پروفیسر
ڈاکٹر فضل الٰہی﷾ کا اسلام آباد شوریٰ سے خطاب
پیش کش: جناب حافظ
مقصود احمد
حمد
وثناء کے بعد:
حضرات
علمائے کرام واراکین مجلس شوریٰ مرکزی جمعیت اہلحدیث اسلام آباد! اس مجلس میں‘ اللہ
تعالیٰ اسے میرے اور آپ کے لیے مبارک بنائے، گناہوں کی معافی، پریشانیوں سے نجات،
درجات کی بلندی اور اپنا مقرب بننے کا سبب بنائے‘ آمین یا رب العالمین۔
اس
مجلس میں اپنی اورآپ احباب کی مزید اور گہری توجہ کی غرض سے چار باتیں عرض کرنے کے
ارادے سے توفیق الٰہی سے حاضر ہوا ہوں:
Ý رب کریم کی ہم ناکاروں پر عظیم نوازش اور
بہت ہی بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں (اہل حدیث) کی عظیم الشان نسبت سے نوازا۔ ذَٰلِکَ
فَضْلُ اللَّہِ یُؤْتِیہِ مَن یَشَائُ وَاللَّہُ
ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ۔
’’اہل
حدیث‘‘ کون ہے؟ ’’اہل حدیث‘‘ وہ ’’طائفہ منصورہ‘‘ ہے ، جس کے تاقیامت حق پر ثابت قدم
رہنے کی لسان نبوت e نے بشارت دی ہے۔ سیدنا ثوبانt
سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا:
[لاَ تَزَالَ طَائِفَة
مِن اُمَّتِی ظَاھِرینَ عَلی الحَقِّ، لَا یَضُرُّھُم مَنْ خَذَلَھُمْ ، حَتی یَأتِی
اَمرُاللّٰه، وَھُم كذلِك۔](مسلم: ۱۷، ۱۹۲۰)
’’میری امت میں سے ایک گروہ حق پر ثابت قدم رہے
گا، انہیں چھوڑنے والا انہیں ضرر نہیں پہنچائے گا (بلکہ خود ہی کو نقصان پہنچائے گا)،
یہاں تک کہ حکم الٰہی (یعنی قیامت) آجائے‘‘۔
امام
احمد بن حنبلa فرماتے ہیں:
[اِن لَّم یَكونُوا
اَھلَ الحَدیثِ فَلَا اَدرِي مَن ھُم۔] (شرح
النووي:۱۳/۶۷)
’’اگر وہ اہل حدیث نہیں، تو مجھے معلوم نہیں کہ
وہ (پھر) کون (لوگ) ہیں؟‘‘
علامہ
عبدالحی لکھنوی حنفیa اختلافی مسائل (محدثین کے مذہب)
کی دیگر مذاہب پر فوقیت اور برتری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَلِلّٰه دَرُّھُمْ! وَعَلَیه شُكرُھُمْ كیفَ لَا؟ وَھُم وَرَثَة النَّبِي ﷺ حَقًّا،
وَنُوّابُ شَرَعِه صِدقاً حَشَرَنَا اللّٰه فِي زُمرَتِھِم، وَأَمَاتنَا عَلی حُبِّھِم
وسِیرَتِھم۔(آمین یا رب العلمین)
’’اللہ تعالیٰ ہی نے انہیں کیا خوبی عطا فرمائی
ہے! اور اسی بنا پروہ شکریہ کے مستحق ہیں‘ ایسے کیوں نہ ہو؟کیونکہ وہ نبی کریم e
کے حقیقی وارث اور ان (پر نازل کردہ) شریعت کے سچے جانشین ہیں۔ اللہ
تعالیٰ ہمیں (روز قیامت) ان کے گروہ میں سے اٹھائیں اور ہماری موت ان کی محبت اور ان
کے طریقے پر چلتے ہوئے آئے۔‘‘ (آمین یا رب العالمین)
Þ مسلک اہل حدیث (خالص کتا ب وسنت) کی خدمت
اور تبلیغ واشاعت کے لیے عہد نبوت e سے ہی متعدد گونا گوں اسالیب
ووسائل ، تدبیریں اور ذرائع اختیار کیے گئے۔ برصغیر ہندوپاک میں ہمارے بزرگ علمائے
