Saturday, February 08, 2020

گانا سننے کی سنگینی‘ سزا اور نقصانات 06-20


گانا سننے کی سنگینی‘ سزا اور نقصانات

تحریر: جناب مولانا محمد طیب محمدی
گانا سننے کی چھبیس سزائیں:
 ۱۔ گانے سنانے والا کافر اور اس کا انجام
لہو و لعب اور گانا بجانا کبیرہ گناہ ہے۔ نضربن حارث جو رؤساء کفار میں تھا بغرض تجارت فارس جاتا تو وہاں سے شاہان عجم کے قصص وتواریخ خرید کر لاتا اور قریش سے کہتا کہ محمد(e) تم کو عاد وثمود کے قصے سناتے ہیں آؤ ! میں تم کو رستم و اسفند یار اور شاہان ایران کے قصے سناؤں‘ بعض لوگ ان کو دلچسپ سمجھ کر ادھر متوجہ ہوجاتے اور اس نے ایک گانے والی لونڈی خریدی اور دیکھتا کہ جس آدمی کا دل اسلام کی طرف جھکا ہے اس کے پاس لے جاتا اور کہہ دیتا کہ اسے کھلا پلا اور گانا سنا پھر اس شخص کو کہتا کہ دیکھو یہ اس سے بہتر ہے جدھر محمد(e) بلاتے ہیں جس قرآن کی وہ دعوت دیتا ہے یہ اس سے بہتر ہے‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ١ۖۗ وَّ يَتَّخِذَهَا هُزُوًا١ؕ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ۰۰۶﴾ [لقمان]
’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوجھ بوجھ کے لوگوں کو اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ان ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ تھا کہ لوگ اللہ کے قرآن سے دور ہوجائیں۔ ایسے گستاخ اور قرآن کے منکر کو قتل کردیا گیا ، بدر میں ستر کافر مارے گئے اور ستر قیدی ہوئے ، اسیرانِ جنگ میں سے دو آدمیوں کے سوا کسی کو قتل نہیں کیا گیا جن دو شخصوں کو قتل کیا گیا ان میں پہلا شخص نضر بن حارث ہے۔ یہ شخص جنگ بدر میں مشرکین کا علمبردار تھا‘ اسلام دشمنی اور رسول اللہe کی ایذارسانی میں حد درجہ بڑھا ہوا تھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ یہ قرآن کے مقابلے میں گانے والیوں کو کھڑا کرتا تھا ، رسول اللہe نے وادی صفراء میں اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا، آپ کے حکم کی تعمیل میں اس کی گردن مار دی گئی۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: 12855)
۲۔ گانے والا اللہ کا دشمن ہے:
گانے والا اللہ کا دشمن ہے ، کیونکہ اس شخص نے شیطان کی آواز کو قبول کیا ہے جس سے اس کے دل میں نفاق پیدا ہوا‘ بے حیائی پیدا ہوئی‘ اس لیے یہ اللہ کا دشمن ہے۔
صفوان بن امیہ t فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسولe کی خدمت میں حاضر تھے کہ عمرو بن مرہ آیا اور کہنے لگا :
[إِنَّ اللَّهَ قَدْ كَتَبَ عَلَيَّ الشِّقْوَةَ فَمَا أُرَانِي أُرْزَقُ إِلَّا مِنْ دُفِّي بِكَفِّي فَأْذِّنْ لِي فِي الْغِنَاءِ فِي غَيْرِ فَاحِشَةٍ.]
اے اللہ کے رسول! اللہ نے میرے لیے بدبختی لکھ دی‘ مجھے صرف اسی طرح رزق ملتا ہے کہ میں اپنے ہاتھ سے دف بجاؤں (اور روٹی حاصل کروں ) لہذا آپ مجھے کسی فحش کام(یعنی ناچنے اور لواطت وغیرہ) کے بغیر گانے کی اجازت دیدیجیے ۔نبی کریمe نے اِرشاد فرمایا:
 [لَا آذَنُ لَكَ وَلَا كَرَامَةَ وَلَا نُعْمَةَ عَيْنٍ كَذَبْتَ أَيْ عَدُوَّ اللَّهِ لَقَدْ رَزَقَكَ اللَّهُ طَيِّبًا حَلَالًا فَاخْتَرْتَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْكَ مِنْ رِزْقِهِ مَكَانَ مَا أَحَلَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَكَ مِنْ حَلَالِهِ.] [ابن ماجه: ۲۶۱۳ ۔اس میں بشر بن نمیر بصری ضعیف ہے ]
’’میں تجھے اس کی اجازت نہیں دوں گا اور تیری کوئی عزت نہیں اور نہ تیری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اے اللہ کے دشمن! اللہ نے تجھے پاکیزہ اور حلال روزی دی پھر جو روزی اللہ نے تیرے لیے حلال فرمائی اس کی جگہ تو نے اس روزی کو اختیار کیا جو اللہ نے تجھ پر حرام فرمائی۔‘‘
گانے والا اللہ کا دشمن ہے اسی لیے تو نبیe نے اس کو اللہ کا دشمن کہا۔
۳۔ ذلت ناک عذاب :
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ١ۖۗ وَّ يَتَّخِذَهَا هُزُوًا١ؕ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ۰۰۶﴾ [لقمان]
’’اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوجھ بوجھ کے لوگوں کو اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ان ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ تھا کہ لوگ اللہ کے قرآن سے دور ہوجائیں۔
اس آیت میں لہو الحدیث سے مراد گانے سننا ہے جیسا کہ پہلے یہ ثابت ہوچکا ہے ، تو گانے سننے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسوا کن عذاب کی وعید سنائی ہے۔
﴿اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ۰۰۶﴾[لقمان]
’’انہی لوگوں کے لیے ذلت ناک عذاب ہے۔‘‘
۴۔ درد ناک عذاب
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ١ۙ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۱۹﴾ [النور]
’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے و الوں کے گروہ میں فحاشی پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
یہ آیت مبارکہ اپنے شان نزول کے ساتھ مقید نہیں بلکہ العبرۃ بعموم اللفظ کے اصول سے فحاشی پھیلانے کی ہر چیز پر اس کا حکم یکساں ہے۔ بدکاری کے اڈے سینما ہال، گندی فلمیں، کلب، گندے ہوٹل، رقص گاہیں‘ گندے قصے کہانیاں اور جنسی فحش اشعار، غرض بداخلاقی پھیلانے والی تمام اشیاء اس آیت کے عموم میں شامل ہیں۔ لہٰذا یہ سب چیزیں حرام اور قابل سزا ہیں۔ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا وآخرت میں دردناک سزا کی وعید سنائی ہے :
﴿لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ١ۙ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ﴾
 اگر زمام کار نیک اور سچے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو تو ان پر یہ لازم ہے کہ فحاشی کے یہ تمام اڈے اور ذرائع پوری قوت سے بند کر دیں۔ ان افعال فاحشہ کے مرتکب کو شدید سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی دوسرے کو اس کی ہمت بھی نہ ہو۔
۵۔ جہنم کی وعید
مذکورہ دو آیات کے آخر میں جو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے اس سے جہنم کا عذاب مراد ہے :
﴿اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ۰۰۶﴾ [لقمان]
’’انہی لوگوں کے لیے ذلت ناک عذاب ہے۔‘‘
﴿لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ١ۙ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ١ؕ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۱۹﴾ [النور]
۶۔ گانے بجانے اور موسیقی کو حلال سمجھناقیامت کی علامت ہے، ۷۔ ایسے لوگ زمین میں دھنسائے جائیں گے، ۸۔ بندر اور خنزیر کی شکل بن جائے گی
ابو عامرtیا ابو مالک اشعری t نے نبیe سے سنا، آپe نے فرمایا :
[لَيَكُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِيْ أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّوْنَ الْحِرَ وَالْحَرِيْرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلٰي جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوْحُ عَلَيْهِمْ بِسَارِحَةٍ لَّهُمْ يَأْتِيْهِمْ يَعْنِي الْفَقِيْرَ لِحَاجَةٍ فَيَقُوْلُوْا ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا فَيُبَيِّتُهُمُ اللّٰهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ وَيَمْسَخُ آخَرِيْنَ قِرَدَةً وَخَنَازِيْرَ إِلٰي يَوْمِ الْقِيَامَةِ.]
