اسلام میں نرمیاں اور آسانیاں
امام الحرم المدنی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیسd
ترجمہ: جناب عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور پرہیزگاری اختیار کرو، کیونکہ
پرہیزگاری اتنا شاندار وصف ہے کہ جس سے گناہ معاف ہوتے ہیں اور غلطیوں کا ازالہ ہوجاتا
ہے، اسی سے دنیا و آخرت میں نفس کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
”جو اللہ سے ڈرے
گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دور کر دے گا اور اس کو بڑا اجر دے گا۔“ (الطلاق: ۵)
پرہیزگاری اپنائے رکھو، کیونکہ پرہیزگاری میں دنیا و آخرت کی
عزت اور بے نیازی ہے۔ اسے اپنائے رکھو تاکہ آپ کو من پسند چیز حاصل کرنے میں کامیابی
مل سکے۔
اے مسلمان معاشرے کے لوگو! جو دین اسلام کے احکام پر غور و فکر
کرتا ہے اور قرآن وحدیث کا بغور مطالعہ کرتا ہے، اسے اس بات میں کوئی شک نہیں رہتا
کہ دین اسلام لوگوں کی بھلائی کے لیے بنایا گیا ہے، اس کے تمام احکام میں لوگوں کی
بھلائی ہے، یہ لوگوں کو نقصان سے محفوظ کرتا ہے اور ان کی دنیا و آخرت کی مشکلات آسان
کرتا ہے۔
قرآن وسنت کے الفاظ میں بڑی فصاحت ہے، ان میں بڑی برکت ہے، ان
میں بیان کیے جانے والے افکار میں بڑی وضاحت ہے اور ان کے مقصد اور مفہوم کو سمجھنا
انتہائی آسان ہے، ان کے الفاظ میں نہ تو کوئی مشکل ہے اور نہ ان کے معنی میں کوئی دشواری
ہے اور انکے مقاصد میں بھی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں۔ ان کے مطالعہ میں جیسے جیسے انسان
آگے بڑھتا جاتا ہے اور شریعت کے مقاصد کو سمجھتا جاتا ہے، ویسے ویسے دین اسلام کی ایک
خاص اور قابل فخر خاصیت اس پر کھلتی جاتی ہے جس سے اسلام دیگر تمام ادیان سے ممتاز
ہو جاتا ہے۔ یہ خاصیت آسانی اور نرمی کی ہے۔
نبی کریمe کا
فرمان ہے:
”مجھے آسانی پر مشتمل
دین کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے۔“ (مسند احمد)
دین کی آسانی کے متعلق ہم اس وقت بات کررہے ہیں کہ جب دین اسلام
کے متعلق غیر صحیح تصور لوگوں میں پھیل چکا ہے۔ ایک طرف لوگ اس میں مبالغہ آرائی اور
دوسری طرف اس میں کمی کر رہے ہیں۔ یوں اس کے معاملے میں لوگ افراط وتفریط کا شکار ہیں۔
اے مسلمان معاشرے کے لوگو! اللہ تعالی نے لوگوں پر رحمت کرتے
ہوئے دین اسلام کا نظام بنایا ہے تاکہ ان کے لیے آسانی پیدا ہو جائے۔ اس کے احکام لوگوں
کو مشکل میں نہیں ڈالتے، بلکہ یہ فطرت کے عین مطابق ہیں، انسانی نفس کے تقاضوں سے ہم
آہنگ ہیں اور لوگوں سے مشکل اور تنگی دور کرتے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے:
”اس نے دین میں تم
پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔“ (الحج)
امام طبری علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دین اسلام میں کوئی مشکل
نہیں رکھی۔ بلکہ اسے آسان اور کشادہ بنایا ہے۔ اس نے توبہ کے ذریعے بعض گناہوں کی معافی
رکھی ہے، کَفَّاروں اور قصاص میں کچھ گناہوں کی معافی رکھی ہے۔ اس طرح مومن جو بھی
گناہ کرتا ہے تو اسے معاف کرانے کا کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور موجود ہوتا ہے۔“
اسلام کشادہ، آسان اور نرم ہے، یہ میانہ روی اور اعتدال کا دین
ہے۔