کرام نے (آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس) اور قیام پاکستان کے بعد (مرکزی جمعیت اہل حدیث
پاکستان) قائم کی۔ جزاھم اللہ تعالیٰ خیرالجزاء۔اسی تنظیم کی شاخیں اللہ تعالیٰ کے
فضل وکرم سے ملک بھر اور متعدد بیرونی ممالک میںہیں۔
یہ
تنظیم(مسلک اہل حدیث) قرآن وسنت کی خدمت کے لیے ہے۔ (تنظیم) کتاب وسنت کی تابع ہے،کتاب
وسنت اس کے تحت نہیں۔ (تنظیم) کے تمام اغراض ومقاصد اور ہر قسم کی سرگرمیوں کے لیے
معیار (کتاب وسنت) ہے۔ تنظیم کی ہر وہ بات اور عمل جو کتاب وسنت سے ٹکرائے قطعی طور
پر بے حیثیت اور ناقابل توجہ ہے۔ (مسلک اہلحدیث) میں (تنظیم جماعت) کوئی ایسا بت نہیں
کہ جس کی بہر صورت پرستش کرنا ہے۔ ہر قسم کی وفاداری کا منبع ومرکز کتاب وسنت ہے۔ جو
اس سے ہٹا ، وہ بے وقعت ٹھہرا۔
ß (تنظیم جماعت) کے ذریعے قرآن وسنت کی خدمت
کی غرض سے احباب اپنے میں سے اپنی (قیادت) کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد
باتوں میں اس مقام پر چار نکات کی جانب توفیق الٰہی سے توجہ دلانا چاہتا ہوں:
الف:
ہر کمزوری ، کوتاہی، عیب اور خلل سے خالی
نبی کریم e کے بعد امت میں کوئی نہ تھا،
نہ ہے، نہ ہوگا اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قرآن وسنت
کے اپنے وسیع وعمیق علم کا نچوڑ دو لفظوں میں بیان کردیا ہے:
قیادت(احسن الموجودین)
میسر لوگوں میں سے بہترین افراد کو سونپی جائے۔ رب کریم آج کے اس اجتماع کو اسی بات
کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
ب: قیادت کا طلب گار نصرتِ الٰہی سے محروم اور
بلا طلب قیادت کا بوجھ اٹھانے والا تائید رب العالمین سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ امام بخاری
اور امام مسلم (رحمھما اللہ)نے سیدنا عبدالرحمن بن سمرہt سے روایت کیا، کہ ’’رسول اللہ
e نے مجھے فرمایا:
[لا تسأل الا مارة،
فانك ان اعطیتھا عن مسألة وكلت الیھا۔ وان أعطیتھا من غیر مسألة أعنت علیھا۔]
(المشكاة: ۳۶۸۰)
’’امارت کا سوال نہ کرناکیونکہ بے شک اگر تمہیں
وہ طلب کرنے پر دی گئی، تو تمہیںاسی کے سپرد کیا جائے گا اور اگر تم بلا طلب دئیے گئے،
تو تمہاری اس کے بارے میں مدد کی جائے گی‘‘۔
ج: (قیادت) جماعت کی خدمت کے لیے ہے، جماعت(قیادت)
کے ذاتی مصالح اور مفادات کے لیے نہیں۔ دین کے نام پر دنیا بنانے کی کوشش کرنے والے
کے لیے نبی صادق e نے دوٹوک انداز میں سنگین وعید
سنائی ہے۔حضرات ائمہ احمد، ابن حبان، حاکم اور بیہقیS نے سیدنا ابی بن کعبt
سے روایت کیا ہے ، کہ رسول اللہ e نے فرمایا:
[فمن عمل منھم عمل
الآ خرة للدنیا، لم یكن له في الآخرة من نصیب۔] (صحیح الترغیب والترھیب: ۲۳)