’’میری امت میں کئی لوگ ہوں گے جو شرم گاہ (زنا) اور ریشم‘ شراب اور باجوں کو حلال کرلیں گے اور کئی لوگ ایک پہاڑ کے پہلو میں اتریں گے، ان کے چرواہے شام کو ان کے چرنے والے مویشی لایا کریں گے، ان کے پاس فقیر اپنی حاجت کے لیے آئے گا، وہ کہیں گے کل آنا۔ تورات ہی کو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب بھیجے گا اور وہ پہاڑ ان پر گرا دے گا اور کئی دوسروں کی شکلیں قیامت تک کے لیے بندروں اور خنزیروں کی شکل میں بدل دے گا۔ ‘‘
”المعازف“ معزفۃ کی جمع ہے، یہ آلات لہو یعنی گانے بجانے کے آلات ہیںاور یہ وہ آلہ ہے جس سے ناچا اور گایا جاتا ہے۔
امام ابن قیمa کہتے ہیں:یہ حدیث صحیح ہے‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں اس سے حجت لیتے اسے بالجزم معلق روایت کیا ہے، اور باب کا عنوان باندھتے ہوئے کہا ہے: [باب فيمن يستحل الخمر و يسميه بغير اسم] ”شراب کو حلال کرنے اور اسے کوئی نام دینے والے کے متعلق باب۔“ (امام بخاری نے اسے صحیح بخاری: الأشربۃ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر۔۔ : 5590 میں معلقا روایت کیا ہے،اور امام بیہقی نے سنن الکبری میں اسے موصول روایت کیا ہے، اور طبرانی نے معجم الکبیر میں روایت کیا ہے، اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
اس حدیث کو یا تو حضرت ابوعامر اشعری نے نقل کیا ہے جو حضرت ابوموسی اشعری کے چچا اور اکابر صحابہ میں سے ہیں یا اس روایت کو بیان کرنے والے حضرت ابومالک اشعری ہیں جن کو اشجعی بھی کہا جاتا ہے اور یہ بھی ایک مشہور صحابی ہیں، صحابہ سب ہی ثقہ اور عدل ہیں، لہٰذا حدیث جس صحابی سے بھی منقول ہوگی صحیح ہوگی۔
ابو مالک اشعری t بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا :
[لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِّنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ يُسَمُّوْنَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا يُعْزَفُ عَلٰي رُؤُوْسِهِمْ بالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّيَاتِ يَخْسِفُ اللّٰهُ بِهِمُ الْأَرْضَ وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيْرَ.]
’’میری امت کے کچھ لوگ شراب پیئیں گے، اس کا نام اصل نام کے بجائے اور رکھ لیں گے، ان کے سامنے باجے بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔‘‘ [ ابن ماجه، الفتن، باب العقوبات: ٤٠٢٠، و قال الالبانی صحیح ]
گانے بجانے کے عام ہونے پر ۹۔ زمین میں دھنسنے، ۱۰۔ آسمان سے پتھروں کی بارش، ۱۱۔صورتوں کے مسخ ہونے، ۱۲۔ سرخ آندھی اور زلزلوں کا عذاب:
ابوہریرہ t فرماتے ہیں :نبی اکرمe نے فرمایا:
[إِذَا اتُّخِذَ الفَيْءُ دُوَلًا وَالأَمَانَةُ مَغْنَمًا وَالزَّكَاةُ مَغْرَمًا وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّينِ وَأَطَاعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَعَقَّ أُمَّهُ وَأَدْنَى صَدِيقَهُ وَأَقْصَى أَبَاهُ وَظَهَرَتِ الأَصْوَاتُ فِي المَسَاجِدِ وَسَادَ القَبِيلَةَ فَاسِقُهُمْ وَكَانَ زَعِيمُ القَوْمِ أَرْذَلَهُمْ وَأُكْرِمَ الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهِ.]
