تقریب تکمیل صحیح بخاری
تحریر: محترمہ بنت
حافظ عبدالغفار
۲۴ اپریل
۲۰۱۸ء
کو جامعہ لاہور الاسلامیہ لاہور کے تحت ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں کثیر تعداد
میں علماء کرام تشریف لائے۔ تقریبا ۱۱۰ طلبہ
کرام تھے جنہوں نے بخاری اور مشکوٰۃ شریف کو مکمل کیا تھا‘ اس کے علاوہ قراء ت کے تقریبا
۴۵
طلبہ نے فراغت پائی۔
اس
تقریب میں مفصل خطاب ڈاکٹر عبدالرحمن مدنیd کا تھا جو جامعہ کے رئیس بھی
ہیں۔ انہوں نے جامعہ کی بنیادوں کا تذکرہ کیا کہ کس طرح یہ ادارہ شیوخ کی محنتوں اور
کوششوں سے چلا‘ اس کے بعد انہوں نے اپنے بزرگوں کی تاریخ سے عوام کو روشناس کروایا۔
ان
کے بعد بخاری شریف کی آخری حدیث پر جامع‘ مفصل‘ مدلل‘ علمی درس کے لیے مفتی جماعت اہل
حدیث شیخ الحدیث حافظ ابو محمد عبدالستار الحمادd کو دعوت خطاب دی گئی۔
حضرت
شیخ صاحب نے تقریبا ۱۶
برسوں میں ہدایۃ القاری شرح صحیح بخاری
کو شیوخ‘ طالب علموں‘ عوام الناس کے لیے تالیف کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بیک وقت
مدرس ہیں‘ جماعت اہل حدیث کے ترجمان ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ میں فتاویٰ نویسی کی ذمہ
داری‘ المشاریع الخیریہ کے تحت زیر تعمیر مراکز ومساجد کی نگرانی‘ مختلف مساجد میں
دروس‘ خطبہ جمعہ کے لیے ملتان آمد ورفت پھر ہر نماز کے بعد عوام الناس کی دینی رہنمائی
اور پھر اس سب پر گھریلو مصروفیات بھی۔
لیکن
ایسے نایاب بندے پلاننگ کے تحت اپنے کاموں کو مرتب کرتے ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ
ان کے وقت میں برکت ڈال دیتے ہیں۔
اس
وقت شیخ صاحب مرکز الدراسات الاسلامیہ میاں چنوں میں وراثت‘ اصول حدیث‘ صحیح بخاری‘
مشکوٰۃ المصابیح کی لڑکیوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ الحمد للہ! مجھے بھی یہ اعزاز حاصل
ہے کہ میں نے تقریبا تین سالوں میں ان سے بخاری شریف پڑھی ہے۔ ویسے بھی رشتے میں وہ
میرے تایا جی ہیں۔
شیخ
صاحب موصوف نے جامعہ رحمانیہ میں جو درس حدیث ارشاد فرمایا اس کی چند جھلکیاں پیش خدمت
ہیں۔
ادارے
کے ممتاز طالب علم محمد داؤد احمد نے ان کے سامنے بخاری کی آخری حدیث پڑھی جس کی سند
شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی سے لے کر اللہ کے رسولe تک جاتی ہے۔ حمد وصلوٰۃ کے
بعد:
{وَاجْعَلْ لِّیْ
لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ٭ وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَة جَنَّة النَّعِیْمِ}
(الشعراء: ۸۴-۸۵)
یہ
سیدنا ابراہیمu کی دو دعائیں ہیں۔ سیدنا ابراہیمu
نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کی کہ یا باری تعالیٰ! میرے دنیا سے