’’پس جس شخص نے ان (یعنی امت) میں سے آخرت کا
کام دنیا کے لیے کیا تواس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں‘‘۔
د: [قیادت](کتاب وسنت) کے زیر سایہ ہے، ان
سے بلند وبالا نہیں۔ [قیادت] کا (کتاب وسنت) سے ٹکرانے والا ہر قول وفعل بے کار اور
مردود ہے، نبی کریم eکے بعد امت میں، بلاشک وشبہ عظیم ترین
قیادت [قیادت صدیقی رضی اللہ عنہ] تھی ۔ انہوں نے خلافت کی [بیعتِ عامہ] کے بعد اپنے
اولین خطبہ میں واضح انداز میں اعلان فرمایا:
[أطیعونی ما أطعت
الله ورسوله، فاذا عصیت الله ورسوله فلا طاعة لی علیكم۔] (السیرة النبویة وأخبار الخلفآء:
۴۲۳-۴۲۴)
’’جب تک میں اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول e
کی اطاعت کروں، تم میری اطاعت کرو۔پس جب میں اللہ تعالیٰ اور ان کے
رسولe کی نافرمانی کروں، توتم پر
میری اطاعت نہیں‘‘۔
(قیادت
صدیقیt) سے اعلیٰ، بلکہ برابر کبھی، امت میں قیادت تھی
، نہ ہے اور نہ ہوگی،تو پھر کتاب وسنت کے خلاف بات کی حیثیت کیا ہو سکتی ہے؟
à عام احباب جماعت کے حوالے سے خود اپنی اور
احباب کرام کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں:
الف:
(جماعتی قیادت) کی عزت وتوقیر۔ اگرہم جماعت
کے لوگ ہی ان کے احترام ووقار میں کوتاہی کریں گے تو پھر دیگر لوگوں سے کیا توقع رکھیں
گے؟ان کی تکریم میں جماعت کی تکریم اور ان کی اہانت میں جماعت کی اہانت ہے۔
حدودِ
شریعت میں ان کے لیے (سمع وطاعت) ہوگی، قرآن وسنت کی خدمت کیلئے تاحد استطاعت ان کے
ساتھ(تعاون) ہوگا۔ ہم عوام کی (سمع وطاعت) اور (تعاون) کے بغیر جماعتی اغراض ومقاصد
کی تکمیل خواب وخیال کی حدود پار نہ کرسکے گی۔
ب:
(قیادت)
پر تنقید کرتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا محاسبہ ضرورکرنا ہوگا ، کہ میں نے جماعت
کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔ اپنی ذمہ داری سے چشم پوشی کرتے ہوئے، دوسروں کی کوتاہی کا
حساب لینا آسان تو ہے لیکن ناپسندیدہ، اور جماعتی زندگی کے لیے مہلک اور تباہ کن ہے۔
آخر
میں رب ذوالجلال والاکرام سے عاجزانہ التماس ہے کہ ہم سب کو خالص کتاب وسنت والے اس
صاف وشفاف اور کھرے مسلک، (مسلک اہلحدیث) سے موت تک محروم نہ فرمائیں، اسی پراللہ تعالیٰ
کی ملاقات کے لیے دنیا سے روانگی ہو اور اسی کے ساتھ روز حشر اٹھائے جائیں اور اسی
کے ساتھ پل صراط کو عبور کرتے ہوئے جنات الفردوس میں اپنی رحمت سے داخل فرمادیں کہ
رب العالمین کا دیدار ہوتا رہے اور نبی کریم e کی صحبت پاک میسر ہوتی رہے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی نبینا محمد وعلی آلہ وأصحابہ وأتباعہ وبارک وسلم۔
No comments:
Post a Comment