تاریخ ساز
امن معاہدہ
افغانستان میں ۱۹ سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان اور امریکہ
کے درمیان ۲۹ فروری کو قطر کے دار الحکومت دوحہ میں حتمی امن
معاہدہ طے پا گیا۔ بلاشبہ یہ ایک تاریخ ساز امن معاہدہ ہے جو درحقیقت پاکستان اور طالبان
کی فتح ونصرت کا پروانہ ہے۔ اسے عالمی سطح پر نہایت سراہا جا رہا ہے۔
گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ میں اغواء کیے گئے مسافر طیارے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی دو عمارتوں
سے ٹکرا دیئے گئے جس کے نتیجے میں یہ عمارتیں لمحوں میں ہی زمین بوس ہو گئیں۔ اس واقعہ
میں تقریبا تین ہزار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ امریکہ نے اس پراسرار کارروائی
کی ذمہ داری فوراً القاعدہ اور اس وقت کی طالبان حکومت پر ڈال دی۔ دہشت گردی کا الزام
لگاتے ہوئے امریکہ نے اپنے نیٹو اتحادیوں سے مل کر افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ اتحادیوں
نے اپنی طاقت کے غرور میں آکر افغانستان پر بے تحاشا بمباری کر کے اس کا تورا بورا
بنا دیا۔ ان کے مقابلے میں طالبان حکومت چند روز میں ہی ختم ہو گئی اور افغانستان پر
اتحادیوں نے قبضہ کر لیا۔
طالبان نے حکومت سے بے دخل ہونے کے بعد گوریلا وار شروع کر دی۔ یہ امر واقعہ ہے
کہ غیور افغانوں نے آج تک اپنی سرزمین پر کسی غیر ملکی جارح کے قدم ٹکنے نہیں دیئے۔
ہر بیرونی دشمن کو چھٹی کا دودھ یاد دلا کر وہاں سے مار بھگایا۔ اس سے قبل سوویت یونین
نے افغانستان کو فتح کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنے ٹکڑے کروا بیٹھا۔ اب ۹/۱۱ کے بعد امریکہ بہادر نے نیٹو فورسز کے ذریعے فوج کشی کی تو ان کا انجام بھی وہی
ہوا۔ افغان سرزمین پر کارپٹ بمباری کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ تو بجا دی گئی۔ لاکھوں
بے گناہ معصوم بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں کا قتل عام کیا گیا لیکن تحریک طالبان کی مزاحمت
کے آگے کوئی بند نہ باندھا جا سکا۔ ہر حربہ استعمال کر لیا گیا لیکن طالبان کو شکست
نہ دی جا سکی۔ امریکہ یہ جنگ برسوں پہلے ہار چکا تھا لیکن دنیا سے یہ حقیقت چھپائی
جاتی رہی۔
اتحادیوں کے پاس جدید ترین اسلحہ‘ دنیا بھر کی بہترین تربیت یافتہ افواج اور لاکھوں
افغانوں کو بھی جدید خطوط پر عسکری تربیت دی گئی۔ کسی بھی شورش زدہ علاقے میں قیام
امن کے لیے یہی لوازمات درکار ہوتے ہیں مگر یہ سب کچھ کارگر ثابت نہ ہو سکا۔ افغانستان
میں امن کی بحالی تو کجا اتحادیوں کے زیر کنٹرول علاقے ان کے ہاتھوں سے نکلتے چلے گئے۔
افغانستان وحشت ودہشت کی سرزمین بن گیا۔ بھارتی بنیے نے موقع کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے
ہوئے اسے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ بھارت وہاں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت
گردی کروانے لگا۔ لیکن پاکستان نے بے پناہ قربانیوں کے بعد اس پر مکمل قابو پا لیا۔
۱۹ سالہ اس جنگ میں ۲۴ سو امریکیوں سمیت ۳۵ سو غیر ملکی فوجی مارے گئے۔ ۴۲ ہزار طالبان اور ۳۲ ہزار عام شہری شہید ہوئے۔ امریکہ کے ۸۴۰ ارب ڈالرز بھی خرچ ہو گئے۔ اتنا بھاری نقصان اٹھانے کے بعد اب سپر پأور نہتے افغانوں
سے امن کی بھیک مانگ رہی ہے۔ افغانستان سے انخلاء کا محفوظ راستہ تلاش کیا جا رہا ہے۔
جنہیں گرفتار کر کے ہتھکڑیاں لگا کر گوانتاناموبے میں قید رکھا گیا تھا اب انہی سے
امن مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ ملا عبدالسلام ضعیف جو اس وقت پاکستان میں افغان سفیر
تھے‘ آمر مشرف نے انہیں پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا تھا‘ وہ اس امن معاہدے کے مرکزی
کردار ہیں۔ میرے رب کی شان دیکھیے کہ ایک طرف پورا عالم کفر اپنے لاؤ لشکر اور آلات
حرب وضرب کے ساتھ اور دوسری طرف بے یار ومددگار نہتے افغان۔ اللہ نے کفر کا غرور خاک
میں ملا دیا اور ایمان والوں کو بے سروسامانی کے باوجود فتح عطا فرمائی۔ اس سے ثابت
ہوتا ہے کہ عالم اسلام اگر متفق ومتحد ہو جائے تو ایک بڑی قوت بن سکتے ہیں۔ ان کے پاس
وسائل بھی ہیں‘ اس کے ساتھ اپنے اندر ایمانی جذبہ پیدا کر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت
انہیں زیر نہیں کر سکتی۔ وہ ہمیشہ غالب ہی رہیں گے لیکن اس سب کے لیے ایمان کی مضبوطی
شرط ہے۔
افغان جنگ میں امن معاہدے کے بنیادی فریق امریکہ اور طالبان ہیں۔ جبکہ موجودہ افغان
حکومت کو اس میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ اس سے پہلے بھی کئی بار مذاکرات ہوئے لیکن دونوں
اطراف سے کڑی شرائط کی بناء پر مذاکرات ناکام ہوتے رہے۔ کچھ قوتیں مذاکرات کو سبوتاژ
کرنے کے لیے شروع سے سرگرم رہی ہیں‘ ان میں بھارت سرفہرست ہے۔ اب جبکہ امن معاہدہ طے
پا چکا ہے تو امن کی دشمن ان قوتوں کو اس سے سخت تکلیف ہوئی ہے۔ بھارت کو افغانستان
میں اپنا عمل دخل ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسی لیے درپردہ بھارت‘ افغان صدر سے مل
کر رخنہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ معاہدے کے مطابق افغان حکومت ۱۰ مارچ تک پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی اور اس کے بدلے میں طالبان بھی
اپنے پاس جنگی قیدیوں کو چھوڑ دیں گے۔ لیکن مذاکرات کے چند ہی دن بعد صدر اشرف غنی
نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جبکہ طالبان نے دھمکی دی ہے کہ اگر
ان کے قیدی رہا نہیں کیے جاتے تو وہ افغان افواج پر حملے شروع کر دیں گے۔ اس طرح امن
معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے والوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔
چونکہ یہ معاہدہ براہ راست امریکہ نے کیا ہے اور افغانستان میں حامد کرزئی ہو یا اشرف
غنی سب اس کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ افغان حکومت سے معاہدے کی تمام
شقوں پر عمل در آمد کروائے۔ بصورت دیگر طالبان اپنی کارروائیاں جاری رکھنے پر مجبور
ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment