دینی اصولوں میں تجدید کے اصول
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن السدیس d
ترجمہ: جناب عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! تقویٰ سے دل منور اور روشن ہو جاتا
ہے، جسم کے سارے اعضاء روشن اور چمک دار ہو جاتے ہیں:
’’اے لوگو جو ایمان
لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسولe پر
ایمان لاؤ، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہرا حصہ عطا فرمائے گا اور تمہیں وہ نور بخشے
گا جس کی روشنی میں تم چلو گے، اور تمہارے قصور معاف کر دے گا، اللہ بڑا معاف کرنے
والا اور مہربان ہے۔‘‘ (الحدید: ۲۸)
اے مسلمانو! اس زمانے میں، جو کہ سیاہ فتنوں اور تاریک آزمائشوں کا زمانہ ہے، اس زمانے میں تاریخ
کے واقعات اور زمانے کے حادثات میں، چند اصولی مسائل جنم لیتے ہیں، جو انتہائی اہم
ہیں۔ جن پر ٹھہر کر غور وخوض کرنے، ان کے اہداف، اصول ، ذرائع، مقاصد اور نتائج کی
تحدید کی ضرورت ہے، تاکہ ان کی وجہ سے غیرت مند مسلمانوں کے کلیجے جلنے نہ لگیں اور
درد رکھنے والوں کے سینے لہو لہو نہ ہو جائیں، کیونکہ یہی مسائل سوچے سمجھے نظریاتی
حملوں کا حصہ بن سکتے ہیں، جن کا مقصد کسی خاص قسم کے کلچر کو زبردستی نافذ کرنا، غیر
شرعی طرز فکر اور اصطلاحات جبراً اسلامی معاشروں میں رائج کرنا ہو سکتا ہے۔ مسائل کی
اس چوٹی پر ایک انتہائی خطرناک اور اہم مسئلہ موجود ہے، جس کا خطرہ تب مزید بڑھ جاتا
ہے جب انتہا پسندانہ اور متشددانہ طرز گفتگو رواج پاجاتا ہے۔ جب غلو اور فرقہ واریت
کا دور دورہ ہوتا ہے، جب دوسروں کو نیچا دکھانے اور ان سے نفرت کرنے کا رواج پھیل جاتا
ہے، کینہ پروری اور عنصریت پسندی عام ہو جاتی ہے۔ یہ مسئلہ دینی اصولوں میں تجدید کا
مسئلہ ہے۔
اے مسلمانو! ہماری پر نور اسلامی شریعت نے عدل وحکمت، آسانی
اور رحمت سے دنیا کو بھر دیا ہے۔ اجتہاد اور جدید مسائل کو بھی اپنے اندر سمو لیا ہے۔
یہ کوئی جامد شریعت نہیں، یا کسی بے لچک پتھر جیسے سخت احکام نہیں ہیں۔ بلکہ یہ ہر
دم نئی اور انتہائی نرم ہے۔ عصر حاضر کے جدید وسائل کے مطابق ڈھلنے کی قابلیت رکھتی
ہے، اس کی ٹیکنالوجی، ایجادات اور نتائج سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے، بیک وقت
اٹل اصولوں اور قابل تبدیل قاعدوں کے ساتھ چلنے کی طاقت رکھتی ہے، اس میں قدامت اور
جدت بیک وقت پائی جاتی ہیں۔
اہل سنت کے ہاں یہ متفقہ ضابطہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل کو
اسی لیے پیدا کیا ہے کہ اچھی چیز کی اچھائی اور بری چیز کی برائی معلوم ہو سکے۔ اس
خاصیت کولوگوں کی فطرت میں بھی شامل کیا گیاہے۔ ہاں! کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں معتدل
اور درمیانی راہ معلوم کرنا مخلوق کے بس میں نہیں ہوتا، خاص طور پر جو جدید ایجادات
یا بڑے بڑے عصری مسائل کے متعلق ہوں، یا امت کے بڑے مسائل کے بارے میں ہوں۔ ان مسائل
میں راہِ اعتدال معلوم کرنے کے لیے حکمت والے شریعت ساز کی طرف لوٹنا ضروری ہے۔ دین
کے عظیم اصولوں میں قابل اعتماد تجدید کا یہ پہلا اور اہم ضابطہ ہے کہ وہ قرآن وحدیث
اور شرعی دلائل پر قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اے لوگو جو ایمان