’’جب مال غنیمت کو ذاتی دولت بنا لیا جائے اورامانت کومال غنیمت سمجھ لیا جائےاور زکوۃکو ایک تاوان سمجھا جانے لگےاور جب علم دین کو دنیا طلبی کے لئے سیکھا جانے لگےاور جب بیوی کی اطاعت کی جانے لگے اور ماں کی نافرمانی شروع ہو جائے۔ دوست کو قریب کیا جائے اور باپ کو دور رکھا جائے اور مسجدوں میں شوروغل ہونے لگےاور قبیلہ کا سردار ان کا فاسق بدکار بن جائےاور جب قوم کا سردار ان کا بدترین آدمی بن جائےاور جب شریر آدمی کی عزت اس کے خوف سے کی جانے لگے ۔‘‘
[وَظَهَرَتِ القَيْنَاتُ وَالمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الخُمُورُ وَلَعَنَ آخِرُ هَذِهِ الأُمَّةِ أَوَّلَهَا فَلْيَرْتَقِبُوا عِنْدَ ذَلِكَ رِيحًا حَمْرَاءَ وَزَلْزَلَةً وَخَسْفًا وَمَسْخًا وَقَذْفًا وَآيَاتٍ تَتَابَعُ كَنِظَامٍ بَالٍ قُطِعَ سِلْكُهُ فَتَتَابَعَ.]
’’اور جب گانے والی عورتیں اور باجوں گاجوں کا رواج عام ہو جائےاور جب شرابیں پی جانے لگیں اور اس امت کے آخری لوگ پہلے گزرے ہوئے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں تواس وقت تم انتظار کرو ایک سرخ آندھی کا اور زلزلہ کا اور زمین میں دھنس جانے اور صورتیں بگڑ جانے کا اور آسمان سے پتھروں کے بَرسنے کا اور قیامت کی ایسی نشانیوں کا جو یکے بعد دیگرے اس طرح آئیں گے جیسے کسی ہار کی لڑی ٹوٹ جائے اور اس کے دانے بیک وقت بکھر جاتے ہیں۔‘‘  (ترمذی: 2211۔ سند میں رمیح جذامی مجہول ہے)
۱۳۔ گانے کی بجائے پیٹ میں پیپ بھر جانا بہتر ہے
سیدنا ابوسعید خدری t فرماتے ہیں :
[بَيْنَا نَحْنُ نَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللهِﷺ بِالْعَرْجِ إِذْ عَرَضَ شَاعِرٌ يُنْشِدُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِﷺ خُذُوا الشَّيْطَانَ أَوْ أَمْسِكُوا الشَّيْطَانَ لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ رَجُلٍ قَيْحًا خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا.]
’’ہم عرج میں ( ایک گاؤں ہے 78 میل پر مدینہ سے ) رسول اللہe کے ساتھ جا رہے تھے، اتنے میں ایک شاعر سامنے آیا جو شعر پڑھ رہا تھا۔ آپe نے فرمایا : اس شیطان کو پکڑو‘ اگر تم میں سے کیس کا پیٹ پیپ سے بھرے تو بہتر ہے کہ شعر سے بھرے۔“ [صحیح مسلم: ۲۲۵۹]
۱۴۔ کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا
انس t فرماتے ہیں :نبی کریمe نے فرمایا :
[مَنْ قَعَدَ إلَى قَيْنَةٍ يَسْتَمِعُ مِنْهَا صَبَّ اللهُ فِيْ أُذُنَيْهِ الآنُكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.] [أخرجه ابن عساكر فی تاریخه: 6064، والحديث ضعيف.]
