Friday, February 28, 2020

کتاب وسنت .. سلفی منہج کا سر چشمہ 08-20


کتاب وسنت .. سلفی منہج کا سر چشمہ

تحریر: جناب ڈاکٹر محمد بن ابراہیم السعیدی
سلفی منہج کے علاوہ اسلام سے منسوب تمام مذاہب جس بحران سے دو چار ہیں وہ کتاب وسنت سے دلیل کا بحران ہے۔ کیونکہ یہ مذاہب مسلمانوں کو اللہ کی عبادت میں فرض سے لے کر مستحب تک اور عقائد میں اللہ تعالیٰ‘ اس کے فرشتوں‘ کتابوں‘ رسولوں‘ یوم آخرت اور تقدیر کے خیر وشر اور غیبی دنیا‘ روح اور اللہ اور اس کے رسول سے اخذ وتلقی کے سلسلے میں جو بھی حکم دیتے ہیں اس پر دلیل کا بحران بڑا مسئلہ ہے۔ جب ہم ان تمام امور میں سلفی منہج اور دیگر اسلام سے منسوب مذاہب کے باہم اختلافات کے سلسلے میں غور وفکر کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ سارا کا سارا مسئلہ دلیل وثبوت کا ہے۔
حقیقت حال یہ ہے کہ جتنے بھی مذاہب ہیں ان کے پاس کتاب وسنت سے دلیل انہی مسائل میں ہے جن میں مسلک سلف سے اتفاق کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جن چھوٹے بڑے مسائل میں وہ مسلک سلف سے اختلاف کرتے ہیں ان مسائل میں ان کے پاس اپنے مسلک کے حق میں کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔
ان مذاہب کے علماء جنہیں سلفی لوگ بدعت کی صفت سے متصف کرتے ہیں اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں اور آج سے نہیں بلکہ اپنے اولین قائدین کے زمانے سے جانتے ہیں۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ وہ اس بڑے اشکال سے نکلنے کے لیے متعدد حیلے بہانے بنائیں گے جن کے ذریعہ وہ نہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں بلکہ اپنے عوام کے ساتھ بھی فریب کرتے ہیں جس میں ہر مذہب کے ماننے والوں کا اپنا جدا انداز ہے۔ بعض ان میں ہر اس آیت کے اندر جو ان کے مذہب کے خلاف ہے اس کے مجازی معنی کا دعویٰ کرتے ہیں جیسا کہ اللہ کی صفات اور قضاء وقدر کے سلسلہ میں معتزلہ‘ اشاعرہ اور ما تریدیہ کا رویہ ہے۔ کبھی وہ حدیث نبویe کی نص کا درجہ گھٹاتے ہیں تا کہ اس سے کما حقہ استدلال نہ کیا جا سکے۔ جیسا کہ معتزلہ اور اشاعرہ کا د عویٰ ہے کہ خبر واحد سے عقائد کے باب میں استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے مسائل میں اگر ان کے سامنے خبر متواتر پیش کی جاتی ہے تو اس کے تواتر کا ہی انکار کر دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہی ہے۔
بدعت حسنہ کا مفہوم:
بعض لوگ دین میں من گھڑت باتیں شامل کرنے کی غرض سے بدعت حسنہ کے مفہوم میں توسع سے کام لیتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ وہ دین کی باتوں میں من مانی باتیں شامل کرنے کی غرض سے اس کا دروازہ کھلا رکھتے ہیں۔
تفسیر باطنی:
بعض لوگ اس سے بھی بڑی بات دین میں شامل کرتے ہیں اور اسے تفسیر باطنی کا نام دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ قرآن کریم کا ایک ظاہری معنی ہے‘ دوسرا باطنی اور اللہ کی مراد باطنی معنی ہی ہے۔ وہ اس طرح بغیر دلیل کے اپنے پیروکاروں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ صوفیاء کے مختلف طریقوں میں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
نئی دلیل گھڑنا:
بعض لوگ نئی دلیل گھڑنے یا دلیل درآمد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اپنی طرف سے گھڑی ہوئی دلیل کو کتاب وسنت کا درجہ دیتے ہیں۔ پھر دین کے اصول وفروع کا اسی سے استدلال کرتے ہیں جیسا کہ صوفیاء کا کشف والہام کے سلسلے میں یہی رویہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی وسائل وذرائع ہیں جنہیں سلفیوں کے علاوہ تمام مذاہب کے قائدین دلیل کے بحران کے باعث اختیار کرتے ہیں۔ جہاں تک مسلک سلف کا معاملہ ہے تو وہ عبادات وعقائد کے امور میں دونوں وحی یعنی کتاب وسنت کے دلائل سے ذرا بھی تجاوز نہیں کرتے۔ نیز ان سے مطلقاً تنازل اختیار نہیں کرتے جس کی روشنی میں یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اکثر مذاہب جو سلفیت سے اکثر وبیشتر نالاں رہتے ہیں اس کا واحد سبب یہی ہے کہ سلفی اپنے مخالفین سے دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں درآنحالیکہ وہ سب دلیل پیش کرنے سے عاجز نظر آتے ہیں۔
سلفیت پر حملے:
سلفیت کے خلاف حملوں کی حقیقت جن میں مختلف مکاتب فکر ہونے کے باوجود سبھی شریک وسہیم ہوتے ہیں اس کا سبب ان کے خیال کے مطابق دہشت گردانہ سوچ کی بیخ کنی یا مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کی من گھڑت دلیلوں سے متعلق سلفیوں کے ان سے کتاب وسنت سے دلیل کے مطالبات کی کثرت ہے۔ اسی کی بناء پر وہ چیں بجبیں رہتے ہیں اور اصل مطالبہ سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے مختلف قسم کی تہمتیں والزام تراشیاں سلفیوں کے خلاف کرتے رہتے ہیں۔
دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا:
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دین میں تحریف وتعطیل کرنے والے من مانی بھی کرنا چاہتے ہیں اور یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ ان سے اس کی دلیل بھی کوئی نہ مانگے۔ ہم ان آخری کچھ سالوں میں دیکھ رہے ہیں کہ سلفیوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکار‘ سلفیت کے خلاف یک جان ہو گئے ہیں اور اس کے لیے ان کے جامعات اور ثقافتی‘ صحافتی اور تحقیقی اداروں نے پوری طرح کمر کس لی ہے۔
دہشت گردی کا مقابلہ:
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اتحاد کی کسی کو پروا نہیں اور نہ ہی دہشت گردی کے مقابلے کے لیے کوئی سنجیدہ ہے کیونکہ موجودہ دور میں سلفیت کے خلاف جن لوگوں نے بھی محاذ آرائی کی ہوئی ہے‘ میری معلومات کے مطابق انہوں نے تکفیری جماعتوں کے خلاف ایک کتاب بھی نہیں لکھی۔ بلکہ ان کی ساری تگ ودو کا محور ومرکز سلفی منہج کے رد میں کتابیں تالیف کرنا اور انہی پر بہتان طرازی کرنا ہے۔ مزید برآں جھوٹ موٹ انہیں ہی تکفیر کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔ ان کے مشن کی حقیقت تکفیریوں کا رد نہیں بلکہ نوجوانوں کو یہ باور کرانا ہے کہ دراصل سلفی منہج ہی تکفیریت کا مناد ہے۔ اس کی ساری تگ ودو تکفیری فکر کی تائید وتعاون ہے نہ کہ اس کا مقابلہ اور اس کا رد۔ اس وقت تکفیری فکر کا اصل مقابلہ تو سلفی علماء اور اس کے مبلغین ہی کر رہے ہیں جنہوں نے کتابیں‘ پمفلٹ اور آڈیو وویڈیو کلپس اس فکر کے خلاف تیار کی ہیں۔
مذاہب کی حقیقت:
مذاہب کی حقیقی صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ تکفیری فکر کا مقابلہ سلفی فکر کے علاوہ کسی بھی فکر کے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ یہی ایک ایسا منہج ہے جسے دلیل کی بالا دستی حاصل ہے اور جس کی دیگر مذاہب کو بھی ضرورت ہے۔ کسی بھی منہج کے لیے یہ خوبی کی بات ہے کہ جب وہ آسمانی دلیل سے توانائی حاصل کرتا ہے تو اس کے اندر تضاد کا امکان باقی نہیں رہتا اور شریعت کے قواعد وضوابط اور اصول ومقاصد اس کے حق میں ہموار ہو جاتے ہیں۔ نیز عقلی تقاضوں سے بھی تعارض نہیں ہوتا۔ دیگر تمام مذاہب میں الگ الگ پیمانے پر طاقت کے عناصر مفقود ہیں لہٰذا تکفیری فکر کے سلسلے میں ان مذاہب کے قائدین کے رد عمل سلف کے اصول سے دوری اور نزدیکی کے اعتبار سے الگ الگ ہوتے ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی مذہب سلفی فکر سے جتنا زیادہ نزدیک ہو گا وہ تکفیری فکر کا اتنا ہی زیادہ مقابلہ کر پائے گا۔
دعوائے باطل:
جو لوگ مسلمانوں کے اتحاد کے نام پر سلفیت کا مقابلہ کرنے کی بات کرتے ہیں ان کے ملکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کا یہ دعویٰ باطل وبے بنیاد ہے۔ وہ خود دیکھیں کہ ان کے یہاں سلفی منہج کی آمد سے پہلے کیا حال تھا؟ نظر غائر ڈالنے پر پتہ چلے گا کہ اتحاد واتفاق کا کچھ اچھا حال نہ تھا پھر تفریق بین المسلمین کا الزام سلفیت پر لگانا کس قدر بے بنیاد ہے؟ عالم اسلام میں سلفی منہج کی نشر واشاعت سے قبل اس سے بد تر حالات تھے۔ یعنی اس وقت تمام ہی اسلامی ممالک غیروں کے زیر تسلط تھے۔ پورے عالم اسلام میں سلفیت آئی تو غلامی کی زنجیریں ڈھیلی ہوئیں اور لوگوں میں استعمار کے خلاف مزاحمت کا جذبہ بیدار ہوا۔ امت مسلمہ کے وجود میں دراڑ بھرنے‘ انتہا پسندی سے نبرد آزما ہونے اور اتفاق واتحاد جیسے نعروں کا دعویٰ‘ دلیل کی بالا دستی جو صرف سلفیوں کے پاس ہے اور جس کی سبھی کو ضرورت ہے سے راہ فرار اختیار کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
سلفیوں کی طاقت کا راز:
موجودہ سلفیت اور اس کے مخالفین کے درمیان جو کشمکش جاری ہے اس سے جب سلفیوں کو اپنی چھپی ہوئی طاقت کا ادراک ہو گا اور وہ موجودہ تیاری سے بہتر تیاری کریں گے اور آنے والے سالوں میں تمام ہی ممالک جن میں سلفی لوگ بود وباش اختیار کیے ہوئے ہیں سب کے اندر ایسا قبول عام حاصل ہو گا کہ انہوں نے کبھی ماضی میں نہ دیکھا ہو گا۔ کیونکہ دلیل کی بڑی اہمیت ہے۔ جتنا اثر اس کا دل پر ہوتا ہے کسی چیز کا نہیں ہوتا۔ مسلمان کی طبیعت ہمیشہ قال اللہ وقال الرسول سے متاثر رہتی ہے۔ یہ دونوں لفظ ایسے ہیں کہ ان کے سامنے کوئی بدعت ٹک نہیں سکتی۔ اللہ نے سچ ہی فرمایا ہے:
{اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْكمْ مِن رَّبِّكمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِیَآئَ قَلِیْلاً مَّا تَذَكرُوْنَ}
’’تم لوگ اس کی اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اوراللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسرے رفیقوں کی اتباع مت کرو‘ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت مانتے ہو۔‘‘ (الاعراف: ۳)
اور آپe نے کیا ہی خوب فرمایا ہے:
[كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة]
’’ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)