لائے! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب
امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول
کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو‘ یہی ایک صحیح طریق
کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔‘‘ (النساء: ۵۹)
امام ابن تیمیہa فرماتے
ہیں:
کتابِ الٰہی اور سنتِ رسولe کے
اصولوں سے ہٹ کر کسی چیز کی طرف بلانے والا، حقیقت میں بدعت اور گمراہی کا داعی ہوتا
ہے۔ معاملہ اپنے عمل کا ہو یا دوسروں کے ساتھ بحث مباحثے کا، اگر انسان کتاب وسنت پر
قائم رہے تو اللہ تعالیٰ اسے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔ کیونکہ شریعت تو نوح کی کشتی
کی طرح ہے، اس میں سوار ہونے والا بچ ہی جاتا ہے اور جو اس سے رہ جاتا ہے وہ غرق ہو
جاتا ہے۔
اے امت اسلام! دوسرا ضابطہ علمی طرز تحقیق کی پیروی ہے۔ یہ گمراہ
کن افکار اور تخریبی ذلت آمیز طرز فکر سے چھٹکارہ دلانے والی کشتی ہے، امت کے بہت سے
مسائل میں شرعی آگاہی اسی سے حاصل ہوتی ہے۔ مگر یہ کام راسخ اہل علم کی صحبت اور ان
کی طرف پلٹے بغیر درست طریقے سے نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہی انبیاء کے وارث ہیں، روشنی
کے چراغ ہیں، فتویٰ، جدید مسائل اور سنگین معاملات میں وہی قابل اعتماد ہیں۔ آدھے پڑھے
لکھے لوگ اور ان کی طرز اپنانے والے ایسے مسائل حل نہیں کر سکتے، نہ ہی شدت پسند ان
میں درست رائے دے سکتے ہیں۔ چنانچہ جس کے لیے کوئی مسئلہ واضح نہ ہو تو وہ اسے اس کے
عالم کے سپرد کر دے، خود اس میں اندھوں کی طرح ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش نہ کرے۔ اللہ
پاک کا فرمان ہے:
’’یہ لوگ جہاں کوئی
اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ
اُسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں
آ جائے جو اِن کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں۔‘‘
(النساء: ۸۳)
اسی طرح فرمایا:
’’اہل ذکر سے پوچھ
لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔‘‘ (النحل: ۴۳)
تیسرا اصول یہ ہے کہ بنیادی اصولوں اور طے شدہ ضابطوں سے نہ
ہٹا جائے، کیونکہ ان میں تجدید نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے اس انوکھی اور نرالی شریعت کا
عظیم خاصا یہ ہے کہ یہ ہر وقت اور ہر جگہ میں قابل عمل ہے، یہ ہمیشہ کے لیے قائم ودائم
رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’رہا یہ ذکر، تو
اِس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اِس کے نگہبان ہیں۔‘‘ (الحجرات: ۹)
تجدید تو ان جدید مسائل میں ہوتی ہے جن کے بارے میں کوئی آیت
یا حدیث موجود نہ ہو اور نہ ہی ہمارے بزرگوں کی رائے، قول یا کوئی قابل اعتماد اجتہاد
بھی موجود ہو۔
چوتھا اصول یہ ہے کہ تجدید کا مقصد عقیدے اور افکار کی درستی
ہو، عملی اور نظریاتی بدعات کی روک تھام مقصود ہو۔ کیونکہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے
جس نے بیک وقت روح اور جسم، دونوں کا خیال رکھا ہے۔ یہ معاملہ دوسرے نظاموں کے برعکس
ہے جس میں جسم کا خیال کیا گیا ہے اور روح کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں
اخلاقی بحران سامنے آئے۔ دوسرے نظاموں نے روح پر زیادہ توجہ دی اور جسم کو نظرانداز
کیا، جس کے نتیجے میں فکر اور رویوں میں گمراہی سامنے آئی۔
اے مسلمانو! دینی اصولوں میں درست تجدید ذرائع اور وسائل میں
ہوتی ہے، اٹل ضابطوں اور طے شدہ اصولوں میں تجدید نہیں کی جاتی۔ تجدید کا معنیٰ یہ
نہیں کہ پہلے سے موجود اصولوں میں کوئی کمی تھی، بلکہ زمانے اور جگہ کی تبدیلی کی وجہ
سے تجدید کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ذرائع اور وسائل کی ترقی کی وجہ سے تجدید ضروری ہو جاتی
ہے۔ تجدید صرف انداز بیان اور اسلوب میں کی جاتی ہے، دینی پیغام کی روح اور بنیاد کو
نہیں چھیڑا جاتا۔ یہ والی تجدید تو ایک شرعی تقاضا ہے اور معاشرے کی توانائی کے لیے
ایک اہم ضرورت ہے۔ تاکہ پسماندگی اور تقلید کی
دلدل سے آگے بڑھا جا سکے۔ تجدید ایسی ہونی چاہیے کہ اسلام کی بنیادی کتب سے
نہ صرف جڑی رہے، بلکہ جدید دور کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہو جائے اور نئے آلات ٹیکنالوجی
کو قبول بھی کر لے۔ تجدید کا مقصد یہ ہو کہ دین اسلام کے علمی اور عملی اصولوں کو پھر
سے تازہ کیا جائے، صحیح نصوص کو محفوظ رکھا جائے، دین کو تمام طرح کے اضافوں سے پاک
کر دیا جائے، نظریاتی، عملی اور رویوں کی بدعتوں اور گمراہیوں سے پاک کر دیا جائے،
سوچ بچار اور استدلال کے طریقۂ کار کو توانا کیا جائے، تاکہ قرآن وحدیث کو اسی طرز
سے سمجھا جائے جیسے ہمارے بزرگوں نے سمجھا تھا، تاکہ ہر دور کے مسلمان معاشرے کو پہلے مثالی معاشرے سے قریب کیا جا سکے۔ تمام جدید
مسائل، بڑی بڑی مشکلات اور آزمائشوں کے لیے اسلامی طرز کے حل تجویز کیے جائیں۔ شعبہ
ہائے زندگی میں دینی احکام کو نافذ کیا جائے، کتاب وسنت کے اصولوں کے مطابق ہر تہذیب
سے فائدہ مند اور قابل عمل چیزوں کو دیکھ کر اقتباس کے ضابطے وضع کیے جائیں، یہ سب
بزرگوں کی سمجھ کے مطابق کیا جائے۔ یوں واضح ہو جائے گا تجدید کا علم بلند کرنے والے
شریعت کے پہرہ داروں کی ذمہ داری صرف اتنی ہی ہے کہ دین کے ساتھ چمٹ کر اس کی رونق
اور خوبصوتی ختم کرنے والے اضافوں کو ہٹا دیا جائے، لوگوں کو اسی منہج پر لوٹایا جائے
جس پر قرون اولیٰ کے لوگ قائم تھے۔ دین کو، اس کے اصولوں کو، استدلال اور آیات واحادیث
سے احکام نکالنے کے طریق کار کو بالکل ویسا ہی تازہ کر دیا جائے، جیسا اللہ تعالیٰ
نے قرآن کریم میں اور نبیe نے
اپنی احادیث میں بیان فرمایا ہے۔ امام احمد نے اپنی مسند میں روایت درج کی ہے کہ سیدنا
عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا: اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان
ہے! میں جو شریعت تمہارے لیے لایا ہوں وہ بالکل روشن اور ہر قسم کے اضافے سے پاک ہے،
تجدید سے نبی کریمe کی
پیش گوئی بھی پوری ہوتی ہے۔ آپe کا
فرمان ہے: اللہ اس امت کے لیے ہر ایک سو سال بعد ایسا شخص نصیب فرمائے گا جو اس کے
دین کی تجدید کر دے گا۔ (اسے امام ابو داؤد اور امام حاکم نے صحیح سند کے ساتھ روایت
کیا ہے۔)
اے مؤمنو! انتہاپسندانہ طرز گفتگو سے، غلو کر کے، یا دین کی
کچھ چیزیں نکال کر اللہ کی طرف دعوت نہیں دی جاسکتی، بلکہ یہ کام اعتدال اور میانہ