جانے کے بعد لوگ مجھے اچھے الفاظ سے یاد کریں۔ دنیا میں لوگ میرے کردار اور اخلاق کو
یاد کریں اور کل قیامت کو مجھے اپنی نعمتوں والی جنت کا وارث بنا دے۔
اللہ
تعالیٰ نے سیدنا ابراہیمu کی دعا کو حرف بحرف پورا کیا۔
آج کسی بھی مذہب کا آدمی خواہ عیسائی ہو‘ مجوسی ہو‘ یہودی ہو یا مسلمان ہو وہ ان کو
اچھے لفظوں سے ہی یاد کرتا ہے۔
میرا
ان آیات کے پڑھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے مراکز وجامعات میں سال کے آخر میں جو یہ
تکمیل بخاری پر تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں یہ ان کی باقیات الصالحات ہیں۔ ہم کسی بھی
جامعہ میں اس وقت تک طالب علم کو سند فراغت نہیں دیتے جب تک وہ صحیح بخاری کو سبقاً
سبقاً نہیں پڑھ لیتا۔ یہ امام بخاریa کی تالیف اور تصنیف ہے جس کے
بارے محدثین فرماتے ہیں: ’’اللہ کی کتاب کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح بخاری ہے۔‘‘
یہ
کتاب امام بخاریa کا تذکرہ حسنہ ہے جس کی تکمیل
پر آج ہم یہاں جمع ہیں۔ یہی وہ ’’لسان صدق‘‘ ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔
امام
بخاریa جن کو دنیا سے رخصت ہوئے کئی
صدیاں بیت گئی ہیں لیکن آج بھی وہ ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ بخاری شریف پر گفتگو کرنے
کے کئی ایک پہلو ہیں۔ یہ بخاری شریف ہے جسے امام بخاریa
نے تالیف کیا ہے۔ اس کے اغراض ومقاصد کیا تھے؟ اور صحیح بخاری میں
امام بخاریa نے کس قسم کی فقاہت کو بیان
کیا ہے؟
اگر
ذہن میں سوال اٹھے کہ کیا ضروریات زندگی میں پیش آمدہ مسائل کو براہ راست قرآن وسنت
سے سمجھا جا سکتا ہے تو امام بخاریa نے اپنی صحیح بخاری میں اسی
چیز کو ثابت کیا ہے۔ انہوں نے کتاب الوضوء کے تحت ۷۵ ضروریات
کو بیان کیا ہے۔ ۷۵
ابواب کو تحریر کیا ہے اور ان ضروریات
کو آپa نے براہ راست کتاب وسنت سے
ثابت کیا ہے۔ اپنی فکر اپنی عقل کو استعمال نہیں کیا اور لوگوں کو بتلایا ہے جو کہتے
تھے کہ کتاب اللہ کی نصوص ہماری ضروریات کو پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ صحیح بخاری
کو لکھ کر انہوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے جس میں دنیا کی ہر بنیادی ضرورت کا حل
موجود ہے۔ صرف محنت کی ضرورت ہے‘ اگر غور وفکر کے ساتھ ان نصوص کو دیکھا جائے تو ہر
ضرورت کا حل مل سکتا ہے۔
انسانی
ذہن کی اختراع سے لوگوں نے مفروضے قائم کر کے کتابیں لکھ دیں‘ مجھے مفروضوں پر قائم
وہ مسائل بتاتے ہوئے شرم آتی ہے‘ مجلس کا تقدس اور حیا مانع ہے۔ وقت کی قلت رکاوٹ بنتی
ہے ورنہ میں آپ کو بتاتا جو یہ مفروضے قائم کر کے دوسروں کو پریشان کیا گیا اور اپنوں