’’جو کسی گانا گانے والی کے پاس گانا سننے کیلئے بیٹھے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالیں گے۔‘‘
اس کو پڑھیں:    کرسمس کی حقیقت
۱۴۔ گانے والے کی آنکھوں میں سکون نہیں ہوسکتا
گانے والا غیر محرم عورتوں کو دیکھتا ہے اس کو کبھی سکون نہیں مل سکتا، اس کی نظر میں اطمینان نہیں ہوسکتاکیونکہ اس کی نظر ایک عورت پر نہیں ہوتی بلکہ کئی عورتوں کا لالچی ہوتا ہے وہ کبھی سکون نہیں پاتا۔
سیدنا صفوان بن امیہ t فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسولe کی خدمت میں حاضر تھے کہ عمرو بن مرہ آیا اور کہنے لگا :
[إِنَّ اللَّهَ قَدْ كَتَبَ عَلَيَّ الشِّقْوَةَ فَمَا أُرَانِي أُرْزَقُ إِلَّا مِنْ دُفِّي بِكَفِّي فَأْذَنْ لِي فِي الْغِنَاءِ فِي غَيْرِ فَاحِشَةٍ.]
’’اے اللہ کے رسول! اللہ نے میرے لیے بدبختی لکھ دی مجھے صرف اسی طرح رزق ملتا ہے کہ میں اپنے ہاتھ سے دف بجاؤں (اور روٹی حاصل کروں ) لہذا آپ مجھے کسی فحش کام(یعنی ناچنے اور لواطت وغیرہ) کے بغیر گانے کی اجازت دیدیجیے۔‘‘
نبی کریمe نے اِرشاد فرمایا:
[لَا آذَنُ لَكَ وَلَا كَرَامَةَ وَلَا نُعْمَةَ عَيْنٍ كَذَبْتَ أَيْ عَدُوَّ اللَّهِ لَقَدْ رَزَقَكَ اللَّهُ طَيِّبًا حَلَالًا فَاخْتَرْتَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْكَ مِنْ رِزْقِهِ مَكَانَ مَا أَحَلَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَكَ مِنْ حَلَالِهِ.]
’’میں تجھے اس کی اجازت نہیں دوں گا اور تیری کوئی عزت نہیں اور نہ تیری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اے اللہ کے دشمن! اللہ نے تجھے پاکیزہ اور حلال روزی دی پھر جو روزی اللہ نے تیرے لیے حلال فرمائی اس کی جگہ تو نے اس روزی کو اختیار کیا جو اللہ نے تجھ پر حرام فرمائی ۔ [ابن ماجۃ : ۲۶۱۳ ۔اس میں بشر بن نمیر بصری ضعیف ہے ]
اس کو پڑھیں:    ولیمہ کی شرعی حیثیت
۱۵۔ گانے باجے والوں کے ساتھ رحمت کے فرشتے نہیں ہوتے:
ابو ہریرہt فرماتے ہیں: نبی کریمe کا اِرشاد ہے:
[لَا تَصْحَبُ الْمَلَائِكَةُ رِفْقَةً فِيهَا كَلْبٌ أَوْ جَرَسٌ.] (مسلم: ۲۱۱۳، ابوداود:۲۵۵۵)
”فرشتے اس جماعت کے ہمراہ نہیں ہوتے جس میں کتا یا گھنٹی ہو۔‘‘
ام سلمہ rفرماتی ہیں : نبیe نے کچھ اونٹ دیکھے ان میں سے بعض( کے گلے) میں گھنٹی تھی جب آپe نے اس کی آواز سنی تو پوچھا: ”مَا هَذَا؟“ یہ کیا ہے؟ایک آدمی نے عرض کیا: ”الْجُلْجُلُ“ یہ جلجل ہے۔ آپ نے پوچھا جلجل کیا ہے؟ اس نے کہا: گھنٹی۔ آپe نے فرمایا: ”فَاذْهَبْ فَاقْطَعْهُ ثُمَّ ارْمِ بِهِ“ ’’اچھا تم جاؤ اور اسے کاٹ کر پھینک دو۔‘‘ اس نے آپ کے ارشاد کی تعمیل کی۔ پھر اس آدمی نے واپس آ کر عرض کیا:یا رسول اللہ! یہ حکم آپ نے کس وجہ سے دیا؟ نبیe نے فرمایا: إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَا تَصْحَبُ رُفْقَةً فِيهَا جَرَسٌ ’’جس قافلے میں گھنٹی ہو ، فرشتے اس کے ہم راہ نہیں ہوتے۔“ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۰۰۱)
۱۶۔ گانے باجے والے گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے:
سیدہ عائشہr بیان کرتی ہیں: ایک لونڈی میرے پاس لائی گئی جس کے پاؤں میں جھنکار والے گھنگرو بندھے ہوئے تھے۔ عائشہ rنے فرمایا:
[لَا تُدْخِلْنَهَا عَلَيَّ إِلَّا أَنْ تَقْطَعُوا جَلَاجِلَهَا.]
