گانا سننے کی سنگینی‘ سزا اور نقصانات
(چوتھی قسط) تحریر: جناب مولانا محمد طیب محمدی
گانے سننے کے چھ خاندانی نقصانات
۱۔ گانا بچیوں کے
گھروں سے بھاگنے کا سبب
وہ
بچیاں جو والدین کی اطاعت گزار ہوتی تھیں آج ایسے ہی فلمی گانے سن سن کرمن پسند آشناوٴں
کے ساتھ بھاگ رہی ہیں۔ عدالتوں میں حاضر ہوکر والدین کی بجائے آشناوٴں کے ساتھ جانے
کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ گانے میں ہوتا یہ ہے کہ دو بول لڑکا بولتا ہے اور لڑکی اس
کے پیچھے بھاگتی ہے اور پھر دو بول لڑکی بولتی ہے اور پھر وہ لڑکا اس لڑکی کے پیچھے
بھاگتا ہے۔ ایک دوسرے کو چھونا اور پھر ایسے گندے اشعار پڑھنا جن سے ایک دوسرے کی طرف
مائل ہوا جائے اور ایک دوسرے کو کھینچا جائے۔ ظاہر بات ہے سننے والے پر یہی چیز مرتب
ہوگی جو وہ سن رہا ہے‘ گانا سننے والا لڑکا کسی لڑکی کو ڈھونڈے گا اور گانا سننے والی
لڑکی کسی لڑکے کو ڈھونڈے گی اور نتیجہ یہی ہوگا کہ دونوں گھر سے نکل جائیں گے ، تاکہ
گانے پر صحیح عمل ہوجائے۔
اس کو پڑھیں:
۲۔
گانا سننے والا گھر والوں کو بھی تباہ کرتا ہے
جس
گھر میں ایک فرد بھی میوزِک سننے کا شوقین ہوگا وہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ڈبوسکتاہے،
گھر میں عورَتیں اور بچّے بھی ہوتے ہیں وہ مُوسِیقی کے شیطانی اَثرات سے کیسے
بچ پائیں گے؟
۳۔ نسل کو تباہ کرتا
ہے
جب
کوئی شخص خود مُوسِیقی کا رَسْیا (شوقین) ہوگا وہ اپنے بچے کو کیسے روکے گا! یوں یہ
شیطانی شوق اگلی نسل کو بھی منتقل ہو جائے گا۔
آنے
والی نسل پر منفی اثر پڑتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ خالد بن ولید ، محمد بن قاسم ،طارق بن
زیاد جیسے غیور سپوت ناپید ہیں اور عام بچیاں عائشہ اور فاطمہ الزہراجیسی عفت مآب
خواتین کو اپنے لئے نمونہ بنانے کی بجائے ماڈلز اور اداکاروں کو پسند کرتی ہیں۔
۴۔ گانے سننا پستی
کا سبب ہے
جو
قوم اس قسم کی قبیح حرکتوں میں لگ جائے تو منزلِ مقصود بھول جاتی ہے، تباہی وبربادی
کا سبب بن جاتی ہے۔ غیر قوموں کو بآسانی دبوچنے کا موقع مل جاتا ہے۔ بغداد کی تباہی
اس کی زندہ مثال ہے ، اندلس میں مسلمانوں نے آٹھ سوسال حکومت کی لیکن حکمران جب رقص
وسرود کی عیاشیوں میں محو ہوئے تو اندلس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ۔ برصغیر پاک
وہند میں بھی انگریز کا دور دراز سے آکر قابض ہو جانے کا بڑا سبب مغلوں کا رقص و سرود
کی محفلوں کو آباد کرنا اور محلات کو عیش گاہوں میں تبدیل کرنا تھا۔