اور اغیار میں جو اسلام کو مزاح کا نشانہ بنایا گیا کہ تمہارے دین میں ایسے مسائل ہیں
کہ جن کو پڑھ کر انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
امام
بخاریa فقہی فروع اور اجتہادی مسائل
میں مروجہ مسالک سے بالکل آزاد ہیں۔ مذاہب اربعہ میں کسی کی مخالفت‘ تعصب یا موافقت
عقیدت کی بنا پر نہیں بلکہ دلیل پر کرتے ہیں۔ آپ کا مسلک اس آیت مبارکہ کا آئینہ دار
ہے:
{اِتَّبِعُوْا مَآ
اُنْزِلَ اِلَیْكمْ مِن رَّبِّكمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖ اَوْلِیَآئَ}
(الاعراف: ۳)
آپ
مجتہد مطلق‘ امام الفقہ اور تحریک آزادی فکر کے علمبردار ہیں۔ امام بخاریa
نے ہمیں بتایا ہے کہ ہم نے مسائل کا کس طرح استخراج کرنا ہے؟ کتاب
وسنت سے مسائل کے استنباط کے بارے میں بھی رہنمائی فرمائی ہے۔
امام
بخاریa نے [كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة]
کے ذیلی ابواب میں سے ایک باب قائم کیا
ہے: [باب الاحكام التی
تعرف بالدلائل وكیف معنی الدلالة وتفسیرها]
یہ احکام ومسائل اور ضروریات دلائل کی
محتاج ہیں۔ ایسے ہی نہیں جو ذہن میں آیا یا اندھیرے میں تیر مار دیا بلکہ دلائل سے
جواب دینا ہے۔
دلالت کسے کہتے ہیں؟ دلالت کی تفسیر
کیا ہے:
آپ ایک دعویٰ کرتے
ہیں‘ ضروری ہے کہ اس کی دلیل پیش کر دیں۔ وہ دلیل کونسی ہو سکتی ہے جس سے ہم مسائل
کو استنباط کریں؟ امام بخاریa نے اس سلسلے میں اس باب کے
تحت دو احادیث پیش کی ہیں۔
Ý
ایک یہ کہ گھوڑے تین
قسم کے ہوتے ہیں:
1 وہ گھوڑے جو جہاد اور اللہ کے کلمہ کو بلند
کرنے کے لیے باندھے جاتے ہیں۔ یہ باعث ثواب واجر کا کام ہے۔
2 وہ گھوڑے جو انسان اپنی ضروریات کے لیے رکھتا
ہے اور لوگوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
3 وہ گھوڑا کہ جس کو کسی شخص نے فخر وریا کے
لیے باندھا ہے‘ وہ اس کے لیے گناہ کا باعث ہے۔
پھر
کسی نے آپ e سے گدھوں کے بارے میں سوال
کیا کہ آپ نے گھوڑوں کا تو بتا دیا کہ وہ باعث اجر وثواب‘ انسانی ضرورت اور فخر وغرور
کے لیے ہے۔ تب آپe نے گدھوں کے بارے میں فرمایا
کہ ’’مجھ پر سوائے ایک آیت کے اس بارے میں کچھ نہیں نازل ہوا۔‘‘ {فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّة خَیْرًا یَّرَه وَمَنْ یَّعْمَلْ
مِثْقَالَ ذَرَّة شَرًّا یَّرَه} (الزلزلۃ: ۷-۸) … رسول مکرمe
نے اس آیت کے عموم میں گدھوں کا جو خصوصی سوال تھا اس کو داخل کر
کے جواب ارشاد فرمایا۔
یہ
بھی کتاب وسنت سے تمسک (دلیل پکڑنے) کی ہی ایک صورت ہے۔ اسے دلالت شرعی کہتے ہیں۔
Þ
ایک اور حدیث پیش
کی ہے کہ ایک عورت اللہ کے رسولe کے پاس آئی اور کہنے لگی‘ مجھے
ماہانہ عادت کے بعد غسل کرنے کے بارے میں رہنمائی درکار ہے۔
آپe
نے فرمایا: [تاخذین فرصة ممسكة فتوضئین بها]