روی سے ہو سکتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں دین اسلام کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ یہ دین ترقی کو
قبول کرنے کے متعلق سختی یا شدت نہیں دکھاتا، بلکہ شرعی اصولوں اور قابل احترام ضابطوں
کے تحت زندگی کو تعمیر کرتا ہے، جو ہر ماحول، ہر طرح کے حالات، مختلف قسم کے واقعات
میں امت کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اور اِسی طرح تو
ہم نے تمہیں ایک ’’امت وسط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو۔‘‘ (البقرۃ:
۱۴۳)
نرمی کرو، اپنا حق پورا لینے کی کوشش نہ کرو، کچھ چھوڑ بھی دیا
کرو کیونکہ سخی لوگ کبھی پورا حساب نہیں لیتے۔
کسی چیز میں حد سے نہ گزرنا، بلکہ ہر معاملے میں میانہ روی سے
کام لینا، میانہ روی سے کنارہ کشی کرناانتہائی برا فعل ہے، چاہے وہ سختی کی طرف ہو
یا نرمی کی طرف۔
دینی اصول توڑ پھوڑ نہیں، تعمیر کرتے ہیں، بکھیرتے نہیں، جمع
کرتے ہیں، بگاڑتے نہیں، بناتے ہیں، نیست ونابود نہیں کرتے، بلکہ بلندی اور کامرانی
دکھاتے ہیں، رحمت اور رواداری اس کا شعار ہے۔ مذاکرات اور دوسروں کو قبول کرنا اس کا
اوڑھنا ہے۔ ہمارے نیک بزرگ اسی منہجِ وسط پر چلنے والے تھے۔ امام العز بن عبد السلامa بیان
کرتے ہیں:
اجمالی طور پر انسان کو چاہیے کہ وہ صرف وہی باتیں اور کام کرے
جن سے کوئی فائدہ حاصل ہوتا ہو، یا کوئی نقصان ختم ہوتا ہو۔ اپنے عقیدے میں بھی میانہ
روی اپنائے، مبالغہ آرائی سے بھی بچے اور کوتاہی سے بھی۔ امام ابن قیمa فرماتے
ہیں:
ہر معاملے میں شیطان دو طرح کے وسوسے ڈالتا ہے، یا تو مبالغہ
کرنے کو کہتا ہے یا پھر کوتاہی کرنے کو۔ حق ان دونوں کے درمیان ہے۔
اسی طرح امام شاطبیa فرماتے ہیں:
اسلامی شریعت میانہ روی اور اعتدال کے مطابق ہی احکام جاری کرتی ہے، یہ دو انتہاؤں
کے بیچ والا راستہ اپناتی ہے اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے۔
یوں واضح ہو گیا کہ اسلامی شریعت ہی ہدایت، استقامت، میانہ روی
اور اعتدال والی شریعت ہے اور اس کے اصول رحمت، رواداری، امن، سلامتی، اطمینان اور
حفاظت کے اصول ہیں۔
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! یہی اللہ کی وہ نصیحت ہے جو اس نے
اگلوں اور پچھلوں کو فرمائی ہے:
’’جن کو ہم نے کتاب
دی تھی انہیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی ہدایت کرتے ہیں کہ اللہ سے
ڈرتے ہوئے کام کرو۔‘‘ (النساء: ۱۳۱)
اے امت اسلام! اسلامی اصولوں کی تجدید سے ہمیں یہ امید ہے کہ
اس کی بدولت امت کے اٹل ضابطوں اور طے شدہ اصولوں کو کھلواڑ کرنے اور تبدیلیاں کرنے
والوں کے ہاتھوں سے بچایا جا سکے گا، شریعت کو
بدعات، جہالتوں اور گمراہیوں سے پاک کر دیا جائے گا، اس سے باطل اور گمراہی
کو الگ کر لیا جائے گا، مسلکی تعصب کی روک تھام ہو گی اور اندھی تقلید سے بچاؤ ملے
گا، یہی وہ دو چیزیں ہیں جو امت میں تفرقہ بازی اور اختلافات پھیلا رہی ہیں۔ اسی طرح
تجدید سے امت کو اچھے اور بہترین قابلیت رکھنے والے مجتہدین کا ایک گروہ مل جائے گا،
جو فکری مہارت بھی رکھتے ہوں گے اور میانہ روی سے قرآن وحدیث سے احکام اخذ کرنے کی
