تبصرۂ کتب
تبصرہ نگار: جناب مولانا
عبداللہ سلیم (سرگودھا)
نام
کتاب: مولانا امین احسن اصلاحی
اپنے حدیثی وتفسیری نظریات کی روشنی میں
تالیف: الشیخ حافظ صلاح
الدین یوسفd
ناشر: المدینہ ریسرچ
سنٹر
اہل
حدیث اللہ کے دین کے محافظ اور چوکیدار ہیں‘ انہوں نے اللہ کے دین کو ہر قسم کی آفتوں
اور ابتلاؤں سے محفوظ رکھا‘ کمی بیشی اور تحریف وتغیر سے پاک رکھا‘ انہوں نے رائے اور
قیاس کو ترک کیا اور اپنے دامن میں احادیث کے لعل ویواقیت بھرے۔ حدیث ہی ان کے دلوں
کا چین اور سرور‘ ان کی عمریں اسی کی طلب اور تحصیل میں گذریں‘ انہی کے ہاتھوں ہر بدعت
کا ستیاناس اور ہر باطل نظریہ کا قلع قمع ہوا اور ہوتا رہے گا۔ ان شاء اللہ!
انہوں
نے ہر میدان اور ہر فورم پر باطل کو شکست دی اور اس کے دانت کھٹے کیے۔ وہ روافض ہوں‘
خوارج ہوں‘ معتزلہ ہوں‘ متصوفہ ہوں‘ مقلدین ہوں‘ منکرین حدیث ہوں۔ علمی طور پر اللہ
تعالیٰ نے انہیں فتوحات سے نوازا اور ظاہرین علی الحق کا مصداق بنایا۔ اسی عظیم المرتبت‘
قافلہ حق کے راہی اور مبارک مشن کے امین فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسفd
ہیں‘ حافظ صاحب کی شخصیت علمی حلقوں میں جانی پہچانی اور از حد معروف
ہے۔
اب
آتے ہیں حضرت حافظ صاحب کی کتاب کی طرف لیکن اس سے قبل اس شخص کا تعارف ہونا ضروری
ہے جس کے افکار ونظریات کا بطلان حافظ صاحب نے اپنی اس کتاب میں کیا ہے۔
قارئین
کرام! برصغیر پاک وہند کے معروف دینی سکالر مولانا امین احسن اصلاحی بعمر ۹۴ سال
۱۴
دسمبر ۱۹۹۷ء کو لاہور میں
انتقال کر گئے۔ آپ نے مولانا حمید الدین فراہی‘ مولانا عبدالرحمن نگرامی اور مولانا
عبدالرحمن مبارک پوری شارح ترمذی (تحفۃ الاحوذی) جیسے ماہر اساتذہ سے مختلف علوم وفنون
میں درک حاصل کیا۔ مولانا ابوالحسن ندوی‘ مولانا منظور احمد نعمانی جیسے نامور لوگوں
کا ساتھ اور سید مودودی کی رفاقت اختیار کی۔ طویل عرصہ تک ان کے دست راست اور نائب
امیر کے طور پر کام کیا۔ جماعت اسلامی سے جنوری ۱۹۵۸ء میں حتمی طور
پر علیحدہ ہو گئے جس کی وجوہات انہوں نے اپنے مقالات کی پہلی جلد میں تحریر کیں۔
بعد
ازاں آپ نے اپنے استاد مولانا حمید الدین فراہی جن سے آپ بہت زیادہ متاثر تھے اور جن
سے پانچ سال تک سلسلہ تلمذ رہا کی فکر کو آگے بڑھانا زندگی کا مشن قرار دیا۔ باقی ماندہ
عمر فکر فراہی کی نشر واشاعت میں گذار دی‘ اس کے لیے تدبر قرآن کی صورت میں نو ضخیم
جلدوں پر مشتمل اردو تفسیر ۲۱ سال
میں مکمل کی۔ ’’مبادی تدبر القرآن‘‘ اور ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ جیسی اصولی ’’حقیقت دین‘‘