’’مشک لگا روئی کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کر لو۔‘‘ لیکن وہ عورت سمجھ نہ سکی۔
پھر سے پوچھنے لگی: [كیف أتوضأ بها
یا رسول الله] ’’اللہ کے رسول! میں اس روئی کے ٹکڑے
سے کیسے وضوء کروں؟‘‘ … رسول مکرمe جو شرم وحیاء کے پیکر تھے انہوں
نے حیاء سے اپنا چہرہ مبارک دوسری طرف کر لیا۔ سیدہ عائشہr
عقل وبصیرت سے رسول اللہe کی غرض سمجھ گئیں‘ وہ اس عورت
کو بازو سے پکڑ کر اندر لے گئیں۔ اسے بتایا کہ مشک لگا ہوا روئی کا ٹکڑا لے کر جہاں
جہاں خون کے نشانات ہیں وہاں لگا دو تا کہ ناگواری کے اثرات ختم ہو جائیں۔ اس سے وضوء
کا مطلب یہ ہے۔
جبکہ
ہمارے ہاں تو وضوء اسے کہتے ہیں جو پانی سے کیا جاتا ہے لیکن آپe
نے ایک اور وضوء متعارف کروایا ہے جو اس وقت عرف اور عقل کے مطابق
رائج تھا۔ اسے دلالت عقلی یا دلالت عرفی کہتے ہیں۔
یہ
ہمیں امام بخاریa سکھا رہے ہیں کہ نصوص سے مسائل
کو اخذ کیسے کرنا ہے۔ ہمارے اکثر اہل حدیث احباب کی عادت ہوتی ہے کہ اس مسئلے کی قرآن
سے آیت یا حدیث دکھائیں‘ اس مسئلے کے ثبوت کے لیے عبارت چاہیے۔ ضروری نہیں کہ ہر مسئلے
کے لیے عبارت کو پیش کیا جائے۔ محدثین نے اس دلالت کی چار اقسام بھی بیان کی ہیں:
1 نص کی عبارت ہی اس حکم کو بیان کرتی ہے جیسا
کہ ارشاد ربانی ہے: {فَاجْتَنِبُوا
الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثٰنِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ} (الحج:
۳۰)
اس نص کی عبارت ہی سے پتہ چلتا ہے
کہ جھوٹی گواہی دینا حرام ہے۔ … اسے عبارۃ النص کہتے ہیں۔
2 نص کے الفاظ میں کوئی اشارہ پایا جاتا ہو
جس سے کوئی دوسرا حکم ثابت ہو۔ جیسے ارشاد ہے: {وَشَاوِرْهمْ فِی الْاَمْرِ}
آل عمران: ۱۵۹)
اس عبارت میں اشارہ ہے کہ امت میں
ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو اس کی نمائندگی کرے تا کہ اس گروہ سے اہم معاملات میں
مشورہ کیا جا سکے۔ …اسے اشارہ نص کہتے ہیں۔
3 ایک مسئلے میں الفاظ سے کچھ رہنمائی ملتی
ہو۔ نص کا حکم کسی دوسرے حکم کی طرف از خود رہنمائی کرے۔ جیسے ارشاد ربانی ہے: {فَلَا تَقُل لَّهمَا اُفٍّ وَّلَا تَنْهرْهمَا وَقُل لَّهمَا
قَوْلًا كرِیْمًا} (بنی اسرائیل: ۲۳) … ’’والدین کو اف تک
نہ کہو۔‘‘
اس حکم میں ایک دوسرے حکم کی طرف رہنمائی
موجود ہے کہ والدین کو مارنا پیٹنا بالاولیٰ حرام ہے۔ …اسے فقہی اصطلاح میں دلالت نص
کہتے ہیں۔
4 نص کے الفاظ کسی ایسے معنی کا تقاضا کریں
کہ اسے تسلیم کیے بغیر نص کا مفہوم متعین نہ ہو سکے۔ مثلاً: {حُرِّمَتْ عَلَیْكمْ اُمَّهٰتُكمْ…}
(النساء: ۲۳) تم
’’پر تمہاری مائیں حرام ہیں۔‘‘
اس تحریم سے مراد حرمت نکاح ہے۔ …