اس کو پڑھیں:
۵۔
اَخلاق کو بھی نقصان :
مُوسِیقی
اَخلاق کو بھی نقصان دیتی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ انسان کا دماغ برقی لہروں پر
فنکشن کرتا ہے ، اس پر جو سگنل جاتے ہیں وہ الیکٹرکل سگنل ہوتے ہیں، جو انسان کے جسم
میں چارج ہوتے ہیں، اس لیے اگر ریڈیو چل رہا ہو اور آپ اس کے انٹینے کو پکڑ لیں تو
اس کی آواز بہتر ہو جاتی ہے ، کیوں کہ آپ اس کے ویوس(waves)کو
رِسیو(recieve)کرکے اسے دینے لگتے ہیں، اسی کے پیشِ نظر میوزک پر ریسرچ کی گئی کہ
وہ پہلے تو محض ایک آواز ہوتی ہے ، مگر انسان کے جسم میں پہنچ کر الیکٹرکل ویو ( electrical wave) بن جاتی ہے، جسے ویو لیٹ اینالیسس (wavelet analysis) کہتے
ہیں کہ کون سی ویو لیٹ انسان کے دماغ پر زیادہ اثر کرتی ہے ، چناں چہ ایسی ویو لیٹ
ایجاد کی گئیں جسے سن کر آدمی تِھرکنا بھی شروع کر دیتا ہے ، جس کا مطلب یہ تھا کہ
وہ دماغ تک پہنچ گئے ۔ پھر اس پر محنت کرتے کرتے ایک سسٹم ایجاد کیا، جس کا نام ہے
بیک ٹریک سسٹم (Back Track System)(Back اس
کا مطلب یہ ہے کہ میوزک تو ویو بار(wave bar) میں ہوتی ہے ، اس کے اوپر اپنا ایک میسج
بٹھا دیتے ہیں، جیسے کسی انسان کے کندھے پر مکھی بیٹھ جائے اور جہاں انسان داخل ہو،
وہ بھی ساتھ ہی میں داخل ہو جائے ، بالکل اسی طرح انسان میوزک تو سنتا محض ری فریش
(refresh)ہونے
کے لیے ، مگر اس کے ساتھ وہ پیغام بھی اس کے دماغ تک پہنچتا ہے اور اثر دکھاتا ہے ،
چناں چہ اس کا تجربہ شروع میں اس طرح کیا گیا کہ ایک گانا بنوایااور ایک ایسے گویّے
کے ذریعے سے کہ جس کی آواز لوگ پسند کرتے تھے گوایا گیا، اس طرح لوگ اسے بار بار سنتے،
پھر اس گانے پر انہوں نے اپنا پیغام بھیجا‘ کِل یور مام(kill your mom) پھر
انھوں نے اینالیسس (analysis)کیا کہ جتنے نوجوانوں کو وہ گانا پسند
تھا، وہ اسے سنا کرتے تھے ، ان کے اندر اپنی امّی کے بارے میں ایسا غصہ پیدا ہو جاتا
تھا کہ ان کا دل چاہتا تھا کہ اسے قتل کر ڈالیں۔ جب ان سائنس دانوں کو اس کا بھی کامیاب
تجربہ ہو گیا، تو اس طرح کے بار بار تجربے کیے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ کسی کی مرضی
کے بغیر اس کے دماغ تک پہنچ سکیں، جو سائنس کی دنیا میں بڑی کامیابی تھی۔ اس طرح انہیں
ایک ٹول(tool) ہاتھ
آگیا کہ کسی بھی انسان کے دماغ میں میوزک کے ذریعے اپنا پیغام بھیج سکتے ہیں، یہاں
سے ایک نئے دور نے جنم لیا، جسے کہتے ہیں کلچر تھرو میڈیا(culture through media) یہ