جیسی نظریاتی اور ’’تزکیہ نفس‘‘ جیسے اصلاحی‘ ’’دعوت دین اور اس کا طریقہ کار‘‘ جیسی
تبلیغی ودعوتی ’’اسلامی ریاست اور اسلامی قانون کی تدوین‘‘ جیسی فقہی ’’اسلامی معاشرے
میں عورت کا مقام‘‘ اور ’’قرآن میں پردے کے احکام‘‘ جیسی معاشرتی امور سے متعلقہ کتب
بطور یادگار چھوڑیں۔
آپ
کا علمی مقام بلند اور عمر طویل تھی اس لیے مختلف اسلامی موضوعات پر آپ کے کاموں کا
سلسلہ وسیع تھا‘ اس وقت آپ کے جملہ علمی کاموں کا جائزہ لینا مقصود نہیں بلکہ صرف مولانا
کے نظریے حدیث وقرآن کے حوالے سے چند امور کی نشاندہی مطلوب ہے‘ پہلے ہم ان کے حدیثی
نظریات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
مولانا
واقعی وسیع المطالعہ‘ کثیر التصانیف‘ عربیت کے ماہر‘ گہرے علم وفضل اور اعلیٰ انشاء
وتحریر کے مالک تھے‘ انتہائی ذہین وفطین تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی ذہانت کی فراوانی
اور ذکاوت نے انہیں بھٹکا دیا اور گمراہی کی راہ پر ڈال دیا۔ ہمارے شیخ حافظ محمد امینd
اوڈانوالہ فرمایا کرتے تھے کہ اکثر وبیشتر گمراہ لوگ ذہین فطین ہوتے
ہیں۔ معتزلہ اور جہمیہ کے شیوخ نیز سر سید احمد خاں‘ مرزا قادیانی اور غلام احمد پرویز
وغیرہ‘ صوفیا کے مشائخ اور گمراہ فرقوں کے بانی سب کا شمار وقت کے ذہین وفطین لوگوں
میں ہوتا ہے۔ ذہانت نے انہیں جادہ مستقیم اور شاہراہ سنت سے ہٹا دیا اور انہوں نے مسلمہ
اسلامی عقائد کا یا تو انکار کر دیا یا تاویل کر کے حلیہ مسخ کر دیا۔ جب قرآن وحدیث
کو محدثین کے فہم کے بغیر سمجھا جائے گا تو اسی قسم کے گل کھلیں گے۔ یہی کچھ مولانا
اصلاحی صاحب کے ساتھ ہوا‘ موصوف اپنی ابتدائی زندگی کی تصانیف میں کسی اور رنگ وروپ
میں نظر آتے ہیں اور عمر کے آخری حصہ میں کی گئی تصانیف میں بالکل دوسرے بھیس میں یعنی
انکار حدیث کا نظریہ کھل کر واضح ہو جاتا ہے۔
مولانا
دراصل تضاد فکری اور انتشار فکری کا شکار نظر آتے ہیں‘ ویسے انہوں نے قرآن وحدیث کے
فہم کے لیے جو اصول مقرر کیے ہیں ان کا لازمی تقاضا یہی تھا کہ وہ گمراہ ہونے اور زیغ
وضلال کے جوہڑ میں ڈبکیاں لگاتے۔ ان کی تصانیف اس پر شاہد ہیں‘ مبادی تدبر حدیث اور
شرح صحیح البخاری میں انہوں نے جو انداز اپنایا ہے وہ انتہائی مسموم اور خطرناک ہے۔
ان میں مسلمات اسلامیہ کا انکار کر کے زندقہ کی راہ اختیار کی گئی ہے۔ مستند اور بخاری
ومسلم کی احادیث کو مشکوک قرار دیا گیا ہے۔ تمام محدثین کی کوششوں کو سبوتاژ کیا گیا
ہے۔ امام بخاریa اور امام زہریa
وغیرہ پر خاص طور سے طعن وتشنیع کے تیر چلائے گئے ہیں۔احادیث کا استخفاف