دین اسلام کے طے شدہ فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ دنیا میں
موجود تمام چیزیں انسان کے لئے حلال ہیں، وہ انہیں کھا سکتا ہے، انہیں پی سکتا ہے اور
ان سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے، اس حوالے سے حرام چیزیں صرف وہ ہیں کہ جنہیں قرآن یا
حدیث میں حرام کہا گیا ہے۔
دین اسلام کے احکام کا مطالعہ کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ حرام
چیزیں حلال چیزوں کی نسبت بہت تھوڑی ہیں اور اسلام نے جس چیز کو حرام کیا ہے اسے یوں
ہی بے مقصد حرام نہیں کر دیا بلکہ اسے کسی وجہ سے حرام کیا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
”ان کے لیے پاک چیزیں
حلال او ر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے
ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔“ (الاعراف)
مگر جب ضرورت ہوتی ہے تو حرام چیز بھی حلال ہو جاتی ہے۔ اسے
معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اسلامیہ کے قواعد و اصول سب ایک جیسے نہیں ہیں، بلکہ بعض مقامات
پر تو احوال، عادات وتقالید، صورتحال اور زمانے کا خیال کرتے ہوئے بہت نرمی برتی گئی
ہے۔
ان خصوصی احکام کو اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر نرمی کرتے ہوئے
وضع کیا ہے جنہیں علماء رخصت کا نام دیتے ہیں اور جن سے ضرورت کے وقت فائدہ حاصل کرنے
کی تلقین کی گئی ہے۔
امام احمد سیدنا ابن عمرw سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
”اللہ تعالی یہ پسند
کرتا ہے کہ اس کی دی گئی آسانی سے فائدہ اٹھایا جائے اور اس کی نافرمانی سے بچا جائے۔“
اے مسلمانو! اگر ہم شریعت اسلامیہ کے شاندار احکام پر غوروفکر
کریں تو اس کے شاندارموتی ایک خاص نظم سے سامنے آنے لگتے ہیں۔ یہ دین کہ جس کی حجت
واضح ہوگئی اور جسکی حکومت غالب آگئی، اس کے عظیم اصول ومبادی میں عادات وتقالید کو
نظر انداز نہیں کیا گیا، کیوں کہ ہر ملک کے خاص رسم ورواج ہوتے ہیں جو وہاں کے لوگوں
کے اندر معروف ہوتے ہیں۔ ان تقالید کا خاص خیال کرنے سے لوگوں کے لئے بہت آسانی پیدا
ہو جاتی ہے۔
علمائے اسلام اور مختلف مذاہب کے فقہاء بھی اس پہلو پر خاص توجہ
دیتے رہے ہیں۔ وہ ہر زمانے، علاقے، حالات اور واقعات کے لیے مختلف احکام وضع کرتے رہے
ہیں۔
دین اسلام میں جن احکام کے بارے میں کوئی آیت یا حدیث نہیں آئی،
وہ احکام معاشرے میں معروف طریقے کے ساتھ مل جاتے ہیں، وہ مختلف تقالید اور مختلف حالات
کے مطابق چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دین نرمی پیدا کرنے والا
دین ہے اور اس میں مشکل اور تنگی نہیں ہے۔
ہمارا پروردگار اپنے بندوں پر بہت رحم کرنے والا ہے، اس نے ان
کے لیے وہی عبادات بنائی ہیں کہ جو ان کے لیے آسان ہوں اور جن سے انہیں مشکل یا تنگی
نہ ہو۔ بعض عبادات کو ادا کرنے میں تھوڑی محنت لگتی ہے مگر وہ انسانی بساط کے اندر
اندر ہوتی ہیں اور ہر انسان تھوڑی محنت کے ساتھ تمام عبادات ادا کر سکتا ہے۔
طہارت میں آسانی کا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے موزوں، عمامہ
اور زخم پر باندھی گئی پٹی پر مسح کرنے کی اجازت دی ہے۔ جس کے ہاں پانی دستیاب نہ ہو
اسے تیمم کی اجازت دی ہے۔ دنیا کے ہر مقام پر نماز ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔ فرمان
نبویeہے:
”اور ساری زمین میرے
لئے پاک اور جائینماز بنائی گئی ہے۔“ (بخاری)
اسی طرح سفر کی حالت میں اور تیز بارش کے وقت نماز قصر کرنے
اور دو نمازیں اکٹھی پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔
دین اسلام میں کوئی حکم ایسا نہیں چھوڑا گیا کہ جس میں لوگوں
کو تنگی ہو اور اس میں آسانی کا پہلو پیدا نہ کیا گیا ہو۔ یہ معاملہ ساری عبادات کا
ہے۔ زکوٰۃ میں بھی ایسے ہی کیا گیا ہے، حج میں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے، روزوں میں بھی
اور جہاد میں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے۔
جو تاریخ کے واقعات اور حالات کا مطالعہ کرتا ہے اور جو انسانی
تہذیب کی جانچ پڑتال کرتا ہے اسے دین اسلام کی پیدا کردہ آسانی تاریخ میں کسی دوسری
جگہ پر اپنی اتنی کامل اور واضح شکل میں نظر نہیں آتی جتنی دین اسلام کے احکام میں
نظر آتی ہے۔ شریعت اسلامیہ کامل ترین شریعت ہے، اس میں کوئی کمی نہیں، یہ ایک مکمل
نظام ہے اور اس نظام کی کوئی دوسری مثال نہیں۔
اس کے عقائد میں میانہ روی، اعتدال، آسانی اور نرمی اپنائی گئی
ہے۔ اس میں انسان کی بنیادی ۵ ضرورتوں کا خیال کیا گیا ہے، بڑے مقاصد کا اہتمام کیا گیا ہے۔
انسانی عقل میں فطری طور پر اچھی اور بری سمجھی جانے والی چیزوں کا خیال کیا گیا ہے،
اسی طرح واضح اور ناقابل تردید چیزوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ اسی طرح اس میں بھلائی
کو بڑھانے کے لیے اور برائی کو کم اور آسانی پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے
گئے ہیں۔ اس میں اتحاد واتفاق کا خاص خیال رکھا گیا ہے اور گروہ بندی اور فرقہ واریت
سے منع کیا گیا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
”سب مل کر اللہ کی
رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔“ (آل
عمران)
ہمارا دین تو سراسر محبت پر مشتمل ہے جس کے سائے میں جنگی قیدیوں
کا بھی اکرام کیا جاتا ہے۔
یہی ہمارا نرمی اور اخلاق والا دین ہے اس کے متعلق ان لوگوں
سے پوچھیے کہ جن پر ہم نے غلبہ حاصل کیا ہے یا ان قیدیوں سے ہی پوچھ لیجیے جو ہمارے
قبضے میں رہے ہیں۔
اے اہل ایمان! دین اسلام کی نرمی کو صرف عبادات تک محدود کر
دینا بھی بدترین ظلم اور زیادتی ہے کیونکہ عبادات اسلام کا صرف ایک حصہ ہیں اور جو
شخص معاملات کے حوالے سے اسلامی رہنمائی کا مطالعہ کرتا ہے وہ آیات کریمہ اور احادیث
مبارکہ میں موجود روشن رہنمائی کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ دراصل معاملات ایک ایسا
وسیع میدان ہے کہ جس میں دین اسلام کی نرمی اور آسانی کا سورج کما حقہ نکلتا ہے اور
اپنی روشنی خوب پھیلاتا ہے۔
امام بخاریa نے
سیدنا جابر بن عبداللہt سے
روایت کیا ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
”اللہ اس شخص پر
رحم فرمائے جو بیچتے وقت، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت نرمی سے کام لے۔“
اسی طرح امام احمد نے سیدنا عثمان بن عفانt سے
روایت کیا ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
”اللہ تعالی نے ایک
شخص کو جنت میں اس لیے داخل کردیا کہ وہ خریدتے وقت، بیچتے وقت، تقاضا کرتے وقت اور
فیصلہ کرتے وقت نرمی والا معاملہ اپناتا تھا۔“