انسان کی زندگی کا ایک نیا باب ہے ، جس کے ذریعے اپنے کلچر کو لوگوں کے دماغ میں بٹھا
دیا جاتا ہے ، چناں چہ پہلے میوزک حرام تھی اس لیے کہ اس میں فقط ٹون(tone)
ہوتی تھی اور آج کل تو میوزک اس لیے حرام در حرام ہے کہ اس میں انسان کا ایمان ضائع
ہونے کا خطرہ ہے ۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ جن لوگوں کو میوزک سے دل چسپی ہے آپ لاکھ
اسے سمجھائیں، جتنی چاہیں نیک باتیں سنانے کی کوشش کریں، وہ اسے سننا پسند نہیں، کیوں
کہ میوزک کے ذریعے نیکی کے خلاف اس کے دماغ میں اتنا کچھ بھر دیا گیا ہے جو اسے نیکی
کے قریب آنے نہیں دیتا۔
اس کو پڑھیں:
یہ
سب تحقیقات تو بعد میں آنے والے انسانوں کی ہیں، لیکن پیغمبرِ خدا نے مسلمانوں کو
اپنے زمانے ہی میں ان سب سے آگاہ کر دیا تھا، تاکہ کوئی انسان کسی انسان کے ذہن کو
ہیک (Hack)کرکے
انہیں اپنا غلام بنانے کی غلط کوشش نہ کر سکے، کاش مسلمان سمجھیں اور اس لعنت سے توبہ
کریں اور اپنی اور آنے والی نسلوں کی حفاظت کریں۔
۶۔ گانا بجانا اِنسان
کو بے مروّت بنادیتا ہے:
یزید
ابن الولید النّاقض فرماتے ہیں :
[إِيَّاكُمْ وَالْغِنَاءَ
فَإِنَّهُ يُنْقِصُ الْحَيَاءَ وَيَزِيدُ فِي الشَّهْوَةَ وَيَهْدِمُ الْمُرُوءَةَ
وَإِنَّهُ لَيَنُوبٌ عَنِ الْخَمْرِ وَيَفْعَلُ مَا يَفْعَلُ السُّكْرُ فَإِنْ كُنْتُمْ
لَا بُدَّ فَاعِلِينَ فَجَنِّبُوهُ النِّسَاءَ إِنَّ الْغِنَاءَ دَاعِيَةُ الزِّنَى.]
[شعب الایمان :۴۷۵۵]
’’گانا بجانے سے بچو اِس لئے کہ یہ شرم و حیاء
کو کم کردیتا ہے، شہوت کو بڑھادیتا ہے،مروّت کو ختم کردیتا ہے، اور یہ گانا شراب کے
ہی قائم مقام ہوتا ہے(یعنی اُسی کا کام کرتا ہے)اور وہی کام کرتا ہے جو نشہ آور چیز
کرتی ہے، پس اگر تم نے گانا بجانا ہی ہے تو عورتوں کو اس سے (ہر صورت میں)ضرور دور
رکھو کیونکہ بیشک گانا بجانازنا کو دعوت دینے والا ہے ۔‘‘
گانے سننے کے چھ جسمانی نقصانات
۱۔ جسمانی صحت داؤ
پر:
گانا
سننے سے جسمانی صحت داؤ پر لگ جاتی ہے، ڈھول ڈھمکوں، جھانجنوں اور باجوں کی آوازیں
مسلسل سننے کی بِنا پر کانوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
اس کو پڑھیں:
۲۔
دائمی بیماری لگ جاتی ہے:
میوزِک
سننے والے ہمیشہ گانے ہی سنتے رہتے ہیں بعضوں کا سفر میوزِک سنے بغیر نہیں گزرتا‘
ایسوں کو سوچنا چاہیے کہ اسی حالت میں موت آگئی تو کیا گزرے گی! ایسے لوگ کھانے کے