کیا گیا ہے اور تمام محدثین کو فہم حدیث سے کورا باور کرایا گیا ہے۔
سنت
اور حدیث کے مفہوم میں خود ساختہ فرق کیا گیا ہے‘ روایت بالمعنی میں تشکیک پیدا کی
گئی ہے‘ راویان حدیث کا مذاق اڑایا گیا ہے‘ خبر واحد کی صحت سے انکار کیا گیا ہے۔ غرض
دونوں کتابیں حدیث اور محدثین کے بارے خبث باطن کے اظہار سے بھری پڑی ہیں۔ مولانا نے
کم وبیش ۳۰
مشہور ومتواتر روایات کا دھڑلے سے انکار
کیا ہے۔ مثلاً احادیث رجم جو کہ ۳۶ صحابہ
کرام] سے مروی ہیں اور انہیں کثرت
طرق حاصل ہے کا انکار‘ مزید تفصیل زیر تبصرہ کتاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
محترم
حافظ صاحب نے ’’مولانا اصلاحی کی حدیث دشمنی‘ یا انکار حدیث کے ناقابل تردید دلائل
وشواہد‘‘ کے عنوان سے ۱۵
سرخیاں قائم کر کے اصلاحی صاحب کے افکار
کا سارا کچہ چٹھہ کھول دیا ہے۔
الغرض
حافظ صاحب نے نصرت خداوندی سے اصلاحی افکار کا تار وپود کھول کر رکھ دیا ہے۔ کتاب پڑھ
کر محدثین کی کاوشوں اور جانفشانیوں کا پتہ چلتا ہے اور ان سے محبت وعقیدت میں بے پناہ
اضافہ ہوتا ہے۔ اب آتے ہیں کتاب کے حصہ دوم کی طرف جو کہ مشتمل ہے تفسیر تدبر القرآن
کے تحقیقی جائزہ پر۔ نویں جلد کے دیباچہ پر مولانا لکھتے ہیں:
’’یہ کتاب میری پچپن سال کی کاوشوں کا نچوڑ ہے۔‘‘
اور
اگر اس میں استاد فراہی صاحب کے پینتیس سال بھی ملا لیے جائیں تو یہ ایک صدی کا وہ
فکری مواد آپ کے سامنے آیا ہے جس کو آپ فکر فراہی سے موسوم کر سکتے ہیں۔
یہ
کتاب فکری پراگندگی‘ ذہنی انتشار‘ تاویل فاسد مذموم تفسیر بالرائے کا مجموعہ ہے۔ ہزاروں
سالوں پر محیط مفسرین کی کاوشوں کا بیک جنبش قلم انکار کیا گیا ہے۔ بعض سورتوں مثلاً
سورۂ نمل‘ سورۂ فیل وغیرہ کی تفسیر بچگانہ‘ مضحکہ خیز اور لا یعنی ہے۔ المختصر اصلاحی
صاحب کی تفسیر تضادات کا پلندہ ہے۔
اللہ
تعالیٰ حافظ صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے عرق ریزی کر کے شہد میں ملے
زہر کی وضاحت کی ہے۔ راقم الحروف خود اصلاحی صاحب سے بہت متاثر تھا ان کی دیگر کتب
کے ساتھ ساتھ تدبر کی آخری تین‘ چار جلدیں بالاستیعاب پڑھ چکا ہے مگر اب سارا تاثر
ہرن ہو چکا ہے۔
المدینہ
ریسرچ سنٹر والوں نے کتاب کی اشاعت میں کمال کر دکھایا ہے۔ عمدہ سفید کاغذ‘ بہترین
دیدہ زیب ٹائٹل‘ پرکشش کمپوزنگ‘ مضبوط جلد بندی‘ طباعت کتاب کے شایان شان ہے۔ اس پر
ادارہ مبارکباد کا مستحق ہے۔ اسے ہر عالم کے پاس اور ہر مکتبہ کے اندر موجود ہونا چاہیے۔
نیز آخری کلاس کے طلبہ اس کا مطالعہ ضرور کریں۔
No comments:
Post a Comment