یہ تو عمومی معاملات کی بات ہے، ذاتی معاملات اور ازدواجی زندگی
کے معاملات میں تو ہمیں اس سے بھی زیادہ نظم وضبط نظر آتا ہے، دین اسلام نے اس تعلق
کو بھی خوب بنایا ہے اور اسے بہت اہمیت دی ہے، ہر ایک کے لیے اس کا حق ملنا یقینی بنایا
گیا ہے۔ نرمی، آسانی، بھلے معاملے، اچھے طریقے اور ایک دوسرے کو معاف کرنے کی تلقین
کی گئی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
”تم میں سے جو لوگ
مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو اگر وہ غریب
ہوں تو اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے۔“ (النور)
امام احمد نے سیدہ عائشہr سے روایت کیا ہے رسول اللہe نے
فرمایا:
”جس نکاح میں خرچہ
کم ہوتا ہے، برکت اسی میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔“
دین اسلام کی نرمی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے طلاق سے بچانے
کے لیے بہت سی احتیاطی تدابیر بتائی ہیں جو طلاق کی روک تھام کی ضامن ہیں اور جو گھرانے
کی حفاظت کرتی ہیں۔ چنانچہ مردوں کو عورتوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کی تلقین کی گئی
اور عورتوں کو شوہروں کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا۔ جب زوجین میں اختلاف پیدا ہو جائے
تو فیصلہ کرانے کے لیے دو با عزت لوگوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا۔ فرمان الٰہی
ہے:
”اور اگر تم لوگوں
کو کہیں میاں اور بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں
میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے
تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا اور باخبر ہے۔“
(النساء)
اے مسلمان معاشرے کے لوگو! جب اسلام پھیل گیا اور اس کی بنیادیں
مضبوط ہوگئیں، اور اسکی شاخیں بلند اور خوبصورت ہو گئیں اور مختلف جرائم پر حدود اور
سزاؤں کے احکام نازل ہونے لگے تو اسلام میں نرمی اور رحمت مزید واضح ہو گئی، پھر یہ
ایک شاندار مثال بن گیا اور رحمت کے حوالے سے بہترین نمونہ بن گیا۔
اسلام میں مجرم کو اس کے جرم سے زیادہ سزا نہیں دی جاتی، یہ
طریقہ جرم روکنے کے لئے بہترین ہے۔ اسی طرح سزا صرف مجرم کو دی جاتی ہے، نہ اس کے باپ
کو، نہ اس کی ماں کو، نہ اس کی اولاد کو اور نہ اس کے دوستوں کو۔ فرمان باری تعالیٰ
ہے:
”ہر شخص جو کچھ کماتا
ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔“ (الانعام)
دین اسلام نے سزا دیتے وقت زیادتی سے روکا ہے، اسے مقررہ حد
سے تجاوز کرنے سے منع کیا ہے۔
سزاؤں کے نفاذ میں وہ طریقہ اختیار کرنے سے بھی منع کیا ہے جس
میں سزا کی شدت میں اضافہ ہو جائے۔فرمان الٰہی ہے:
”جو شخص مظلومانہ
قتل کیا گیا ہو اس کے ولی کو ہم نے قصاص کے مطالبے کا حق عطا کیا ہے، پس چاہیے کہ وہ
قتل میں حد سے نہ گزرے، اُس کی مدد کی جائے گی۔“ (الاسراء)
دین اسلام نے مقتول کے ولی کو بھی کئی اختیارات دیے ہیں، وہ
چاہے تو قتل کے بدلے قاتل کو قتل کروائے، یا خون بہا وصل کرے یا پھر معاف کرے۔
سیدنا ابو شریح خزاعیt روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
”جس کا کوئی رشتہ
دار قتل ہوجائے یا اسے خود کوئی زخم لگ جائے تو اسے تین کام کرنے کی اجازت ہے، یا تو