اسے تسلیم کیے بغیر نص کے معنی متعین نہیں ہوتے۔ اسے فقہی اصطلاح میں اقتضاء النص کہا
جاتا ہے۔
یہ
کتاب الجامع الصحیح صرف فن حدیث پر ہی مشتمل نہیں بلکہ اس میں کتاب وسنت پر مبنی فقہ
کا بھی بیان ہے جسے فقہ الحدیث کہتے ہیں۔
امام
بخاریa ایک ایک حدیث جو بار بار لاتے
ہیں۔ بعض طلبہ پریشان ہو جاتے ہیں کہ کل تو یہ حدیث میں نے پڑھی تھی آج پھر آگئی؟ امام
بخاریa تکرار کے ساتھ جو احادیث لاتے
ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ امام بخاریa کی فقاہت ہے کہ ہر نئی جگہ
جہاں حدیث کو مکرر لاتے ہیں وہاں اس سے ایک نیا مسئلہ اخذ کرتے ہیں۔
آپ
ما شاء اللہ! علماء اور طلبہ ہیں‘ آپ سب حدیث بریرہr سے آگاہ ہوں گے۔ سیدہ بریرہr
نے اپنے آقاؤں سے ایک معاہدہ کیا کہ میں اتنے تولے چاندی دے کر تم
سے آزادی حاصل کر لوں گی‘ یہ مکاتب ہو گی پھر وہ مدد کے لیے سیدہ عائشہr
کے پاس آئیں۔ سیدہ عائشہr نے فرمایا: ’’میں تمہیں ایک
ہی وقت یہ چاندی ادا کر دیتی ہوں لیکن آزادی کے بعد ولاء اور تعلق میرے ساتھ قائم ہو
گا۔ … یہ لمبی حدیث ہے۔
امام
بخاریa کی فقاہت وباریک بینی پر قربان
جائیں آپa نے اس سے تقریبا ۳۰ مسائل
کا استنباط کیا ہے۔ طوالت کا ڈر نہ ہوتا تو میں یہاں آپ کو ان ۳۰ مسائل
کی نشاندہی کرتا کہ کس کس مسئلے کے لیے اس حدیث کو دلیل بنا کر لے کر آئے ہیں۔
حدیث
جابرt مشہور ہے کہ رسول مکرمe
غزوۂ تبوک سے واپس آئے۔ سیدنا جابرt کا اونٹ تھک کر بیٹھ گیا۔ آپ
نے لکڑی سے کچوکا لگایا۔ اونٹ اٹھا اور بڑی تیز رفتاری سے چلنے لگا۔ آپe
نے فرمایا: جابر! اس اونٹ کو مجھے فروخت کر دیں۔ کہا: اللہ کے رسول!
لے لیں لیکن ایک شرط میں‘ وہ یہ کہ مدینہ پہنچ کر آپ کے حوالے کروں گا۔… اسے حدیث جابر
کہتے ہیں۔
امام
بخاریa نے اس حدیث سے تقریبا ۲۵ مسائل
کا استنباط کیا ہے۔
رسول
مکرمe نے ایک یہودی سے زندگی کے آخری
ایام میں چند وسق جَو خریدے اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی۔ اس حدیث سے امام بخاریa
نے تقریبا ۲۰ مسائل
کا استنباط کیا ہے۔
حدیث کسوف:
آپe
غزوۂ تبوک سے واپس آئے کہ سورج کو گرہن لگ گیا۔ لوگوں نے مشہور کر
دیا کہ آپe کے بیٹے ابراہیمt
کی وفات پر سورج بھی بے نور ہو گیا۔ آپe
نے فرمایا کہ ’’چاند اور سورج اللہ کی نشانیاں ہیں ان کا تعلق کسی
کی زندگی اور موت سے نہیں ہوتا۔‘‘ … لمبی حدیث ہے۔
امام
بخاریa نے اس حدیث سے تقریبا ۱۵ مسائل
کا استنباط کیا ہے۔
بعض
لوگوں نے اپنی عقل‘ اپنی فکر‘ اپنی سوچ سے مسائل کو اخذ کیا تھا‘ وہ کہتے تھے کہ اس
دنیا میں انسانی ضروریات بے شمار ہیں جبکہ قرآنی نصوص محدود ہیں۔ احادیث محدود ہیں‘
ان محدود نصوص سے غیر محدود ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔ اس سے انہوں نے فقہ رائے کو
