Tuesday, March 10, 2020

شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ رحمہ اللہ 10-20


شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ رحمہ اللہ

تحریر: جناب الشیخ عبدالرزاق مسعود (برطانیہ)
۱۹۷۶ء کا واقعہ ہے کہ میرا اور توحید آباد کی رونق حاجی سمندر خان مرحوم کا کسی کام کی غرض سے گوجرانوالہ حکیم عبدالجبار صاحب کے ہاں جانا ہوا۔ رات حکیم صاحب کے ہاں بسر کی‘ صبح شوق پیدا ہوا کہ نمازِ فجر مولانا اسماعیل سلفیa کی مسجد میں ادا کرنی چاہیے۔ نمازِ فجر کے بعد مولانا محمد عبداللہ a نے حسب معمول درس قرآن شروع کیا تو مجھے حاجی سمندر خاں اور میرے ایک اور ہمسفر نے کہا کہ اب ہمیں چلنا چاہیے۔ لیکن میں نے ان کو مولاناa کا درس سننے پر مجبور کیا۔ مولانا قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر فرما رہے تھے:
’’ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو۔‘‘ (الاعراف: ۳۱)
میرے لیے آپ کا خطاب سننے کا پہلا اتفاق تھا۔ مولانا a نے اپنے درس میں علمی موتی اور حیران کن نکتے بیان کیے۔ مسلمان کے لباس کی تمام صورتیں بیان کیں‘ خصوصا عورت کے لیے سرڈھانپنا ضروری ہے۔ نہ کہ مرد کے لیے خواہ نماز میں ہوں یا غیر حالت نماز میں۔ احناف کے دلائل کا بڑی خوبصورتی سے دلائل کے ساتھ مسکت جواب دیا۔
میرے ذہن میں متعدد سوال پیدا ہوئے کہ مولانا سے بعد از درس استفسار کروں گا‘ لیکن مولانا نے وہ تمام مسائل بیان کر دیئے کہ مجھے سوال کی ضرورت ہی نہ رہی۔ مولانا مرحوم میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود تھی کہ جس مسئلے پر بات کرتے اس کے کسی پہلو کو تشنہ نہ چھوڑتے‘ بعد میں کسی کو سوال کرنے کی گنجائش ہی نہ رہتی۔ مولانا a کا یہ درس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ علم کا ایک دریا ہے جو بہہ رہا ہے‘ فولادی آواز تھی جو گونج رہی تھی۔
سینکڑوں علمائے کرام کے درس سنے‘ لیکن مولانا مرحوم کے درس قرآن کا لوہا کوئی توڑ نہ سکا۔ چوالیس (۴۴) سال گزرنے کے باوجود بھی مولانا کے درس کی آج بھی چاشنی محسوس کر رہا۔
توحید آباد (گلیات ہزارہ) قیام کے دوران ہمارے ہاں مولانا مرحوم‘ میاں فضل حق مرحوم کے ہمراہ تشریف لائے‘ ایک ہفتہ قیام کیا‘ گلیات کے رسم ورواج کے مطابق ان کی مہمانی کا شرف حاصل ہوا‘ جو بھی پیش کیا جاتا‘ بہت خوش ہو کر تناول فرما لیتے۔ ایک بار کھانے میں دیر ہو گئی‘ مجھے کہنے لگے: معلوم ہوتا ہے کہ آپ میرے لیے کوئی پر تکلف کھانا بناتے رہے‘ بھائی سادہ غذا اچھی ہوتی ہے‘ میرے لیے آلو انڈے بنا لیا کریں‘ یہ سالن مجھے سب سے زیادہ پسند ہے کہ سادہ بھی ہے اور بنانے میں دیر بھی نہیں لگتی۔
ایک ہفتہ قیام کے  دوران درس حدیث سے ہمیں مستفیض فرماتے رہے۔ مولانا رضاء اللہ ثنائیa اور مولانا حافظ ابراہیم کمیرپوریa بھی مجلسوں میں موجود تھے۔ علمی‘ ادبی‘ تاریخی واقعات اور پر بہار مجلسیں لگتیں‘ وہ دن کیا ہی تھے۔ آج یہ تمام بزرگ اپنے صالح اعمال کے ساتھ فردوس میں پہنچ گئے ہیں۔
برطانیہ میں بسنے والے ہر اہل حدیث کو مولانا a کی وفات سے سخت دکھ پہنچا تھا۔ جمعیۃ اہل حدیث ہیلی فیکس برطانیہ کے ایک اجتماع میں مولانا مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں سے در گذر فرمائے اور جنۃ الفردوس میں وہ تمام علماء‘ صلحاء دنیا کی نیک مجالس کی طرح جو گلوں اور شکوؤں سے خالی‘ علم وایمان سے بھر پور ہوتی تھیں‘ قرآن مجید کے اس آیت کے مصداق جنت میں بھی ایسی ہی مجلسیں قائم کرتے رہیں:
’’نعمت کے باغوں میں‘ تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ ان پر صاف بہتی ہوئی شراب کا جام پھیرا جائے گا جو سفید ہو گی‘ پینے والوں کے لیے لذیذ ہو گی‘ نہ اس میں کوئی سر درد ہو گا اور نہ وہ اس سے مدہوش کیے جائیں گے۔‘‘
مولانا مرحوم کے لیے معروف شاعر جگن ناتھ کا یہ شعر بار بار زبان پر آ رہا ہے     ؎
جانے والے اک ترے جانے سے کیا باقی نہیں
زندگی کی بزم باقی ہے مگر ساقی نہیں


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)