وہ برابر کا بدلہ لے لے، یا دیت وصول کرلے اوریا معاف کرے، اس کے علاوہ اگر وہ کچھ
کرنا چاہے تو تم اس کے ہاتھ روک دو۔“
بلکہ اسلام کی نرمی کا حال تو یہ ہے کہ اس نے معافی کا طریقہ
ایجاد کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے انسانی عقل اور ضمیر کو مخاطب کرتے ہوئے معافی
کی ترغیب دلائی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ ہو تعالء عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول
اللہe نے
فرمایا:
”جو شخص اپنے اوپر
ڈھائے گئے ظلم پر دوسرے کو معاف کر دیتا ہے اسے اللہ تبارک وتعالیٰ مزید عزت عطا فرماتا
ہے۔“
اسی طرح دین اسلام کی نرمی کا حال یہ ہے کہ اس میں حاملہ عورت
سے قصاص لینا منع ہے۔ اس پر اس وقت تک حد قائم نہیں کی جاتی جب تک اس کا بچہ پیدا نہ
ہو جائے اور اسے دودھ پلاکر فارغ نہ ہو جائے۔ دین اسلام نے تو جرائم کو چھپانے کا حکم
دیا ہے اور جتنا ممکن ہو لوگوں کو سزاؤں سے بچانے کا حکم دیا ہے۔
امام ترمذی سیدہ عائشہr سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
”جتنا ہو سکے مسلمانوں
کو سزاؤں سے بچاؤ، اگر بچانے کا کوئی راستہ نکل آئے تو ملزم کو چھوڑ دو، کیونکہ غلطی
کی بنا پر کسی کو معاف کر دینا غلطی سے سزا دینے سے بہتر ہے۔“
اسلام کی نرمی جس طرح پر امن زندگی میں نظر آتی ہے اسی طرح جنگ
کے مواقع پر بھی اسلام کی نرمی واضح نظر آتی ہے۔ دین اسلام نے غداری اور دھوکہ اور
فریب سے منع کیا ہے۔ عورت، چھوٹے بچے، بوڑھے انسان، راہب، معاہدوں والے، پناہ گزین
اور اہل الذمہ کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔
اسلام اپنی نرمی کی وجہ سے تمام ادیان پر غالب آگیا ہے۔ اس کے
احکام تو سراسر نرمی اور عدل پر مبنی ہیں۔ اس میں تو مخالفین کے ساتھ بھی عدل والا
معاملہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
”کسی گروہ کی دشمنی
تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ‘ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت
رکھتا ہے۔“ (المائدہ)
اس طرح دین اسلام اپنی روشن تعلیمات سے تاریخ کا حسین پھول بن
گیا، نور کا حسین عکس بن گیا، کمال کا پر نور چہرا بن گیا۔ اس کے احکام ہمیشہ کے لیے
یہ گواہی دیتے رہیں گے کہ دین اسلام ہی نرمی، آسانی، سلامتی، عزت، شرف اور بھائی چارے
کا دین ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
”اللہ تمہارے ساتھ
نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔“ (البقرہ)
اسی طرح فرمایا:
”دین میں تم پر کوئی
تنگی نہیں رکھی‘ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر‘ اللہ نے پہلے بھی تمہارا
نام ”مسلم“ رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ
ہو اور تم لوگوں پر گواہ‘ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ وہ
ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔“ (الحج)
دوسرا
خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اے ایمانی بھائیو! یہ زمانہ ایک ہی بات بار بار کرنے والا نہیں،
مگر پھر بھی ہم کئی ایک مرتبہ اس بات کو دہرا چکے ہیں کہ دین اسلام کی آسانی اور نرمی
کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں کسی قسم کی کمزوری پائی جاتی ہے۔ اسلام کی نرمی کا مطلب