رواج دیا۔ … جتنی بھی فقہ کی کتابیں ہیں اس میں رائے کو بیان کیا گیا ہے۔
امام
بخاریa کی قبر پر اللہ تبارک وتعالیٰ
لاکھوں رحمتیں برسائے‘ وہ نہ صرف خود فقہی ہیں بلکہ طلبہ کو بھی فقہی بنا دیتے ہیں۔
انہوں نے ہمارے سامنے ایک راستہ کھول دیا ہے۔
امام
بخاریa کے دور میں تیسری صدی میں لوگ
اپنے ائمہ کے اقوال کو حرف آخر سمجھتے تھے اور انہیں نصوص کا درجہ دیتے تھے۔ وہ اپنے
ائمہ کے اقوال سے مسائل کا استخراج کرتے تھے۔ امام بخاریa
نے ہمیں جس فقہ الحدیث سے متعارف کروایا ہے وہ تقلیدی نہیں بلکہ آپ
تحریک آزادی فکر کے علمبردار ہیں۔ آپa نے کسی بھی امام کے اقوال‘
نقطہ نظر کو دلیل بنا کر پیش نہیں کیا۔
امام
شافعیa کا موقف ہے کہ جمعہ کی ادائیگی
کے لیے کم از کم چالیس آدمیوں کا ہونا ضروری ہے۔ امام بخاریa
نے ان کی تردید کرتے ہوئے باب کو عنوان دیا ہے کہ ’’جب لوگ نماز جمعہ
کے وقت امام کو چھوڑ کر چلے جائیں تو امام اور باقی ماندہ آدمیوں کی نماز صحیح ہے۔‘‘
… پھر اس کے تحت حدیث ذکر فرمائی کہ
رسول مکرمe
نے بارہ آدمیوں کے ساتھ نماز جمعہ ادا فرمائی جبکہ تجارتی قافلہ آنے
کی وجہ سے لوگ دوران جمعہ چلے گئے تھے۔
احناف
کے ہاں جمعہ کی ادائیگی کے لیے متعدد شرائط ہیں۔ ان کے ہاں عام دیہاتوں میں جمعہ جائز
نہیں۔ امام بخاریa نے اس موقف کی تردید کر دی۔
عنوان: ’’دیہاتوں اور شہروں میں جمعہ کی ادائیگی۔‘‘ کے تحت ایک باب قائم کیا ہے۔ پھر
اس حدیث کا حوالہ دیا کہ
’’مسجد نبوی کے بعد پہلا جمعہ عبدالقیس کی ایک
جواثی نامی بستی میں شروع ہوا جو بحرین کے علاقے میں تھی۔‘‘
امام
مالکa کا موقف ہے کہ بارش کی وجہ
سے جمعہ چھوڑ دینا جائز نہیں۔ امام بخاریa نے اس کو رد کر دیا اور ایک
عنوان قائم کیا ’’بارش کی وجہ سے جمعہ میں حاضر نہ ہونے کی رخصت ہے۔‘‘ اس کے تحت امام
صاحب نے سیدنا عبداللہ بن عباسw کا قول ذکر کیا کہ
’’اگرچہ جمعہ کی ادائیگی بہت ضروری ہے تا ہم بارش
کی وجہ سے میں نہیں چاہتا کہ تمہیں مشقت میں ڈالوں اور تم مٹی اور کیچڑ میں لتھڑے ہوئے
مسجد میں آؤ۔‘‘
امام
احمد بن حنبلa کا موقف ہے کہ زوال آفتاب سے
پہلے جمعہ جائز ہے۔ امام بخاریa نے صراحت فرمائی کہ یہ موقف
صحیح نہیں اور اس کے رد میں عنوان قائم کیا: ’’جب سورج ڈھل جائے تو جمعہ کا وقت ہوتا
ہے۔‘‘ پھر آپa نے اس کے تحت سیدنا انسt
کی حدیث پیش کی‘ وہ کہتے ہیں:
’’ہم رسول اللہe کے ساتھ جمعہ کی ادائیگی اس
وقت کرتے جب سورج ڈھل جاتا۔‘‘
ہم
ائمہ کا ادب احترام کرتے ہیں لیکن ان کے یہ موقف قرآن وسنت کے مطابق نہیں۔ یہ تو میں
نے چند ایک مثالیں پیش کی ہیں۔ جب ہم ان کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایسی متعدد