’’گھنگرو کاٹے بغیر اسے میرے پاس مت لاؤ۔‘‘
میں نےرسول اللہe کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
[لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ جَرَسٌ.] [ابوداؤد:۴۲۳۱ قال الشیخ البانی: حسن]
’’فرشتے اُس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں گھنٹی ہو۔‘‘
جھنکار یا پائل پاؤں کا زیور جس میں آواز ہوتی ہے‘ یہ بھی شیطانی ساز ہے۔
اس کو پڑھیں:    نماز مومن کی معراج
۱۷۔ گانا گانے والے کی نماز قبول نہیں:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود t فرماتے ہیں کہ نبی کریمe نے رات کو کسی کو گانا گاتے ہوئے سنا تو اِرشاد فرمایا:
[لَا صَلَاةَ لَهُ لَا صَلَاةَ لَهُ لَا صَلَاةَ لَهُ.]
’’اُس کی نماز قبول نہیں ، اُس کی نماز قبول نہیں،اُس کی نماز قبول نہیں۔“ [نیل الاوطار:۸/۱۱۳]
۱۸۔ گانے کی آواز لعنتی ہے :
انس بن مالک t فرماتے ہیں : رسول اللہe نے فرمایا :
[صَوْتَانِ مَلْعُونَانِ فِى الدُّنيا وَالآخِرَةِ مِزْمَارٌ عِنْدَ نِعْمَةٍ و رَنَّةٌ عِنْدَ مُصِيبَةٍ.] [مسند بزار ، كشف الاستار عن زوائد : ۱؍۳۷۷]
’’دو آوازوں پر دنیا اور آخرت (دونوں) میں لعنت ہے۔ خوشی کے وقت باجے کی آواز اور غم کے وقت شور مچانا اور پیٹنا۔‘‘
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ حافظ منذری فرماتے ہیں :ورواتہ ثقات اور اس کے راوی ثقہ اور (قابل اعتماد) ہیں۔حافظ ہیثمی نے فرمایا :ورجالہ ثقات یعنی اس کے راوی ثقہ ہیں۔[مجمع الزوائد : ۳؍۱۳ ]
۱۹۔ گاناگانے اور سننے والے دونوں ملعون ہیں:
مُحدِّث کبیر اِمام شعبیa فرماتے ہیں :
[لُعِنَ الْمُغَنِّي وَالْمُغَنَّى لَهُ.]
