معراج النبی ﷺ
تحریر: جناب رانا محمد
شفیق خاں پسروری﷾
معراج
رسول اللہe کی ارفعیت و اشرفیت سے معمور
خصوصیت کا نام ہے۔ ایک ایسا واقعہ جو رسول اللہe کو دیگر انبیاء ورسل سے ممتاز
کر دیتا ہے۔ایک ایسا واقعہ، ایک ایسا معجزہ جو دیگر معجزوں کے اندر ایک خاص امتیاز
کا حامل ہے۔
یہ
واقعہ صرف سید الرسلe کی عظمت و رفعت کا واقعہ ہی
نہیں بلکہ واقعتاً انسان کی اشرفیت کا بھی مقام ہے۔ معراج مصطفیe
بشریت کی کاملیت اور بشریت کی رفعت کا نام بھی ہے۔
معراج
مصطفیe نے انسان کو ساری مخلوقات میں
اشرف و اعلیٰ ہونے کا ایک درس بھی دیا ہے اور ایک دلیل بھی عطا فرمائی ہے۔
معراج
مصطفیe صرف ایک واقعہ ہی نہیں کہ جسے
قصے کے طور پر، کہانی کے طور پر، محض تلذذذہنی کے لئے بیان کر دیا جائے اور یہ ایسا
واقعہ بھی نہیں کہ جس کو بیان کرکے خطباء اپنی خطابت کا لوہا منوائیں، واعظ اپنے وعظ
کی دھاک دلوں پر بٹھانے کی کوشش کریں، بلکہ یہ واقعہ اسلامی تعلیمات میں ایک خاص ذخیرے
کا اضافہ کرتا اور معجزات کا مجموعہ ہے۔
ہمارے
ہاں اس واقعہ کے ساتھ بڑے ہاتھ دکھلائے گئے
ہیں، بعض واعظین، خطباء اور مبلغین نے اس واقعے کو استعمال کرکے وہ وہ باتیں اس کے
اندر داخل کر دی ہیں جن کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
اس
واقعہ کو، اس عظمت کو، تعلیمات کے اس ذخیرے کو محض تلذذ ذہنی کا ایک قصہ بنا کر رکھ
دیا گیا ہے۔ اس سے جو تعلیمات ہمیں حاصل ہوتی ہیں ان کی طرف توجہ دینے کی کوشش نہیں
کی جاتی اور بعض لوگ ایسے ہیں جنہوں نے سرے سے ہی اس واقعے کا انکار کر دیا ہے۔ مسلمان
کہلانے کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ رسول اللہe کے ایک خواب سے زیادہ کوئی
حیثیت نہیں رکھتا، (نعوذ باللہ من ذلک) حالانکہ یہ رسول اللہe
کا ایک معجزہ ہے اور معجزہ وہی ہوتا ہے جو انسانی ذہنوں، عقلوں کو
عاجز کر دے۔ انسان کا ذہن جس کی توجیہہ کرنے سے عاجز آ جائے یا جس کو انسان کا ذہن،
انسانی زندگی کے امور کے ساتھ متعلق کرنے سے عاجز آ جائے اس کو معجزہ کہا جاتا ہے۔
اگر
روز مرہ کا کوئی معمول ہو، اگر عام انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والا کوئی واقعہ ہو
تو کوئی عجوبے کی بات نہیں۔
اللہ
رب العزت نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
’’ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیاں عطا کیں‘‘ ہر نبی نے لوگوں کو اپنی نبوت منوانے کے لئے اور
اللہ رب العزت نے اپنے رسول کی رسالت لوگوں سے منوانے کے لئے مختلف قسم کے معجزے انہیں
عطا کئے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ دیکھو یہ انسان بنی نوع انسان سے تعلق رکھنے
کے باوجود ایک خاص امتیاز کا حامل ہے، اس کو ایک خاص انفرادیت حاصل ہے۔ اللہ رب العزت
اس کے ذریعے اپنی قدرت کا اظہار کرتا ہے تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ اللہ کا فرستادہ
ہے۔
سیدنا
موسیٰu نے پانی پر عصا کو مارا، پانی
دولخت ہو گیا، پتھر پہ عصا لگا تو اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔
سیدنا
عیسیٰ u ہاتھ کے ساتھ مٹی کا پرندہ
بناتے ہیں اور اس کے اندر اللہ کے حکم کی پھونک مارتے ہیں تو پرندہ اڑنا شروع ہو جاتا
ہے‘ آپ کے ہاتھوں پہ شفا رکھی گئی، اندھوں
کی بینائیاں لوٹ آئیں، غرض مختلف انبیاء کو مختلف معجزے عطا کئے۔
رسول
اللہ! کو ایسے معجزات (پہلے انبیاء کی طرح کے) اور ان کے ساتھ ساتھ کئی اور معجزات
عطا کئے گئے۔
حسن
یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ
خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
سیدنا
موسیٰu کے عصا نے پتھر پہ چوٹ لگائی
تو بارہ چشمے پھوٹ نکلے، پتھروں سے ہی چشمے نکلا کرتے ہیں اور سید الرسل کا ایسا معجزہ
کہ انگلیوں میں سے پانی کی پھواریں نکلنا شروع ہو گئیں۔ ہاتھ میں کنکر آئے تو کلمہ
پڑھنا شروع کر دیا، تنا جس کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے اس نے رونا
شروع کر دیا، درخت چلتے ہوئے چلے آ رہے ہیں، انگلی کا اشارہ کیا تو چاند دو ٹکڑے ہو
گیا۔
مختلف
معجزے رسول اللہe کو عطا کئے گئے، انہی میں سے
ایک معجزہ اللہ کی پاک کتاب قرآن مجید ہے۔ صدیاں گزر گئیں، قیامت تلک ایک زیر زبر
کا اس کے اندر فرق نہیں پڑا۔ یہ ایسا معجزہ جو لوگوں کے دلوں کی کایا پلٹ دیتا ہے۔
اسی طرح کا ایک معجزہ معراج نبوی ہے جس کے اندر رسول اللہe
کو کئی اور معجزات عطا کئے گئے۔
معراج
نبوی، معجزات کا مجموعہ:
جو
عظمت رسولe کی دلیل بھی ہے اور رفعت بشریت
کا ثبوت بھی۔کئی لوگ ہیں جنہوں نے اس معجزے کا انکار کر دیا، بد قسمتی سے کہلاتے مسلمان
ہیں، کہتے ہیں واقعہ جسد کے ساتھ پیش نہیں آیا بلکہ عالم خواب کا واقعہ ہے۔
رسول
اللہe نے جب یہ واقعہ کفار کے سامنے
پیش کیا کہ میں پچھلی رات سات آسمانوں کی سیر کرکے آ گیا تو کفار نے مذاق اڑایا،
ٹھٹھہ کیا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک انسان، ایک بشر اٹھے اور یہاں سے دو ماہ
کا بیت المقدس کا راستہ وہ طے کر لے اور اس کے بعد ایک ہی رات کے اندر ساتوں آسمانوں
کی سیر کرکے واپس آجائے یہ کسی انسان کے لئے ممکن نہیں۔۔۔۔؟!
غور
فرمانے کی بات ہے، کفار نے بشریت کو معراج کے ساتھ متعلق کرکے انکار کر دیا۔ اگر یہ
خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار کو مذاق اڑانے کی کیا ضرورت تھی؟
وہ
تو رسول اللہe کی ذات مبارکہ تھی، وہ تو نبیوں
کے امام اور رسولوں کے سردار تھے، یہاں ایک عام گناہ گار انسان خواب میں نہ معلوم کن
کن جہانوں کی سیر کر لیتا ہے، کیا کچھ خواب کے اندر دیکھ لیتا ہے جو وہم و گمان میں
چیزیں نہیں ہوتیں انہیں انسان خواب کے اندر دیکھتا رہتا ہے۔
کبھی
دیکھتا ہے کہ گھوڑے پر بیٹھا ہوا ہے، وہی گھوڑا گدھے میں تبدیل ہو جاتا ہے، وہی ٹرین
میں تبدیل ہو جاتا ہے اور کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے۔
اگر
خواب کی بات ہوتی تو کفار کو مذاق اڑانے کی ضرورت کیا تھی؟ کفار نے کیوں مذاق اڑایا…؟؟
اس
لئے کہ رسول اللہe نے خواب کا واقعہ بیان نہیں
فرمایا بلکہ حالت بیداری میں،جسم کے ساتھ آسمانوں کی سیر کا تذکرہ کیا۔
سیدنا
ابوبکر صدیق t بیٹھے ہوئے ہیں اور لوگوں نے
آ کر کہا، اے ابوقحافہ کے بیٹے! اے ابو بکر! ہمیں ایک بات تو بتلا، کہا پوچھو، کہا
یہ بتلائو کہ کیا کوئی انسان ایک ہی رات میں مکہ سے چلے اور بیت المقدس پہنچ جائے،
ایسا ممکن ہے؟
سیدنا
ابو بکرt نے فرمایا: نہیں ایسا تو نہیں
ہو سکتا۔
اچھا
یہ بتائو، ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں مکہ سے بیت المقدس میں گیا، وہاں نماز پڑھی، اس
کے بعد میں آسمانوں پر چلا گیا، ساتوں آسمانوں کی سیر کی، جنت، دوزخ کا مشاہدہ کیا
پھر وہاں سے واپس آیا اور ابھی رات بھی نہیں گزری، بتلائو کبھی ایسا ہو سکتا ہے؟
سیدنا
ابو بکرt نے فرمایا: نہیں ایسا تو نہیں
ہو سکتا، اب سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں تو انہوں نے چھلانگیں لگانا
شروع کر دیں، نعرے لگانے شروع کر دیئے، کہا ابو بکر کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کہا نہیں،
کہا پھر بتلائو تمہارا صاحب یہ کہتا ہے، سید الرسلe کی طرف اشارہ کیا کہ وہ یہ
کہتا ہے۔
تیری
معراج کہ تو لوح و قلم تک پہنچا
میری
معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
سیدنا
ابوبکرt کہنے لگے: اگر یہ سید الرسلe
نے فرمایا ہے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ سچ کہا ہے، جھوٹ نہیں کہا،
تم اس ذات کی بات کرتے ہو، میں تو آپ پر اس سے بڑی بات کے حوالے سے ایمان لا چکا ہوں،
آپ نے فرمایا کہ مجھ پر جبریل آتا ہے، میں ایمان لا چکا، آپ نے فرمایا کہ میں اللہ
کا رسول ہوں تو میں ایمان لا چکا، اگر یہ بھی آپ نے فرمایا ہے تو سچ ہی ہو گا جھوٹ
ہو ہی نہیں سکتا۔
ابھی
واقعہ کی خبر نہیں، ابھی واقعہ کی تفصیل کا پتہ نہیں، اسی وجہ سے سیدنا ابو بکر صدیقt
کو ’’ صدیق‘‘ کہا جاتا ہے کہ جنہوں نے رسول اللہe
سے پوچھے بغیر رسول اللہe کے اس عظیم واقعہ کی تصدیق
کر دی تھی‘ اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار کو مذاق اڑانے کی ضرورت کیا تھی کہ خوابوں
کے اندر عام لوگ کیا کیا کچھ دیکھ لیتے ہیں۔
اللہ
رب العزت نے قرآن پاک میں اس واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے سبحان کا لفظ استعمال کیا
ہے۔کیا مطلب، پاک ہے وہ ہر قسم کے عیب سے، وہ اپنی قدرت کے اندر ہر قسم کے نقص سے پاک
ہے۔ سبحان کا لفظ وہاں بولا جاتا ہے جہاں انسان کی طاقت، انسان کی سکت اور انسان کی
ہمت جواب دے جائے اور جہاں سے اللہ کی قدرت کا آغاز ہو وہاں لفظ سبحان بیان کیا جاتا
ہے۔
سیدنا
یونسu جب کشتی کے اندر بیٹھے ، اس
کے بعد ایک مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے۔وہاں ہاتھ پائوں مارے، باہر نکلنے کا کوئی راستہ
نظر نہ آیا، بات انسانی طاقت کے بس سے باہر ہوچکی، اب نجات کا کوئی ذریعہ نظر نہیں
آتا، ایک نبی کے ادراک کے اندر کوئی راستہ نظر نہیں آتا، کیا فرمایا:
[لَا اِلٰہَ اِلَّآ
اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ]
سبحان
کا لفظ استعمال کیا کہ یااللہ! میں نبی ہوں ، میرے ادراک میں بھی یہاں سے نجات کا کوئی
راستہ نظر نہیں آتا، تو ہی مجھے بچاسکتا ہے۔
اسی
طرح سیدنا آدمu پیدا کئے گئے تو فرشتوں نے
کہا کہ یا اللہ! ہم تیری تقدیس و تحمید کے بیان کرنے کیلئے کافی نہیں؟ تو نئی مخلوق
کیوں پیدا کررہا ہے؟
اللہ
تعالیٰ نے سیدنا آدمu کو کچھ نام سکھلائے، نام سکھلانے
کے بعد فرشتوں سے کہا کہ مجھے فلاں فلاں اشیاء کے ناموں کے بارے میں بتلائو تو فرشتوں
نے کیا کہا تھا؟ وہ جو جبروت والے ہیں، وہ جو ملکوت ہیں، جو ہمت والے، طاقت والے ہیں،
وہ جو سکتوں کی انتہائوں پر پہنچے ہوئے ہیں، انہوں نے کیا کہا…؟؟
{سُبْحَانَکَ لاَ
عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا } (البقرہ: ۳۲)
’’یا اللہ! ہم عاجز ہیں ، ہم تیرے سوال کا جواب
نہیں دے سکتے۔‘‘
تو
لفظِ سبحان وہاں بیان کیا جاتا ہے، جہاں قدرت کا ملہ کا آغاز ہوتا ہے، جہاں سارے عاجز
آجائیں اور اللہ کی قدرت کا کوئی شاہکارسامنے آرہا ہو تو وہاں لفظ سبحان استعمال
ہوتا ہے۔
{سُبْحَانَ الَّذِیْ
أَسْرَی بِعَبْدِہِ } (بنی اسرائیل: ۱)
یعنی اللہ کی قدرت
سامنے آ رہی ہے۔ اب بتلائو! اللہ کی قدرت کا انکار کررہے ہو، کیا اللہ اپنے بندے کو
ایک ہی رات کے اندر آسمانوں کی سیر کروانے پر قادر نہیں؟
واقعہ معراج اور جدید سائنس:
آج
کا دور سائنس کا دور، یہ کتنا واضح فیصلہ ہمارے سامنے لارہا ہے ، اس واقعہ کو کتنا
واضح کرکے ہمارے سامنے لارہا ہے۔
آج
ایک شخص یہاں سے بیٹھ کر لندن، امریکہ اور دنیا کے دوسرے کناروں تک اسی لمحے میں، اسی
وقت میں، اپنی آواز پہنچادیتا ہے، انسان جس کی عقل، جس کا فہم، جس کی فراست محدود
ہے، اس نے اپنی محدود عقل کو استعمال کرکے ایسے آلات بنالئے ہیں کہ ایک سیکنڈ کا فرق