مثالیں ملتی ہیں۔ امام بخاریa کی مخالفت اور موافقت حق کی
بنیاد پر ہے وہ تقلیدی نہیں۔
ہمارے
ہاں مخالفت تعصب کی بناء پر اور موافقت عقیدت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس کی چند ایک مثالیں
آپ کے سامنے رکھتا ہوں:
امام شافعیa
ایک بہت بڑے امام ہیں۔ مسئلہ پیش آیا کہ کیا شافعی عورت سے حنفی مرد
نکاح کر سکتا ہے؟ اسلام میں تو معیار یہ ہے کہ ’’جب تم اسلام اور اخلاق والے شخص کو
دیکھو کہ وہ تمہیں پیغام نکاح بھیج رہا ہے تو شادی کر دو۔‘‘
اسلام
کا معیار تو یہ ہے لیکن مخالفت تعصب کی بنیاد پر یہ رنگ لاتی ہے کہ
’’شافعی عورت سے حنفی مرد نکاح کر سکتا ہے لیکن
حنفی عورت سے شافعی مرد نکاح نہیں کر سکتا کیونکہ ہم امام شافعی اور اس کے پیروکار
کو اہل کتاب سمجھتے ہیں جس طرح ایک مسلمان اہل کتاب کی عورت سے نکاح کر سکتا ہے لیکن
مسلمان عورت سے اہل کتاب کے مرد کو نکاح کی اجازت نہیں ہوتی‘ اسی طرح یہاں معاملہ ہو
گا۔‘‘
ہم
نے اس پر قیاس کر کے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ یہ تعصب کی بنیاد پر مخالفت کی گئی ہے۔
اسی
طرح جو موافقت کرتے ہیں وہ عقیدت کی بناء پر کرتے ہیں۔ خرید وفروخت میں اگر میں نے
کچھ خریدا ہے‘ اس کی قیمت بھی ادا کر دی لیکن ابھی مجلس موجود ہے تو میں وہ چیز واپس
کر کے اپنی قیمت لے سکتا ہوں۔ اسے خیار مجلس کہتے ہیں۔ مجلس کی موجودگی میں مجھے اختیار
حاصل ہے۔
ایک
بزرگ لکھتے ہیں کہ خیار مجلس میں امام شافعیa کا موقف صحیح ہے۔ کتاب وسنت
کے مطابق ہے۔ لیکن ہم چونکہ امام ابوحنیفہa کے مقلد ہیں‘ لہٰذا ہم پر واجب
ہے کہ ہم اپنے امام کی تقلید کریں۔ ہم اس مجلس خیار کو نہیں مانتے۔
اسی
طرح یہ مائیں جو بچوں کو دودھ پلاتی ہیں اس کی مدت دو سال ہے‘ تین جگہوں میں قرآن پاک
میں ارشاد ہے۔ سورۂ بقرہ‘ سورہ لقمان‘ سورۂ الاحقاف میں وضاحت کے ساتھ اس کی نص موجود
ہے۔ ایک تفسیر عثمانی مشہور ہے۔ سورت لقمان کی تفسیر کے دوران حاشیے پر جناب مفتی شبیر
احمد عثمانیa لکھتے ہیں:
’’ہمارے امام ابوحنیفہa نے جو اڑھائی سال کا کہا ہے
آخر ان کے پاس بھی تو کوئی حدیث ہو گی‘ انہوں نے ایسے اندھیرے میں تیر تو نہیں مارا
ہو گا۔ … ٹھیک ہے قرآن پاک میں نص ہے۔ باقی فقہاء اور امام بھی دو سال دودھ پلانے کا
کہتے ہیں لیکن ہم نہیں مانتے کیونکہ ہم پر اپنے امام کی اطاعت واجب ہے۔‘‘
اسی
طرح کے کئی واقعات ان کی کتابوں میں موجود ہیں جس سے وہ لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔
صرف عقیدت کی بناء پر وہ کتاب وسنت کی نص کا انکار کر دیتے ہیں۔
ہماری
تو سب کے لیے دعوت ہے کہ صحیح بخاری شریف کو پڑھیے۔ اس طرح پڑھیے کہ امام بخاریa
