خواتین کے چند غیر شرعی افعال
تحریر: جناب مولانا
عبدالسلام
اکثر
خواتین اسلام سے ناواقف ہوا کرتی ہیں اور احکامِ اسلام کو جاننے کی بھی کوشش نہیں کرتیں۔
اس کم علمی کی وجہ سے وہ بہت سارے غیر شرعی افعال سرانجام دیتی ہیں اور رسوم و رواج
کو عروج دینے پہ اڑی رہتی ہیں۔ بہت بار سمجھانے کے باوجود بھی وہ سمجھنے کی نہیں ہوتیں۔
یہاں ہم چند ایسے غیر شرعی افعال کا ذکر کر رہے ہیں جو تغافل سے خواتین کر جاتی ہیں۔
جو انتہائی خطرناک اور اللہ و رسولe کو ناراض کرنے والے ہیں ۔
اپنے
گھروں میں دین نافذ کرنے کی کوشش کریں اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ ہمیں دینِ
حنیف سمجھنے اور اس پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین!
ملاحظہ
ہوں: ’’خواتین
کے بعض غیر شرعی افعال‘‘
شرعی
عذر کے بغیر بیوی کا شوہر کے بستر پر آنے سے انکار کرنا:
سیدنا
ابو ھریرہt سے مروی ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا :
[إِذَا دَعَا الرَّجُلُ
امْرَاَتَه إِلَی فِرَاشِه فَاَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَیْها، لَعَنَتْها الْمَلَائِكة
حَتَّی تُصْبِحَ۔]
’’اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا،
لیکن اس نے (شرعی عذر کے بغیر)آنے سے انکار کر دیا اور مرد اس پر غصہ ہو کر سو گیا،
تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔‘‘ (بخاری: ۳۲۳۷)
ایک
دوسری روایت میں ہے کہ جب شوہر بیوی کو اپنے بستر کی طرف دعوت دے تو بیوی کو چاہیے
کہ فورا دعوت قبول کرے اگرچہ وہ اونٹ کے کجاوے پر بیٹھی ہو ۔ (صحیح الجامع: ۵۴۷، زوائد للہیثمی:
۲/۱۸۱)
عورت
کا اپنے شوہر سے بغیر کسی شرعی سبب کے طلاق کا مطالبہ کرنا
سیدنا
ثوبانt سے مروی ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا :
[اَیُّمَا امْرَاَة
سَاَلَتْ زَوْجَها الطَّلَاقَ فِی غَیْرِ مَا بَاْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَیْها رَائِحَة
الْجَنَّة۔]
’’جس عورت نے بغیر سخت مجبوری کے اپنے خاوند سے
طلاق مانگی، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘ (ابن ماجہ: ۲۰۵۵‘ ابی داؤد: ۲۲۲۶‘ ترمذی: ۱۱۸۷)
اسی
طرح سیدنا عقبہ بن عامرt سے مروی ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا: یقینا خلع لینے والی اور طلاق لینے والی عورتیں منافق
ہیں۔ (الطبرانی فی الکبیر: ۱۷/۳۳۹)
عورت
کا خوشبو لگاکر باہر نکلنا:
سیدنا
ابو موسی اشعریt سے مروی ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا :
[اَیُّمَا امْرَاَة
اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلَی قَوْمٍ لِیَجِدُوا مِنْ رِیحِها فَهیَ زَانِیَة۔]
’’جو عورت عطر لگائے اور پھر لوگوں کے سامنے سے
گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ زانیہ ہے۔‘‘ (سنن نسائی: ۵۱۲۹‘ ابی داؤد: ۱۴۷۳‘ ترمذی: ۳۵)
