مقام بھی واضح ہو ر ہا ہے۔ اگر
اس فیصلے سے امریکی حکمرانوں کے پہلے سے باخبر ہونے کو درست مان لیا جائے تو پاکستان
کی عسکری و سیاسی قیادت کے امریکی دورے اور ٹرمپ کے ثالثی کی پیشکش کرنے والے بیان
سے یہ شکوک جنم لیتے ہیں کہ یا تو امریکی حکمرانوں نے پاکستانی حکمرانوں کو دھوکہ دیا
ہے یا پاکستانی حکمران پس پردہ کشمیر کا سودا کر آئے ہیں۔ لیکن پاکستانی حکمران طبقات
کی پس پردہ اس منصوبے میں شامل ہونے یا نہ ہونے کی بحث سے زیادہ اہمیت کا حامل سوال
یہ ہے کہ اس فیصلے سے جنم لینے والی نئی صورتحال اور تبدیلی کے عمل کی وضاحت کرنے کی
کوشش کی جائے۔
یہ
کس قسم کی تبدیلی ہے؟
بھارتی
حکمران طبقات کے اس فیصلے نے اس خطے کے اسٹیٹس کو دھماکے سے توڑ دیا ہے اور خود اس
حکمران طبقے کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں کہ ان کے اس اقدام سے آنے والے دنوں میں
مزید کیا کچھ تبدیل ہو کر رہ جائے گا۔اپنی بنیاد میں یہ ایک وحشت ناک سامراجی اقدام
ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن یہ صورتحال ماضی کے روائتی مذمتی بیانات
سے آگے نکل چکی ہے۔اس اعلان کے ساتھ ہی ہند و پاک کے ریاستی ایوانوں سمیت تمام تر
سیاسی حلقوں میں بحث و مباحثے کے ایک نئے سلسلے کے آغاز کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں کا
ایک سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اس فیصلے کے خلاف جنم لینے
والے متوقع رد عمل کو منظر عام پر آنے سے روکنے کے لیے وہاں ننگی فوجی آمریت مسلط
کر دی گئی ہے۔ دفعہ ۱۴۴
کے نفاذ کے ساتھ موبائل فون اور انٹر
نٹ سروس کو بند کر دیا گیا ہے جس کے باعث کشمیر کی صورتحال کا اندازہ لگانا ابھی تک
مشکل ہے۔ہندوستان میں بائیں بازو کے مختلف گروہوں سمیت سول سوسائٹی کی جانب سے اس اقدام
کے خلاف احتجاج کیے جا رہے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بھارتی کمیونسٹ پارٹیوں کے تمام
تر دھڑے بھی اس اقدام کے خلاف جدو جہد کا کوئی واضح پروگرام دینے میں یکسر ناکام نظر
آرہے ہیں۔اس اقدام کی مخالفت اس بنیاد پر کی جارہی ہے کہ اس تبدیلی سے بھارت کے نام
نہاد مقدس آئین اور سیکو لرزم کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ اگر آج کشمیر میں اس قسم
کے اقدامات کئے جا رہے ہیں تو کل مودی حکومت ہندوستان کے دیگر علاقوں میں بسنے والوں
کو بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے ذریعے حاصل آزادیوں پر قدغن لگا سکتی ہے۔اس موقف
سے کشمیر کی خصوصی حیثیت پر مارے جانے والے شب خون کی مذمت کم اور اپنے تحفظ کو لاحق
خطرات کا خوف زیادہ جھلکتا ہے۔ ان نام نہاد کمیونسٹوں کی سرمایہ داری کی غلاظتوں سے
وابستگی کا یہ عالم ہے کہ جس آئین میں ترامیم کے ذریعے کشمیر پر پہلے سے زیادہ وحشیانہ
درندگی اور جبر مسلط کیا جا رہا ہے یہ اسی آئین کے تحفظ کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔
جبکہ پاکستان کے کچھ لبرلز ان احتجاجوں کی تشہیر سے اس کو بھارتی حکومت کے خلاف کوئی
حقیقی جدوجہد بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ وہی کمیونسٹ ہیں جنہوں نے گزشتہ
سات دہائیوں کے دوران کبھی بھی کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مخالفت نہیںکی
اور نہ ہی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی کبھی حمایت کی ہے۔مودی حکومت کا موجودہ اقدام
در حقیقت اسی ہندوستانی قوم پرستی کی زوال پذیری کا شاخسانہ ہے جس کے تحفظ کے لیے ان
نام نہاد کمیونسٹوں نے سات دہائیوں تک کسی ایک یا دوسرے دھڑے کی دلالی کی ہے۔
سب
سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا بھارتی مقبوضہ کشمیر کی سابقہ متنازعہ حیثیت کو ختم ہونے
سے روکا جا سکتا ہے یا نہیں اور اگر روکا جا سکتا ہے تو کیسے؟بھارتی مقبوضہ کشمیر کے
مسلمان پہلے بھی بھارتی قبضے کے خلاف لڑتے رہے ہیں اور آنے والے عرصے میں بھی اُن
کی یہ جدوجہد جاری رہے گی۔ لیکن فوری طور پر اُن کی جدوجہد اس فیصلے پر عمل درآمد
کو شائد نہیں روک پائے گی۔ دوسری جانب پاکستان کے حکمران طبقات کے پاس اس فیصلے کو
رکوانے کی کوشش کے دو ہی طریقے ہیں: پہلا یہ کہ اس فیصلہ کو روکنے کے لیے ہندوستان
سے ایک جنگ کا آغاز کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ عالمی سامراجی ممالک اور نام نہاد انسانی
حقوق کے علمبر دار عالمی اداروں سے ہندوستان پر دبا ؤ ڈالنے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال
کیے جائیں۔کشمیر کو ہندوستان میں ضم ہونے سے روکنے کے لیے کسی سنجیدہ اور فیصلہ کن
جنگ کے امکانا ت نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جس کا اظہار پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں وزیر
اعظم کے خطاب کے دوران ان الفاظ میں کیا گیا کہ’’اگر جنگ ہوتی ہے اور ہم خون کے آخری
قطرے تک بھی لڑیں گے توآخر میں اس جنگ کو کون جیتے گا؟ایسی جنگ کوئی بھی نہیں جیت
سکتا‘‘ یعنی سادہ الفاظ میں ہم معذرت خواہ ہیںکہ ہم جنگ نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب عالمی
سفارتکاری کے عمل میں پاکستان کا مقام کتنا اہم ہے اس کی وضاحت کے لیے کسی لمبی چوڑی
بحث کی بھی ضرورت نہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم میں بھی اگر پاکستان کے مقابلے میںہندوستان
کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے تو باقی کون سا ایسا ادارہ یا سامراجی ملک ہے جوپاکستان
کی خاطر ہندوستان پر اس قسم کا دباؤ ڈال سکتا ہے۔ پھر اس دباؤ کی ہندوستان کے لیے
کتنی اہمیت ہے کہ وہ اس کے آگے سر تسلیم خم کر لے گا۔ اس حوالے سے پاکستانی حکمرانو
ں کی تمام بڑھک بازی کہ ہم کشمیریوں کی حمایت میں ہر حد تک جا سکتے ہیں،محض اپنی خفت
و شرمندگی کے تاثر کو کم کرنے سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں۔
No comments:
Post a Comment