نے کونسا اسلوب‘ کونسا انداز اختیار کیا ہے۔
مجھے
اپنی کتاب ’’ہدایۃ القاری شرح صحیح بخاری‘‘ جو ۱۵ جلدوں
میں مدون ہے‘ اللہ کے فضل سے ۱۶ برس
اس کو لکھتے ہوئے لگے ہیں۔ میں نے احادیث کی شرح کرتے ہوئے اس پر وضاحت کی ہے۔ امام
بخاریa نے یہاں جو مسئلے کا استنباط
کیا ہے وہ کس اصول کو سامنے رکھ کر کیا ہے؟ اس میں دلالت کا وہ کونسا پہلو ہے جس کی
بناء پر امام صاحب نے اس سے مسئلہ اخذ کیا ہے؟
اگرچہ
لوگ اعتراضات کرتے ہیں‘ میں نے کوشش کی ہے کہ منکرین احادیث کو بھی جواب دیا جائے جنہوں
نے امام بخاریa کی صحیح پر اعتراضات کیے ہیں
لیکن یہ قرض ابھی باقی ہے‘ وہ صرف کتاب العلم اور کتاب الوضوء تک ہی رہا ہے۔ آگے جواب
دینا باقی ہے۔
اللہ
تعالیٰ نے اگر مجھے توفیق دی یا پھر میرے نوجوان کو توفیق دی کہ (انہوں نے جو احادیث
پر غور وفکر اور تدبر کرنے کی بجائے احادیث پر مذاق کیے ان پر اعتراضات کییتو) وہ اس
کا جواب دیں گے اور اس قرض کو اتاریں گے۔ ان شاء اللہ !
ضرورت
اس امر کی ہے کہ ہم برملا امام بخاریa کی عظمت کا اعلان کریں اور
ان کے طریق استدلال کا پرچار کریں۔ کیونکہ سنت نبوی میں شکوک وشبہات پیدا کرنے والے
منکرین حدیث دیگر تاریخی حوالہ جات بھلے وہ قبل از مسیح کے من گھڑت واقعات ہوں کو تو
تسلیم کرتے ہیں لیکن امام بخاریa کی صحیح بخاری پر اعتراضات
کرتے ہیں‘ جانے ان کا معیار کیا ہے؟
امام
بخاریa کی کتاب معمولی نہیں کہ ہم
اسے احادیث کا مجموعہ ہی خیال کریں‘ پڑھیں اور بس چھوڑ دیں۔ بلکہ یہ کتاب ایک دستور
حیات اور نظام زندگی ہے۔ اس میں ہمیں زندگی کے ہر مسئلے کا حل ملتا ہے جبکہ دوسروں
کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ اس لیے وہ اس پر اعتراضات کرتے ہیں۔ کبھی اس کے راویوں پر
اعتراض کرتے ہیں تو کبھی احادیث میں تضاد بیان کرتے ہیں۔ کبھی صحابہ کرام]
کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔
لہٰذا
میری شیوخ الحدیث‘ علماء اور اساتذہ سے درخواست ہے کہ وہ طلبہ کو اس طرح سے صحیح بخاری
پڑھائیں کہ انہیں مسائل کے استنباط اور اخذ کرنے کا طریقہ اور سلیقہ آجائے‘ وہ فقہ
حدیث کا انعام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص انہیں ملنا ہے ان میں وہ پیدا ہو جائے۔
وہ امام بخاریa کی فقاہت اس کے اسرار ورموز
ودقائق کو سمجھ سکیں۔
ہم
اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کتاب کو سمجھنے‘ اس کے
مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ اور اللہ ہمیں اپنی زندگیوں میں اس کتاب کی خدمت کرنے
کی توفیق دے۔ اور اللہ تعالیٰ امام بخاریa کی قبر مبارک پر اپنی رحمتوں
کا نزول کرے۔
ربنا تقبل منا انك انت السمیع العلیم
No comments:
Post a Comment