اسی
طرح سیدنا ابوہریرہt کا سامنا ایک ایسی عورت سے
ہوا جو خوشبو لگائے مسجد جا رہی تھی، تو انہوں نے کہا :
[یَا اَمَة الْجَبَّارِ
اَیْنَ تُرِیدِینَ؟ قَالَتْ: الْمَسْجِدَ، قَالَ: وَلَه تَطَیَّبْتِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ،
قَالَ: فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهﷺ، یَقُولُ: واَیُّمَا امْرَاَة تَطَیَّبَتْ،
ثُمَّ خَرَجَتْ إِلَی الْمَسْجِدِ، لَمْ تُقْبَلْ لَها صَلَاة حَتَّی تَغْتَسِلَ۔]
’’اللہ کی بندی! کہاں جا رہی ہو؟ اس نے جواب دیا:
مسجد، سیدنا ابوہریرہt نے کہا: کیا تم نے اسی کے لیے
خوشبو لگا رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، انہوں نے کہا: بیشک میں نے رسول اللہe
کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو عورت خوشبو لگا کر مسجد جائے، تو اس کی
نماز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ غسل کر لے۔‘‘ (ابن ماجہ: ۴۰۰۲‘ ابی داؤد: ۴۱۷۴)
عورت
کا محرم کے بغیر سفر کرنا:
سیدنا
ابن عباسw سے مروی ہے کہ نبی کریمe
نے فرمایا :
[لَا تُسَافِرِ الْمَرْاَة
إِلَّا مَعَ ذِی مَحْرَمٍ۔] (البخاری: ۱۸۶۲)
’’کوئی عورت اپنے محرم رشتہ دار کے بغیر سفر نہ
کرے۔‘‘
عورتوں
کا باریک اور تنگ کپڑے پہننا:
سیدنا
ابوہریرہt کہتے ہیں کہ رسول اللہe
نے فرمایا :
[صِنْفَانِ مِنْ
اَهلِ النَّارِ لَمْ اَرَهمَا قَوْمٌ مَعَهمْ سِیَاطٌ كاَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُونَ
بِها النَّاسَ وَنِسَاء ٌ كاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مُمِیلَاتٌ مَائِلَاتٌ رُئُوسُهنَّ
كاَسْنِمَة الْبُخْتِ الْمَائِلَة لَا یَدْخُلْنَ الْجَنَّة وَلَا یَجِدْنَ رِیحَها
وَإِنَّ رِیحَها لَیُوجَدُ مِنْ مَسِیرَة كذَا وَكذَا۔]
’’دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جن کو میں نے نہیں
دیکھا ۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کے کوڑے ہیں ، وہ لوگوں کو اس
سے مارتے ہیں۔ دوسرے وہ عورتیں جو باوجود کپڑے پہننے کے ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق
لباس نہیں)، سیدھی راہ سے بہکانے والی ، خود بہکنے والی اور ان کے سر بختی (اونٹ کی
ایک قسم ہے) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے‘ وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ
اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آ رہی ہو گی۔‘‘
(مسلم: ۵۵۹۲)
عورتوں
کا مصنوعی بال لگوانا:
سیدنا
عبداللہ بن عمرw سے مروی ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا :
[لَعَنَ اللَّه الْوَاصِلَة
وَالْمُسْتَوْصِلَة وَالْوَاشِمَة وَالْمُسْتَوْشِمَة۔]
’’اللہ نے مصنوعی بال جوڑنے، جڑوانے، گودنے اور
گدوانے والیوں پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘ (بخاری: ۵۹۳۷)