نہیں پڑتا کہ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آواز پہنچ جاتی ہے، یہ فیکس مشینیں ایک
چیز کے پر تو کو دوسرے کنارے تک پہنچادیتی ہیں اور آج کا انسان اس جتن کے اندر ہے
کہ ایسی مشین بنائے کہ انسان کا سفر اور زیادہ تیز ہوجائے، فیکس کی طرح انسان کو بھی
دوسری جگہ منتقل کیا جاسکے۔
آج
تیز سے تیز رفتار والے طیارے بنائے جارہے ہیں، آواز سے زیادہ رفتار والے طیارے بنائے
جاچکے ہیں۔یہ انسان نے بنائے ہیں جو محدود عقل رکھتا ہے اور جو انسان کا پیدا کرنے
والا، انسان کو عقل عطا کرنے والا ہے کیا وہ اپنے اشرف ترین بندے کو رات کے ایک حصے
کے اندر آسمانوں کی سیر کروانے پہ قادر نہیں کہ جس نے لفظ سبحان سے اس واقعے کو بیان کیا ہے۔
وہ
لوگ جو اس چیز کا انکار کرتے ہیں ان کو سمجھنا چاہئے۔ کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟
تیسری
بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا:
{سُبْحَانَ الَّذِیْ
أَسْرَی بِعَبْدِہِ } (بنی اسرائیل: ۱)
عبد
اس کو کہا جاتا ہے جو روح اور جسد کا مجموعی وجود رکھتا ہے، روح اور جسد کے مجموعے
کو’’ عبد‘‘ کہا جاتا ہے۔
قرآن
پاک کے اندر ہے:
{اَفَرَاَیْتَ الَّذِیْ
یَنْہٰی عَبْدًا اِذَا صَلَّی} (العلق: ۱۹)
’’تو نے اس کو دیکھا ہے جو میرے عبد کو روکتا
ہے جب وہ نماز پڑھتا ہے؟‘‘
تو
نماز ادا کرنے والے کیلئے عبد کا لفظ استعمال کیا اور یہاں کہا گیا:
{سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ
اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ}
اسی
طرح ایک اور جگہ کہا گیا [قام عبد اللہ یدعوہ] جب
اللہ کا بندہ کھڑا ہوتا ہے تو اس کی طرف ہاتھ لپکتے ہیں اور کھڑا کون ہوتا ہے، روح
کھڑی ہوتی ہے؟ نہیں جسم کھڑا ہوتا ہے۔
قیام،
رکوع، سجود یہ اعضائے جسمانی کے کام ہیں جب یہ کرتا ہے تو عبد کہلاتا ہے۔ لازماً عبد
وہ ہوتا ہے جو روح اور جسد کا مجموعہ ہے۔ اسی طرح سورہ نجم میں اسی واقعہ کو بیان کیا
گیا ہے اور کیا کہا:
{مَا زَاغَ الْبَصَرُ
وَمَا طَغٰی} (النجم)
رسول
اللہe نے اللہ کی نشانیوں کو، عجیب
عجیب اشیاء کو، آیات ربانی کو اس طورپر دیکھا کہ آنکھ تھڑکی نہیں، محویت کے ساتھ
اللہ کی قدرت کا مشاہدہ کرتی رہی، بصر کا لفظ استعمال کیا ہے۔
اب
بصر کا تعلق روح کے ساتھ نہیں، جسد کے ساتھ ہے، دیکھنا، سننا، بولنا یہ جسد کے ساتھ
تعلق رکھتا ہے، روح کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا۔
اور لفظ کیا استعمال ہوا ’’اَسْرٰی بَعَبْدِہٖ ‘‘ اسریٰ کا مطلب ہوتا ہے، رات
کو سیر کرنا۔
قرآن
پاک میں ہے، جب فرعونیوں سے بچ کر بنی اسرائیل کو ساتھ لے جانے کا حکم دیا تو سیدنا
موسیٰu کو حکم دیا گیا ’’اسر بعبادی
لیلا‘‘
اے
موسیٰ! میرے بندوں کو رات کے اندھیاروں میں لے کر نکل جائو۔ رات کو جو سیر کی جاتی