وقت بھی میوزک سنتے رہتے ہیں‘ ان کو اِحساس تک نہیں ہوتا کہ وہ جس رب کی نعمتیں
کھارہا ہے اُسی کی نافرمانی کررہا ہے
شادی
ہال میں میوزِک کی دھنیں بجانے پر اصرار کرنے والا دولہا غور تو کرے کہ اس کی زندگی
کا نیا سفرشروع اور نسل بڑھنے کا سامان ہو رہا ہے، ایسے میں اُسے نیکیاں کرکے اپنے
رب عَزَّوَجَلَّ کے حُضور خیر وسلامتی کی دُعائیں مانگنی چاہئیں لیکن یہ اس کی نافرمانی
پر کمر باندھ رہا ہے۔
ایسے
لوگوں کو سوتے وقت میوزِک سننے میں بڑا مزہ آتا ہے۔ ایسوں کو ڈرنا چاہیے کہ اگر
نیند ہی میں موت آگئی تو اَنجام کیا ہوگا ؟
حدیث
میں ہے: [اَلنَّومُ اَخُو
الْمَوت] یعنی
نیند موت کی بہن ہے۔
[شعب الایمان:
۴۴۱۶ ۔ الآداب للبيهقي مشكاة المصابیح، ج۲،ص۳۳۶،حدیث:۵۶۵۴) قال الشیخ البانی: ضعیف]
۳۔ سکرین کی شعائیں
آنکھوں کو کمزور کردیتی ہیں :
ساز
و آواز پر مشتمل گانے صرف سُنے ہی نہیں جاتے بلکہ ویڈیو کی صورت میں دیکھے بھی جاتے
ہیں، یوں موبائل،لیپ ٹاپ یا ٹی وی، ایل سی ڈی وغیرہ سے نکلنے والی شعائیں آنکھوں کی
کمزوری، جلن اور خارش کا سبب بنتی ہیں۔
اس کو پڑھیں:
۴۔
سردرد ہونے لگتا ہے:
گھنٹوں
گانے سننے کی وجہ سے سردرد ہونے لگتا ہے اور دماغ دُکھنے لگتا ہے‘ گانے باجوں میں گزرنے
والا وقت الگ سے ضائع ہوتا ہے حالانکہ یہی وقت مُفید کاموں میں بھی خرچ کیا جاسکتا
تھا۔
۵۔ دماغ کند ہوتا
ہے اور تعلیمی نقصان بھی ہوتا ہے :
اس
سے تعلیمی نقصان بھی ہوتا ہے کیونکہ جس کا دل گانے سننے میں لگ جائے وہ خاک پڑھائی
کرے گا اور ہر وقت اس کے کان میں گانے ہی چلتے رہیں گے۔
۶۔ دولت کا ناجائز
ضیاع ہوتا ہے :
گانا
سننے کے لیے اس کا آلہ خریدنا پڑے گا ، وہ آلہ موبائل ہو کمپیوٹر ہو ڈیک ہو ایل سی
ڈی ہو ایل ای ڈی ہو جو بھی آلہ ہو اس کو خریدنے کے لیے رقم خرچ ہوگی جتنی رقم بھی
خرچ کرے گا وہ اللہ کی نافرمانی میں ہی ہوگی جو اس کے لیے دنیا آخرت میں وبال ہوگی۔
توبہ کرلو ورنہ
گانابجانا
حرام ہے، انہیں حلال قرار دینا اور ان آلات کی خرید و فروخت اور سماع میں مگن ہو جانا
اللہ اور رسول eکے احکامات کی صریح مخالفت اور خلاف ورزی
ہے۔
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ
يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ
اَلِيْمٌ۰۰۶۳﴾ (النور)
’’جو لوگ حکم رسولe کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں
ڈر جانا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں کوئی دکھ کی مار نہ
پڑے۔‘‘
اس کو پڑھیں:
عزیزبھائیو!