عورتوں
کا مردوں کی مشابہت اختیار کرنا:
سیدنا
ابن عباسw سے مروی ہے :
[لَعَنَ رَسُولُ
اللَّهﷺ الْمُتَشَبِّهاتِ بِالرِّجَالِ مِنَ النِّسَائِ۔] (مسلم: ۱۶۷۹)
’’رسول اللہe نے لعنت فرمائی ہے ان عورتوں
پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔‘‘
نوحہ
کرنا :
سیدہ
ام عطیہr سے مروی ہے :
[إِنَّ رَسُولَ اللَّهﷺ
نَهانَا عَنِ النِّیَاحَة۔] (أبوداؤد: ۳۱۲۷)
’’رسول اللہe نے ہمیں نوحہ کرنے سے منع فرمایا
ہے۔‘‘
رسول
اللہe نے فرمایا :
[النِّیَاحَة مِنْ
اَمْرِ الْجَاهلِیَّة، وَإِنَّ النَّائِحَة إِذَا مَاتَتْ وَلَمْ تَتُبْ، قَطَعَ اللَّه
لَها ثِیَابًا مِنْ قَطِرَانٍ، وَدِرْعًا مِنْ لَهبِ النَّارِ۔]
’’نوحہ (ماتم) کرنا جاہلیت کا کام ہے، اگر نوحہ
(ماتم) کرنے والی عورت بغیر توبہ کے مر گئی تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے تارکول (لُک)
کے کپڑے اور آگ کے شعلے کی قمیص بنائے گا۔ (ابن ماجہ: ۱۵۸۱)
خاوند
کی نافرمانی :
سیدنا
عبداللہ بن عمرw سے مروی ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا :
[یَا مَعْشَرَ النِّسَائِ،
تَصَدَّقْنَ وَاَكثِرْنَ الِاسْتِغْفَارَ، فَإِنِّی رَاَیْتُكنَّ اَكثَرَ اَهلِ النَّارِ
فَقَالَتِ امْرَاَة مِنْهنَّ جَزْلَة: وَمَا لَنَا یَا رَسُولَ الله اَكثَرُ اَهلِ
النَّارِ؟ قَالَ: تُكثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكفُرْنَ الْعَشِیرَ، وَمَا رَاَیْتُ مِنْ
نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِینٍ اَغْلَبَ لِذِی لُبٍّ مِنْكنَّ قَالَتْ: یَا رَسُولَ الله،
وَمَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ وَالدِّینِ؟ قَالَ: اَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ: فَشَهادَة
امْرَاَتَیْنِ تَعْدِلُ شَهادَة رَجُلٍ فَهذَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، وَتَمْكثُ اللَّیَالِیَ
مَا تُصَلِّی، وَتُفْطِرُ فِی رَمَضَانَ فَهذَا نُقْصَانُ الدِّینِ۔]
’’اے عورتوں کی جماعت! تم صدقہ کیا کرو اور زیادہ
سے زیادہ استغفار کیا کرو ، کیونکہ میں نے دوزخیوں میں اکثریت تمہاری دیکھی ہے ۔ ان
میں سے ایک دلیر اورسمجھ دار عورت نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں کیا ہے ، دوزخ میں جانے
والوں کی اکثریت ہماری (کیوں) ہے ؟ آپ نے فرمایا: تم لعنت بہت بھیجتی ہو اور خاوند
کا کفران (نعمت) کرتی ہو ، میں نے عقل و دین میں کم ہونے کے باوجود ، عقل مند شخص پر
غالب آنے میں تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔ اس نے پوچھا؟ اے اللہ کے رسول! عقل
و دین میں کمی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: عقل میں کمی یہ ہے کہ دوعورتوں کی شہادت ایک
مرد کے برابر ہے ، یہ توہوئی عقل کی کمی اور وہ (حیض کے دوران میں) کئی راتیں (اور