ہے اس کو ’’اسری‘‘ کہا جاتا ہے اور سیر روح نہیں کرتی، سیر انسان کے قدم کرتے ہیں،
انسان کی ٹانگیں کرتی ہیں، یہ بھی جسد کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اس لئے وہ لوگ جو یہ
کہتے ہیں کہ یہ عالم خواب کا واقعہ ہے وہ لوگ اس بات پر جھوٹ بولتے ہیں۔
معراج حالتِ بیداری میں
رسول
اللہe کی یہ معراج عالم بیداری میں
ہوئی، جسم کے ساتھ ہوئی، جسد کے ساتھ ہوئی، خواب کے عالم میں نہیںہوئی، اس پر ساری
امت کا اجماع ہے اور حضرت امام ابن کثیر ؒنے فرمایا: ’’سوائے زندیقوں کے، سوائے ملحدوں
کے، بے دینوں کے اور کسی نے بھی اللہ کے رسولe کی جسمانی معراج سے انکار نہیں
کیا‘‘۔
کہا
جاتا ہے کہ روشنی کی رفتار1 کروڑ 80
لاکھ میل فی سیکنڈ ہے اور آپ براق (بجلیوں کے مرکب) پر سوار تھے۔
ایک
چھوٹی سی بات کہ اگر رسول اللہe نے کوئی خواب بیان کیا ہوتا
تو پھر کفار کو مذاق اڑانے کی کیا ضرورت تھی؟ کفار نے تو مذاق ہی اس لئے کیا تھا کہ
ایک بشر ہوکر، ایک انسان ہوکر آسمانوں کی سیر نہیں کرسکتا۔
اللہ
رب العزت نے حسنِ بشریت کے عظیم علمبردار، ایک عظیم مقام کے حامل کہ جن جیسا کائنات
میں کوئی پیدا نہ ہوا، نہ ہوگا، ان کو آسمانوں پر پہنچا کر بشریت کو بھی فوقیت دی
ہے۔ ؎
یہ
سبق ملا ہے معراج مصطفی ؐ سے مجھے
کہ
عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
علامہ
اقبالa نے کہا تھا کہ معراج مصطفیٰe
نے بشریت کو ایک اونچا مقام عطا کردیا ہے کہ جہاں بشرجا پہنچا ہے
وہاں فرشتے بھی نہیں پہنچ سکتے، فرشتے تو سدرۃ
المنتہیٰ تک جاکر بس ہوگئے ، فرشتوں سے آگے اگر کسی کا مقام ہے تو صرف انسان
کامل کا مقام ہے، بہترین بشر کا مقام ہے اور کسی کا نہیں۔ آپe
وہ ہیں کہ جن کی پیروی سے انسان کامل اور بہترین عبد بن سکتا ہے۔
فرشتے،
نوری مخلوق، مقدس اور محترم مخلوق، فرشتوں سے سجدہ کرواکر انسان کو اشرف المخلوقات
قرار دیا اور رسول اللہe کو معراج عطا کرکے انسان کی
اشرفیت کو ایک دلیل عطا کردی۔
انسان
سب سے اعلیٰ پیدا کیا گیا ہے، سب سے اشرف، سب سے افضل پیدا کیا گیا، اگر رسول اللہe
کی ذات کوانسانوں سے نکال
دیا جائے تو ہمارے پاس کیا رہ جاتا ہے؟ بشریت کے پاس کیارہ جاتا ہے؟ ترمذی شریف میں
ہے کہ جب آپ کو بیدار کیا گیا، آپ کو براق پر سوار کیا جانے لگا تو براق ذرا ڈگمگایا،
اس نے حرکت کی تو جبرائیل نے کہا: رک جا، کس لئے حرکت کرتا ہے؟ کیا تجھ کو خبر نہیں
کہ آج تجھ پر وہ سواری کرنے لگا ہے جس سے بڑھ کر عظمت والا اللہ نے پیدا ہی نہیں کیا۔
ایسا
عظیم، ایسا مکرم، محترم… اور ہمارا نصیبہ کہ ہم امت محمدیہ کے حصے میں آئے۔
انبیاء
کی امامت کے حوالے سے ان کو عظمت ملی، آسمانوں پر ان کا استقبال کرنے کے لئے اللہ
رب العزت نے ممتاز، عظمت والے انبیاء و رسل کو کھڑا کیا، امامت کروائی، وہ کہ جن کو
وہ سیر کروائی گئی جو کسی اور کے حصے میں نہ
آئی۔ (e)
No comments:
Post a Comment