قابلیت بھی رکھتے ہوں گے، بنیادی اصولوں کے تحت ذیلی اصول بنانے کی قابلیت بھی رکھتے
ہوں گے، جدید مسائل، مشکلات اور آزمائشوں کو اعتدال اور میانہ روی سے حل کرنے کی صلات
رکھتے ہوں گے، اور غیر مسلموں کے لیے اسلامی شریعت کی بھلائیاں اور مقاصد واضح کر سکیں
گے۔ ارشاد الٰہی ہے:
’’لوگوں سے بھلی
بات کہنا۔‘‘ (البقرۃ: ۸۳)
یہی وہ لوگ ہوں گے جو ساری انسانیت کے لیے خیر، عدل اور نیکی
کی ضامن صحیح طرز فکر کے مطابق دعوت دینے کے قابل ہوں گے۔
’’جس نے کسی کی جان
بچائی، اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘ (المائدہ:۳۲)
اس حوالے سے ایک اہم چیز نوجوانوں کے ساتھ طرز گفتگو میں تجدید
ہے۔ تاکہ انہیں اپنائیت محسوس ہو، وہ محفوظ ہو جائیں، ان کے ساتھ مناسب طریقے سے گفتگو
ممکن ہو اور ان کی ہمتیں بلند ہوں ، تاکہ سخت جذبات ،عقل وتوازن اور حکمت پر غالب نہ
آ جائیں ۔ اسی طرح مسلمان عورتوں کے ساتھ بھی طرز تخاطب بہتر ہونا چاہیے، اسے اپنے
دین، اپنے ملک اور اپنے معاشرے کی خدمت کا موقع دینا چاہیے۔ دوسروں کی تحقیر اور نفرت
پر مشتمل طرز گفتگو سے بچنا چاہیے، تفرقہ بازی اور فرقہ واریت سے دور رہنا چاہیے، جتھہ
بندی، مسلکی تعصب اور عنصریت پسندی سے باز رہنا چاہیے۔ فرمایا:
’’پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔‘‘ (الحجرات:
۱۳)
سوشل میڈیا کے بعض صفحات پر آپ کو ایسا طرز تخاطب نظر آئے گا
جو انسانی اقدار، فضائل، مردانگی، اصول اور طے شدہ قاعدوں پر بدنما داغ کی مانند ہے۔
جنہیں عام کرنے والی تنظیموں کے ایجنڈے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ جو ٹیکنیکل طریقے سے الیکٹرانک
جنگ اور دہشتگردی کر رہے ہیں۔ امت کے فکری امن واستحکام کے خلاف اور معاشرتی سلامتی
پر حملے کر رہے ہیں۔ مگر دیکھیے! یہ ہے سارے ملکوں میں ہیرا ملک، سب کے مسائل حل ہونے
کی جگہ، مسلمانوں کا قبلہ، سرزمین حرمین! اللہ اس کی نگہبانی فرمائے! یہ سختیوں اور
آزمائشوں کے اس دور میں گہری سمجھ اور آگاہی پھیلا کر درست منہج کے مطابق تجدید کی
راہ پر گامزن ہے۔ ہم اس ملک کے حکمرانوں کی سرپرستی میں رابطہ عالم اسلامی کے تحت مسلمان
علماء کونسل کی طرف سے جاری ہونے والی مکہ دستاویز کی پورے فخر اور احترام کے ساتھ
تعریف کرتے ہیں۔ اس میں دینی اصولوں میں تجدید اور اس کے معاشرتی، عالمی اور انسانیت
پر اثرات کے حوالے سے انتہائی فائدہ مند نصیحتیں آئی ہیں۔ اس میں مذاکرات کی طرف بلایا
گیا ہے اور تہذیبوں کی ہم آہنگی کی دعوت دی گئی ہے، نفرت آمیز اور انتہا پسندانہ افکار
کا مقابلہ کرنے اور اعتدال پسندانہ میانہ روی پر مشتمل طرز فکر پھیلانے کی نصیحت کی
گئی ہے۔
یہ ہیں وہ چند نقاط جن سے دینی اصولوں میں تجدید کے حوالے سے
مسائل واضح ہو جاتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ سب کو ان کاموں کی توفیق عطا فرمائے
جن سے وہ خوش اور راضی ہوتا ہے۔ تمام اسلامی ممالک کو بھی محفوظ فرمائے! سرزمین حرمین
کو ہمیشہ بلند اور عزت والا بنائے۔ اسی طرح سارے اسلامی ممالک کی بھی حفاظت فرمائے!
انہیں ہر طرح کی برائی اور شر سے دور رکھے۔ یقینًا وہ سننے والا، قریب اور دعائیں قبول
کرنے والا ہے۔
No comments:
Post a Comment