دن) گزارتی ہے کہ نماز نہیں پڑھتی اور رمضان میں بے روزہ رہتی ہے تویہ دین میں کمی
ہے۔ (مسلم: ۲۴۱)
شوہر کی ناشکری:
سیدنا
عبداللہ بن عمرw سے مروی ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا :
[لَا ینظر الله تبَارك
وَتَعَالَی إِلَی امْرَاَة لَا تشكر لزَوجها۔] (صحیح الترغیب: ۱۹۴۴)
’’اللہ تعالی ایسی عورت کی طرف نظر رحمت نہیں
فرمائیں گے جو اپنے شوہر کا شکر ادا نہیں کرتی ۔‘‘
اس کو پڑھیں:
عورتوں
کا چہروں اور اَبروں کے بال اکھاڑنا:
سیدنا
عبداللہ بن مسعودt سے مروی ہے:
[لَعَنَ اللَّه الْوَاشِمَاتِ
وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَیِّرَاتِ خَلْقَ اللَّه
تَعَالَی ، مَالِی لَا اَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ النَّبِیُّﷺ وَهوَ فِی كتَابِ اللَّه:
{وَمَا آتَاكمُ الرَّسُولُ فَخُذُوه} (الحشر: ۷)]
’’اللہ تعالیٰ نے حسن کے لیے گودنے ، گدوانے اور
چہرے کے بال اکھاڑنے اور دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرنے والیوں پر جو اللہ کی خلقت
کو بدلیں ان سب پر لعنت بھیجی ہے، میں بھی کیوں نہ ان لوگوں پر لعنت کروں جن پر رسول
اللہe نے لعنت کی ہے اور اس کی دلیل
کہ نبی کریمe کی لعنت خود قرآن مجید میں
موجود ہے۔ آیت {وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ} ہے۔‘‘ (بخاری: ۵۹۳۱)
عورت
کا سر کے بال منڈوانا:
سیدنا
ابوبردہt بیان کرتے ہیں کہ
[اُغمی علی ابی مُوسَی
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُه اُمُّ عَبْدِ اللَّه تَصِیحُ بِرَنَّة ثُمَّ اَفَاقَ فَقَالَ:
اَلَمْ تَعْلَمِی؟ وَكانَ یُحَدِّثُها اَنَّ رَسُولَ اللَّهﷺ قَالَ: اَنَا بَرِیئٌ
مِمَّنْ حَلَقَ وَصَلَقَ وَخَرَقَ۔]
’’سیدنا ابوموسیt پر بے ہوشی طاری ہو گئی تو
ان کی اہلیہ ام عبداللہ نے زور سے رونا شروع کر دیا ، پھر انہیں افاقہ ہو گیا تو فرمایا:
کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’میں ایسے شخص
سے بری ہوں جو مصیبت کے وقت سر منڈائے، اونچی آواز سے روئے اور کپڑے چاک کرے۔‘‘ (بخاری:
۱۲۹۶‘ مسلم:
۱۶۷)
اس کو پڑھیں:
شوہر
کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ:
سیدنا
ابو ہریرہt سے مروی ہے کہ نبی کریمe
نے فرمایا :
[لَا تَصُومُ الْمَرْاَة
وَبَعْلُها شَاهدٌ إِلَّا بِإِذْنِه۔]
’’اگر شوہر گھر پر موجود ہے تو کوئی عورت اس کی
اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے۔‘‘ (بخاری: ۵۱۹۲)
جنازہ
کے پیچھے چلنا:
سیدہ
ام عطیہr سے مروی ہے :
[وَكنَّا نُنْهی
عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ۔] (بخاری:۵۳۴۱)
’’ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے کی بھی ممانعت تھی۔‘‘
شوہر
کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں آنے کی اجازت دینا:
سیدنا