’’گانا گانے والااور وہ جس کیلئے گانا گایا جائے دونوں ملعون ہیں ۔“ [شعب الایمان :۴۷۵۱]
اس کو پڑھیں:    الحاد کا تاریخی پس منظر
۲۰۔ گانے والے کی اللہ اور اس کے رسول کےیہاں کوئی عزّت نہیں، اس کی آنکھوں میں ٹھنڈک(یعنی سکون) نہیں، ۲۱۔ اللہ کا دشمن ہے ، ۲۲۔ دنیاوی اعتبار سے بھی سخت سزا کا مستحق ہے ، ۲۳۔ گانے بجانے والے اللہ کے نافرمان ہیں، ۲۴۔ قیامت کے دن ننگا ہونے کی حالت میں جمع کیا جائے گا ۔
سیدنا صفوان بن امیہ t فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسولe کی خدمت میں حاضر تھے کہ عمرو بن مرہ آیا اور کہنے لگا کہ مجھے کسی فحش کام کے بغیر گانے کی اجازت دی جائے تو آپe نے اسے سخت تنبیہ فرمائی۔ جب وہ جانے کے لیے کھڑا ہوا اور اس پر ایسی ذلّت و رسوائی چھائی ہوئی تھی جس کا علم اللہ ہی کو ہے۔جب وہ جا چکا تو نبیe نے فرمایا:
[هَؤُلَاءِ الْعُصَاةُ مَنْ مَاتَ مِنْهُمْ بِغَيْرِ تَوْبَةٍ حَشَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَمَا كَانَ فِي الدُّنْيَا مُخَنَّثًا عُرْيَانًا لَا يَسْتَتِرُ مِنَ النَّاسِ بِهُدْبَةٍ كُلَّمَا قَامَ صُرِعَ.]
’’یہ (گانے کا کام کرنے والے )لوگ اللہ کے نافرمان ہیں جو ان میں سے بغیر توبہ کے مرجائے اللہ اس کوقیامت کے دن مخنّث(ہیجڑا)اور ننگے ہونے کی حالت میں حشر فرمائے گا جس طرح وہ دنیا میں تھا ،اُس کے پاس کپڑے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی نہ ہوگا جس کے ذریعے وہ لوگوں سے اپنے ستر کو چھپاسکے (یعنی اس کا ستر پوشیدہ نہ ہو گا) جب کھڑا ہو گا گرجائے گا۔‘‘ [سنن ابن ماجہ:۲۶۱۳ ۔ اس کی سند میں بشر بن نمیر بصری ارکان کذب میں سے ہے ]
۲۵۔ گانے کا اہتمام کرنے والوں کا قتل :
ابن خطل فتح مکہ کے موقع پر غلافِ کعبہ سے لٹکا ہوا قتل کیا گیا تھا اس لئے کہ وہ مرتد ہوگیاتھا اور اس نے اپنے ایک ساتھی کو قتل کردیا تھا۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ اس نے دو لونڈیاں گانے والی رکھی ہوئی تھیں جن سے رسول اللہe اور مسلمانوں کی مذمت اور بدگوئی کرواتا اور ڈانس کرواتا تھا۔ آپe نے دونوں کو قتل کرنے کا حکم بھی صادر کیا، جن میں ایک قتل کردی گئی اور دوسری کیلئے امان طلب کی گئی۔ (فتح الباری)
اس کو پڑھیں:    ضعیف اور موضوع احادیث
۲۶۔ گانے والوں کا جنازہ نہ پڑھا جائے :
جس آدمی کے پاس گانے والی عورت ہو، اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے:
سیدہ عائشہ r فرماتی ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا:
’’جو شخص اس حالت میں فوت ہوا کہ اس کے پاس گلوکارہ ہے، اس کا جنازہ مت پڑھو۔“ [قرطبی]
[قَالَ مَكْحُولٌ مَنِ اشْتَرَى جَارِيَةً ضَرَّابَةً لِيُمْسِكَهَا لِغِنَائِهَا وَضَرْبِهَا مُقِيمًا عَلَيْهِ حَتَّى يَمُوتَ لَمْ أُصَلِّ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ الْآيَةَ.]
[أخرجه البغوي في تفسيره ج ۳ ص ۵۰۶، وانظر تفسير الدر المنثور ج ۶ ص ۵۰۵]
’’امام مکحولa فرماتے ہیں : جس نے ایسی لونڈی خریدی جو گانا گانے والی ہے تاکہ وہ اسے گانا سنائے اسی حالت میں اگر اس کی موت واقع ہوگی تو میں ایسے شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھوں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ ﴾‘‘ .......... (جاری ہے)


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)