یہ نہیں ہے کہ ہماری زمینیں غصب ہو جائیں اور ہم ان کی حفاظت کے لیے کچھ نہ کریں۔ یا
ہماری مقدسات کی حرمت پامال ہو جائے اور ہم دیکھتے رہ جائیں۔
خوب جان لیجئے کہ ہماری مقدسات کی حفاظت کے لیے ہماری جانیں حاضر ہیں، اور اس کام کے
لیے ہم اپنی جان اور مال اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ حقیقی دہشت گرد
تو وہ ہے جو ظلم وزیادتی کا آغاز کرتا ہے، اپنی زمین عزت اور مقدسات کی حفاظت کرنے
والا بھلا دہشت گرد کیسے ہو سکتا ہے۔
اس دور کا سب سے بڑا مسئلہ، فلسطین ہے، مسجد اقصی کی بابرکت
سرزمین کا مسئلہ ہے۔ القدس ایک عربی اور اسلامی شہر ہے، اور قیامت تک یہ عربی اور اسلامی
ہی رہے گا۔ اسے انکار کرنے والوں کا انکار اور تکبر کرنے والوں کا تکبر کچھ نقصان نہیں
پہنچا سکتا۔
سنو! سب لوگوں کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ دنیا میں امن و
امان اس وقت تک کبھی قائم نہیں ہوسکتا جب تک تمام انسانی معاملات کا دارومدار عدل و
انصاف پر قائم نہ ہو جائے۔ جب یہ ہو جائے گا تو کوئی کسی دوسرے پر زیادتی نہ کرے گا
اور نہ کوئی دوسرے کا حق کھائے گا۔ تاریخ بھی اسی کا سبق دیتی ہے اور ظالم اگلے زمانے
کے لیے عبرت بن کر رہتا ہے۔
اسلام کی نرمی مقدسات کی حفاظت کے لئے سختی برتنے کے منافی نہیں۔
اسی طرح فساد، انتہا پسندی، دہشت گردی اور منشیات کے خاتمے کی کوششیں بھی کسی طرح دین
کی نرمی اور آسانی کے منافی نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر آنے والی افواہوں، اہل علم کی
قدر گھٹانے والے جملوں، امن و امان کے خاتمے اور بدنظمی پھیلانے کی کوششوں، اہل علم
اور قیمتی لوگوں کی مخالفت، اور اسی طرح بیرونی ایجنڈے اور اغیار کی آئیڈیالوجیز کی
روک تھام کے لیے سختی برتنا بھی دین اسلام کے اصولوں کے منافی نہیں۔
آج کے دور میں کچھ لوگوں نے دین کی نرمی کا مفہوم غلط سمجھا
ہے، میانہ روی کو بزدلی سمجھ لیا ہے۔ اس طرح وہ لوگ اپنا فرض ادا کرنے سے پیچھے ہٹ
گئے اور دین اسلام کی طے شدہ بنیادوں پر حملہ کرنے لگے اور بغیر علم کے، دین کی آسانی
کو بنیاد بناتے ہوئے، غلط اور بے بنیاد فتوے جاری کرنے لگے۔
ایسے لوگ دین سے بہت دور نکل گئے ہیں اور واپسی کی صحیح راہ
اپنانے سے قاصر ہیں۔
بلاد حرمین سعودی عرب پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک فضل وکرم
یہ ہے کہ یہ نرمی اور اعتدال پر مبنی نظام پر قائم ہے اور ساتھ ساتھ جہاں ضرورت ہو
وہاں سختی بھی اختیار کر لی جاتی ہے۔ اس میں امن کی اعلی ترین مثالیں، عزت اور شرف
کی بلند چوٹیاں اور قابل فخر خاصیتیں موجود ہیں۔ الحمدللہ! اس میں ابھی بہت خیر باقی
ہے اور بہت سی برکتیں موجود ہیں۔
بھلا سورج بھی کسی سے چھپا رہ سکتا ہے اور مشک کی خوشبو بھی
کبھی رک سکتی ہے؟ اللہ ان کاوشوں میں برکت ڈالے اور ہماری مرادیں پوری فرمائے۔
اے اللہ! ہمیں ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما ہمارے حکمرانوں
کی اصلاح فرما حق کے ساتھ ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کی تائید فرما اے اللہ اسے
اور اس کے ولی عہد کو ان کے ساتھیوں کو اور ان کے بھائیوں کو ان کاموں کی توفیق عطا
فرما جن میں ملک اور قوم کی فلاح وبہبود ہے۔
No comments:
Post a Comment