ابو ہریرہt سے مروی ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا :
[لَا یَحِلُّ لِلْمَرْاَة
اَنْ تَصُومَ وَزَوْجُها شَاهدٌ إِلَّا بِإِذْنِه ، وَلَا تَاْذَنَ فِی بَیْتِه إِلَّا
بِإِذْنِه ، وَمَا اَنْفَقَتْ مِنْ نَفَقَة عَنْ غَیْرِ اَمْرِه فَإِنَّه یُوَدَّی
إِلَیْه شَطْرُه۔]
’’عورت کے لیے جائز نہیں کہ اپنے شوہر کی موجودگی
میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے اور عورت کسی کو اس کے گھر میں اس کی مرضی
کے بغیر آنے کی اجازت نہ دے اور عورت جو کچھ بھی اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی صریح
اجازت کے بغیر خرچ کر دے تو اسے بھی اس کا آدھا ثواب ملے گا۔‘‘ (بخاری: ۵۱۹۵)
تین
دن سے زیادہ سوگ منانا:
سیدہ
حفصہ بنت عمرr سے مروی ہے کہ نبی اکرمe
نے فرمایا :
[لَا یَحِلُّ لِامْرَاَة
تُوْمِنُ بِاللَّه وَالْیَوْمِ الْآخِرِ تَحِدُّ عَلَی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا
عَلَی زَوْجٍ، فَإِنَّها تَحِدُّ عَلَیْه اَرْبَعَة اَشْهرٍ وَعَشْرًا۔]
’’کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر
ایمان رکھتی ہو‘ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانے کی اجازت نہیں سوائے شوہر کے،
شوہر کے انتقال پر وہ چار ماہ دس دن سوگ منائے گی۔‘‘ (نسائی: ۳۳۶۴)
اس کو پڑھیں:
شوہر
کے مال سے اسکی اجازت کے بغیر عطیہ دینا :
سیدنا
عبداللہ بن عمرw سے مروی ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا:
[لَا یَجُوزُ لِامْرَاَة
عَطِیَّة إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِها۔]
’’کسی عورت کے لیے اپنے شوہر کے مال میں سے اس
کی اجازت کے بغیر کسی کو عطیہ دینا جائز نہیں۔‘‘ (ابوداؤد: ۳۵۴۷‘ نسائی: ۲۵۴۱‘ ترمذی: ۱۳۹۰)
شوہر
کو ناراض کرنا :
سیدنا
ابن عباسw سے مروی ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا :
[ثَلَاثَة لَا تَرْتَفِعُ
صَلَاتُهمْ فَوْقَ رُئُوسِهمْ شِبْرًا: رَجُلٌ اَمَّ قَوْمًا وَهمْ لَه كارِهونَ، وَامْرَاَة
بَاتَتْ وَزَوْجُها عَلَیْها سَاخِطٌ، وَاَخَوَانِ مُتَصَارِمَانِ۔]
’’تین اشخاص ایسے ہیں کہ ان کی نماز ان کے سروں
سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں جاتی: ایک وہ شخص جس نے کسی قوم کی امامت کی اور لوگ اس
کو ناپسند کرتے ہیں، دوسرے وہ عورت جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض
ہو، اور تیسرے وہ دو بھائی جنہوں نے باہم قطع تعلق کر لیا ہو۔‘‘ (ابن ماجہ: ۹۷۱)
شوہر
کو تکلیف دینا :
سیدنا
معاذ بن جبلt سے مروی ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا:
[لَا تُوْذِی امْرَاَة
زَوْجَها، إِلَّا قَالَتْ زَوْجَتُه: مِنَ الْحُورِ الْعِینِ لَا تُوْذِیه قَاتَلَك
اللَّه، فَإِنَّمَا هوَ عِنْدَك دَخِیلٌ اَوْشَك اَنْ یُفَارِقَك إِلَیْنَا۔]