قرآن سنو ، اچھے قاریوں کی تلاوت سنو‘ یہ آوازیں کانوں میں رَس بھی گھولیں گی اور
آخِرت میں ذَریعہ نَجات بھی بنیں گی، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ۔اللہ تعالیٰ
ہمیں میوزِک گانے سننے سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
کوئی
شخص اگر حرام گانے بجانے کا عمل گناہ سمجھ کر کرے اس پر نادم ہو تو پھر معافی کی امید
ہے، مگر جب کوئی قوم فنون لطیفہ یا روح کی غذا کا نام دے کر اسے حلال ہی کرلے تو اس
کے لیے اللہ کے عذاب کے کوڑے سے بچنا بہت ہی مشکل ہے۔
اہل
ایمان گانے کی بجائے قرآن سنتے ہیں
جب
اللہ کی رحمت اور اس کے لطف وکرم کی اُمید ان کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے تو ان کے اندر
سوز وگداز پید اہوتا ہے اور اللہ کے ذکر میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ
الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ
اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَۚۖ۰۰۲ الَّذِيْنَ
يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَؕ۰۰۳﴾ [الأنفال:3-4]
’’ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ
کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کو پڑھ کر سنائی جاتی
ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ اپنے ربّ پر توکل کرتے
ہیں۔‘‘
مسلمان
کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ بے ہودہ مجالس میں حاضر نہیں ہوتا ۔ارشادِ باری ہے :
﴿وَ الَّذِيْنَ لَا
يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ١ۙ وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا۰۰۷۲﴾ [الفرقان:72]
’’اور جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی بیہودہ
شے پر ان کا گزر ہوتا ہے تومعززانہ گزر جاتے ہیں۔‘‘
اس کو پڑھیں:
زُوْر
سے مراد جھوٹ ہے‘ ہر باطل چیز بھی جھوٹ ہے، یہاں خاص طور پر اسٹیج ڈرامے جو ہیں ہی
جھوٹ پرمبنی وہ بالاولیٰ اس کی تفسیر میں آتے ہیں ، جھوٹی گواہی سے لے کر کفرو شرک
اور ہر طرح کی غلط چیزیں مثلاً لہو و لعب،گانا بجانا اور دیگر بے ہودہ جاہلانہ رسوم
و افعال سب اس میں شامل ہیں۔ عبادالرحمن کی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایسی بے ہودہ مجلسوں
میں حاضر نہیں ہوتے بلکہ خاموشی اورعزت ووقار کے ساتھ وہاں سے گذر جاتے ہیں۔کلام اللہ
لگاؤ سے سنتے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿وَ الَّذِيْنَ اِذَا
ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّ عُمْيَانًا۰۰۷۳﴾
[الفرقان:73]
’’جب انہیں انکے ربّ کے کلام کی آیتیں سنائی
جاتی ہیں تو وہ اندھے بہرے ہو کر اُن پر نہیں گرتے۔‘‘
اللہ
تعالیٰ کا ذکر سن کر اللہ کی جلالت وعظمت سے ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ ارشادِ باری ہے:
﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ
الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ
اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَۚۖ۰۰۲ الَّذِيْنَ
يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَؕ۰۰۳﴾ [الأنفال:4-3]
’’ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ
کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کو پڑھ کر سنائی جاتی
ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ اپنے ربّ پر توکل کرتے
ہیں۔‘‘
ذکر
الٰہی سننے سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿وَ اِذَا سَمِعُوْا
مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْيُنَهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ...﴾
[المآئدة:83]
’’اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ کتاب کو سنتے
ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں۔‘‘
قرآن
پڑھنے سے متقین کے جسم کانپتے اور جسم ودل ذکر الٰہی کی طرف جھک جاتے ہیں :
﴿اَللّٰهُ نَزَّلَ
اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ١ۖۗ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ
الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ١ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى
ذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهْدِيْ بِهٖ مَنْ يَّشَآءُ١ؕ وَ مَنْ يُّضْلِلِ
اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ۰۰۲۳﴾ [الزمر:23]
’’اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل کیا ہے جو
ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی جانے والی آیتوں پر مشتمل
ہے، جس سے ان لوگوں کے جسم کانپ اُٹھتے ہیں جو اپنے ربّ کا خوف رکھتے ہیں۔ آخر میں
ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف جھک جاتے ہیں۔‘‘
اس کو پڑھیں:
قتادہa
فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں اولیاء اللہ کی صفت بیان کی گئی
ہے کہ اللہ کے خوف سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ ان کی آنکھوں سے آنسوں کی جھڑی لگ
جاتی ہے، ان کے دلوں کو اللہ کے ذکر سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ ہوش و
حواس باختہ ہو جائیں اور عقل وہوش نہ رہے کیونکہ یہ بدعتیوں کی صفت ہے اور اس میں شیطان
کا دخل ہوتا ہے (ابن کثیر) ۔جیسے آج کل بدعتیوں کی قوالی میں اس طرح کی شیطانی حرکتیں
عام ہیں جسے وہ حالت ِبے خودی اور وجد سے تعبیرکرتے ہیں۔‘‘
No comments:
Post a Comment