’’جب کوئی عورت اپنے شوہر کو تکلیف دیتی ہے تو
حورعین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے: اللہ تجھے ہلاک کرے! اسے تکلیف نہ دے، وہ تیرے پاس
چند روز کا مہمان ہے، عنقریب تجھے چھوڑ کر ہمارے پاس آجائے گا۔‘‘ (ابن ماجہ: ۲۰۱۴‘ ترمذی:
۱۱۷۴)
اس کو پڑھیں:
ولی
کی اجازت کے بغیر نکاح:
سیدنا
ابو موسی اشعریt سے مروی ہے کہ نبی اکرمe
نے فرمایا :
[لَا نِكاحَ إِلَّا
بِوَلِیٍّ۔]
’’ولی کے بغیر نکاح نہیں۔‘‘ (ابو داؤد: ۲۰۸۵‘ ابن ماجہ: ۱۸۷۹‘ ترمذی: ۱۱۰۲)
اسی
طرح سیدہ عائشہr سے مروی ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا :
[اَیُّمَا امْرَاَة
نَكحَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ مَوَالِیها فَنِكاحُها بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔] (سنن ابی
داؤد: ۲۰۸۳)
’’جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے
اس کا نکاح باطل ہے ، آپe نے اسے تین بار فرمایا ۔‘‘
خواتین
کا گھر میں اعتکاف:
سیدنا
ابن عباسw سے جب عورت کا اپنے گھر کی
مسجد میں اعتکاف کے بارہ میں سوال کیا گیا تو وہ کہنے لگے: گھر میں عورت کا اعتکاف
کرنا بدعت ہے، اوراللہ تعالی کے ہاں مبغوض ترین اعمال بدعات ہیں ، اس لیے نماز باجماعت
والی مسجد کے علاوہ کہیں بھی اعتکاف صحیح نہیں ، اس لیے کہ گھر میں نماز والی جگہ نہ
تو حقیقتاً مسجد ہے اور نہ ہی حکما اس کا بدلنا اور اس میں جنبی شخص کا سونا بھی جائز
ہے ، اور اگر یہ جائز ہوتا تو سب سے پہلے امہات المومنینg
اس پر عمل پیرا ہوتیں ، اس کے جواز کے لیے اگرچہ وہ ایک بار ہی عمل
کرتیں۔ (الموسوعۃ الفقہیہ: ۵/۲۱۲)
امام
نوویa نے اپنی کتاب المجموع میں کہا
ہے: مرد اورعورت کے لیے مسجد کے علاوہ کہیں اوراعتکاف کرنا صحیح نہیں۔ (المجموع للنووی:
۴/۴۸۰)
خواتین
کا اعتکاف صرف مسجد میں ثابت ہے گھر میں اعتکاف کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔ لہٰذا اجماع
امت اور سلف صالحین کے مطابق عورتوں کا اعتکاف مسجد میں ہی ہوگا، مسجد سے باہر اعتکاف
نہیں۔
ہاں
اس کی الگ سے جگہ جو خواتین کے نماز پڑھنے کیلئے مخصوص ہے وہ ہو گی۔
اس کو پڑھیں:
خوبصورتی
کے لیے ناخنوں کو بڑھانا:
سیدنا
ابو ہریرہt سے مروی ہے کہ نبی کریمe
سے نے فرمایا :
[الْفِطْرَة خَمْسٌ
(اَوْ خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَة) الْخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَتَقْلِیمُ الْاَظْفَارِ،
وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ۔] (مسلم: ۵۹۷)
’’فطرت (کے خصائل) پانچ ہیں (یا پانچ چیزیں فطرت
کا حصہ ہیں): ختنہ کرانا، زیر ناف بال مونڈنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھیڑنا اور
مونچھ کترنا۔‘‘
عورت
کی شادی عورت نہ کرے :
سیدنا
ابو ہریرہt سے مروی ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا :
[لَا تُزَوِّجُ الْمَرْاَة
الْمَرْاَة، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْاَة نَفْسَها، فَإِنَّ الزَّانِیَة هیَ الَّتِی
تُزَوِّجُ نَفْسَها۔]
’’عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرائے، اور نہ عورت
خود اپنا نکاح کرے، پس بدکار وہی عورت ہے جو اپنا نکاح خود کرتی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ: ۱۸۸۲)
بدکار
یا مشرک مرد سے نکاح :
اللہ
تعالی کا فرمان ہے کہ
{الزَّانِی لَا یَنْكحُ
إِلَّا زَانِیَة اَوْ مُشْرِكة وَالزَّانِیَة لَا یَنْكحُها إِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِك
وَحُرِّمَ ذَلِك عَلَی الْمُوْمِنِینَ} (النور: ۳)
’’زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ یا مشرکہ عورت کے
ساتھ، اور زانیہ کے ساتھ وہی نکاح کرے جو خود زانی یا مشرک ہو ۔ اور اہل ایمان پر یہ
کام حرام کردیا گیا ہے۔‘‘
اس کو پڑھیں:
عدت
گزارنے والی بیوہ عورت کا زیب وزینت اختیار کرنا:
سیدہ
ام سلمہr اپنی والدہ سے روایت کرتی ہیں
کہ
[اَنَّ امْرَاَة
تُوُفِّیَ زَوْجُها، فَخَشُوا عَلَی عَیْنَیْها، فَاَتَوْا رَسُولَ اللَّهﷺ، فَاسْتَاْذَنُوه
فِی الْكحْلِ، فَقَالَ: ’لَا تَكحَّلْ، قَدْ كانَتْ إِحْدَاكنَّ تَمْكثُ فِی شَرِّ
اَحْلَاسِها اَوْ شَرِّ بَیْتِها، فَإِذَا كانَ حَوْلٌ فَمَرَّ كلْبٌ رَمَتْ بِبَعَرَة،
فَلَا حَتَّی تَمْضِیَ اَرْبَعَة اَشْهرٍ وَعَشْرٌ۔‘]
’’ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہو گیا، اس کے بعد
اس کی آنکھ میں تکلیف ہوئی تو اس کے گھر والے رسول اللہe کی خدمت میں حاضر ہوئے اور
آپ سے سرمہ لگانے کی اجازت مانگی۔ نبی کریمe نے فرمایا کہ سرمہ (زمانہ عدت
میں) نہ لگاو۔‘‘ (زمانہ جاہلیت میں) تمہیں بدترین کپڑے میں وقت گزارنا پڑتا تھا، یا
(راوی کو شک تھا کہ یہ فرمایا کہ) بدترین گھر میں وقت (عدت ) گزارنا پڑتا تھا۔ جب اس
طرح ایک سال پورا ہو جاتا تو اس کے پاس سے کتا گزرتا اور وہ اس پر مینگنی پھینکتی
(جب عدت سے باہر آتی) پس سرمہ نہ لگاؤ۔ یہاں تک کہ چار مہینے دس دن گزر جائیں۔‘‘
(بخاری: ۵۳۳۸)
شوہر
سے فضول مطالبات:
سیدنا
ابو سعید یا جابرw سے مروی ہے کہ
[خَطَبَ خُطْبَة
، فَاَطَالَها ، وَذَكرَ فِیْها اَمْرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَة ، فَذَكر اَنَّ اَوَّل؟
مَا هلَك بَنُو إِسْرائِیْل اَنَّ امْرَاَة الفَقِیْر كاَنَتْ تُكلِّفُه مِنَ الثِّیَاب
اَوْ الصِّیغ، اَوْ قَالَ: مِن الصِّیغِة مَا تُكلّفُ امراَة الغَنِی، فَذَكرَ امْرَاَة
مِنْ بَنِی إِسْرَائِیْل كاَنَتْ قَصِیْرَة ، وَاتَّخَذَتْ رِجْلَیْنِ مِنْ خَشَب وَخَاتَماً
لَه غَلْقٌ وَطَبْق، وَحَشَّتْه مِسْكاً، وَخَرَجَتْ بَیْنَ امْرَاَتَیْنِ طَوِیْلَتَیْنِ
اَوْ جَسِیْمَتَیْنِ، فَبَعَثُوا إِنْسَاناً یَتْبَعهم فَعَرَف الطَوِیْلَتَیْنِ، وَلَمْ
یَعْرِفْ صَاحِبَة الرِّجْلَیْنِ مِنْ خَشَب۔]
’’رسول اللہe نے ایک لمبا خطبہ ارشادفرمایا
اور اس میں دنیا اور آخرت کے معاملات کا ذکر کیا۔ آپe
نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کی ہلاکت کا پہلا سبب یہ بنا کہ کسی غریب
کی بیوی اپنے شوہر سے ایسے کپڑوں یا زیورات کا مطالبہ کرتی جو امیر کی بیوی کرتی اور
آپ نے بنی اسرائیل کی ایک عورت کا تذکرہ کیا جو پستہ قد تھی، اس نے لکڑی کی دو ٹانگیں
بنوائیں اور ایک انگوٹھی جس میں ڈھکن لگا ہوا تھا ،اسے مشک کی خوشبوسے بھردیااوردو
لمبی یا موٹی عورتوں کے درمیان چلنے لگی۔لوگوں نے ایک آدمی بھیجاجو ان کا پیچھا کرے،اس
نے لمبی عورتوں کو تو پہچان لیالیکن لکڑی کی ٹانگوں والی عورت کو نہیں پہچانا۔‘‘ (التوحید
لابن خزیمہ: ۴۴۷‘ الصحیحہ
للالبانی: ۱۹۲۳)
اس کو پڑھیں:
تعویذ
باندھنا:
سیدنا
عبداللہ بن مسعودt سے مروی ہے:
[سَمِعْتُ رَسُولَ
اللَّهﷺ، یَقُولُ: إِنَّ الرُّقَی وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَة شِرْك ، قَالَتْ: قُلْتُ:
لِمَ تَقُولُ هذَا، وَاللَّه لَقَدْ كانَتْ عَیْنِی تَقْذِفُ، وَكنْتُ اَخْتَلِفُ إِلَی
فُلَانٍ الْیَهودِیِّ یَرْقِینِی، فَإِذَا رَقَانِی سَكنَتْ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّه:
إِنَّمَا ذَاك عَمَلُ الشَّیْطَانِ كانَ یَنْخُسُها بِیَدِه فَإِذَا رَقَاها كفَّ عَنْها
إِنَّمَا كانَ یَكفِیك اَنْ تَقُولِی كمَا كانَ رَسُولُ اللَّهﷺ یَقُولُ: اَذْهبِ الْبَاسَ
رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ اَنْتَ الشَّافِی، لَا شِفَائَ إِلَّا شِفَاوُك، شِفَاء ً لَا
یُغَادِرُ سَقَمًا۔]
’’میں نے رسول اللہe سے سنا آپe
فرما رہے تھے: ’’جھاڑ پھونک (منتر) گنڈا (تعویذ) اور تِوَلَہ شرک
ہیں۔‘‘ عبداللہ بن مسعودt کی بیوی زینبr
کہتی ہیں: میں نے کہا: آپ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ قسم اللہ کی! میری
آنکھ درد کی شدت سے نکلی آتی تھی اور میں فلاں یہودی کے پاس دم کرانے آتی تھی تو
جب وہ دم کر دیتا تھا تو میرا درد بند ہو جاتا تھا، عبداللہt
بولے: یہ کام تو شیطان ہی کا تھا‘ وہ اپنے ہاتھ سے آنکھ چھوتا تھا
تو جب وہ دم کر دیتا تھا تو وہ اس سے رک جاتا تھا، تیرے لیے تو بس ویسا ہی کہنا کافی
تھا جیسا رسول اللہe کہتے تھے۔
[اَذْهبِ الْبَاسَ
رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ اَنْتَ الشَّافِی، لَا شِفَائَ إِلَّا شِفَاوُك، شِفَائً لَا
یُغَادِرُ سَقَمًا۔]
’’لوگوں کے رب! بیماری کو دور فرما، شفاء دے،
تو ہی شفاء دینے والا ہے، ایسی شفاء جو کسی بیماری کو نہ رہنے دے۔‘‘ (ابوداؤد: ۳۸۸۳‘ ابن ماجہ: ۳۵۳۰‘ الصحیحہ للالبانی:
۲۹۸۲)
اللہ
تبارک وتعالیٰ قرآن وسنت کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق دے۔ آمین!
No comments:
Post a Comment